Tag: گجرات

  • برفی کی برسات -عبیداللہ کیہر

    برفی کی برسات -عبیداللہ کیہر

    میں ایک ایسا سیاح ہوں جو ریل گاڑی، بس، کار اور ہوائی جہاز کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل پر بھی سیاحت کرتا ہوں۔ 2021ء میں مَیں ہفتے بھر کے بائک ٹور پر اسلام آباد سے جہلم، گجرات اور گوجرانوالہ ہوتا ہوا لاہور تک گیا۔ جرنیلی سڑک پر اس سفر میں مَیں کئی مقامات پر گیا، دوستوں سے ملا، مہمان نوازیوں کے مزے لئے، شہر شہر کے کھانے کھائے اور وہ ہفتے بھر کا دورہ کر کے سال بھر کیلئے تازہ دم ہوگیا۔

    میں اسلام آ باد سے صبح کو نکلا اور روات، مندرہ، گوجر خان، سوہاوہ، دینہ ، جہلم اور سرائے عالمگیر سے ہوتا ہوا شام تک کھاریاں پہنچ گیا۔ کھاریاں کے قصبے مَنڈیر میں اوورسیز اسکول کے سربراہ چوہدری عبدالمجید صاحب میرے میزبان تھے، رات انہی کے ہاں قیام کیا ۔ اگلی صبح بھرپور ناشتہ کر کے نکلا تو دس بج چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ ناشتہ ہی اتنا مرغن ہو گیا، اب دوپہر کا کھانا نہیں کھاؤں گا۔ اس دوران اگر کچھ بھوک لگی بھی تو کوئی ہلکی پھلکی چیز کھا لوں گا۔

    میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ میں مٹھائی کا بڑا شوقین ہوں۔ اسلام آباد میں تو کوئی خاص مٹھائی نہیں ملتی، البتہ پنجاب کے اکثر شہروں میں بہت اعلیٰ مٹھائی ملتی ہے۔ میں چونکہ اس وقت پنجاب میں ہی گھوم رہا تھا اور اچھی مٹھائیوں کے علاقے میں داخل ہو چکا تھا۔ یہاں ہر مٹھائی، خصوصاً برفی بہت اچھی ملتی ہے۔ اس لئے سوچا کہ اب دوپہر میں کھانا کھانے کی بجائے کسی شہر سے اچھی سی برفی لے کر رکھ لوں گا اور جہاں بھوک لگی وہاں کھا لوں گا۔

    بس یہ ایک خیال ہی تھا جو میرے دل میں آیا اور کچھ ہی دیر میں بھول بھی گیا۔ جب میں کھاریاں سے لالہ موسیٰ پہنچا تو میرے دوست عرفان صفی میرے استقبال کیلئے جی ٹی روڈ پر کھڑے تھے۔ قریب ہی ان کا اسکول ہے۔ وہ مجھے اپنے اسکول لے گئے۔ کچھ دیر وہاں گپ شپ ہوئی اور چائے پی۔ جب میں آگے جانے کیلئے اٹھا تو انہوں نے مجھے کتاب کا تحفہ پیش کیا۔ کتاب کے ساتھ پھولدار گفٹ پیپر میں لپٹا ہوا ایک بھاری سا ڈبہ بھی تھا۔میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو بولے :
    ”یہ ہمارے لالہ موسیٰ کی مشہور “نونا حلوائی” کی برفی ہے اور آپ کیلئے تحفہ ہے“

    میں تو یہ سن کر حیران ہی رہ گیا۔ مجھے یاد آیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے کھاریاں سے نکلتے ہوئے میں یہی تو سوچ رہا تھا کہ اب کھانا نہیں کھاؤں گا، برفی کھاؤں گا۔ لیکن حیرت یہ تھی کہ میری اس خواہش کا صفی صاحب کو کیسے پتہ چلا؟ … یعنی دل کو دل سے راہ والا معاملہ ہو گیا۔ میں نے بڑا شکر ادا کیا کہ میری ایک معصوم سی خواہش کے بدلے میں اللہ نے برفی کی اتنی بڑی مقدار فراہم کروا دی کہ جو میں پوری کھاہی نہیں سکتا تھا۔ میں نے صفی صاحب سے کہا کہ یہ تو بہت زیادہ ہے۔ اول تو میں اتنی برفی کھا ہی نہیں سکوں گا، دوم یہ کہ میرا رخ بھی اپنے گھر کی طرف نہیں کہ یہ ساتھ گھر لے جاؤں۔
    ”کوئی بات نہیں“ صفی صاحب نے قہقہہ لگایا۔ ”دورانِ سفر دوستوں کو کھلاتے چلے جائیں“

    خیر میں نے وہ برفی کا ڈبہ بھی بائک پر سامان کے ساتھ باند ھ لیا اور لالہ موسیٰ کے دیگر دوستوں سے مل کر آگے روانہ ہوا۔ میں اپنے اس سفر کے حوالے سے وقتاً فوقتاً فیس بک پر تصاویر اور اسٹیٹس بھی شیئر کرتا جا رہا تھا۔ میرے اکثر دوست میری پوسٹوں کو فالو کر رہے تھے اور میرے سفر سے باخبر تھے۔

