ہوم << چراغ ہدایت - حیا مریم

چراغ ہدایت - حیا مریم

بہت سی چیزیں آپ کو ودیعت کی جاتی ہیں، آپ کے ما نگے بغیر جھولی میں ڈال دی جاتی ہیں جیسے آنکھیں، کان، تمام حسیات اور بہت سی نعمتیں. لیکن ہدایت کا نور انھی کو ملا کرتا ہے جن کے من میں اس کی چاہ ہو، آپ ایک قدم اس کی طرف بڑھائیں گے وہ دس قدم آپ کی طرف آئے گا. مگر جب لپیٹ لوگی تم اپنی آنکھیں اور کان تاکہ نہ سن سکو اس کی بات تو ہدایت سے بہت دور چلی جاؤ گی. بہت دور نفسانی خواہشوں کے اندھے گڑھے میں گرادی جاؤ گی جہاں روشنی نہ ہوگی، بس اندھیرا گھپ اندھیرا، ہاں یہی انجام ہوا کر تا ہے، خواہشوں کو اپنا معبود بنا نے والوں کا. ہدایت پانے کی خواہش کا چراغ اگر ذرا سا بھی تمہارے دل میں ٹمٹما رہا ہوا تو ضرور پا لوگی سیدھا رستہ لیکن اگر نہ پانا چاہو تو جان لو کہ وہ با دشاہ تو بے نیاز ہے جس کی عبادت کو فرشتے قطار در قطار صبح شام مصروف ہیں. مسلسل آزمائش انسان کو کمزور کر دیتی ہے، نفس غالب آ جاتا ہے، ہمت ٹوٹ جاتی ہے، انسان بھٹک جاتا ہے، خدا یاد رہتا ہے نہ کوئی اور، بس غم اور دکھ کا گڑھا اور تھکے ہوئے آنسو.
ہاں نور! تم صحیح کہہ رہی ہو، بعض اوقات انسان آزمائش میں کمزور پڑ جاتا ہے. انسان کا مطلب ہی بھولنے والا ہے، اس لیے اس کو مسلسل اللّٰہ کے کلام سے جڑ ے رہنے کی ضرورت ہے، یہ بہترین مرہم ہے، بہترین رہنما ہے، اللہ کی طر ف سے شفا اور رحمت ہے اس میں مؤمنوں کے لیے. آؤ میں تم کو لے چلتی ہوں قرآن کے ابوب میں سے ایک باب ”الانبیاء“ کی طرف.
جانتی ہو انبیاء کون تھے؟ اللہ کے برگزیدہ چنے ہوئے بندے جن کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے، اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے اتارا گیا. اللہ کے ان محبوب ترین بندوں پر بہت تکلیفیں اور آزمائشیں آئیں لیکن بندگی کا حسن تو ہم عام لوگ صرف ان ہی سے سیکھ سکھتے ہیں. جب بھی میں غمگین ہوتی ہوں تو سورۃ الانبیاء پڑھتی ہوں، پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ اس سے مجھے بہت ڈھا رس ملتی ہے. اللہ کا کلام واقعی معجزہ ہے، برحق ہے، دلوں کو پلٹ کر کندن بنانے والا، پتھر دلوں کو موم کر دینے والا، ہر ہر معاملے میں روشنی بکھیر کر راہ دکھانے والا، سنو اپنے برگزیدہ پیامبر ابراہیم عہ سے ربّ العزت کیا فرما رہے ہیں.
”اور آگے دی تھی ہم نے ابرا ہیم کو اس کی نیک راہ اور ہم رکھتے ہیں اس کی خبر“ (الانبیاء:51)
کیا ڈھارس ہے ان الفاظ میں ”ہم رکھتے ہیں اس کی خبر“
وہ لمحات جن میں ہم اپنے آپ کو سب سے اکیلا محسوس کرتے ہیں، ظلم اور جبر، پریشانیوں کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں، تو یہ میٹھے الفاظ درد پر مرہم رکھ جاتے ہیں.
”ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈک ہو جا اور آرام ابراہیم پر، اور چاہنے لگے اس کا برا پھر انھی کو ڈالا نقصان میں“(الانبیاء:69-70)
دیکھو جب اللّٰہ کی بندگی کرنے والوں کو کوئی تکلیف پہنچانے لگتا ہے تو وہ کن کہتا ہے اور آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور برا چاہنے والوں کا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے. ضرورت ہے اس پر توکل کرنے کی، اس سے مانگنے کی، ہر ہر رنج میں اپنے دکھوں کی پوٹلی اس کے پاس لے جا کر کہنے کی، یامالک! یہ ناتواں انسان اس غم کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے تو ہی نکال اس تکلیف سے، پکار کر تو دیکھو، پھر دیکھنا اس کی رحمتوں کی بارش.
”اور لوط کو دیا ہم نے حکم اور سمجھ اور بچا نکالا اس کو اس بستی سے جو کر تے تھے گندے کام، وہ تھےلوگ بڑے نافر مان اور اس کو لے لیا ہم نے اپنی رحمت میں وہ ہے نیک بختو ں میں (الا نبیاء: 74-75)“
جب برائی سے نفرت رکھو گی نہ نورالہدی! تو اللہ تم کو بھی ایسے لوگوں کے شر سے بچالیں گے جو بر ے کام کر نے والے ہیں اور اپنی رحمت میں جگہ دیں گے.
”اور نو ح کو جب اس نے پکا را اس سے پہلے ,پھر قبول کر لی ہم نے اس کی دعا سو بچا دیا اس کو اور اس کے گھر والوں کو بڑی گھبر اہٹ سے اور مدد کی اسکی ان لوگوں پر جو جھٹلاتے تھے ہما ری آیتیں وہ تھے برے لوگ پھر ڈبا دیا ہم نے ان سب کو (الانبیاء:76-77)“
دیکھو میرا ربّ اس کو پکارنے والوں کی کیسے سن رہا ہے، کبھی اس کی رحمت سے مایوس مت ہونا. صبر اور دعا کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑنا. تکلیف کے بادل چھٹ جائیں گے اور نواز دی جاؤ گی.
”اور ایوب عہ کو جس وقت پکارا اس نے اپنے ربّ کو کہ مجھ پر پڑی ہے تکلیف اور تو ہے سب رحم والوں سے رحم والا.پھر ہم نے سن لی اسکی فر یا د سو دور کر دی جو اس پر تھی تکلیف اور عطا کیے اس کو اس کے گھر والے اور اتنے ہی اور ان کے ساتھ ,رحمت اپنی طرف سے اور نصیحت بندگی کر نے والوں کو(الا نبیاء:84)“
ایوب عہ اللہ کے بہت شکرگزار بندے تھے، ان کے پاس مال، اولاد، کھیت، دوست و آشنا، سب وافر تعداد میں تھے. لیکن پھر ان پر آزمائش آئی، اللہ کی طر ف سے مال، اولاد، کھیت، دوست آشنا سب چھن گئے، بیماری نے آ لیا، پورے جسم پر آبلے پڑگئے. اگر ایسی تکلیف خدانخواستہ ہم میں سے کسی پر پڑجائے تو کیا ہوگا؟ صبح ہم امید چھوڑ دیں گے شاید، اور اللّٰہ سے اچھا گمان رکھنا چھوڑ بیٹھیں گے شاید، ناامیدی اور مایوسی میں زندگی سے روٹھ جانا چاہیں گے، مگر دیکھو نور! ہمارے پیارے پیامبر کا طرز عمل. ایسی تکلیف میں اپنے پروردگار کو نہیں بھولے اور اس سے اور قریب ہوگئے، اس سے دعا کی، اللہ نے اپنی رحمت فرمائی اور ان کی تکلیف دور کر دی، اولاد بھی دگنی عطا کی اور خوشحالی پہلے سے زیادہ عطا کی، یہ واقعات ربّ العزت ہمیں سبق دینے کے لیے بیان فرماتے ہیں، ان کا طرز عمل اپنانے کا شوق دلاتے ہیں، جس میں خیر ہی خیر ہے..
