Tag: پاکستان

  • آزادی کے 78 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ –  تہامی نور

    آزادی کے 78 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ – تہامی نور

    14 اگست 1947 ایک ایسا دن ہے جب پاکستان نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی فضا میں سانس لی۔ یہ دن ہمیں صرف آزادی کی قدر ہی نہیں سکھاتا بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا عہد کیا تھا ۔

    مگر آج ، یوم آزادی کے 78 سال بعد ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے کس حد تک تیار ہیں ؟ خاص طور پر ہماری نوجوان نسل ۔ کیا وہ صرف کتابی تعلیم تک محدود ہے یا زندگی کی حقیقی مہارتوں میں بھی مہارت رکھتی ہے؟

    آج کی نوجوان نسل شدید تعلیمی دباؤ کا شکار ہے ۔ اسکول ، کوچنگ سینٹرز ، آن لائن کلاسز اور امتحانات کے گرد گھومتی ہوئی زندگی نے انہیں عملی زندگی کی مہارتوں سے دور کر دیا ہے ۔ ان کی ساری توانائی گریڈز ، جی پی اے اور اسائنمنٹس پر مرکوز ہے ، اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ان کے لیے اجنبی بن چکے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی نلکا خراب ہو جائے یا پنکھا بند ہو جائے تو فوراً پلمبر یا الیکٹریشن کو فون کیا جاتا ہے ۔ نئی نسل کا ہاتھ سے کوئی چھوٹا سا کام کرنا یا کسی مسئلے کا خود حل نکالنا ایک “غیر ضروری” مشقت سمجھا جاتا ہے ۔ یہ روش نہ صرف خود انحصاری کو ختم کرتی ہے بلکہ ذہنی پختگی کو بھی روکتی ہے ۔

    آج کا نوجوان ایک دن اکیلا نہیں گزار سکتا ۔ اگر انٹرنیٹ بند ہو جائے ، موبائل خراب ہو جائے یا کوئی چھوٹا مسئلہ بھی درپیش ہو ، تو وہ مایوسی اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وجہ ؟ انہیں بچپن سے مسائل کا سامنا کرنے کی تربیت ہی نہیں دی گئی ۔دیگر ممالک کی تربیتی صرف تعلیم نہیں ، کردار سازی کی مثالیں بھی ہیں۔ سب سے پہلے ، جاپان میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی صفائی ، وقت کی پابندی ، خاموشی سے سننے اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں اسکول میں بچے نہ صرف تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ ہر

    دن اپنی کلاسز ، راہداریاں اور یہاں تک کہ اسکول کے واش رومز بھی خود صاف کرتے ہیں۔ جاپانی کلچر میں اجتماعی ذمہ داریوں کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی نوجوان نہ صرف پڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط کردار کے مالک ہوتے ہیں ۔دوسرا ، فن لینڈ میں بچوں کو سادہ اور فطری ماحول میں پرورش دی جاتی ہے۔ وہاں اسکول جانے کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے بچوں کو آزادی سے سوچنے، کھیلنے اور سوال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں ، جرمنی میں بچے بچپن سے ہی آزاد فیصلے لینے کی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے اسکولوں میں بچوں کو مختلف پیشہ ورانہ مہارتیں سکھائی جاتی ہیں جیسے لکڑی کا کام ، دھات کاری یا سلائی کڑھائی تاکہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم کی طرف نہ بھی جائیں تو خود کفیل بن سکیں ۔ جرمن تعلیمی نظام تجربات کو تھیوری سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسی طرح سنگا پور میں تعلیم اور تربیت کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ بچوں کو اسکول میں اخلاقیات ، باہمی احترام اور خود نظم وضبط سکھایا جاتا ہے ۔ وہاں اتحانات اور نتائج اہم ضرور ہیں ، لیکن ان کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت سازی پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔

    یوم آزادی کا اصل مقصد صرف جشن منانا نہیں بلکہ خود احتسابی بھی ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو صرف تعلیمی کامیابیوں تک محدود نہیں رکھنا ، بلکہ انہیں زندگی کی بنیادی مہارتیں بھی سکھانی ہیں جیسے :

    . خود پر انحصار کرنا
    . مشکلات کا سامنا کرنا
    . صفائی اور نظم وضبط اپنانا
    . وقت کی پابندی
    . دوسروں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا

    اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان واقعی ترقی کرے ، تو ہمیں نوجوانوں کو صرف ڈاکٹر، انجینئر یا آئی ٹی ماہر نہیں بنانا ، بلکہ ایک باعمل ، با اخلاق اور خود انحصار شہری بنانا ہوگا۔ اس یوم آزادی پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کتابی علم کے ساتھ ساتھ زندگی کا علم بھی دیں گے، تاکہ وہ خود پر اور اپنی قوم پر فخر کر سکیں ۔

  • معمار علی گڑھ : سر سید احمد خان  -اخلاق احمد ساغر

    معمار علی گڑھ : سر سید احمد خان -اخلاق احمد ساغر

    تمہیدی کلمات
    اگر زندگی کے صفحات کو پلٹ کر دیکھوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر موڑ پر کوئی نئی آزمائش، کوئی نئی منزل تھی۔ میں، سر سید احمد خان، ایک ایسے دور میں پیدا ہوا جب ہندوستان کی فضا پر انگریزوں کا سایہ تھا مگر مسلمانوں کے دلوں میں ابھی تک مغلیہ تہذیب کی رمق باقی تھی۔ میرے بزرگوں نے دہلی کی شان دیکھی تھی اور میں نے اس کے زوال کو۔ یہی زوال میرے دل و دماغ پر حاوی رہا، اور اسی نے مجھے قوم کی بیداری کے لیے میدانِ عمل میں لا کھڑا کیا۔

    خاندان اور ابتدائی زندگی
    میرا جنم ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی میں ہوا۔ ہمارا خاندان مغل دربار سے وابستہ رہا تھا۔ میرے والد، میر متقی اللہ خان، شاہ عالم ثانی کے دور میں صاحبِ منصب تھے۔ والدہ کا نام عزیز النساء تھا، جو انتہائی نیک اور دین دار خاتون تھیں۔ انھوں نے مجھے ابتدا ہی سے اسلامی اقدار اور علم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا۔ فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ بعد میں دہلی کے مشہور علماء سے منطق، فلسفہ، اور ریاضی کی تعلیم لی۔ اُس زمانے میں دہلی کالج (جو بعد میں اینگلو اورینٹل کالج بنا) علم و ادب کا مرکز تھا۔ وہاں کے ماحول نے مجھے جدید علوم سے متعارف کرایا۔

    ملازمت اور عملی زندگی
    ۱۸۳۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں منصف کے عہدے پر فائز ہوا۔ میرے فرائض میں مختلف اضلاع میں عدالتی کام شامل تھا۔ اس دوران میں نے انگریزی حکومت کے نظام کو قریب سے دیکھا۔ مجھے احساس ہوا کہ مسلمانانِ ہند جدید تعلیم سے بے بہرہ ہیں، جس کی وجہ سے وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی نے ہندوستان کی تاریخ بدل دی۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ میں اس وقت بجنور میں تھا۔ جب خبر ملی کہ دہلی کے باشندوں کو بے دریغ قتل کیا جا رہا ہے تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میں نے انگریز افسران کو مسلمانوں کی بے گناہی کے بارے میں لکھا مگر کسی نے سننے کی زحمت نہ کی۔

    انگلستان کا سفر اور جدید خیالات
    ۱۸۶۹ء میں میں انگلستان گیا۔ وہاں کے تعلیمی نظام، علمی اداروں اورمعاشرتی ترقی نے مجھے حیران کر دیا۔ کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ کیوں نہ ہندوستان میں بھی ایسا ہی ادارہ قائم کیا جائے؟ وہاں رہ کر میں نے مغربی علوم کو سمجھا اور محسوس کیا کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔

    علی گڑھ تحریک کا آغاز
    انگلستان سے واپسی پر میں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم دلوانے کا عزم کیا۔ ۱۸۷۵ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا) قائم کیا۔ میرا مقصد تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو انگریزی تعلیم دے کر سرکاری ملازمتوں کے قابل بنایا جائے تاکہ وہ قوم کی قیادت کر سکیں۔ کچھ لوگوں نے مخالفت کی کہ یہ کالج اسلامی اقدار کے خلاف ہے مگر میں نے واضح کیا کہ “دین اور دنیا دونوں کی تعلیم ضروری ہے۔” میں چاہتا تھا کہ مسلمان جدید علوم سیکھیں، مگر اپنے ایمان اور تہذیب سے بھی جڑے رہیں۔

    ادبی خدمات
    میں نے صرف تعلیم ہی پر توجہ نہیں دی، بلکہ قوم کو بیدار کرنے کے لیے قلم بھی اٹھایا۔ “تہذیب الاخلاق” نامی رسالہ جاری کیا، جس میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے مضامین لکھے۔ میں نے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی، جس میں جدید سائنسی نظریات کو دین کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ میرے نزدیک ادب کا مقصد صرف تفریح نہیں، بلکہ معاشرے کی رہنمائی کرنا ہے۔ میں نے “آثار الصنادید” میں دہلی کی تاریخی عمارات کا تذکرہ کیا، تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تہذیب سے واقف رہیں۔

    لکھنؤ اور ادبی محافل
    لکھنؤ ہمیشہ سے تہذیب و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں کی محفلیں شعر و سخن سے گونجتی تھیں۔ جب کبھی لکھنؤ آیا، نوابوں اور ادیبوں کی صحبت نے مجھے متاثر کیا۔ یہاں کے لوگ نرم خو، خوش گفتار، اور علم دوست تھے۔ لکھنؤ کی رونق دیکھ کر اکثر خیال آتا کہ کاش دہلی بھی اپنی کھوئی ہوئی شان واپس پا لے۔