    اب اگلا شہر گجرات تھا۔ کنجاہ ضلع گجرات کا بڑا معروف قصبہ ہے۔ کنجاہ ایک مردم خیز شہر ہے۔ یہاں کے ادیبوں اور شعراء کی ملک بھر میں دھوم ہے۔ یہ میجر شبیر شریف شہید، شریف کنجاہی، روحی کنجاہی اور جنرل راحیل شریف کا شہر بھی ہے۔ کنجاہ میں ہمارے دوست عبدالرحمٰن ساہی بھی رہتے ہیں۔ میں لالہ موسیٰ سے نکلنے لگا تو اسی وقت عبدالرحمٰن ساہی کا فون آ گیا۔
    ”کیہر بھائی ہم آپ کا کنجاہ میں انتظار کر رہے ہیں، آپ ہم سے ملے بغیر آگے نہیں جا سکتے، ہماری شدید خواہش ہے کہ آپ کنجاہ آئیں اور ہم سے مل کر جائیں“
    ”عبدالرحمٰن بھائی مجھے آج لاہور پہنچنا ہے“میں بولا۔ ”وقت کم ہے اور سفر زیادہ“
    ”آپ فکر نہ کریں ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لیں گے، بس ہماری چائے پیتے ہوئے جائیں“ساہی نے اصرار کیا۔
    میں سوچنے لگا کہ میں تو گھر سے نکلا ہی اس لئے ہوں کہ احباب سے ملتا ملاتا جاؤں، تو چلے جاتے ہیں کنجاہ بھی۔
    ”اچھا ٹھیک ہے جناب، آتا ہوں کچھ دیر کیلئے آپ لوگوں کے پاس بھی“
    میں نے بائک اسٹارٹ کی اور جی ٹی روڈ پر رواں دواں ہو گیا۔

    گجرات لالہ موسیٰ سے کچھ ہی دور ہے۔ گجرات شہر کے بائی پاس پر شاہین چوک والے پل کے نیچے سے ایک سڑک دائیں طرف کو جاتی ہے ۔ یہ سرگودھا روڈ ہے۔ اس روڈ پر یہاں سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پہ کنجاہ کا چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ میں لالہ موسیٰ سے گھنٹے بھر میں کنجاہ پہنچ گیا۔ یہاں ساہی صاحب کے ساتھ دیگر کئی دوست بھی میرے منتظر تھے۔ زیادہ تر شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے علم دوست حضرات تھے ۔ یہاں آ کر مجھے پتہ چلا کہ آج یہاں کے ادیب، شعراء اور صحافبوں نے میرے ساتھ شام منانے کا اہتمام کیا ہے اور اس شام کو ظاہر ہے کہ رات گئے تک جاری رہنا تھا۔ چنانچہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ آج کی رات یہیں کنجاہ میں ہی گزرجائے گی۔

    ”آپ آج رات یہاں رک جائیں۔ رات کو یہاں پر مشاعرہ ہوگا۔ صبح ناشتہ کر کے آرام سے لاہور چلے جائیے گا۔“ ساہی صاحب نے بھی اپنا پلان واضح کیا اور ہم بھی پسر گئے۔ ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ابھی یہی باتیں کر رہے تھے کہ ایک دوست بشیر بٹ صاحب چائے کے آنے سے پہلے اٹھ کر اچانک کہیں چلے گئے۔ کچھ ہی دیر میں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈبہ تھا۔ بٹ صاحب نے وہ ڈبہ لا کر سیدھا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
    ”کیہر صاحب یہ آپ کیلئے ہے“
    ” یہ کیا ہے؟…“میں بولا۔
    ”یہ یہاں کنجاہ کے “کاکا حلوائی” کی مشہور برفی ہے، یہ میری طرف سے آپ کیلئے تحفہ ہے۔” وہ بولے۔
    میں تو اچھل ہی پڑا۔
    ”لیکن میرے پاس تو پہلے ہی نونا حلوائی کی بہت ساری برفی موجود ہے“
    ”کوئی بات نہیں، ہماری برفی بھی اس میں شامل کر لیں اور مزے کریں“
    بٹ صاحب نے قہقہہ لگایا اور میں ہکا بکا برفی کے اس تقریباً دو کلو کے ڈبے کو دیکھتا رہا۔

    ”برفی مجھے واقعی بہت پسند ہے“ میں بولا۔ ”اور اتفاق سے آج صبح کھاریاں سے نکلتے وقت میں نے سوچا بھی یہی تھا کہ آج تو برفی کھاؤں گا … تو دیکھیں کہ برفی کس طرح چھپر پھاڑکے آگئی ہے۔“
    سب ہنسنے لگے۔
    ”بس آپ یہ اپنے ساتھ رکھیں، جتنی خود کھا سکتے ہیں کھائیں، بقیہ دوستوں کو کھلائیں اور وہاں سے جو دوسری چیز ملے وہ واپسی میں گھر لے جائیں۔ یہ برفی آپ کا زادِ راہ ہے۔“ عبدالرحمٰن ساہی نے ہنستے ہوئے کہا۔

    تو جناب ہم جو نکلے کھاریاں سے یہ خواہش کرتے ہوئے کہ اب کھانا نہیں کھائیں گے برفی کھائیں گے، تو برفی کا ڈھیر لگ گیا۔ پہلے نونا حلوائی کی برفی ، اب کاکا حلوائی کی برفی۔ یہ برفیاں میرے ساتھ لاہور تک گئیں۔ راستے میں جو جو دوست احباب ملے ان کو یہ برفی کھلاتا گیا مگر ختم نہ ہوئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری ایک ننھی سی خواہش تھی برفی کھانے کی، اللہ نے برفی کی برسات کر دی۔

  • اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    izhar
    یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔
    وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔
    یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ”گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ”مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
    مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال کر دی۔ انہوں نے بہت سے مردار سرکاری دفتروں کے آگے ڈال دیے اور کہا کہ گائے تمہاری ماں ہے‘ خود سنبھالو۔ سینکڑوں ہزاروں مردہ جانور پڑے پڑے گلنے سڑنے لگے۔ پھر حکومتی کارندوں نے چمار خاندانوں کی منتیں کیں۔ مگر شیوسینا کے مار دھاڑ کرنے والے جتھوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ یہ سب مودی کے چہیتے ہیں۔
    اُتر کھنڈ بھارتی پنجاب کے مشرق میں واقع ہے۔ چند دن پہلے وہاں گندم پیسنے کی چکی میں ایک اچھوت سوہن رام کی گندم پیسی جا رہی تھی۔ اوپر سے ماسٹر للت آ گیا۔ وہ اونچی ذات کا تھا۔ اس نے سوہن رام کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ چکّی کو پلید کر دیا۔ سوہن رام نے احتجاج کیا۔ ماسٹر للت کے ہاتھ میں تیز دھار درانتی تھی۔ اس نے سوہن رام کی گردن پر زور سے چلا دی۔ سوہن رام وہیں مر گیا۔
    یہ صرف دو واقعات ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اچھوتوں کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہے یعنی تقریباً سترہ کروڑ! مگر قیاس یہ ہے کہ حکومتی مشینری یہ تعداد کم سے کم بتاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اچھوت بائیس اور پچیس کروڑ کے درمیان ضرور ہوں گے یعنی بیس فیصد۔ ان کے حقوق کوئی نہیں۔ صرف فرائض ہیں۔ بھارت میں آبادی کی اکثریت کے گھروں میں بیت الخلا کا رواج نہیں۔ بستیوں کے اردگرد جب غلاظت کے انبار آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو اچھوت انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ گلیاں صاب کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی انتڑیاں سنبھالتے ہیں۔ کھالیں اتارتے ہیں۔ ہر گندا اور گھٹیا کام کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد سے زیادہ اچھوت مکمل ان پڑھ ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں کہ اچھوت کون کون سے کام کریں گے اور کون کون سے نہیں کریں گے۔ کہاں رہیں گے‘ کس کس کو پانی پکڑا سکتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں‘ شادیاں کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔
    بھارت ذات پات کے مکروہ نظام میں سر سے پائوں تک جکڑا ہوتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دیوتائوں کے مُونہہ سے برہمن نکلے۔ بازوئوں سے لشکری اور بادشاہ برآمد ہوئے۔ رانوں سے تاجر اور کسان نکلے۔ رہے شودر تو انہوں نے پائوں سے جنم لیا۔ منوں کی تعلیمات آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں سنسکرت کی ڈگری کورس کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق اچھوت‘ سابق زندگی کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پڑھنا لکھنا بھی جرائم میں شامل ہے۔ اونچی ذات کے کسی ہندو کی توہین کی سزا درد ناک اور اذیت ناک موت ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جو چاہیں اچھوتوں کے ساتھ کریں‘ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔
    مودی کا گجرات صوبہ‘ جسے مثالی صوبہ کہا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ پورے بھارت میں اگر کہیں خوفناک ترین سلوک اچھوتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے تو وہ گجرات ہے۔
    جس ملک کی بیس فیصد آبادی اچھوتوں پر مشتمل ہو اور وہ ترقی کے دائرے سے ہر امکانی حد تک باہر ہوں‘ وہ ملک حقیقت میں کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چالاک بھارت نے اپنے چہرے کا یہ ڈرائونا حصّہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔ سکارف باندھنے والی عورتوں کے غم میں دُبلے ہونے والے مغربی ملکوں کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بھارت میں بیس کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی اکثریت انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کر رہی ہے۔
    کیا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ نہیں! پاکستان پر لازم ہے کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے آدم کے ان بیٹوں کی دستگیری کرے اور دنیا کو آگاہ کرے کہ آئی ٹی میں ترقی کے دعوے کرنے والی دنیا کی یہ سب سے بڑی ”جمہوریت‘‘ اپنے بیس بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کس طرح ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق سے وہ محروم ہیں۔ سکول اور ہسپتال کے الفاظ ان کی ڈکشنریوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ مردہ جانوروں کی کھالیں اتارنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور پھر کھالیں اتارنے کی سزا دی جاتی ہے۔ وہ گندم جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ جب اچھوت کے گھر میں پہنچتی ہے تو پلید ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس چکی میں پیسی تک نہیں جا سکتی جس میں اونچی ذات کے ہندوئوں کی گندم کا آٹا بنتا ہے!
    حیرت ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے مودی کو‘ پاکستانی حکومت کا کوئی وزیر‘ وزیر اعظم‘ ڈپلومیٹ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی آبادی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ پہلے ان کے حقوق کی بات کرو!
    پاکستان کے دفتر خارجہ پر لازم ہے کہ ایک مستقل شعبہ اپنے ہاں‘ بھارت کے اچھوتوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم کرے۔ پھر اسے ہر لحاظ سے مستحکم کرے۔ پاکستان کا ہر سفارت خانہ‘ لازماً‘ بھارت کے اچھوتوں کا احوال دنیا کو بتائے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
    پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہا۔ کیا ہمارے اینکر پرسنوں کو‘ ان کے پروڈیوسروں کو اور مالکان کو سرحد پار دہکا ہوا یہ جہنم نظر نہیں آتا؟ اس پر خصوصی پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن میں اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے دنیا بھر کے ناظرین کو بھارت کا اصل روپ دکھایا جائے۔ دلت لیڈروں اور ترجمانوں کو ٹیلی فون لائن پر لے کر ان کا موقف دنیا تک پہنچایا جائے۔
    پاکستان کی فلاحی تنظیمیں اگر چاہیں بھی تو بھارتی حکومت انہیں اچھوت آبادی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے ذریعے اچھوتوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حیرت ہے کہ انجلینا جولی اور بل گیٹس جیسی مشہور شخصیات نے‘ جو فلاحی کاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ بھارت کے بیس کروڑ اچھوتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا انہیں معلوم کہ اچھوت حاملہ عورتیں مر جاتی ہیں لیکن بچوں کو جنم دیتے وقت ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔ سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں کوئی اچھوت پانی کا گھونٹ پینے کے لیے نلکے کو ہاتھ لگا دے تو وہیں مار دیا جاتا ہے!
    بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں میں مخیّر عربوں کی کثرت ہے۔ وہ ہر سال کروڑوں ریال خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں کو بھارت کے اچھوتوں کے حالِ زار سے آگاہ کرے تاکہ وہ ان کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔

  • ’’وہ ہاتھ۔۔۔‘‘ – احسان کوہاٹی

    ’’وہ ہاتھ۔۔۔‘‘ – احسان کوہاٹی

    وہ خون آلود ہاتھ احمد آبا دکے چار سالہ شہباز کا ہوگا، احمد آبا د کے’’شمشان گھاٹ‘‘ سے ساٹھ کلومیٹر دور مدرسہ بزم صداقت میں بنائے گئے مہاجر کیمپ میں چار سالہ شہباز سے اس فوٹو گرافر کی اس حال میں ملاقات ہوئی تھی کہ اس نے صرف ایک جینز پہن رکھی تھی اور وہ دیوار سے ٹیک لگائے گہری سوچ میں گم تھا، اس کے چہرے پر خوف جم کر رہ گیا تھا بالکل اسی طرح جیسے گال پر چٹاخ کی آواز سے کوئی زوردار تھپڑ مارے تو ہاتھ کا نقشہ گال پر نقش ہو کر رہ جائے۔ میرا خیال ہے کہ لہو میں لتھڑے ہوئے تھپڑ کا نقش احمد آباد کے شہباز کا ہی ہوگا جو احمد آباد کے شمشمان گھاٹ میں زندہ جلنے سے بچ گیا تھا۔
    اس سے پہلے کے سیلانی بات آگے بڑھائے، آپ کو احمد آباد کے شمشمان گھاٹ کی کہانی بھی سناڈالے لیکن ایک منٹ، ایک منٹ، بس ایک منٹ! شمشمان گھاٹ میں تو مردے جلائے جا تے ہیں، زندوں کو کب جلایا جاتا ہے؟۔ مجھے ذرا لغت دیکھنے دیں، کسی صاحب علم سے بھی بات کر لینے دیں کہ جہاں زندہ جلائے جائیں اسے کیا کہا جائے گا؟
    بڑی معذرت! آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑا، کم از کم اردو لغت اس معاملے میں چپ ہے، اس کے حافظے میں ایسی کسی جگہ کا نام نہیں جہاں زندہ انسانوں کو جلایا جاتا ہو، سیلانی بھی ایسی کسی جگہ کا نام پتہ ڈھونڈ کر نہیں لا سکا کہ یہ سب انسانیت سے بعید ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسا انسانوں نے ہی کیا؟ ڈرے سہمے کمزوروں کو گھروں کے کھڑکیاں دروازے بند کر کے پٹرول اور آگ بھڑکانے والا کیمیکل چھڑک کر آگ لگائی گئی اور باہرانسانیت کی چھاتیوں پر ننگے پیروں سے کھڑے ہو کر برچھیاں، ترشول، بندوقیں، خنجر اور تلواریں لے کر پہرہ دیا گیا کہ اگر کوئی آگ کی لپیٹوں سے نکل بھی آئے تو یہیں اس سالے مسلے کو کاٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے اور یقین کیجیے ایسا ہی کیا گیا، حاملہ عورتوں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گھروں سے باہر لایا گیا اور ان کا پیٹ چاک کر کے دہکتے الاؤ میں بچے اچھال اچھال کر ’’جے ماتا‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ آپ کو یقین نہیں تونیٹ پر http://muslimmirror.com/eng/can-we-forget-these-images-of-muslims-genocide-of-gujarat-2002/ پر جائیے اور 2002ء میں احمد آباد کے ’’مسلوں‘‘پر کیا بیتی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجیے، ان ہی تصاویر میں آپ کو شہباز بھی دکھائی دے گا، وہی شہباز جس کے خون میں لتھڑے ہوئے ہاتھ کے تھپڑ کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ شائد یہ وہی ہاتھ ہو۔
    بھارتی گجرات کے شہر احمد آباد میں 2002ء ہندو بلوائی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے، بستیوں کی بستیاں جلا ڈالی تھیں، ہندو انتہا پسند ترشول اور تلواریں لے کر مسلمانوں کے علاقوں میں گھس گئے اور اس وقت تک باہر نہیں نکلے جب تک ان کے ترشولوں کی نوکوں اور تلواروں کی دھاروں سے مسلمانوں کا خون نہیں ٹپکنے لگا۔ یہ سب بھارتی پولیس کی نگرانی میں ہوا، کہتے ہیں کہ ان فسادات میں 2 ہزار مسلمانوں کا قتال ہوا، ان فسادات میں کانگریس کے رکن اسمبلی احسان جعفری بھی زندہ جلا دیے گئے، 28 فروری 2002ء کو چمن پورہ میں ہندو بلوائیوں نے پورے علاقے کا گھیراؤ کیا اور ایک ایک کرکے سب گھروں کو آگ لگاتے گئے، کانگریسی رہنما احسان جعفری کا گھر بھی نہ چھوڑا گیا، ان کا مسلمان ہونا کانگریسی ہونے سے بڑا جرم تھا سو کیسے بخشا جاتا؟ انہیں بھی ان پناہ گزینوں کے ساتھ جلا دیا گیا جو ان کے گھرمیں پناہ لیے ہوئے تھے، بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے، ان فسادات کے بعد ہی انہیں گجرات کے قصاب کا لقب دیا گیا تھا۔