”اور اسما عیل اور ادریس اور ذوالکفل کو یہ سب ہیں صبر والے ,اور لے لیا ہم نے انکو اپنی رحمت میں وہ ہیں نیک بختوں میں (الانبیاء:86)“
ان آیات میں کس خوبصورتی سے انبیاء کی مثال دے کر ہمیں سبق دیا جا رہا ہے.
”اور مچھلی والے کو جب چلا گیا غصہ ہو کر ,پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑسکیں گے اس کو,پھر پکا را ان اندھیروں میں کہ کو ئی حا کم نہیں سوائے تیر ے تو بے عیب ہے میں تھا گناہگاروں سے.پھر سن لی ہم نے اس کی فر یا د اور بچا دیا اس کو اس گھٹنے سے اور یوں ہی ہم بچا دیتے ہیں ایمان والوں کو (الانبیاء :88)“
پیغمبر معصوم ہوتے ہیں، گناہوں سے پاک لیکن حق تعالی کی عادت یہ ہے کہ وہ کاملین کی ادنیٰ ترین لغزش کو بھی بہت سخت پیرایہ میں بیان کرتے ہیں. جب حضرت یونس عہ کی قوم اپنے گناہوں سے باز نہ آئی تو ان کی معصیت سے تنگ آ کر وہ حکم تعالی کا انتظار کیے بغیر ان کو تین دن کے بعد عذاب کی خبر دے کر بستی سے نکل آئے، جس پر اللہ تعالی ناراض ہوئے اور سمندر میں مچھلی نے ان کو نگل لیا جہاں ان کو احساس ہوا کہ ان کو اپنی قوم کو چھوڑ کر نہیں آنا چا ہیے تھا اللہ کے اذن کے بغیر، فورًا انھوں نے اپنے ربّ کی طر ف رجوع کیا اور توبہ کر لی. ہم عام انسان جو عموماً جان بوجھ کر یا انجانے میں گناہ کر بیٹھتے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس ہو بیٹھتے ہیں، انسان اپنے گناہوں کی بدولت مصیبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں، اپنے گناہوں کی بدولت چاہیے کہ اللہ سے فو را رجوع کریں. وہ تو کریم ہے پکا رنے والے کی پکار سنتا ہے، اور تکلیف سے نجات دیتا ہے.
”اور ذکریا کو جب پکا را اس نے اپنے رب کو ,اے ربّ نہ چھوڑ مجھ کو اکیلا اور تو ہے سب سے بہتر وارث پھر ہم نے سن لی اسکی دعا او بخشا اسکو یحییٰ او اچھا کر دیا اسکی عورت کو وہ لوگ دوڑتے تھے بھلا ئیوں پر اور پکا رتے تھے ہم کو تو قع سے اور ڈر سے اور تھے ہما رے آگے عا جز"(الانبیاء:90-89)“
پھر دیکھو! اپنی پارسائی کی حفاظت کر نے والی حضرت مریم عہ کو اللہ ربّ العزت نے کتنے انعام سے نوازا.
”اور وہ عورت جس نے قابو میں رکھی اپنی شہوت ,پھر پھونک دی ہم نے اس عورت میں اپنی روح اور کیا اس کو اور اس کے بیٹے کو نشا نی جہان والوں کے واسطے "(الانبیاء:91)
یہ لوگ ہیں تمہا رے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہو ں ربّ تمہارا سو بندگی کرو (الانبیا ء:92)“
”اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین میں ما لک ہوں گے میرے نیک بندے اس میں مطلب کو پہنچتے ہیں لوگ بندگی والے .(الانبیاء :105-106)“