    اخلاقیات پر زور
    میں نے ہمیشہ اخلاقی اقدار کو ترجیح دی۔ تعلیم اگرچہ ضروری ہے، مگر اس کے ساتھ حسنِ اخلاق بھی لازمی ہے۔ میں نے اپنے کالج کے طلباء کو ہمیشہ سچائی، محنت، اور دیانتداری کی تلقین کی۔ ایک بار کہا تھا کہ:
    “تعلیم یافتہ وہ نہیں جو صرف کتابیں پڑھ لے بلکہ وہ ہے جو علم کو عمل میں لائے اور معاشرے کی خدمت کرے۔”

    آخری ایام
    عمر کے آخری حصے میں بیماریوں نے گھیر لیا، مگر کام کا جذبہ کم نہ ہوا۔ ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء کو علی گڑھ میں انتقال ہوا۔ أپ کی خواہش تھی کہ مسلمان علم و عمل کی راہ پر چلیں، اور ہندوستان میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کریں۔

    وصیت
    اے نوجوانو! تم ہی قوم کا مستقبل ہو۔ علم حاصل کرو، اخلاق کو اپناؤ، اور قوم کی خدمت کو اپنا شعار بناؤ۔ یاد رکھو، “ترقی کا راستہ تعلیم سے گزرتا ہے۔”

  • پاکستان کی معیشت کیوں کمزور ہے؟ – احمد فاروق

    پاکستان کی معیشت کیوں کمزور ہے؟ – احمد فاروق

    پاکستان، جو ایک ایٹمی طاقت ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال، نوجوانوں کی بڑی تعداد سے بھرپور، زرخیز زمین، بلند و بالا پہاڑ، بہتے دریا، طویل سمندری ساحل اور ایک عظیم اسلامی و ثقافتی ورثہ رکھنے والا ملک ہے، آج بدترین معاشی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی بحران کا شکار ہے۔

    مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بیروزگاری نے کروڑوں نوجوانوں کو بے حال کر دیا ہے، روپے کی قدر گر رہی ہے اور عوام مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟

    1. رشوت اور کرپشن:
    ناسور جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے. یہ وہ دیمک ہے جس نے ریاست کے تمام ستونوں کو چٹ کر دیا ہے۔ جب اختیارات امانت نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بن جائیں تو نظام عدل و انصاف دفن ہو جاتا ہے۔
    اسلام نے کرپشن کو کھلم کھلا جنگ قرار دیا ہے:
    “لعن الله الراشي والمرتشي” (الحدیث)
    “اللہ تعالیٰ نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔”

    2. نااہل قیادت اور ناقص پالیسی سازی:
    قیادت جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے ناواقف ہو، اور حکمرانی کو خدمت کے بجائے حکومت کا نشہ سمجھا جائے، تو وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “کُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ” “تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔”

    3. سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی جنگ:
    جب اقتدار کو عبادت کے بجائے ذاتی دشمنیوں، سازشوں، اور طاقت کی ہوس کا ذریعہ بنایا جائے تو ریاستی ادارے کمزور ہو جاتے ہیں، اور غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔

    4. عدالتی نظام کی کمزوری:
    اسلام کا عدالتی نظام عدل و مساوات کا مظہر ہے۔ ریاست مدینہ میں حضرت محمد ﷺ کے دور میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا:
    “اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی، تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا”. (بخاری و مسلم)
    جب عدل طبقاتی ہو جائے، تو بدعنوانی قانون سے محفوظ رہتی ہے اور مظلوم مایوس۔

    5. تعلیم کی زبوں حالی:
    اسلام کی پہلی وحی ہی تعلیم پر نازل ہوئی:
    “اقْرَأْ” (پڑھ)۔
    علم کو عبادت کا درجہ دیا گیا۔ لیکن آج ہمارے تعلیمی ادارے علم کے بجائے ڈگریاں بانٹنے کے مراکز بن چکے ہیں۔

    6. توانائی کا بحران اور صنعتی زوال:
    صنعت کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ لیکن ناقص منصوبہ بندی اور بدعنوان معاہدوں نے پاکستان کی صنعتی بنیاد کو کمزور کر دیا ہے۔

    7. قرضوں پر انحصار اور معیشت کی غلامی:
    ہم سودی قرضوں کے جال میں ایسے پھنسے ہیں کہ آزادی محض نعرہ رہ گئی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    “اللہ نے سود کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے”. (البقرہ: 275)
    اور سودی نظام کے خلاف اعلان جنگ فرمایا:
    “اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ” .(البقرہ: 279)

    اسلامی نظام: واحد حل
    اگر ہم حقیقتاً اس ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اسلامی نظامِ حکومت، اسلامی معیشت، اسلامی عدل، اسلامی اخلاق اور اسلامی معاشرت کو اپنانا ہوگا۔

    اسلامی نظام حکومت
    یہ عوام کی خدمت، عدل، مشاورت اور شفافیت پر مبنی ہے۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک عام عورت بھی خلیفہ وقت سے سوال کر سکتی تھی۔ قائد صرف حکمران نہیں، امین اور خادم ہوتا ہے۔

    اسلامی نظام معیشت
    یہ سود سے پاک، زکوٰۃ، خیرات، وقف اور مساوات پر مبنی ہے۔ اسلام دولت کو چند ہاتھوں میں محدود نہیں رہنے دیتا۔ دولت کی گردش، پیداوار کی ترغیب، غربت کا خاتمہ اور محنت کشوں کا تحفظ اسلامی معیشت کی بنیاد ہے۔

    اسلام کا اخلاقی نظام
    اسلام نے دیانت، سچائی، ایثار، اخلاص، تحمل، عدل، عفو اور احسان جیسے اوصاف کو معاشرتی ستون بنایا۔ جب فرد دیانت دار ہوگا، تو ادارے خود بخود بہتر ہو جائیں گے۔

    اسلام کا معاشرتی نظام
    اسلامی معاشرت خاندانی نظام، حقوق العباد، پڑوسیوں کے حقوق، یتیموں، مسکینوں، اور بزرگوں کے احترام پر مبنی ہے۔ ایسا معاشرہ امن، محبت اور بھائی چارے سے بھرپور ہوتا ہے۔

    اسلام کا عدالتی نظام
    یہ نظام بلاامتیاز انصاف، فوری فیصلے، گواہی کی اہمیت اور جھوٹی گواہی پر سخت سزا پر مبنی ہے۔ اسلامی عدل قیامِ امن کی ضمانت ہے۔

    نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ: مکمل نمونہ
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    “لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ” (الاحزاب: 21)
    “یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔”
    آپؐ نے دین کو صرف عبادات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے احکام کو نافذ کیا۔ دین صرف چند عبادات نہیں بلکہ مکمل نظامِ حیات ہے۔

    حل کیا ہے؟
    اسلامی نظام حکومت کا قیام، سود سے پاک معیشت، تعلیم، انصاف، صحت اور روزگار پر فوری توجہ، سخت اور غیرجانبدار احتساب، نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی، دیانت دار قیادت، ذاتی اصلاح اور قومی شعور. اگر ہم اللہ کے دین کو مکمل طور پر اپنائیں، اس پر عمل کریں اور ریاستی سطح پر نافذ کریں، تو ان شاء اللہ پاکستان نہ صرف بحرانوں سے نکلے گا، بلکہ ایک عظیم اسلامی فلاحی ریاست بنے گا، جیسا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے بیان کیا تھا۔

  • ایران کا ایڈونچر بھرا ماضی اور متغیر مستقبل – ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    ایران کا ایڈونچر بھرا ماضی اور متغیر مستقبل – ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    18 سال قبل ایران میں اپنے سات روزہ قیام میں میری ایک مجہول سی رائے بنی تھی جو آج بھی وہی ہے۔ ایران کو بادشاہت سے تو نجات مل گئی لیکن رضا شاہ پہلوی کا رائج کردہ مغربی طرز حیات پوری رعنائیوں کے ساتھ وہاں موجود ہے۔ اب ایران پر آیت اللہ حضرات کی آہنی گرفت کی مثال ماضی کے سوویت یونین کی سی ہے۔

    فرق یہ ہے کہ باشندگان یونین موقع نکال کر مغربی ملکوں کو بھاگ جاتے تھے۔ ایران میں ایسا نہیں ہے۔ سوویت عوام اشتراکیت اور اپنی حکومت دونوں سے نالاں تھے۔ ایرانی عوام آیت اللہ رجیم کے اپنے ایجاد کردہ “اسلامی” اطوار حکمرانی سے نالاں ہیں نہ کہ اسلام سے۔ انہوں نے امام خمینی کا خوب ساتھ دیا تھا لیکن اسلام کے بالجبر نفاذ نے ان میں بتدریج وہ منفی رد عمل پیدا کیا جو ماضی کے مغربی طرز زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس منفی سوچ کے اندر موساد نے پھندے لگا کر جاسوسی کا موثر تانا بانا بچھا لیا جس نے حالیہ جنگ میں صف اول کی جوہری و عسکری ایرانی قیادت ختم کر دی. شہنشاہیت ایران میں اگر ایک انتہا تھی تو آیت اللہ حضرات یکسر دوسری دنیا کے لوگ ہیں۔

    ریاستی امور پر گرفت مضبوط کر کے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ عوام واقعتاً ان کے گرویدہ ہیں۔ اوباما کے دور میں ایران پر عاید پابندیاں ہٹنے کی خبر آئی تو ایرانی لڑکے لڑکیوں نے رات بھر تہران کی سڑکوں پر جشن منایا۔ اس لیے نہیں کہ معاشی مصائب اور تفکرات ختم ہوں گے، بلکہ اس لیے کہ اب ہمارے یہاں امریکی میکڈونلڈ قائم ہوں گے اور جینز آئیں گی، امریکی چاکلیٹ کھانے کو ملیں گی۔ حزب اختلاف کی طاقت پارلیمان کے ساتھ ساتھ انہی میلوں ٹھیلوں سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ سات دنوں میں تلاش کے باوجود مجھے مذہبی لباس میں ایک شخص نظر نہیں آیا۔

    آیت اللہ حضرات سے اپنی فکری قربت کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کی سیاسی مہم جوئیاں ان گنت ہیں۔ اس کیفیت میں یہ لوگ یمن، لبنان، عراق، بحرین، شام اور دیگر پڑوسی ممالک میں اپنا مسلکی انقلاب کیوں کر برآمد کر پاتے۔ ان لوگوں نے تو یہاں تک حد کر دی کہ پڑوس میں 85 فیصد شیعہ ملک آذربائجان سے مسیحی آرمینیا کی خون ریز جنگ ہوئی تو یہ لوگ آرمینیا کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں نے شام میں ایک اقلیت کی مدد سے اپنی پراکسی قائم کی۔ پراکسی کے تحلیل ہوتے ہی وہی ٹولہ اب اسرائیلی سرپرستی میں غالب اکثریتی حکومت سے جنگ کر رہا ہے۔ آیت اللہ حضرات سے اپنی فکری قربت کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کی سیاسی مہم جوئیاں ان گنت ہیں۔

    اس کیفیت میں یہ لوگ یمن، لبنان، عراق، بحرین، شام اور دیگر پڑوسی ممالک میں اپنا مسلکی انقلاب کیوں کر برآمد کر پاتے۔ ان لوگوں نے تو یہاں تک حد کر دی کہ پڑوس میں 85 فیصد شیعہ ملک آذربائجان سے مسیحی آرمینیا کی خون ریز جنگ ہوئی تو یہ لوگ آرمینیا کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں نے شام میں ایک اقلیت کی مدد سے اپنی پراکسی قائم کی۔ پراکسی کے تحلیل ہوتے ہی وہی ٹولہ اب اسرائیلی سرپرستی میں غالب اکثریتی حکومت سے جنگ کر رہا ہے۔معطر ہوا کا ایک جھونکا اسلام آباد میں متعین ایرانی سفیر کی جانب سے آیا ہے۔

    فرماتے ہیں:
    “ایران, پاکستان, سعودی عرب اور ترکیہ مل کر اتحاد بنا سکتے ہیں. اس اتحاد میں چین کی شمولیت بہت اچھی ہوگی”.

    یہ بیان ایرانی حکومت کی متغیر پذیر پالیسی کا غماز ہے. امید ہے کہ ایرانی زعما کا وضو اب اور آئندہ برقرار رہے گا۔ پاکستان نے ایران کے ہاتھوں بہت چرکے کھائے۔ اپنا پرچم روندے جانے کے باوجود اسی ایران سے ہم نے خوب جوہری تعاون کیا لیکن ہوا کیا؟ ہمارے معلومات بھرے بوجھل صندوق ایران نے امریکہ کے حوالے کر کے ہمارے لیے مصائب کے پہاڑ کھڑے کر دیے تھے۔ اللہ کرے اب ایران کا وضو برقرار رہے۔ اپنے ساتھ مثبت ایرانی رویے کا ذکر بھی لازم ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کا ایرانی حصہ ایران مکمل کر چکا ہے اور پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ معاہدے کے مطابق ایران بین الاقوامی فورم پر چلا جائے تو ہم پر 18 ارب ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔

    متشکر برادر ایران، متشکر!
    تعلقات سازی میں حکومتیں متعدد عوامل سامنے رکھتی ہیں۔ تینوں ملکوں کے تعلقات بوجوہ ہمیشہ جوار بھاٹے کا شکار رہے ہیں۔ چھوٹے سے قضیے پر تعلقات میں معمولی خراش کی بجائے بھونچال سہنے پڑتے رہے۔ لیکن تینوں کے عوام اپنے بود و باش میں فرق کے باوجود ایک ہی تہذیب کے برگ و بار ہیں، تابندہ اور باوقار اسلامی تہذیب کے گل بوٹے! ایران میں اپنے مختصر لیکن بھرپور مطالعاتی مدت قیام میں ایرانی عوام کو میں نے بے پناہ خوبیوں سے آراستہ پایا۔ عام زندگی میں یہ لوگ لڑائی بڑھائی سے کوسوں دور اور گل و بلبل کے رسیا ہیں۔

    ان کے اس طرز زیست سے اسلامی تہذیب کے وہ جھرنے نکلتے ہیں جن کا اپنا ہی رنگ ہے۔ اس پر اگلی دفعہ گفتگو ہوگی۔ افغانستان کو دو سپر پاور سے پنجہ آزمائی کرنا پڑی۔ ایران نے مغرب کے پروردہ اسرائیل جیسے طاقتور لیکن کمینے دشمن کی ناک رگڑائی۔ اور ننھے سے نو زائیدہ پاکستان نے اشوک اعظم کے جانشین کو خود اسی کی للکار پر بار بار خاک چٹوائی۔ تینوں ملک بار بار موت سے آنکھیں چار کر کے اب کندن بن چکے ہیں۔ رقبے، آبادی، وسائل اقتصاد اور زر مبادلہ کے ذخائر کی اہمیت مسلم ہے اور لارنس آف عریبیہ کی ذریت کے پاس یہ سب کچھ موجود ہے۔

    لیکن ٹرمپ آئے دن نہ صرف انہیں خاک چٹواتا رہا ہے بلکہ سینکڑوں ارب ڈالر اینٹھ کر ان کا منہ بھی چڑاتا ہے۔ لیکن حالات ہمارے حق میں انگڑائی لے چکے ہیں۔ تینوں ملکوں کی قیادت، اتحاد امت مسلمہ پر مطلقا یکسو ہے۔ ان تینوں کو یکجا بیٹھ کر اور ماضی کو بھول کر خوب مکالمے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ صدر ایران کا دورہ پاکستان اسی کی ایک کڑی ہوگی۔ ہماری شاہراہوں کے جال کا ایک سرا گوادر سے شروع یا وہاں ختم ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اسے ایرانی بندرگاہ چا ہ بہار سے جوڑ کر دونوں ملکوں کے مابین ویزے کی پابندیاں نرم کر دی جائیں۔

  • پاکستان بیت المال کا قومی تربیتی پروگرام: شفافیت اور اچھی گورننس کی جانب ایک اہم قدم .مسرور احمد

    پاکستان بیت المال کا قومی تربیتی پروگرام: شفافیت اور اچھی گورننس کی جانب ایک اہم قدم .مسرور احمد

    پاکستان بیت المال (پی بی ایم) وفاقی حکومت کے زیر انتظام ایک فلاحی ادارہ ہے جو اپنے متعدد پراجیکٹس کے ذریعے ملک میں غربت کے خاتمے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔ ان پراجیکٹس میں غریب و نادار مریضوں کی طبی امداد، طلباء کی اعلیٰ تعلیم کیلئے وظائف، معذور افراد کی امداد، پاکستان سویٹ ہومز، ویمن ایمپاورمنٹ سنٹرز، چائلڈ لیبر کی بحالی کے ادارہ جات اور دیگر بہت سے منصوبے بھی شامل ہیں۔

    گزشتہ ہفتے پاکستان بیت المال نے اپنے عملے کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بڑھانے اور ادارے کی شفافیت، میرٹ، اور اچھی گورننس کے عزم کو تقویت دینے کے لیے ایک جامع قومی تربیتی پروگرام کامیابی سے مکمل کیا۔ یہ پروگرام منیجنگ ڈائریکٹر سینیٹر کیپٹن شاہین خالد بٹ کے وژن کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا، جبکہ ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر ذیشان دانش کی قیادت میں اس کی تکمیل عمل میں آئی۔ اس تربیتی پروگرام کا بنیادی مقصد تنظیمی رویے، واچ ڈاگ پالیسی، اور مفادات کے ٹکراؤ کی پالیسیوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا تاکہ ادارے کے ملازمین میں احتساب، جواب دہی، اور پیشہ وارانہ مہارت کو فروغ دیا جا سکے۔

    پاکستان بیت المال ایک سماجی بہبود کا ادارہ ہے جو معاشرے کے پسماندہ طبقات کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ چونکہ یہ ادارہ نہ صرف مالی امداد فراہم کرتا ہے بلکہ صحت، تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات کے ذریعے غریب اور مستحق افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس تناظر میں، ادارے کے عملے کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بڑھانا اور شفافیت کو یقینی بنانا نہایت اہم ہے۔ یہ تربیتی پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو پی بی ایم کے بنیادی اصولوں، خیرات، ہمدردی، اور احتساب کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتا ہے۔تربیتی سیشنز کا انعقاد اسلام آباد میں پی بی ایم کے صدر دفتر کے علاوہ ملک بھر کے صوبائی اور علاقائی دفاتر میں بیک وقت کیا گیا۔

    اس پروگرام میں سینکڑوں افسران اور عملے نے شرکت کی، جو اس کی قومی سطح پر وسعت اور اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔ گلگت بلتستان اور بلوچستان جیسے دور دراز علاقوں میں سیشنز آن لائن منعقد ہوئے، جس سے یہ یقینی بنایا گیا کہ ادارے کا کوئی بھی ملازم اس تربیت سے محروم نہ رہے۔ اس پروگرام کے بنیادی اہداف میں تنظیمی رویے کو بہتر بنانا، واچ ڈاگ پالیسی کو متعارف کرانا، اور مفادات کے ٹکراؤ سے متعلق پالیسیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا شامل تھا۔ ڈاکٹر ذیشان دانش نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی بی ایم کا ہر ملازم کوئی بھی غیر مناسب معاملہ رپورٹ کرنے کا برابر کا حق رکھتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ادارے میں احتساب اور جواب دہی کا کلچر نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ پی بی ایم کے مشن کا لازمی حصہ ہے۔

    اس تربیتی پروگرام کے دوران شرکاء کو واچ ڈاگ پالیسی کے مقاصد، شکایتی طریقہ کار، اور شکایت کنندہ کے تحفظ سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی گئیں۔ یہ پالیسیاں پی بی ایم کی ویب سائٹ پر بھی شائع کی گئی ہیں تاکہ ہر ملازم ان تک رسائی حاصل کر سکے۔ تربیت کے دوران شرکاء کو ان پالیسیوں کے بنیادی نکات پر مبنی مواد بھی فراہم کیا گیا، جس سے ان کی سمجھ و شعور کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملی۔اس پروگرام کی کامیابی میں پی بی ایم کی قیادت کا کردار نہایت اہم رہا۔ منیجنگ ڈائریکٹر سینیٹر شاہین خالد بٹ نے پی بی ایم کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے کی ترقی اور شفافیت کے لیے ملازمین کی پیشہ وارانہ تربیت ناگزیر ہے۔

    دوسری جانب، ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر ذیشان دانش نے اس پروگرام کو ادارہ جاتی اصلاحات میں ایک سنگ میل قرار دیا۔ انہوں نے خود اسلام آباد میں ایک تربیتی سیشن کی قیادت کی، جس نے دیگر افسران کے لیے ایک مثال قائم کی۔ پاکستان بیت المال کے دیگر سینئر افسران نے بھی اس پروگرام میں فعال کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر قاسم ظفر (پروجیکٹس)، عبدالمنان (مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن)، کاشف ندیم (ایم آئی ایس)، محترمہ صائمہ ودود (آئی سی ٹی)، عبدالحفیظ ماہسر (سندھ)، محمد ظہیر (لاہور)، رمضان طاہر (ملتان)، اور لال بادشاہ (کے پی کے) نے اپنے اپنے ریجنز میں تربیتی سیشنز کی قیادت کی۔ یہ مشترکہ کوشش اس بات کی غماز ہے کہ پی بی ایم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔

    اس تربیتی پروگرام کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ اس میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دینے والی پالیسیوں پر خصوصی توجہ دی گئی۔ گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر ذیشان دانش نے اعلان کیا کہ جلد ہی پی بی ایم کے تمام دفاتر میں ان پالیسیوں کے مؤثر نفاذ کے لیے خصوصی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ یہ کمیٹیاں نہ صرف پالیسیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گی بلکہ ملازمین کو کسی بھی غیر مناسب سرگرمی کی رپورٹنگ کے لیے ایک محفوظ پلیٹ فارم بھی فراہم کریں گی۔شرکاء نے ان تربیتی سیشنز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک تعلیمی اور سازگار ماحول میں پیش کیا گیا۔

    سیشنز کے دوران نہ صرف پالیسیوں کے تکنیکی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی بلکہ ان کے عملی اطلاق پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ شرکاء نے خاص طور پر واچ ڈاگ پالیسی اور شکایت کنندہ کے تحفظ سے متعلق اقدامات کو سراہا، جن سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔پاکستان بیت المال کا یہ تربیتی پروگرام اس کے طویل مدتی وژن کا ایک حصہ ہے، جو معاشرے کے کمزور طبقات کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ ادارے کا مشن نہ صرف مالی امداد فراہم کرنا ہے بلکہ ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جو شفاف، منصفانہ، اور موثر ہو۔ اس پروگرام کے ذریعے پی بی ایم نے اپنے ملازمین کو یہ پیغام دیا ہے کہ ادارے کی ترقی اور بہتری میں ان کا کلیدی کردار ہے۔

    یہ اقدام نہ صرف پی بی ایم کے ادارہ جاتی نظام کو مضبوط کرے گا بلکہ عوام کے سامنے ادارے کی ساکھ کو بھی بہتر بنائے گا۔ شفافیت اور احتساب کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے پی بی ایم اپنی خدمات کو مزید مؤثر اور قابل اعتماد بنا سکے گا۔پاکستان بیت المال کا قومی تربیتی پروگرام ایک قابل تحسین اقدام ہے جو ادارے کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بڑھانے اور اچھی گورننس کو فروغ دینے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ منیجنگ ڈائریکٹر کیپٹن سینیٹر شاہین خالد بٹ اور ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ذیشان دانش کی قیادت میں یہ پروگرام ادارے کے ملازمین کو با اختیار بنانے اور شفافیت کے کلچر کو فروغ دینے میں کامیاب رہا۔

    یہ نہ صرف پی بی ایم کے ملازمین کے لیے ایک عظیم موقع تھا بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کے لیے بھی ایک مثبت پیغام ہے کہ ادارے اپنی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ مستقبل میں اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف پی بی ایم بلکہ دیگر سرکاری اداروں کو بھی ایک مثالی نمونہ ملے گا، جو شفافیت اور احتساب کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔

  • گمنام ہیرو – رضوانہ چغتائی

    گمنام ہیرو – رضوانہ چغتائی

    مجھے آج تک معلوم نہیں تھا کہ پہاڑوں کے ڈیتھ زون بھی ہوتے ہیں یا پورٹر کون ہوتے ہیں۔ میں تو یہ سمجھتی تھی کہ اکیلا کوئی انسان پہاڑ پر چڑھائی کرتے کرتے ایک دن چوٹی پار کر لیتا ہے۔ میں کبھی اس کو گہرائی میں نہیں سوچا۔ کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

    لیکن یہ کتاب ہنزہ ٹائیگر (امیر مہدی ) پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ کوہ پیما کون ہوتے ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کے لئے باقاعدہ اجازت نامے درکار ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔مجھے یہ بات کہنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے میں کوہ پیمائی سے بالکل نابلند تھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ پہاڑوں کی بہت ذیادہ اونچائی پر بھی کیمپ لگائے جاتے ہیں۔

    مجھے نہیں معلوم تھا کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے لئے ایک مکمل ٹیم ہوتی ہے۔ گیس کے سلنڈر ہوتے ہیں، یہ کتاب ایک پورٹر جو کو پیماؤں کے ساتھ سامان اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھتے ہیں ان کے ساتھ ناروا سلوک کے بارے میں لکھی گئی ہے۔لیکن یہ کتاب اپنے آپ میں مکمل ایک دلچسپ معلوماتی سرگزشت ہے جو آپ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اس کتاب کا مضمون کچھ ایسا ہے کہ وہاں کوہ پیما منجمد کر دینے والی سردی میں چڑھائی کر رہے ہیں۔

    اور یہاں میں ٹھنڈے ہاتھوں میں کتاب پکڑے ورق گردانی کرتی ہوں اور سردی کی شدت کا احساس کچھ اور بڑھ جاتا ہے اور پھر میاں جی سے کہتی ہوں ہیٹر کا رخ میری طرف کیجیے پلیز۔ کچھ آگے پڑھتی ہوں بوہل کیسے ساری رات ڈیتھ زون میں منجمد کرنے والی سردی میں کھڑا ہی رہا۔ اس کے پاس نہ آگے کو راستہ تھا نہ پیچھے کو اور پھر میں دوبارہ کہتی ہوں۔ پلیز ہیٹر کو بیڈ کے قریب کر دیجیے۔ میں یاسمین کو سیلوٹ پیش کرتی ہوں کہ انہوں نے ہمارے سامنے ایک چھپی ہوئی دردناک کہانی ظاہر کی کہ پاکستان میں اور پتہ نہیں اور کتنی ایسی دردناک کہانیاں ہیں ،کتنے نام ہیں، کتنے چہرے ہیں جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔

    جن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ میں یہ بھی نہیں سوچ پا رہی کہ امیر مہدی کے پاس اپنے سائز سے چھوٹے بوٹ تھے تو وہ ان میں کس اذیت سے چل رہے ہوں گے کہ لیکن وہ اس کے ساتھ پہاڑوں کی چڑھائی پر گئے۔کچھ مہینے قبل یاسمین نے امیر مہدی کے نام والا پوسٹ کارڈ فل کیا میرے لئے۔ تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ اصلیت کیا ہے۔ اب ان کی یہ کتاب تحفتاً موصول ہوئی تو علم ہوا کہ امیر مہدی اصل میں کون تھے۔ امیر مہدی جیسے پورٹرز کی قربانیاں کوہ پیمائی کی دنیا کا وہ غیر مرئی پہلو ہیں جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ افراد، جو پہاڑوں کے قدموں میں اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں.

    ان عظیم چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے جان، جذبے، اور محنت کی ایسی داستان رقم کرتے ہیں جس کا ادراک صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ان کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے درد کو محسوس کرنا جانتے ہیں یاسمین کی طرح ۔ یہ گمنام ہیرو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر پہاڑوں کی بلندیوں پر سامان پہنچاتے ہیں اور کوہ پیماؤں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں چھپی ہوئی مشکلات اور مسائل ایسے پہلو ہیں جن پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔پورٹرز کا سامنا ہمیشہ خطرناک حالات سے ہوتا ہے۔ بلند پہاڑوں کی سخت سردی، برفانی طوفان، اور گلیشیئرز کی غیر متوقع حرکت ان کی زندگیوں کو ہر لمحہ خطرے میں ڈالے رکھتی ہیں۔

    ان خطرناک راستوں پر وہ آکسیجن کی کمی کے باعث صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنی مدد کے لیے کوئی خاص سہولیات نہیں ہوتیں۔ وہ اپنے جسم پر کئی کلوگرام وزنی سامان اٹھائے، کھڑی چڑھائیوں کو عبور کرتے ہیں، اور ہر خطرہ مول لے کر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔معاشی استحصال پورٹرز کی زندگی کا ایک تلخ پہلو ہے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں جو معاوضہ دیا جاتا ہے، وہ ان کی محنت کے شایان شان نہیں ہوتا۔ کوہ پیماؤں کی کامیابی کا جشن منایا جاتا ہے، لیکن ان کامیابیوں کے پیچھے موجود ان گمنام ہیروز کی قربانیوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔

    وہ اپنی محنت اور جانفشانی سے پہاڑوں کی مشکلات کو آسان بناتے ہیں، مگر ان کی زندگیوں کے دکھ اور جدوجہد کو دنیا کم ہی دیکھتی ہے۔پورٹرز کے پاس اکثر جدید حفاظتی سامان یا مناسب لباس نہیں ہوتا۔ وہ ناقص وسائل کے ساتھ کام کرتے ہیں، جس سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ان کے جسمانی مسائل، جیسے جوڑوں کا درد اور کمر کی تکلیف، زندگی بھر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انہیں طویل عرصے کے لیے اپنے خاندان سے دور رہنا پڑتا ہے، اور یہ دوری ان کے لیے جذباتی مشکلات بھی پیدا کرتی ہے۔

    ان گمنام ہیروز کو نہ تو وہ عزت ملتی ہے جس کے وہ مستحق ہیں اور نہ ہی ان کی خدمات کو مناسب طور پر سراہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد ہے، جس میں وہ موت کے قریب رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ اگرچہ ان کی قربانیاں عظیم ہیں، لیکن ان کے نام تاریخ کے صفحات میں کہیں کھو جاتے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ پورٹرز کے لیے بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔ ان کے معاوضے میں اضافہ ہو، انہیں جدید آلات اور حفاظتی لباس مہیا کیے جائیں، اور ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کے لیے انہیں عالمی سطح پر اعزازات دیے جائیں۔

    یہ گمنام ہیروز ہمارے احترام اور اعتراف کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ ان کی داستانیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ محنت، قربانی، اور بے لوثی کے بغیر دنیا کی سب سے بڑی کامیابیاں ممکن نہیں۔

  • پاک افغان تعلقات کی دو بنیادی ضروریات.  ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    پاک افغان تعلقات کی دو بنیادی ضروریات. ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

    ہزاروں میل دور کے ممالک سے تعلقات قائم کرنا عالمگیریت کے اس دور میں ہر ملک کی ضرورت ہے۔ پاکستان بھی اس ضرورت سے آزاد نہیں ہے۔ تاہم مسئلہ اس توازن کا ہے جسے ہمیشہ سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ یہ توازن آج دنیا بھر میں بگڑ چکا ہے۔

    اپنے پاک افغان تعلقات بھی ہمیشہ غیر متوازن دیکھے گئے جہاں عوامی اور ریاستی سطح پر یہ عدم توازن ملتا ہے۔ گزشتہ تحریر میں افغان طلبا کے لیے پاکستانی جامعات میں وظائف کی تجویز دی تو ایک رد عمل یہ تھا: “جناب! افغانوں سے زیادہ طوطا چشم کوئی نہیں. ہم نے عشروں تک انہیں پناہ دی لیکن آج کوئی لا دین نہیں ان کی اپنی امارت شرعیہ بھارت کا ساتھ دے رہی ہے”. ذرائع ابلاغ کے پھیلائے اس بدنما تاثر کو مان لیا جائے تو خود ہمارے پاس کیا اس کا کوئی جواب ہے کہ پاکستان میں متعین افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ہماری فوج نے ٹھڈے مار کر امریکیوں کے حوالے کیا تھا تو کیوں؟

    دونوں ممالک کے عوام و حکام یہ نامعقول مناظرے چھوڑیں ایک دوسرے سے معافی تلافی کا مطالبہ کلیتاً ترک کر دیں۔ وہ راہ اختیار کریں جو نئے پاک بنگلہ تعلقات میں اپنائی جا چکی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ماضی بھول کر مآل پر نظر جمائے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان بطور تزویراتی گہرائی ہمارے ترک کرنے کا موضوع تھا۔ پاکستان اس سے تائب ہو چکا ہے۔ ادھر اس مٹھی بھر افغان عنصر کو ڈیورنڈ لائن پر گفتگو ختم کر دینا چاہیے۔ یہ معدودے چند لیکن با اثر پاکستانی اور افغان بازاری مناظروں کو تج کر آئندہ کا سوچیں۔ یہی ڈیورنڈ لائن اتحاد امت مسلمہ کے بالمقابل جلد ہی بے معنی ہو کر رہے گی۔

    ان سفاک اور برہنہ حقائق کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ دونوں ممالک پڑوسی ہیں، صدیوں سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہیں، بھارت، چین اور ایران جیسوں کے برعکس افغانستان ہمارا وہ واحد پڑوسی ہے جس سے ہمارے دسیوں لاکھ لوگوں کے رشتے ہیں۔ ایران اور بھارت کے برسائے میزائلوں کا جواب تو ہم نے دفعتاً دے دیا تھا۔ پاک افغان جنگ، اللہ نہ کرے، اگر کبھی ہوئی تو کیا کوئی یہ مہم جوئی کر سکے گا؟ اور کرے گا تو بعد میں کس ملک میں زندہ رہ سکے گا؟ دونوں ممالک کے باشندوں کے رشتہ داریاں ذہن میں رکھ کر جواب دیجیے۔ لہذا دونوں جانب کے بد زبان عناصر یہ غیر تعمیری اور سوقیانہ مناظرہ بازی بند کر کے اپنی توانائیاں کسی تعمیری کام میں لگائیں۔

    پاک افغان امور میں غالباً سب سے اہم ایک انسانی مسئلہ وہ ہے جسے دشمن بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ادھڑے ہوئے افغانستان میں صحت کی سہولیات پاکستان جیسی نہیں ہیں۔ سرحدی قبائل کو چھوڑیے، خود کابل کے لوگ بھی علاج کے لیے ایک حد تک پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔ رہے سرحدی افغان تو ان کا سہارا ہے ہی پاکستان۔ بےچارگی کا یہ حال کہ گزشتہ بقر عید سے ذرا پہلے ایک ماہ کے بیمار نو مولود کے والدین کو طبی ویزا نہ ملا تو ماں نے اپنا جگر گوشہ اس امید پر ایک اجنبی کو دے دیا کہ پشاور پہنچ کر شاید بچہ بچ جائے۔ وہ نیک دل افغان ایک ماہ کے بچے کو کیسے پشاور لایا؟

    کیسے دودھ پلاتا رہا؟ عین عید کے دن سارے کام چھوڑ کر کیسے پوری توجہ بیمار بچے کو دیتا رہا؟ اس پر ناول لکھا جانا چاہیے، فلم بننا چاہیے، لیکن ان کے پہلو پہلو اس اہم انسانی مسئلے پر حکومت پاکستان کو فوری توجہ دینا ہوگی۔دونوں ملکوں میں داخلے کے راستے تو پانچ ہیں لیکن شہری سہولتوں سے آراستہ اور منظم جگہیں طورخم، چمن، اور خرلاچی (پارہ چنار) وہ تین ہیں جہاں طبی سہولیات بڑھا کر افغان ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ یہ کام الخدمت، ایدھی اور چھیبا جیسے نیک نام ادارے کر سکتے ہیں۔ افغان جہاد کے دنوں میں جماعت اسلامی نے پشاور میں ایک اچھا افغان سرجیکل اسپتال بنایا تھا، پتا نہیں کس حال میں ہے۔

    الخدمت اور ایدھی کی کوششیں یقینا فلاحی بنیادوں پر ہوں گی۔ لیکن افغانستان میں آسودہ حال طبقے کا حجم ناقابل یقین حد تک وسیع ہے۔ اسے بھی اپنے علاج کے لیے زیادہ تر پاکستان ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اس طبقے کے لیے پشاور، پارہ چنار، چمن اور کوئٹہ میں جدید سرکاری اسپتال بنانا ضروری ہے۔ اس اشرافیہ کے پاس دولت کے انبار ہیں۔ لیکن علاج کے ضمن میں یہ اشرافیہ بھی بے بس ہے۔ پاک افغان قربت کے پہلو بہ پہلو ہمارے یہ سرکاری اسپتال زر مبادلہ کی صورت میں کمائی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ قطع نظر ان باتوں کے پاکستان کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہر بیمار افغان اور ایک تیماردار کو بہرحال ویزہ دے دیا جائے۔

    شاید کہا جائے کہ یوں دہشت گرد بھی آ سکتے ہیں۔ بہانہ کچھ بھی ہو، جائز طبی ضرورت پر افغان بہن بھائیوں کو ویزا بہرحال ملنا چاہیے۔ ویزے کا اجرا ایک تہہ در تہہ عمل ہے جس پر ہم عام لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے، ہمارا فعال دفتر خارجہ افغانیوں کو طبی ویزے دینے کا کوئی مناسب طریق کار یقینا بنا لے گا۔پاکستان اپنی آبادی، وسائل، رقبے، زراعت اور صنعت وغیرہ کے باعث افغانستان پر فوقیت رکھتا ہے جو اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ ادھر افغانستان کی خوبیاں ایک الگ موضوع ہے۔

    اس جری ملک نے ہماری مدد سے ایک سپر پاور کو ملیا میٹ کر دیا۔ افغانوں نے اپنے گھر اور کھیت کھلیان بے آباد کرا دیے اور چھ مسلم مقبوضات آزاد کرا کر انہیں او آئی سی میں شامل کرایا۔ حکومت پاکستان کو افغانوں کے لیے طبی اور تعلیمی ویزوں میں بالخصوص اضافہ کرنا چاہیے۔ یہ بندوبست طویل المعیاد تو ہوگا لیکن یہی بندوبست بالآخر ڈیورڈ لائن کے مستقل خاتمے کا سبب بنے گا۔ عالمگیر امت مسلمہ کے ابتدائی اتحاد کا آغاز یقیناً یہیں سے ہوگا۔ پاکستان، ایران، افغانستان اور ترکی کو یکجا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ نو آزاد مسلم ترکستانی ممالک کے اس اتحاد میں آنے پر تہران بخواہش علامہ اقبال عالم مشرق کا جنیوا ہو گا۔ کرہ ارض کی تقدیر یونہی تبدیل ہوگی۔

    (جنرل انور سعید خان نے میری اس فروگزاشت کی طرف توجہ دلائی کہ امریکی یونین 12 نہیں 13 ریاستوں پر بنی تھی، جزاک اللہ. انور بھائی اپنی انہی باریک بینیوں کے سبب فوج میں “پروفیسر جنرل” کہلاتے ہیں۔ سوچا ایسا کیوں ہوا تو پتا چلا کہ 60 سال سے اوپر کے پروفیسر کے یہاں روا روی میں لکھ دینا کچھ عجب نہیں ہے۔ انور بھائی کا مکرر شکریہ).

  • پاکستانی معاشرت کے مسائل  – علشبہ فاروق

    پاکستانی معاشرت کے مسائل – علشبہ فاروق

    پاکستانی معاشرت میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا حل تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ان مسائل کہ اگر ہم بات کریں تو غربت ،بے روزگاری اور تعلیم سر فہرست ہیں۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے نہ صرف ایک قوم میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں پہ گہرا اثر پڑ رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس قوم کی ترقی پر بھی بہت برا اور گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ نہ وہ قوم ترقی کر پا رہی ہے اور نہ ہی اس میں رہنے والے لوگ۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہو چکا ہے۔

    پاکستان میں غربت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس سےعوام کی معاشرتی اور اقتصادی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں ۔اس غربت کی بنیادی وجوہات میں بے روزگاری، وسائل کی غیر مساوی تقسیم، کرپشن، مہنگائی اور کمزور معیشت شامل ہیں ۔ غربت کی وجہ سے لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح زیادہ ہے، کیونکہ وہاں پہ بنیادی سہولیات کی کمی بہت زیادہ ہے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کو کچھ اقدامات اٹھانے چاہیں جس سے غربت میں کمی آئے۔

    غربت کے مسائل کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیز بنانی چاہیے جو غریب طبقے کو معاشی مواقع فراہم کریں ،جیسے چھوٹے کاروبار کے لیے آسان قرضے ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام جیسے فلاحی منصوبوں کو مزید شفاف بنایا جائے۔ تعلیم کو عام کرنا چاہیے اور اس کو معیاری بنانا غربت کے خاتمے کے لیے بہت ضروری ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے وسائل کو زیادہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر بچہ تعلیم کو حاصل کر رہا ہے جس سے عوام میں شعور پیدا ہوگا اور لوگ خود مختار ہوسکیں گے۔ کرپشن کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ فنڈز مستحق افراد تک پہنچ سکیں۔

    بے روزگاری پاکستان کا ایک بہت بڑا اورسنگین مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی اور نا امیدی بھر رہی ہے۔ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے بے روزگار ہونے کی وجوہات میں تعلیم کی کمی، ہنر کی کمی اور معاشی مواقع کی کمی شامل ہیں۔بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنا نہایت اہم ہو چکا ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھنا چاہیے، تاکہ وہ روزگار کے مواقع حاصل کر سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ روزگار کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرے جیسے کہ نئی صنعتیں قائم کرنا، یا پھر چھوٹے کاروباروں کو فروغ دینا۔

    اس سے نوجوان نسل میں کام کرنے کی قابلیت زیادہ ہوگی ۔اس کے ساتھ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع کے بارے میں معلومات تک رسائی فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ روزگار کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے ویب سائٹس اور دیگر ذرائع کا استعمال کریں۔ کامیاب نوجوان پروگرام جیسے منصوبوں کو مزید وسعت دی جائے تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر آسکیں۔ حکومت کو دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے چاہیے، تاکہ پاکستانی نوجوانوں کو بیرون ملک ملازمتوں کے بھی مواقع مل سکیں۔

    ان مسائل کے علاوہ اگر ہم بات کریں تو تعلیم ایک نہایت اہم مسئلہ ہے ۔تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے پاکستان میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے، جس کی وجہ سے ملک کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ تعلیم کی کمی کی بنیادی وجوہات میں غربت، جہالت اور وسائل کی کمی شامل ہیں ۔ پاکستان میں تعلیمی نظام کو کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سرکاری سکولوں کی ناقص حالت، نصاب کی عدم مطابقت ،تعلیمی بجٹ کی کمی شامل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنا بہت اہم ہو چکا ہے۔

    اگر ہم تعلیم کے مسئلے کے حل کی بات کریں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو عام کرنے کے لیے بہترین اقدامات اٹھائے، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے۔ تعلیم کو صرف عام کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسے معیاری بنانا بھی ضروری ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ اساتذہ کی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ تعلیم کے لیے زیادہ وسائل مہیا کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے بجٹ کو بڑھائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ تعلیم کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کا استعمال صحیح طریقے سے ہو رہا ہے ۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ ڈیجیٹل لرننگ پلیٹ فارمز کو فروغ دیا جائے ،تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ تعلیم حاصل کر سکیں۔

    ان معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرنا اور ان پر عمل کرنا ہماری ذمہ داری ہے حکومت ،عوام اور مختلف تنظیموں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہم غربت، بے روزگاری اور تعلیم جیسے مسائل سے بچ سکیں اور ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل دے سکیں۔ یہی وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو ترقی کی راہ میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔ اگر حکومت ،سول سوسائٹی اور عوام سب مل کر ان سب مسائل پر کام کرتے ہیں تو ان مسائل پر قابو پانا کچھ مشکل نہیں اور پاکستان ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔

  • پاکستان میں سیکولرازم کی تاریخ، اثرات اور ناکامی کی وجوہات. مولانامحمدجہان یعقوب

    پاکستان میں سیکولرازم کی تاریخ، اثرات اور ناکامی کی وجوہات. مولانامحمدجہان یعقوب

    پاکستان کا قیام کسی جغرافیائی یا لسانی وحدت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ایک نظریاتی نصب العین کے تحت عمل میں آیا۔ برصغیر کے مسلمان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر جدا وطن کا مطالبہ اس لیے کر رہے تھے کہ وہ چاہتے تھے ایک ایسا خطہ جہاں وہ آزادانہ طور پر دینِ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں. اور ایک ایسی ریاست قائم ہو جہاں قانون، تعلیم، معیشت، سیاست، ثقافت سب کچھ اسلام کی روشنی میں ترتیب دیا جائے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے متعدد مواقع پر واضح کیا کہ پاکستان کا آئندہ دستور قرآن و سنت پر مبنی ہوگا۔

    پاکستان میں سیکولرازم کے ناپاک قدم :
    تاہم قیام پاکستان کے بعد ہی سے ایک مخصوص طبقہ، جو مغربی تعلیم یافتہ اور استعماری فکر سے متاثر تھا، ملک کے اسلامی تشخص کو کمزور کرنے کے لیے متحرک ہو گیا۔ ان کا مقصد ریاست کو مذہب سے بے تعلق کرنا تھا۔ سیکولرازم کا یہ بیانیہ ترقی اور روشن خیالی کے خوبصورت عنوانات کے ساتھ پیش کیا گیا تاکہ اسے عوامی سطح پر قبولیت حاصل ہو۔نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیکولرازم کو جتنی بھی سرکاری سرپرستی ملی، وہ محض وقتی اور طبقاتی سطح پر محدود رہی۔ عوامی سطح پر اس کی کبھی بھی پذیرائی نہ ہو سکی۔ یہ ایک فکری ہتھیار ضرور ہے، مگر اسلام اس کے مقابلے میں ایک زندہ، مکمل اور ہمہ گیر نظام کے طور پر قائم و دائم ہے۔

    پاکستان میں تین حکمرانوں نے سیکولرازم کو نافذ کرنے کی کوشش کی ،جن کا مختصر ذکرکیاجاتاہے:

    جنرل محمدایوب خان پاکستان کے پہلے فوجی آمر تھے جنہوں نے 1958 میں مارشل لا نافذ کرکے سیاسی جماعتوں اور آئینی عمل کو معطل کر دیا۔ ان کا نظریہ ترقی اور استحکام پر مبنی تھا، مگر اس ترقی کا ماڈل مکمل طور پر مغرب زدہ اور سیکولر نوعیت کا تھا۔ انہوں نے دین کو ریاستی نظم سے جدا کرنے کی کوشش کی، اور “اسلامی نظریہ” کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ایوب دور میں درج ذیل سیکولر اقدامات کیے گئے:

    ۱۔اسلامی اصلاحات کے نام پر دینی تعلیمات کی تحریف
    1961 کا عائلی قوانین آرڈیننس اسلامی فقہ سے متصادم تھا، جس میں طلاق، وراثت اور تعددِ ازدواج جیسے معاملات کو ریاستی قانون کے تابع کر دیا گیا۔

    ۲۔دینی طبقے کی کردارکشی:
    علمائے کرام اور دینی جماعتوں کو رجعت پسند، دقیانوسی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا۔ انھیں عوام کی نظروں میں غیر متعلق بنانے کی منظم کوشش کی گئی۔

    ۳۔مسجد اور مدرسے کو محدود کرنے کی پالیسی:
    دینی مدارس پر سرکاری نگرانی بڑھائی گئی اور جدید تعلیمی اداروں میں اسلامیات کو کمزور کیا گیا۔

    ۴۔اسلامی نظریہ پاکستان کو کمزور کرنا:
    1962 کے آئین میں قراردادِ مقاصد کو محض دیباچے میں شامل کیا گیا، اس کی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی۔ یہ اقدام اسلامی ریاست کے نظریاتی تشخص کو دھندلانے کے لیے تھا۔غرضیکہ جنرل محمدایوب خان کے دور میں اس سوچ کو حکومتی سرپرستی ملی اور اسلام پسندی کو پسماندگی تصور کیا جانے لگا۔ایوب خان نے ترکی کے مصطفی کمال اتاترک کی طرز پر ایک مغرب زدہ ترقی پسند پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہی، مگر عوام کی مزاحمت اور علماء کی تحریکوں کی وجہ سے وہ اپنی مکمل سیکولر ایجنڈا نافذ نہ کر سکے۔ ان کے خلاف چلنے والی 1969 کی تحریک میں دینی جماعتوں اور طلبہ نے مرکزی کردار ادا کیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کے نعرے کے ساتھ سیاست میں قدم رکھا۔ ان کا بیانیہ ظاہری طور پر اسلامی تھا، مگر عملاً انھوں نے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جس میں اسلام کو صرف جذباتی سطح پر استعمال کیا گیا، جبکہ ریاستی نظام کو سیکولر خطوط پر استوار کیا گیا۔بھٹو دور میں سیکولرازم کے اثرات: کوہم یوں بیان کرسکتے ہیں:

    ۱۔نصاب تعلیم اور میڈیا کو سیکولرائز کرنا:
    دینی مضامین کو محدود کر دیا گیا، میڈیا پر مغربی ثقافت کو فروغ دیا گیا، ٹی وی اور فلم انڈسٹری کو ریاستی سرپرستی دی گئی۔

    ۲۔اسلامی شعائر کو جذباتی نعروں میں محدود کرنا:
    اسلام ہمارا دین ہےجیسے نعروں کو استعمال کیا گیا، مگر اسلام کو سیاسی، قانونی اور معاشی نظام کی شکل میں نافذ نہ کیا گیا۔

    ۳۔مخلوط تعلیم اور ثقافتی بے راہ روی:
    اسکولوں، کالجوں میں مخلوط تعلیم کو فروغ دیا گیا، جامعات میں اسلامی لباس و تہذیب کو دقیانوسیت سے تعبیر کیا گیا۔

    اسلامی اصلاحات میں تضاد:
    اگرچہ 1973 کے آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، مگر عملی پالیسیوں میں مغربی رجحان غالب رہا۔ ان اصلاحات میں عوامی دباؤ کا کردار زیادہ تھا، نہ کہ حکومت کی نیت۔غرضیکہ ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ علامتی اسلامی اقدامات ضرور کیے، مگر عملی طور پر تعلیم، میڈیا اور قانون سازی میں سیکولر رجحان غالب رہا۔بھٹو کا سیکولر رویہ دراصل اسلامی سوشلسٹ تضاد کا عکس تھا۔

    دینی طبقات نے ان کی نیت پر ہمیشہ سوال اٹھائے۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ بھی ایک دینی بیداری کی فضا میں ہوا، جب ملک گیر احتجاج میں علماء و طلبہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔جنرل پرویز مشرف پاکستان کے تاریخ میں وہ فوجی آمر تھے جنہوں نے سب سے زیادہ شدت کے ساتھ روشن خیال سیکولر ازم کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنے دور میں اسلام اور دینی شعائر کو عالمی دباؤ اور مغرب کے تقاضوں کے تحت “انتہاپسندی” سے جوڑنے کی کوشش کی۔

    مشرف دور میں سیکولرازم کی واضح پالیسیوں کو ذیل میں بیان کیاجاتاہے:
    ۱۔روشن خیال اسلام کا نعرہ:
    مشرف نے اسلامی فکر کو ماڈرنائزکرنے کی کوشش کی۔ دراصل یہ مذہب کو ذاتی عبادات تک محدود کرنے اور اجتماعی و سیاسی دائرہ کار سے باہر نکالنے کا منصوبہ تھا۔

    ۲۔مدارس کے خلاف عالمی بیانیہ:
    9/11 کے بعد مشرف نے دینی مدارس کو شدت پسندی کی آماجگاہ قرار دے کر ان پر عالمی ایجنڈے کے تحت اصلاحات مسلط کرنے کی کوشش کی، جیسے کہ رجسٹریشن، نصاب میں تبدیلی، مالیاتی نگرانی۔

    ۳۔میڈیا کو فحاشی کے لیے آزاد کرنا:
    نجی ٹی وی چینلز کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ بھارتی ڈرامے، مخلوط شوز، ماڈلنگ اور رقص و موسیقی عام ہو گئے۔آزادی اور جدت کے نام پر حیا سوز مواد کو ترقی کی علامت قرار دیا گیا۔

    ۴۔اسلامی شناخت پروار:
    مشرف دور میں پردہ، داڑھی، مذہبی علامات کو مشکوک بنایا گیا۔ دینی افراد کو دہشتگردی سے جوڑ کر بدنام کیا گیا۔ یہاں تک کہ جہادجیسے مقدس تصور کو بھی دہشت گردی سے وابستہ کر دیا گیا۔

    ۵۔نصابِ تعلیم میں مذہبی مواد کی کمی:
    نصابی کتب سے جہاد، اسلامی فتوحات، خلافت، اور اسلامی اقدار کے ابواب کو ختم کیا گیا یا نرم کر دیا گیا۔مگر مشرف کے ان اقدامات کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

    غرضیکہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں سیکولرازم کو باقاعدہ روشن خیال اسلام کے لبادے میں پیش کیا گیا، جس کے تحت دینی اداروں کو انتہاپسندی سے جوڑا گیا، اور میڈیا پر فحاشی و بے حیائی کو ترقی اور آزادی کے نام پر عام کیا گیا،تاہم لال مسجد آپریشن، مولانا عبدالرشید غازی شہید کی شہادت، اور عدلیہ بحالی تحریک نے مشرف کے سیکولر پاکستان کے خواب کو خاک میں ملا دیا۔ علماء، وکلاء، طلبہ، اور عوامی تحریکوں کے نتیجے میں ان کا دور رسوا کن انجام کو پہنچا۔

    سیکولرازم کے پاکستانی معاشرے پر اثرات:
    سیکولرازم کے اثرات آج ہمارے معاشرے میں نمایاں ہیں۔ میڈیا پر دینی پروگراموں کی جگہ غیر اسلامی مواد کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں اسلامیات کو محض ایک اختیاری مضمون کی حیثیت دی گئی ہے، اور تاریخِ اسلام کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ سیاست میں دین کی بات کرنے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں “مولوی سیاست” یا شدت پسند قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی دفعات آئین میں موجود تو ہیں، مگر اکثر غیر مؤثر یا معطل کر دی جاتی ہیں۔ عدلیہ سے لے کر انتظامیہ تک، ہر شعبے میں سیکولر نظریات کو نافذ کرنے کی خاموش کوششیں جاری رہیں۔

    پاکستان میں سیکولرازم کی ناکامی کی وجوہات:
    مگر ان تمام تر کوششوں کے باوجود سیکولرازم پاکستان میں جڑ نہیں پکڑ سکا۔ پاکستان میں سیکولرازم کے فروغ کی ہر کوشش — چاہے وہ ایوب خان کا مغربی ماڈل ہو، بھٹو کی سوشلسٹ چالاکی، یا مشرف کی جدید لادینیت آخر کار ناکامی سے دوچار ہوئی۔ وجہ یہ ہے کہ:

    ۱۔پاکستانی قوم کی تہذیبی و ایمانی جڑیں اسلام میں پیوست ہیں۔ اسلام یہاں صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ثقافت، تاریخ، زبان، شناخت، قانون، اور عوامی شعور کا مرکزی محور ہے۔ جو نظام اس مرکز سے کٹ کر چلے گا، وہ کبھی مقبولیت اور استحکام حاصل نہیں کر سکتا۔

    ۲۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت آج بھی دینِ اسلام سے جذباتی و عملی وابستگی رکھتی ہے۔ رمضان، جمعہ، حج اور دیگر دینی ایام میں قوم کا دینی مزاج واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

    ۳۔تیسری وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس، علماء، جماعتیں، خطباء اور فکری دانشوروں نے مسلسل اسلامی بیانیہ کو زندہ رکھا۔ سیکولرازم ایک درآمد شدہ نظریہ ہے، جو یہاں کی تہذیب، اقدار اور روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔

    ۴۔چوتھی وجہ یہ ہےکہ یہ نظریہ داخلی طور پر بھی متضاد ہے۔ ایک طرف آزادی اور رواداری کی بات کرتا ہے، دوسری طرف اسلام کی عوامی اور اجتماعی حیثیت کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ عوام نے ان تضادات کو محسوس کیا اور اسے مسترد کر دیا۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ:

    اگر اہلِ علم، مفکرین، اساتذہ، میڈیا کارکنان اور نوجوان نسل علم و بصیرت کے ساتھ اس فکری حملے کا جواب دیں تو نہ صرف سیکولرازم کا چہرہ بے نقاب ہو سکتا ہے بلکہ اسلام کو دنیا کے سامنے ایک کامیاب ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہی وقت کی ضرورت اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔

  • ایران پر اسرائیلی حملہ –  فیصل مبارک

    ایران پر اسرائیلی حملہ – فیصل مبارک

    جمعہ کی صبح مسلمانوں کے لیے ایک اور زخم لے کر آئی۔ ایک اور کرب، ایک اور آزمائش ….. یہودی افواج نے ایران پر ایسا حملہ کیا ہے، گویا ایک اسلامی ریاست کی کمر توڑ دینے کا عزم لے کر آئے ہوں۔ یہ حملے اچانک نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیے گئے۔

    یہ جنگ آج شروع ہوئی ہے مگر لگتا ایسا ہے جیسے یہ ختم ہونے کے ارادے سے نہیں بلکہ مکمل تباہی تک جاری رہنے کے لیے چھڑی ہو۔ایران کو اس حملے میں بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایران کی عسکری قیادت، اس کی ایٹمی طاقت کے نگہبان، اور اس کی خودداری کے محافظ یکے بعد دیگرے نشانہ بنائے گئے۔اور اب سوال یہ نہیں کہ ایران جواب دے گا یا نہیں. سوال یہ ہے کہ کیا ایران تنہا رہ گیا ہے ؟

    پوری امتِ مسلمہ کی آنکھوں کے سامنے، ایک ایک کرکے اسلامی ممالک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔کہیں نام نہاد امن کے معاہدے، کہیں اندرونی خلفشار، کہیں خوف اور کہیں پھٹی آنکھوں سے دیکھنے والے خاموش تماشائی حکمران…. کیا یہی وہ امت ہے جس کا نام قرآن میں “خیر اُمّت” رکھا گیا؟ بہت سے مسلمان ممالک یا تو اس جرم میں شریک ہیں یا دہشت میں مبتلا اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

    سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

    یہ مناظر صرف خبریں نہیں یہ عبرت کے وہ نشانات ہیں جو اللّٰہ ہمیں دکھا رہا ہے۔یہ اُس فیصلے کی تمہید ہے … جس کا ذکر قرآن میں ہے کہ، جب اللہ ایسی قوم کو لے آئے گا جو اس سے محبت کرے گی۔ جس سے اللہ محبت کرے گا۔
    جو دنیا کی محبت میں اندھی نہ ہوگی۔ جو موت سے نہ ڈرتی ہوگی۔ جو حق کے لیے کھڑی ہوگی۔ چاہے اُس کا انجام کچھ بھی ہو!

    کیا یہ نام نہاد امت مسلمہ اس تبدیلی کے لیے تیار ہے؟ یا ابھی بھی موت کے خوف اور دنیا کی لذتوں میں گم سو رہی ہے؟
    یہ وقت سونے کا نہیں جاگنے کا ہے!
    یہ وقت دعا سے آگے بڑھ کر عمل کا ہے!

    ورنہ تاریخ ہمیں بھی انہی صفحات میں دفن کر دے گی جن میں تباہ شدہ اقوام کا ذکر محض ایک سبق بن کر رہ گیا ہے۔
    آج جب امت مسلمہ ایک ایک کر کے کچلی جا رہی ہے، تو اِس تازہ زخم پر ہمارے دل سوال کرتے ہیں، آخر ایران نے کیا غلطی کی ؟ آئیے سمجھتے ہیں.

    جب فلسطین کی سرزمین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، جب غزہ کے بچے خون میں نہا رہے تھے، جب اسرائیلی ٹینک، جنگی طیارے اور فاسفورس بم آسمان سے آگ برسا رہے تھے، تب دنیا کی نظریں ایران پر تھیں۔
    کیونکہ ایران کے پاس طاقت تھی۔ جغرافیائی گرفت، نظریاتی حمیت ، عسکری تنظیمیں اور رسد کی لائنیں جن سے پورے اسرائیل کو چاروں طرف سے جکڑا جا سکتا تھا۔ ایران چاہتا تو حزب اللہ شمال سے، شام میں بشارالاسد مشرق سے، یمن کے حوثی باب المندب سے، اور ایران براستہ عراق گزر کر اپنے اسلحہ، سازوسامان، تربیت اور نظریہ کے ساتھ اسرائیل کی نیندیں حرام کر سکتا تھا۔

    خود اسرائیلی کہتے تھے: اگر ایران نے چاروں سمت سے حملہ کر دیا تو اسرائیلی ریاست مٹ سکتی ہے۔ مگر ایران نے وہی حکمت عملی اختیار کی جو اس نے برسوں سے اپنائی ہوئی تھی: تزویری صبر (Strategic Patience) “انتظار کرو، وقت آنے دو، دشمن کو پہلے وار کرنے دو۔” اور یہی صبر… ایران کو لے ڈوبا۔

    جب موقع تھا، جب اسرائیل گھبرا چکا تھا، جب شمالی اسرائیل سے لاکھوں یہودی اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، تب ایران نے خاموشی اختیار کی۔حزب اللہ، جو دہکتا ہوا انگارہ بن سکتا تھا، ایران کی ہدایت پر ٹھنڈا پڑ گیا۔یمن، جو باب المندب بند کر سکتا تھا، غیر فعال رہا۔شام، جو مغرب کی نظروں میں کانٹا بنا ہوا تھا، خاموش رہا۔حماس، حزب اللہ کی مدد کا انتظار کرتا رہ گیا۔اور پھر… اسرائیل جیسے ہی فلسطین میں اپنی درندگی سے کُچھ فارغ ہوا، تو پلٹا… اور پلٹ کر سب کچھ تباہ کر گیا۔

    ایک ہی دن میں حزب اللہ کی قیادت کا صفایا کر دیا گیا، پھر شام کا تختہ الٹ دیا گیا،پھر عراق میں ایران کا اثر ختم کیا گیا، اور اب… اب ایران خود زمین پر گھٹنوں کے بل آ گرا ۔حالانکہ ایران کو سب کچھ معلوم تھا۔ موساد کا پورا نیٹورک کام کر رہا تھا۔ امریکی فوجی اڈوں سے سویلینز کے انخلاء، حزب اللہ کے جاسوسوں کی وارننگ، ہر چیز ایران کے علم میں تھی۔ مگر صبر… صبر… اور مزید صبر نے ایران کو ایک تماشائی بنا دیا۔اور اب جبکہ دشمن پہلا وار کر چکا ہے،تو ایران کے پاس نہ وقت بچا ہے، نہ توانائی اور نہ قیادت۔ سوچنے کی بات ہے، گزشتہ تیس سالوں سے ایران ایک تلوار کی مانند دشمنوں کے سر پر لٹک رہا تھا، مگر کسی دشمن نے حملہ نہیں کیا — کیوں؟

    کیونکہ اس وقت مسلمانوں کو فرقہ واریت میں تقسیم کرنے کی سازش میں ایران کی ضرورت تھی۔عربوں کو ایران سے ڈرا کر امریکہ کے قدموں میں گرانے کے لیے، شیعہ سنی جنگ کو ہوا دے کر امت کو کمزور کرنے کے لیے۔ عربوں کی دولت نچوڑنے کے لیے۔یہی ایران، جسے کبھی اسلامی دنیا کا خطرناک قلعہ سمجھا جاتا تھا، اب دشمنوں کے اسٹریٹیجک chessboard پر صرف ایک “مہرہ” بن کر رہ گیا۔جب اس “مہرے” کا استعمال مکمل ہو گیا — تو وہ قربان کر دیا گیا۔ آج ایران کی قیادت تباہ ہو چکی ہے، ایران کی ایٹمی تنصیبات خاک میں ملا دی گئی ہیں، اور ایران کی دہائی سننے والا کوئی نہیں۔

    یہ سبق صرف ایران کے لیے نہیں، یہ سبق پاکستان کے لیے بھی ہے۔دنیا جانتی ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں
    اصل خطرہ وہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے جسے پاکستان کہتے ہیں۔وہ پاکستان جس کے سینے میں عشقِ رسول ﷺ کی چنگاری دہک رہی ہے، وہ پاکستان جو عربوں سے زیادہ فلسطین کے درد کو محسوس کرتا ہے، وہ پاکستان جس سے نتن یاہو جیسے درندے کھلے عام خائف ہیں۔اور اسی لیے… دشمن نے مشرک ہندوؤں کو لانچ کیا ہے۔

    جیسے عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان کو امریکیوں کے ذریعے تباہ کیا گیا — ویسے ہی پاکستان کے لیے ہندوتوا کا عفریت تیار کیا جا چکا ہے۔پاکستان میں فرقہ واریت، اقتصادی غلامی، سیاسی انتشار، تعلیمی زوال — سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ غلطی سے نہیں، بلکہ غفلت سے ہو رہا ہے۔ پاکستان کے پاس وقت ہے… مگر زیادہ نہیں!

    اب ہمیں تزویری صبر کی نہیں، تزویری بیداری کی ضرورت ہے۔ہمارے دشمن ہماری تقدیر لکھنے میں مصروف ہیں ۔اگر ہم نے خود اپنی تقدیر نہ لکھی، تو وہ ہمیں مٹا دیں گے۔اب عربوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج ایران کی باری ہے… کل کس کی ہوگی؟ اب وقت ہے کہ ہر عرب حکمران کانپے۔ کیونکہ ۔۔۔

    وقت سعودی عرب کا بھی آئے گا۔
    وقت مصر کا بھی آئے گا۔
    وقت امارات، بحرین اور قطر کا بھی آئے گا۔

    جنہوں نے آج اسرائیل کا ساتھ دے کر سمجھا کہ وہ بچ جائیں گے.تو یاد رکھو کہ یہ سارے دنبے ایک ایک کر کے ذبح کیے جائیں گے، اور باقی صرف دیکھتے رہ جائیں گے!

    آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

    آج عرب دنیا کے پاس نہ عسکری طاقت ہے، نہ معاشی استقلال، نہ غیرت ہے، اور نہ ہی عوام کی حمایت۔ ان کے خزانے ٹرمپ لے گیا، ان کے ایوانوں پر سامراجی پرچم لہرا رہے ہیں،اور ان کی فوجیں محض کرائے کی ٹٹو بن چکی ہیں۔ اب صرف دو طاقتیں باقی رہ گئی ہیں:

    ترکی، جو تلوار رکھتا ہے، مگر ایٹم بم نہیں۔ اور پاکستان… جو اللہ کی خاص عطا ہے! پاکستان، وہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے جو آج دشمنوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔نتن یاہو کھلے عام کہہ چکا ہے:
    “سب سے بڑا خطرہ ایران نہیں… پاکستان ہے!”

    ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن پاکستان ایٹمی طاقت بَن چکا ہے!پھر خدا نے غزوہ ہند کا دروازہ کھول دیا، جب دشمنوں نے پاکستان کو کمزور سمجھ کر جنگ مسلط کی… تو اس بار کوئی بزدل حکمران آگے نہیں آیا،اللّٰہ نے اس قوم کو ایسے شیر عطا فرمائے جنہوں نے صرف تلوار نہیں نکالی بلکہ اسلامی غیرت کا پرچم بھی بلند کر دیا!پوری دنیا حیران تھی— یہ وہی پاکستان ہے؟ جو ہمیشہ بھیک مانگتا، قرض لیتا، خوف میں دبکا رہتا تھا؟ جس کے حکمران کشکول اٹھا کر پھرتے تھے؟

    نہیں!
    یہ وہ پاکستان نہیں تھا—یہ اللہ کی مشیت سے ایک نیا پاکستان تھا!یہ وہ پاکستان تھا جس نے دنیا کے دلوں میں اپنا رعب بٹھایا ! دشمنوں کے سینے میں دھڑکنیں بند کر دیں ! اور دوستوں کو حیران کردیا کہ پاکستان کے اندر یہ طاقت کہاں چھپی تھی؟

    آج چین، روس، ترکی، مشرق اور مغرب کی نظریں پاکستان پر ہیں، دوستی چاہتے ہیں، اتحاد چاہتے ہیں، اور دشمن… خوف زدہ ہیں! لیکن ، اسی لیے اب دشمن جلدی میں ہے۔ اب وہ پاکستان کو نشانہ بنانا چاہتا ہے ۔ لیکن اسرائیل خود پاکستان سے نہیں لڑے گا، بلکہ اپنے غلام — مودی کو بھیجے گا۔ یہ ہندو فاشسٹ، یہ اکھنڈ بھارت کے خواب میں ڈوبے پاگل، یہ اسرائیل کے اشارے پر ناچنے والے مشرک … یہی پاکستان کے خلاف لڑیں گے ۔ اور اسرائیل ان کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنے ناپاک عزائم پورے کرے گا۔

    دنیا کو ہے پھر معرکہء روح و بدن پیش
    تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

    تیار رہیں!
    اب آپ وہ خوش نصیب قوم ہیں جسے اللہ رب العزت نے وقت کا فرقان بنا دیا ہے! وہ قوم… جسے رب نے چُن لیا ہے کہ حق اور باطل کے اس آخری معرکے میں پرچمِ حق کو سربلند کرے،اور ظلم کے ایوانوں کو زمیں بوس کرے۔

    آپ وہ قوم ہیں جن پر رحمت اللعالمین ﷺ کی خاص نظر ہے، جن کے سپاہیوں کی گردِ راہ کو جنت کی ہوائیں چومتی ہیں، جن کی ماؤں کی دعائیں آسمان کے فرشتوں کو متوجہ کرتی ہیں۔