    اس خون آلود تھپڑ والے ہاتھ کی تلاش سیلانی کو مقبوضہ کشمیر لےگئی جہاں زندگی کا بوجھ اتارنے کے لیے بھارتی سورما بلاجھجھک بندوقوں کے ٹرائیگر دبا دیتے ہیں، جولائی میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے ہنگاموں میں اب تک سو سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں، ایک بار ٹرائیگر دبانے سے 600 چھروں کی بوچھاڑ کرنے والی انتہائی خطرناک پیلٹ گن کے سینکڑوں ز خمی اسپتالوں میں اس حال میں لائے جاتے ہیں کہ یہ چھرے ان کے جسم میں اندر تک گھس چکے ہوتے ہیں، 700 کشمیری ان پیلٹ گنوں کے چھروں سے بینائی گنوا چکے ہیں، ان میں بارہ سالہ عبدالسلام بھی ہے، بارہ مولہ کا عبدالسلام اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور پانچ بہنوں کا لاڈلا بھائی ہے لیکن اس لاڈلے کا لاڈ کشمیر کی آزادی ہے، ہر کشمیری کی طرح اس کا خواب بھی پاکستان ہے، اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے بادامی آنکھوں والا عبدالسلام جدوجہد آزادی کا حصہ ہے، سرخ و سپید عبدالسلام کو جہادی نعرے ازبر ہیں، علاقے کا کوئی جلوس عبدالسلام کے بغیر سجتا تھا نہ نکلتا تھا، حریت پسند نوجوان جلوس نکالنے سے پہلے ہی اسے لینے کے لیے آجاتے یا پیغام بھجوادیتے، یہ کم عمر حریت پسند کشمیری مرغی کے دڑبے میں چھپایا ہوا سبز ہلالی پرچم نکال کر جلوس میں پہنچ جاتا، جہاں اسے کاندھوں پر بٹھا لیا جاتا اور عبدالسلام انگشت شہادت بلند کر کے تکبیر سے جو نعروں کا سلسلہ شروع کرتا تو کشمیریوں کا خون پارہ بن کر دوڑنے لگتا اور خاص کر جب عبدالسلام ماتھے پر سبز رومال باندھ کر ’’پاکستان سے رشتہ کیا۔۔۔‘‘کا نعرہ لگاتا تو دل سینوں سے نکلنے کو آجاتے، 18جولائی کو اس کم عمر حریت پسند کو بھارتی سورماؤں نے پیلٹ گن سے نشانہ بنا کر اس کی دونوں آنکھیں ویران کر دیں ،گن کے چھروں نے وہ بادامی آنکھیں پھوڑ دیں جو پاکستان کے خواب دیکھتی تھیں لیکن عبدالسلام کہتا ہے بھارتیوں فوجیوں نے دیر کردی، خواب میں دیکھ چکا ہوں، میرے خواب مجھ سے یہ کیا مودی کا باپ بھی نہیں چھین سکتا۔ میرا خیال ہے کہ وہ خون آلود تھپڑ اسی بہادر کشمیری بچے کا ہوگا۔
    لیکن نہیں! یہ تھپڑ ان بھارتی ناریوں میں سے کسی کا ہوگا جو مودی کے راج میں اپنی عصمت گنوا چکی ہیں، جنہیں شراب کے نشے میں دھت غنڈے اسکول کالج دفتر سے آتے جاتے ہوئے اغواء کر کے لے جاتے ہیں اور وہ چیختی چلاتی رہ جاتی ہیں، ان کے سامنے ہاتھ جوڑتی پاؤں پڑتی رہ جاتی ہیں لیکن کسی کو ترس نہیں آتا، ان کی عصمتیں تار تار ہو جاتی ہیں، اس ظلم کے بعد کتنی ہی لڑکیاں گھر نہیں پہنچتیں، کوئی ریل کے سامنے آکر سینکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور کوئی دریا میں کود کر زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے، جو جھکے ہوئے سر اور پھٹے ہوئے کپڑوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوتی ہیں وہ ساری زندگی کسی کے سامنے نظر اٹھا کر بات نہیں کر سکتیں۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015ء میں چونتیس ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ بھارتی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق اوسطا روزآنہ 93 خواتین بھارت کے عیاش فطرت اوباشوں کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنواتی ہیں۔ دہلی کا یہ حال ہے کہ اسے اب rape city کہا جانے لگا ہے، خون آلود تھپڑ پرنٹ کرنے والا انڈیا ٹوڈے کہتا ہے کہ دہلی میں کوئی دن نہیں جاتا جب چار خواتین اپنی عزتوں سے نہ جاتی ہوں۔ سیلانی کا خیال ہے کہ خون آلود تھپڑ کا وہ نقش دہلی کی سمیتا راج کا ہوگا، ائیر ہوسٹس بن کر دیس دیس گھومنے کے خواب دیکھنے والی سمیتا کی عزت آبرو کی رکھشا ریاست کی ذمہ داری تھی، وہ ایک معروف اور مصروف ڈاکٹر کی بیٹی تھی، اس کے پتا کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ وہ جہاں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہے، ان کے بیمار کمزور و جسموں سے چن چن کر بیماریاں نکال رہاہے، وہیں اس کی بیٹی کی روح گھائل کر دیا جائے گی، اسکول سے آتے ہوئے اس کی عزت لوٹ لی جائے گی اور یہ کام کوئی اور نہیں نشے میں دھت پولیس اہلکار کریں گے، سیلانی کا خیال ہے کہ وہ تھپڑ قانون کے محافظوں سے عزت گنوانے والی سمیتا راج کا ہی ہونا چاہئے۔
    14117949_955214887934212_5569700886362964117_n لیکن ’’انڈیا ٹوڈے‘‘سے غلطی ہوگئی، بھئی غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، مان لیا کہ بھارت کا بڑا میگزین ہے، 1975ء سے نکل رہا ہے، اچھا خاصا دھندا کر رہا ہے، اب اس کے مالک نیوز چینل کے سیٹھ بھی ہوچکے ہیں لیکن ان سب باتوں سے غلطی کا امکان تو ختم نہیں ہوسکتا ناں. اس میگزین نے ستمبر 2016ء کی اشاعت میں پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی پورے صفحے کی تصویر شائع کی ہے، سرورق کی تصویر میں راحیل شریف کے گال پر ہتھیلی کا سرخ نشان دکھایا گیا ہے، کہنے والے اسے ہندو بنیے کی پاک فوج سے ازلی نفرت کا اظہار کہہ رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو تڑی لگا دی ہے، کسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر معنی خیز ٹائٹل اسٹوری ہے، بھارت نواز بدبدبا رہے ہیں کہ 15 اگست کو بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے اپنی تقریر میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرکے پاک آرمی کو تھپڑ مارا ہے۔ لیکن سیلانی کا خیال ہے کہ انڈیا ٹوڈے والوں سے غلطی ہوئی ہے، میگزین والے اپنے گجراتی قصاب کی تصویر لگانا چاہتے ہوں گے جس نے اپنی وزارت اعلی کے دور میں 2 ہزار مسلمان قتل کروائے۔ جو کشمیر ی بچوں بچیوں کی آنکھیں پھوڑ رہا ہے لیکن کشمیریوں کا پاکستان سے رشتہ نہیں توڑ پا رہا، جو سکھوں کی خالصہ تحریک سے پریشان ہے، جو آسام، جھاڑ کھنڈ، منی پور میں آزادی کی تحریکوں کو کچل رہا ہے، جس نے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، جو ایمنسٹی انٹرنیشنل کے آئینہ دکھانے پر اس پر پابندی لگاچکا ہے، جو دلتوں، شودروں، اچھوتوں کے برابری کے حقوق کی مانگ سے ذات پات میں بٹے ہندو معاشرے کے بکھرنے سے خوفزدہ ہے، جس کے لیے بھوکا ننگا بھارت ایک چیلنج ہے، جس کے لیے ریل کی پٹریوں پر صبح سویرے لوٹے لے کر اکڑوں بیٹھنے والے بھارتیوں کے لیے بیت الخلا بنانا خواب ہے۔ یقینی طور پریہ تھپڑ احمدآباد کے شہباز، کشمیر کے عبدالسلام خالصہ تحریک میں مارے جانے والے کسی حریت پسند سردار کی بیٹی، دہلی کی سمیتا راج، ایمنسٹی انٹرنیشنل، لاتعلقی کے اظہار کے بعد کلبھوشن یادیو کی اہلیہ کاہوگا، ویسے یہ تھپڑ نریندر مودی کی اہلیہ کا بھی ہو سکتا ہے جسے دھتکار کر اس کا جیون مودی نے نرکھ بنا ڈالا۔ اس تھپڑ کا مستحق نریندر مودی سے زیادہ کون ہوسکتا ہے؟ یقینی طور پر انڈیا ٹوڈے والوں سے’’غلطی‘‘ ہوئی ہو گی، انڈیا ٹوڈے گجرات کے قصاب کو ٹائٹل پر لانا چاہتا ہوگا. سیلانی یہ سوچتا ہوا چشم تصور میں کشمیری عبدالسلام، احمد آباد کے شہباز اور دہلی کی سمیتا راج سے کرارا تھپڑ کھانے کے بعد گجرات کے قصاب کو اپنا سیاہ گال سہلاتا دیکھنے لگا اور کھی کھی کرتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ایشیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ’’گھیٹو‘‘-اوریا مقبول جان

    ایشیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ’’گھیٹو‘‘-اوریا مقبول جان

    orya
    گھیٹو (GHETTO)، پوری دنیا میں کسی شہر کے ایسے حصے کو کہتے ہیں، جہاں کوئی خاص اقلیتی گروہ اکثریتی آبادی کی نفرت، رویے اور ظلم و تشدد سے تنگ آ کر آباد ہو جائے یا اسے بزور طاقت اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں آباد ہونے کے لیے مجبورکیا جائے۔ سب سے پہلے یہ لفظ اٹلی کے خوبصورت شہر وینس میں ایک ایسے علاقے کے لیے بولا گیا جہاں یہودیوں کو زبردستی دھکیلا گیا تھا۔
    یہودی وہاں مدتوں سے آباد تھے کیونکہ وینس ایک بندرگاہ ہونے کی وجہ سے معاشی مرکز کہلاتا تھا۔ وینس دراصل ایک سو سترہ (117) جزیروں پر مشتمل ایک شہر ہے جس کے بیچ نہریں گزرتی ہیں جو سمندر میں جا ملتی ہیں۔ نہروں پر پل بنے ہوئے ہیں جو جزیروں کو آپس میں ملاتے ہیں۔ نویں صدی عیسوی سے یہ شہر ایک نیم خودمختار شہری ریاست کے طور پر قائم تھا۔ یہاں کے بحری قزاق بھی بہت مشہور تھے اور یہودی بھی، شیکسپیئر کا مشہور کردار شائلی لاک اسی شہر سے تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران اس شہر نے مسلمانوں پر حملوں کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ 29 مارچ 1516ء میں وینس کی حکومت نے یہودیوں کے خلاف چند قوانین منظور کیے۔
    ان میں سے پہلا قانون یہ تھا کہ وہ ایک ایسے علاقے میں جا کر آباد ہو جائیں جہاں پہلے کبھی لوہے کی بھٹیاں تھیں اور اب یہ علاقہ   بے آباد تھا۔ انھیں اپنے گلے میں مخصوص نشان لٹکانے کو کہا گیا۔ وینس کی زبان میں لوہے کی بھٹی کو گیٹی ’’GETTI‘‘ کہا جاتا ہے اس لیے اس کا نام گھیٹو پڑ گیا۔ یہ علاقہ شہری سہولیات سے خالی تھا۔ رات کو اسے بند کر دیا جاتا۔ یہودی اس لفظ کو اس لیے اپنانے لگے کیونکہ عبرانی زبان میں اس کا مطلب ’’ایک جگہ جہاں میاں بیوی میں زبردستی جدائی کرائی جائے‘‘ تھا۔ 1797ء میں جب فرانس کے نپولین بوناپارٹ نے وینس فتح کیا تو یہودیوں کو وہاں سے نکال کر پورے شہر میں آباد کیا۔ اس وقت سے آج تک جہاں کہیں کسی شہر میں کوئی اقلیتی آبادی اکثریت کے ظلم و تشدد اور نفرت سے تنگ آ کر کسی مخصوص جگہ آباد ہو جائے یا اسے زبردستی آباد کر دیا جائے، اسے عرف عام میں گھیٹو کہا جاتا ہے۔ امریکا جیسے مہذب ملک میں آج بھی سیاہ فام لوگوں کے گھیٹو موجود ہیں۔
    پوری دنیا میں اس وقت مسلمانوں کا بھی ایک بہت بڑا گھیٹو ہے جس کی آبادی تقریباً 7 لاکھ ہے۔ اس کا نام ’’جوہا پورہ‘‘ ہے۔ یہ بھارت کے شہر احمد آباد سے مغرب کی جانب چند کلو میٹر پر واقع ہے۔ 1973ء میں اندرا گاندھی نے یہاں سیلاب زدگان کوآباد کرنے کے لیے چند مکانات تعمیر کیے تھے۔ نریندر مودی کے شہر احمد آباد میں 1985ء میں پہلا مسلم کش فساد ہوا تو کچھ مسلمان خوف کے مارے یہاں آ کر آباد ہو گئے۔ اس کے بعد جب بھی کبھی فساد پھوٹتے کچھ اور مسلمان گھرانے اپنے آبائی گھر چھوڑ کے اس ویرانے میں آ کر آباد ہو جاتے۔
    2002ء تک یہاں پچاس ہزار مسلمان آباد ہو چکے تھے لیکن جیسے ہی گودھرا میں ٹرین کی آتشزدگی کے بعد مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا، سرعام عورتوں سے زیادتی اور گھروں میں زندہ جلانے سے لے کر شدید تشدد سے مسلمان خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگے تو وہ سیدھا جوہا پورہ پہنچے جہاں 2004ء تک ان کی تعداد چار لاکھ ہو گئی۔ اب اردگرد سے جو کوئی ہندوؤں کے خوف سے بھاگتا ہے تو جوہا پورہ میں آ کر آباد ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں گھیٹو کی پہچان یہ ہے کہ تمام تر سہولیات اور ترقی اس کے دروازوں تک آ کر ختم ہو جاتی ہے۔
    یہی حال جوہا پورہ کا ہے۔ پکی سڑکیں، اسٹریٹ لائٹ، پانی کے پائپ، سیوریج سسٹم، اسپتال، اسکول، سب کے سب جوہا پورہ کے آس پاس تو ہیں لیکن وہاں کے لوگ اس سے محروم ہیں۔ مسلمانوں نے خود اپنے لیے سہولیات کا بندوبست کر رکھاہے۔انھوں نے یہاں اسپتال، اسکول اور لائبریریاں تک بنائی ہیں۔ مسلمان چونکہ بہترین کاریگر ہیں اور یہاں علیحدہ آبادی کی وجہ سے ان کے کام میں خلل نہیں پڑتا اور نہ ہی کوئی خوف انھیں کام سے روکتا ہے اس لیے وہ معاشی طور پر بہتر ہوئے ہیں۔ وہ ریاست سے آزاد ہو چکے۔ اب سب کچھ وہ خود کرتے ہیں۔
    اس آبادی اور ہندو آبادی کو جو سڑک تقسیم کرتی ہے اسے پولیس لائن کہتے ہیں۔ گجرات کے ایک صحافی نے لکھا کہ گجرات میں خوف استقدر تھا کہ میں لوگوں کو اپنا نام نہیں بتاتا تھا۔ میں نے ایک دن جوہاپورہ میں جانے کا فیصلہ کیا۔ رکشے والے نے مجھے سرحد پر اتار دیا اور اندر جانے سے انکار کیا۔ میں نے تھانے میں جا کر اپنا تعارف کروا دیا اور اپنا ہندو نام ظاہر کیا۔ اس نے میرے جوہا پورہ جانے کے ارادے پر اچانک کہا اوہ تم ’’پاکستان‘‘ جانا چاہتے ہو۔ سارا احمد آباد اسے پاکستان کہتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے عیدالاضحیٰ سے ایک دن پہلے وہاں گھر کرائے پر لیا۔ صبح میں عید والے کپڑے اور ٹوپی پہن کر باہر نکلا تو بے شمار مسلمان اس بلڈنگ سے باہر نکل کر کھڑے تھے۔
    ایک بزرگ نے مجھ سے کہا، نوجوان تم نئے آئے ہو، تمہارا نام کیا ہے، میں نے چودہ سال بعد پوری آزادی سے اپنا پورا نام ظاہر سجاد جان محمد بولا۔ میں حیرت میں گم ان چودہ سالوں پر غور کر رہا تھا جب میں اپنا نام سنجے بتایا کرتا تھا۔ میں جوکیلیفورنیا سے پڑھ کر آیا تھا۔ میرا باپ جو مہاتما گاندھی کا عاشق تھا۔ مجھے روپا آنٹی راکھی باندھتی تھی۔ میں فسادات کے کچھ دنوں بعد بھارت آیا۔ خوفزدہ ظاہر سجاد جو ایک سیکولر زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ اسے یہاں رہنے، گھر کرائے پر لینے کے لیے ہندو نام اختیار کرنا پڑا۔ اس نے جب فساد زدہ علاقوں نرودہ پاتبہ، گلبرگ اور پالدی جیسے علاقوں میں ان مسلمانوں کے انٹرویو شروع کیے جو فساد کا شکار ہوئے تو اسے تو ہندو سمجھ کر معاف کر دیا جاتا مگر انٹرویو دینے والے مسلمان قتل کر دیے جاتے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس نے گزشتہ سال ندیم سید ایک لڑکے سے نرودہ پاتیہ کے فساد کے بارے میں انٹرویو لیا لیکن چند ہفتوں بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ غصے کا عالم یہ تھا کہ اس کے جسم میں اٹھائیس دفعہ چاقو گھونپا گیا۔
    پوری دنیا میں گجرات ماڈل کو معاشی ترقی کا ایک شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی ماڈل تھا جس کی بنیاد پر نریندر مودی کو پوری دنیا نے کارپوریٹ، سرمایہ داروں میں شہرت حاصل کی اور انھوں نے اس کے الیکشن میں بے تحاشہ سرمایہ لگا کر اس کو جتوایا۔ احمد آباد بھارت کا سب سے مقبول شہر ہے جہاں رہائش رکھنے والوں کے لیے لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے شاپنگ مال ہیں، فلائی اوورز اور انڈر پاسوں کی وجہ سے سگنل فری سڑکیں ہیں۔ ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم ہے۔ یہ واحد شہر ہے جہاں گھروں تک گیس میسر ہے، بہترین سیوریج اور واٹر سپلائی کا نظام ہے۔ آسمان کو چھوتی بلڈنگیں اسے کسی بھی ترقی یافتہ مغربی شہر کا ہم پلہ بناتی ہیں۔
    اسی خوبصورت ترقی یافتہ اور شاندار شہر کے پہلو میں خوفزدہ سات لاکھ مسلمانوں کی ایک آبادی ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے اس لیے نکالے گئے کہ وہ کلمہ طیبہ لاالہ اللہ پڑھتے تھے۔ جن کی عورتوں کے ساتھ چوراہوں میں ہجوم کے سامنے زیادتی کی گئی۔ جنھیں گھروں میں بند کر کے زندہ جلا دیا گیا۔ یہ لوگ جس جوہا پورہ کے گھیٹو میں آباد ہیں وہاں سرکاری اسکول اور اسپتال نہیں، وہاں سرکاری سیوریج سسٹم نہیں، وہاں جانا ہے تو آپ دو رکشوں میں سوار ہوتے ہیں، ایک باہر سے جوہا پورہ کے بارڈر تک اور دوسرا جوہا پورہ کے اندر جانے کے لیے۔ وہاں بدبو ہے، تعفن ہے، بیماری ہے، آبادی کے شروع میں ایک بہت بڑا کیمپ ہے۔ یہاں ہر وہ مسلمان جو ہندوؤں کے تشدد یا خوف سے تنگ آ کر اپنا گھر چھوڑ کر آ جائے اسے رکھا جاتا ہے۔ ایک بزرگ نے جو احمد آباد سے نیا نیا اس علاقے میں آیا تھا اس نے ایک صحافی رعنا ایوب کو بتایا کہ اس کے چچا وغیرہ جب پاکستان گئے تھے تو بتاتے ہیں کہ انھوں نے وہاں پہنچ کر سجدہ کیا تھا کہ یہ امن کی جگہ ہے۔ مجھے جوہا پورہ میں آ کر بھی یہی محسوس ہو رہا ہے۔
    رعنا ایوب نے اس سانحے پر ایک کتاب Gujrat Fire ترتیب دی ہے جسے بھارت میں کوئی چھاپنے پر تیار نہ تھا۔ بالآخر اس نے اسے خود چھاپا۔ اس کتاب میں مظالم کی ایک ایسی داستان بیان کی گئی ہے کہ چند صفحے بھی پڑھے نہیں جاتے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کو جائے امن نہیں سمجھتے انھیں کسی ٹرین میں بٹھا کر احمد آباد چھوڑ دیا جائے، وہ اپنے ناموں وجاہت، حسنین، حنیف، نجم وغیرہ کے ساتھ اس شہر میں رہنے کی کوشش کریں۔ نفرت سہیں، تشدد برداشت کریں اور انھیں جوہاپورہ میں پناہ ملے، جسے سارا شہر پاکستان کہتا ہو اور وہ وہاں پہنچ کر ویسے ہی سجدہ ریز ہوں جیسے 1947ء میں لٹے پٹے مسافر پاکستان کی سرزمین کی مٹی کو چھو کر فرط جذبات سے سجدہ ریز ہو جاتے تھے۔