ہوم << لڑکیاں - راحیلہ بیگ چغتائی

لڑکیاں - راحیلہ بیگ چغتائی

زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی معصوم بچیوں کو سامنے بٹھا کر قبر کھودتے تھے. پھر اس بچی کے ہاتھ میں گڑیا دے کر، اسے مٹھائی کا ٹکڑا تھما کر، اسے نیلے پیلے سرخ رنگ کے کپڑے دے کر اس قبر میں بٹھا دیتے تھے۔ بچی اسے کھیل سمجھتی تھی، وہ قبر میں کپڑوں، مٹھائی کے ٹکڑوں اور گڑیاؤں کے ساتھ کھیلنے لگتی تھی پھر یہ لوگ اچانک اس کھیلتی مسکراتی اور کھلکھلاتی بچی پر ریت اور مٹی ڈالنے لگتے تھے۔
.
بچی شروع شروع میں اسے بھی کھیل ہی سمجھتی تھی۔ لیکن جب ریت اس کی گردن تک پہنچ جاتی تو وہ گھبرا کر اپنے والد اپنی ماں کو آوازیں دینے لگتی تھی۔ لیکن ظالم والد مٹی ڈالنے کی رفتار میں اضافہ کر دیتا تھا۔ یہ لوگ اس قبیح عمل کے بعد واپس جاتے تھے تو ان معصوم بچیوں کی سسکیاں گھروں کے دروازے تک ان کا پیچھا کرتی تھیں۔ لیکن ان ظالموں کے دلوں پر تالے تھے ان کے دل نرم نہیں ہوتے تھے۔
.
بعض ایسے لوگ بھی تھے جن سے اسلام قبول کرنے سے پہلے ماضی میں ایسی غلطی ہوئی تھی۔ ایک نے واقعہ سنایا۔ میں اپنی بیٹی کو قبرستان لے کے جا رہا تھا۔ بچی نے میری انگلی پکڑ رکھی تھی۔ وہ باپ کے لمس کی وجہ سے خوش تھی۔ وہ سارا رستہ اپنی توتلی زبان میں مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ وہ مجھ سے فرمائیشیں بھی کرتی رہی، اور میں سارا رستہ اسے اور اس کی فرمائشوں کو بہلاتا رہا۔ میں اسے لے کر قبرستان پہنچا۔
میں نے اس کے لیے قبر کی جگہ منتخب کی۔ میں نیچے زمین پر بیٹھا اور اپنے ہاتھوں سے ریت اٹھانے لگا۔ میری بیٹی نے مجھے کام کرتے دیکھا تو وہ بھی اپنے کام میں لگ گئی۔ وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے مٹی کھودنے لگی۔ ہم دونوں باپ بیٹی ریت کھودتے رہے۔ میں نے اس دن صاف کپڑے پہن رکھے تھے۔ ریت کھودنے کے دوران میرے کپڑوں پر مٹی لگ گئی۔ میری بیٹی نے کپڑوں پر مٹی دیکھی تو اس نے اپنے ہاتھ جھاڑے، اپنے ہاتھ اپنی قمیض کے ساتھ پونچھے اور میری قمیض سے ریت گھاڑنے لگی۔
قبر تیار ہوئی تو میں نے اسے قبر میں بٹھایا اور اس پر مٹی ڈالنا شروع کر دی۔ وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے اوپر مٹی ڈالنے لگی۔ وہ مٹی ڈالتی جاتی تھی اور قہقہہ لگاتی جاتی تھی اور مجھ سے فرمائیشیں کرتی جاتی تھی۔ لیکن میں دل ہی دل میں اپنے جھوٹے خداؤں سے دعا کر رہا تھا کہ تم میری بیٹی کی قربانی قبول کر لو اور مجھے اگلے سال بیٹا دے دو۔ میں دعا کرتا رہا اور بیٹی ریت میں دفن ہوتی رہی۔
میں نے آخر میں جب اس کے سر پر مٹی ڈالنا شروع کی تو اس نے خوفزدہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اور مجھ سے توتلے زبان میں پوچھا۔ " ابا آپ پر میری جان قربان، آپ مجھے ریت میں کیوں دفن کر رہے ہیں؟
میں نے اپنے دل کو پتھر بنا لیا اور دونوں ہاتھوں سے تیزی سے قبر پر ریت پھینکنے لگا۔ میری بیٹی روتی رہی چیختی رہی، دہائیاں دیتی رہی۔ لیکن میں نے اسے ریت میں زندہ دفن کردیا۔
.
یہ وہ نقطہ تھا جہاں رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ضبط جواب دے گیا، ہچکیاں بندھ گئیں، داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی اور آواز حلق مبارک میں گولا بن کر پھنسنے لگی۔ وہ شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہچکیاں لے رہے تھے۔
اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا۔ "کیا میرا یہ گناہ بھی معاف ہوجائے گا؟" رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے اشکوں کی نہریں بہہ رہی تھیں
ہمارے معاشرے میں آج بھی بہت سے لوگ اس نقطے پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں بیٹا ہی چاہیے..
..
حلانکہ یہ لڑکیاں ہی ہوتی ہیں جو ماں باپ کی اصل قدر کرتی ہیں.

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment