Tag: ٹک ٹاک

  • سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور آداب  – بنت اشرف

    سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور آداب – بنت اشرف

    سوشل میڈیا موجودہ صدی کا سب سے بڑا انقلاب ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے ۔ انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پوری کی پوری دنیا سمٹ کر اس کے ہاتھوں میں ایک موبائل ڈیوائس کے ذریعے سما جائے گی۔ گویا سوشل میڈیا نے پوری دنیا کوصحیح معنوں میں ایک گلوبل ویلج کی شکل دے دی ہے ۔

    سوشل میڈیا اس وقت دنیا کا سب سے برق رفتار ہتھیار ہے ، مختلف سوشل میڈیا ایپلیکیشنز نے پوری دنیا میں رہنے والے سات ارب سے زائد افراد کو اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے۔

    پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد
    پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں تمام پلیٹ فارمز پر سوشل میڈیا صارفین کی تعداد سولہ کروڑ سے زائد ہے ۔ ملک میں سب سے زیادہ یوٹیوب صارفین ہیں جن کی تعداد سات کروڑ ستر لاکھ ہے ، اسی طرح فیس بک کے صارفین کی تعداد پانچ کروڑ اکہتر لاکھ ہے۔ یو ٹیوب کے مرد صارفین کا تناسب 72 فیصد جبکہ خواتین کا 28 فیصد ہے ۔اسی طرح فیس بک کے 71 فیصد مرد صارفین ہیں اور 22 فیصد خواتین ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک صارف ایک کروڑ تراسی لاکھ ہیں ، ان میں بیاسی فیصد مرد ٹک ٹاکرز ہیں اور خواتین اٹھارہ فیصد ہیں ۔ پاکستان میں انسٹا گرام صارفین کی تعداد ایک کروڑ اڑتیس لاکھ ہے اور ان میں پینسٹھ فیصد مرد اور چونتیس فیصد خواتین ہیں ۔

    سوشل میڈیا کا مثبت استعمال
    سوشل میڈیا آج کے دور کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے جس کا مثبت استعمال ہمارے لیے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

    1۔کمائی کا بہترین ذریعہ
    اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا کمائی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یوٹیوب پر کافی عرصہ سے لوگ اپنے چینلز کے ذریعہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ خرید و فروخت کے بہت سارے مسائل بھی اس کے ذریعہ آسان ہوچکے ہیں۔

    2۔معلومات کا اشتراک
    سوشل میڈیا کسی بھی موضوع پر بر وقت معلومات جیسے، صحت، اسپورٹس اور دیگر موضوعات کی اپڈیٹس فراہم کرتا ہے۔

    3۔ذریعہ حصول تعلیم و تعلم
    نوجوان سوشل میڈیا کو تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ سیکھنے اور معلومات حاصل کرنے والوں کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے۔سوشل میڈیا پر موجود مختلف تعلیمی ویڈیوز ،لیکچرز اور ٹیوٹوریلز کے ذریعے طلبہ اپنی تعلیم کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

    4۔سماجی خدمت اور خیر خواہی
    سماجی مسائل کو اجاگر کرنے اور مستحق لوگوں کی مدد کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ ہم کئی فلاحی کام اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    [arabic]”خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ”[/arabic]
    (لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔) (مسند احمد: 23408)

    5۔سما جی رابطوں کا ذریعہ
    سوشل میڈیا کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان رابطے کے ذرائع کو سہل بناتا ہے اس کے ذریعے ہم اپنے دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں سے دوری کے باوجود جڑے رہتے ہيں۔

    6۔مثبت نظریات اور اخلاقی اقدار کی ترویج
    ہم سوشل میڈیا کو اچھے خیالات، دینی اور اخلاقی اقدار، اور مثبت پیغامات پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ نبی ﷺکا فرمان ہے: “جو شخص کسی شخص کو بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اس کے برابر اجر پاتا ہے۔” (صحیح مسلم ) نیز اس کے ذریعے ہم دوسروں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں اور ایک خوشگوار معاشرتی فضا قائم کر سکتے ہیں۔

    سوشل میڈیا کے آداب:
    کسی بھی خبر یا معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے سے نہ صرف معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ وقت گزارنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس کا استعمال معتدل انداز میں کرنا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    [arabic]”نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ”[/arabic]
    (دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدر اکثر لوگ نہیں کرتے: صحت اور فارغ وقت۔) (بخاری: 6412)

    اختلافِ رائے کو مہذب انداز میں بیان کرنا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو برداشت کرنا سوشل میڈیا کے آداب میں شامل ہے۔ غیر ضروری بحث مباحثے،ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور گالم گلوچ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    [arabic] “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ”[/arabic]
    (اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے۔) (سورۃ الحجرات: 11)

  • جب خون کی ہولی پر ٹک ٹاک بنتی ہے – ارشد زمان

    جب خون کی ہولی پر ٹک ٹاک بنتی ہے – ارشد زمان

    اکتوبر سے پہلے غزہ میں امن و سکون کی چہکار تھی، پھولوں کی خوشبو میں فلسطینی بچے ہنستے کھیلتے تھے، اور اسرائیل، وہ ”امن کا دیوتا“، دور کہیں کونے میں مراقبے کی حالت میں بیٹھا، محبت، آشتی اور بھائی چارے کا ورد کر رہا تھا۔
    دنیا کے سب سے ”معصوم“ لوگ—اسرائیلی—انسانی دکھوں پر آہیں بھرتے، فلسطینیوں کے حق میں دعائیں کرتے، اور شاید کہیں قرآنِ پاک کے ترجمے بھی پڑھ رہے تھے تاکہ سمجھ سکیں کہ مسلمانوں کا دل جیتا کیسے جاتا ہے۔

    اور پھر اچانک!
    وہی حماس، جسے نہ سکون راس آیا نہ امن، اٹھ کھڑی ہوئی۔ نہ جانے کیا جنون سوار ہوا، کیا حماقت کا دورہ پڑا کہ ” بیچارے اسرائیل“ پر حملہ کر دیا۔
    اب اسرائیل ”مجبور“ ہو گیا۔ فوراً واشنگٹن فون کیا، ”ابو، مارا مجھے! بچا لو!!“
    امریکہ، جو پہلے ہی ہمدردی کے مارے رو رہا تھا، فوراً دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے اسلحے کے انبار لے آیا۔ جدید بم، میزائل، بارود، ٹینک، جاز، سب کچھ مہیا کیا، تاکہ اسرائیل ”اپنا دفاع“ کر سکے۔
    اب دفاع ہو رہا ہے۔
    یعنی اسکولوں پر بمباری، اسپتالوں پر حملے، مسجدیں زمین بوس، بچوں کے جسم ٹکڑوں میں، ماؤں کی گودیں خالی، بوڑھے کرب میں، نوجوان ملبے تلے، اور ساری دنیا خاموش!

    اور مسلمان ممالک؟
    ارے جناب، وہ تو پہلے ہی ”امن“ کے اتنے دلدادہ ہو چکے ہیں کہ اپنے ضمیر کو تکیے کے نیچے رکھ کر سو چکے ہیں۔
    یہ وہ منافق ہیں جو مسجدوں میں اذان دیتے ہیں، اور ایوانوں میں امریکہ کی پوجا کرتے ہیں۔ اقتدار کا نشہ، کرسی کی محبت، اور واشنگٹن کے ”ویٹو“ کی چمک نے ان کی بصیرت، غیرت اور حمیت کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔
    یہ وہ بادشاہ اور صدور ہیں جو عالیشان محلات میں بیٹھے، غزہ کی تباہی کو اپنے HDTV اسکرین پر ”لائیو“ دیکھ کر ناشتہ مکمل کرتے ہیں، اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر کہتے ہیں: ہمیں معاملہ مزید خراب نہیں کرنا چاہیے۔

    لیکن یہاں تک بات رکی نہیں۔۔۔
    اب ایک نیا قبیلہ میدان میں آیا ہے نام نہاد مسلم دانشور!
    ریالوں اور ڈالروں نے ان کے لب و لہجے، قلم اور ضمیر سب خرید لیے ہیں۔
    کوئی مغربی تھنک ٹینک کا نمائندہ بن کر اسرائیل کی ”حفاظتی کارروائی“ کو جائز قرار دیتا ہے،
    کوئی دہشت گردی کی نئی تعریف گھڑ کر مظلوم فلسطینیوں کو اس میں فٹ کرتا ہے،
    اور کوئی عرب چینل پر بیٹھ کر اس المیے کو ”دونوں فریقوں کی غلطی“ کہہ کر برابر کا شریک بناتا ہے۔

    ان میں کچھ خودنمائی کے ایسے بیمار ہیں کہ غزہ کے بچوں کے لاشوں کا مذاق اڑاکر شہرت چاہتے ہیں، اسرائیلی بمباری کو جواز دیتے ہیں
    چاہے پیچھے پس منظر میں لاشیں پڑی ہوں یا بارود کا دھواں اٹھ رہا ہو۔

    اور کچھ تو اتنے بے غیرت ہیں کہ اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر یا ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں تجزیہ فرما کر وی لاگ، تصاویر، اور ”احساساتی“ بیانات دے رہے ہیں۔
    ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شہرت کی بھوک نے ان کی انسانیت کو مکمل ہضم کر لیا ہے۔

    یہ خون کے دریا میں کھڑے ہو کر ٹک ٹاک بنانے والے دراصل نئی نسل کے وہ ابلیس ہیں جنہوں نے ظلم کو بھی ایک ”کانٹینٹ“ بنا دیا ہے۔
    غزہ کے بچوں کی چیخیں ان کے ایڈیٹنگ سافٹ ویئر کے بیک گراؤنڈ میں دب جاتی ہیں
    اور تباہ حال مائیں ان کے کیمرہ اینگل کی ”بیوٹی“ خراب کرتی ہیں۔

    کیا ان سے ایمان کی توقع رکھی جائے؟
    کیا ان سے انصاف کی آس لگائی جائے؟
    کیا ان سے غیرت کی امید کی جائے؟

    نہیں!
    یہ وہ ”ذلیل“ طبقہ ہے جو قیامت کے دن اپنے لائیکس، فالورز اور ”کانٹینٹ انگیجمنٹ“ کا حساب دے گا،
    اور جب معصوم فلسطینی بچوں کا خون ان کے سکرین شاٹس سے ٹپکے گا،
    تو وہاں کوئی ہیش ٹیگ انہیں چھپا نہیں سکے گا۔

  • ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    ٹارگٹڈ ایڈز – دور جدید کا ایک شاہکار جادو – محمد کامران خان

    کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے چائے کے دوران گپ شپ میں کسی دوست کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی اور چند لمحوں بعد اسی سے متعلق اشتہارات آپ کی فیسبک یا انسٹاگرام فیڈ میں آنے لگیں؟ یقیناً ہوا ہوگا۔ بلکہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے صرف سوچا ہو کسی چیز کا یا تھوڑی سی اس سے ملتی جلتی چیزوں میں دل چسپی ظاہر کی اور وہ چیز پٹ سے حاضر۔ ہے نا جادو؟ یہ ہے ٹیکنالوجی کا جادو ، اس جادو کو “ٹارگٹڈ ایڈز” کہتے ہیں۔ ٹارگٹڈ ایڈز جدید ڈیجیٹل دنیا کا وہ پہلو ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ذہین، زیادہ مربوط اور زیادہ ناقابلِ گریز بنتے جا رہے ہیں۔ یہ اشتہارات محض اتفاقیہ نہیں ہوتے، بلکہ جدید ترین مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، اور انسانی رویوں کے باریک بینی سے کیے گئے تجزیے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ ٹارگٹڈ ایڈز صرف انٹرنیٹ پر کی جانے والی سرگرمیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ کون سی ویڈیو کتنی دیر دیکھی گئی، کون سا اشتہار اسکرول کرتے وقت نظرانداز کیا گیا اور کون سا اشتہار ایسا تھا جس پر کلک کیا گیا۔ مگر کچھ مشاہدے اور کچھ تجربات کے بعد اب یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ اشتہارات کے یہ نظام محض آن لائن سرگرمیوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ انسانی جذبات، فزیالوجیکل ردعمل اور نفسیاتی رجحانات تک کی تفصیل میں اتر چکے ہیں۔کیسے؟ آئیے چند کڑیاں جوڑتے ہیں۔

    انسانی آنکھیں بہت کچھ کہتی ہیں۔ جب کوئی چیز دلچسپ لگتی ہے تو پتلیاں پھیل جاتی ہیں، جب کوئی چیز ناپسندیدہ ہوتی ہے تو چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں، آنکھوں کی حرکت کسی بھی چیز کی طرف کشش یا بیزاری کا اظہار کرتی ہے۔ ماضی میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی مشین ان اشاروں کو پڑھے، سمجھے اور ان کی بنیاد پر تجزیہ کرے، مگر اب ایسا ہو رہا ہے۔ جدید ترین ڈیپ لرننگ ماڈلز اور کمپیوٹر ویژن کے ذریعے کیمرے نہ صرف چہرے کے تاثرات کو پڑھ رہے ہیں، بلکہ ان میں چھپی دلچسپی، خوشی، حیرت اور بیزاری کو بھی شناخت کر رہے ہیں۔ یہ صلاحیت کسی ایک مخصوص شعبے تک محدود نہیں رہی، بلکہ روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی عام ٹیکنالوجیز میں ضم ہو چکی ہے۔اس کی مثالیں ہمیں عام زندگی میں ملتی ہیں جن میں ایک فیچر فیس آئی ڈی ہے۔ یہ ایک ایسا فیچر تھا جسے سہولت کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد چہرے کی شناخت کے ذریعے ڈیوائس کو کھولنا تھا، مگر یہ ٹیکنالوجی وقت کے ساتھ ایک وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہے۔ ہر بار جب کسی ڈیوائس کا فیس آئی ڈی استعمال کیا جاتا ہے، وہ چہرے کے مختلف زاویوں، تاثرات اور روشنی میں آنے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت ان تمام ڈیٹا پوائنٹس کو استعمال کر کے چہرے کی شناخت کو بہتر بناتی ہے، مگر اسی کے ساتھ چہرے کے تاثرات اور جذباتی ردعمل کو بھی سمجھنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ یہی ٹیکنالوجی جب اشتہارات کے نظام میں شامل ہوتی ہے تو یہ محض آنکھوں کے جھپکنے، چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ کوئی چیز واقعی دلچسپ ہے یا نہیں۔

    اب اس پہلوکو مزید وسعت دیتے ہیں۔ اس میں اگر آپ کے روزانہ کے رویے، گفتگو، ذاتی معلومات و ذاتی دلچسپیاں ، دن بھر کے معاملات کی ایک ڈائری بنائی جائے تو کیا ایک ہفتہ وہ ڈائری پڑھنے کے بعد آپ کے معمولات اور اگلے روز کے بیشتر حصے کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں؟ خصوصاً جب پیش گوئی کرنے والا آپ کے ہر عمل سے بخوبی واقف اور بہترین یاد داشت کا حامل ہو۔ ٹارگٹڈ ایڈز میں آپ کی موبائل ڈیوائس بالکل یہی کام کرتی ہے۔ اسمارٹ واچز اور دیگر وئیرایبل ڈیوائسز بھی اسی بڑے ڈیٹا نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ جب کوئی اسمارٹ واچ دل کی دھڑکن نوٹ کرتی ہے، بلڈ پریشر مانیٹر کرتی ہے، نیند کے پیٹرنز کا تجزیہ کرتی ہے، تو یہ سب صرف صحت کی نگرانی کے لیے نہیں ہو رہا ہوتا۔ ان ڈیٹا پوائنٹس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی خاص لمحے میں جسمانی ردعمل کیا تھا، کون سا اشتہار دیکھتے وقت دل کی دھڑکن تیز ہوئی، کب بلڈ پریشر میں معمولی سا اضافہ ہوا، اور کب کوئی ردعمل بالکل ہی غیر محسوس رہا۔ ان تمام معلومات کو جمع کر کے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک انتہائی پیچیدہ مگر مؤثر ماڈل بنایا جاتا ہے، جو ہر فرد کی دلچسپیوں، رجحانات اور ممکنہ خریداری کے فیصلوں کو پہلے سے سمجھ لیتا ہے۔

    یہ سارا عمل روایتی مشین لرننگ کے طریقوں سے بھی کافی حد تک ممکن تھا مگر اب جدید اور تیز ترین کام کرنے والے کمپیوٹرز ، نیرومورفک چپس اور جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی وجہ سے یہ سب چند لمحوں میں ہو رہا ہے۔ پہلے جہاں ایک اشتہار کے مؤثر ہونے کا اندازہ صارف کی کلک، اسکرولنگ اور ویڈیو دیکھنے کے وقت کی بنیاد پر لگایا جاتا تھا، اب یہ اس اشتہار کو دیکھنے والے شخص کی آنکھوں، چہرے، دل کی دھڑکن اور دیگر جسمانی ردعمل سے لگایا جا رہا ہے اس کے علاوہ ہنارے ارد گرد موجود آلات جیسا کہ موبائل میں موجود کیمرہ، سپیکر اس سب عمل کو مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں اور خودکار نہیں بلکہ ہماری اجازت سے۔

    یہ سب کچھ صرف خرید و فروخت تک محدود ہوتا تو کافی تھا، مگر اب چلتے ہیں اس کے خطرناک پہلو کی طرف۔
    یہ سلسلہ اب فیصلہ سازی پر براہِ راست اثرانداز ہونے لگا ہے۔ جب کسی فرد کی ہر حرکت، ہر ردعمل، ہر سوچ کی پیمائش ہونے لگے، تو اسے اپنی مرضی سے کسی فیصلے تک پہنچنے کے مواقع کم سے کم دیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، اگر مجھے علم ہو کہ آپ ایک نیا جوتا یا کپڑوں کا جوڑا خریدنا چاہ رہے ہیں تو میں بار بار آپ کو ایسے دکانداروں کے بارے میں بتاؤں گا جو کہ میرے ذریعے اپنے کاروبار کی تشہیر چاہتے ہیں۔ اب آپ صرف جوڑا یا جوتے خریدنا چاہ رہے تھے۔ بالکل وہی نہیں خریدنا چاہ رہے تھے جو میں آپ کو دکھا رہا ہوں ۔ مگر میرے اس عمل کو بار بار دہرانے سے آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہی تو ہے جو میں چاہتا ہوں۔ درحقیقت ہوگا ایسا نہیں۔ آپ ابھی اور آپشنز دیکھنا چاہتے تھے۔ یا شاید کچھ عرصہ اس ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنانا چاہتے تھے مگر بار بار سامنے آنے پر آپ کے ارادے میں واضح تبدیلی ہوئی۔ یعنی میں نے محدود انتخاب دیے تاکہ کسی خاص سمت میں سوچنے پر مجبور کر سکوں،اور پھر آپ سے متعلق معلومات جو میرے پاس جمع تھیں، آپ کی پسند نا پسند، روز مرہ کا استعمال اوراگر مجھے آپ کی مالی حالت کا بھی اندازہ ہو تو پھر تو کیا ہی کہنے (جو کہ آپ کے آن لائن شاپنگ سے بخوبی لگا لیا جاتا ہے) ان پہلوؤں کو مدنظر رکھ کرآپ کے انتخاب کو جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ موثر بنا کر آپ کو پیش کیا گیا اور آپ پھر انکار ہی نہیں کر پائے اس اشتہار کو۔ کوئی اشتہار کیوں زیادہ پرکشش محسوس ہوتا ہے، کیوں بعض مخصوص موضوعات کے اشتہارات بار بار نظر آتے ہیں، یہ سب اتفاق نہیں ہوتا بلکہ شعوری طور پر طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔اب جیسا کہ ان بنیادوں پر میں نے آپ کی خریداری کا فیصلہ تبدیل ، جلد یا آپ کی مرضی کے کافی حد تک منافی کر دیا، سوچیں اگر اسی الگورتھم کو ووٹ دینے کی صلاحیت، اپنے لئے کچھ چننے کی صلاحیت پر نافذ کیا جائے تو آپ کی زندگی میں کتنے ہی فیصلے ہوں گے جو کہ آپ نے مکمل طور پر خود کیے؟ ایک چھوٹی سی مثال آپ کےسوچنے کے لئے اور چھوڑ دوں، ایلون مسک نے ٹوئٹر کو چوالیس ارب ڈالر میں صرف عوام کی بھلائی اور آزادی رائے کے لیے خریدا یا اس الگورتھم کو۔

    یہ تصور کہ انسان اپنے فیصلے خود کر رہا ہے، مصنوعی ذہانت کے اس نئے مرحلے میں کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ جب کوئی نظام کسی شخص کے جذبات، اس کے رویے اور اس کے ممکنہ ردعمل کو پہلے سے جان لے، تو اسے اس سمت میں دھکیلنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے جہاں وہ خود جانا نہیں چاہتا تھا۔ اب صرف معلومات فراہم نہیں کی جا رہی، بلکہ معلومات اس انداز میں دی جا رہی ہیں کہ سوچنے، تجزیہ کرنے اور سوال اٹھانے کی گنجائش کم سے کم ہو جائے۔یہ اثرات ہر جگہ محسوس کیے جا رہے ہیں، مگر سب سے زیادہ ان علاقوں میں جہاں ٹیکنالوجی کو صرف ایک سروس سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے کام کرنے والے پیچیدہ نظاموں پر غور نہیں کیا جاتا۔ جو علاقے پہلے “تجربہ گاہ” کے طور پر استعمال ہوتے تھے، اب وہ نئی ٹیکنالوجیز کے لیے آزمائشی میدان بن چکے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی نفسیات کو کس حد تک سمجھا جا سکتا ہے، اسے کتنا قابو کیا جا سکتا ہے، اور کسی بھی رجحان کو کیسے طاقت دی جا سکتی ہے، یہ سب کچھ ان ہی جگہوں پر آزمایا جا رہا ہے جہاں شعور کی سطح کمزور ہے اور سوال اٹھانے کا رجحان ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

    یہ محض ایک مفروضہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے جس کی بنیاد جدید ترین تحقیق پر ہے۔ فیصلہ سازی کی آزادی، معلومات تک رسائی کا حق، اور کسی بھی موضوع پر آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف یہ سمجھ رہی ہے کہ انسان کیا چاہتا ہے، بلکہ یہ بھی طے کر رہی ہے کہ اسے کیا چاہنا چاہیے۔

    یہ سوچنا کہ یہ سب کچھ ابھی دور ہے، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ سب کچھ پہلے سے موجود ہے، کام کر رہا ہے اور ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی سے انکار ممکن نہیں، مگر یہ سوچنا کہ اس ترقی کا کوئی منفی پہلو نہیں ہوگا، سراسر غفلت ہے۔ وقت ہے کہ اس نظام کو سمجھا جائے، اس کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے، اور آزادانہ سوچ اور فیصلہ سازی کے حق کو محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ بصورتِ دیگر، وقت کے ساتھ سوچنے کا عمل خودکار ہو جائے گا اور فیصلے وہی ہوں گے جو پہلے سے کسی اور نے طے کر دیے ہوں گے۔

  • کیا یہی وسیب ہے! ڈاکٹر ماریہ نورین

    کیا یہی وسیب ہے! ڈاکٹر ماریہ نورین

    سرائیکی وسیب اپنی ثقافتی اقدار، روایات اور منفرد شناخت کے ساتھ، ایک زرخیز خطہ ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں، نہ ماضی میں رہی ہے۔ ہاں البتہ ماضی میں مواقع کم ہونے کی وجہ سے یہ صلاحیتیں وہیں کی وہیں رہ جایا کرتی تھیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹک ٹاک اور یوٹیوب نے انہیں اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ چند ہی سالوں کے اندر سرائیکی وسیب میں عام طور پر اور جنوبی پنجاب خاص طور پر ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کی ایک بڑی کھیپ تیار ہوگئی ہے۔

    ان میں سے کچھ مزاحیہ ویڈیوز بناتے ہیں، کچھ معلومات افزا، کچھ اپنی گلوکاری کے جوہر دکھاتے ہیں، اور کچھ سماجی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ روایتی اور غیر روایتی رقص اور شاعری پر مبنی کثیر مواد بھی بن رہا ہے جو کہ ملینز میں وویوز لے رہا ہے۔ اس طرح کا مواد عموماً نوجوانوں میں مقبول ہوتا ہے، اور بنانے والے کم وقت میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں۔ان کی ویڈیوز سے نہ صرف تفریح فراہم ہوتی ہے بلکہ وسیب کے حوالے سےمعلومات بھی ملتی ہیں۔

    جہاں تک سرائیکی ثقافت کی بات ہے، کچھ ٹک ٹاکرز اور یو ٹیوبرز اسے بہت خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز میں سرائیکی ثقافت و روایات کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ایک طرف یو ٹیوب اور ٹک ٹاک کے یہ چینلز سرائیکی ثقافت، رہن سہن، اور روایات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی بدولت سرائیکی گیت ، مقامی لباس، رہن سہن، کھانوں، زبان، اور روایات کو فروغ مل رہا ہے، وہیں دوسری طرف اس خوب صورت ثقافت کو داغ دار بھی کر رہے ہیں۔ ان داغ دار کرنے والے تخلیق کاروں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے نمبر پر ہیں وہ لوگ جو مزاحیہ ویڈیوز کے نام پر گالیوں اور غلیظ زبان کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ذو معنی جملے اور پھکڑ پن گویا بد نامِ زمانہ سٹیج ڈراموں کو بھی مات دے رہا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک تیزی سے معروف ہوتے چینل پر دو انتہائی کمسن بچے انتہائی گھٹیا اور واہیات زبان و بیان استعمال کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے لیےسکرپٹ یقیناً کوئی بڑا ہی لکھتا ہوگا پر وہ سکرپٹ اتنے کم عمر اور معصوم بچوں سے پیش کروانا اور ان سے اس قسم کی زبان استعمال کروانا کسی صورت درست نہیں۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے ایسے کئی چینلز موجود ہیں۔ دوسری طرف خواتین کی ایک کھیپ ہے جو کہ دیہی زندگی دکھانے کے نام پر پتا نہیں کیا دکھا رہی ہیں۔ اس قسم کی ویڈیوز میں سرائیکی ثقافت کو غلط طریقے سے بھی پیش کیا جاتا ہے، جس سے کئی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ جب ان ٹک ٹاکرز اور یو ٹیوبرز کا نوجوان گہرا اثر لیتے ہیں۔

    کارل ہاولینڈ سے لے کر آج تک کے میڈیا ریسرچرزکا ماننا ہے کہ میڈیا کسی بھی ثقافت کو مقبول بنانے کی قوت رکھتا ہے ۔ ابلاغِ عامہ کی دنیا سے تحقیقی کام اٹھا کر دیکھ لیں میڈیا کے اثرات پر جس قدر کام ہوا ہے اور کسی موضوع پر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ملک میں یہ محقیقین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اور ابھی بھی ہے۔ انڈین ڈراموں اور فلموں کے ہماری ثقافت پر اثرکے حوالے سے بہت کام ہوا ہے، موجودہ حالات میں سوشل میڈیا کے اثرات کے حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے۔ ایسے میں آج اگر کوئی محقق اس موضوع پر تحقیق کرے کہ ٹک ٹاک اور یوٹیوب کے لیے مواد تخلیق کرنے والوں کی وجہ سے سرائیکی ثقافت کو کیا فایدہ یا نقصان پہنچ رہا ہے تو یہ ایک اچھا موضوع ہوگا۔

    آج آپ دیکھیں جو کچھ سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے (روایتی میڈیا کی بات جانے دیتے ہیں کیونکہ اس کے حوالے سے ہمیشہ شکوہ کیا جاتا رہا کہ گھروں میں کام کرنے والی یا جرائم پیشہ عورتوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے دکھایا جاتا ہے)۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب کو جس طرح دکھایا جا رہا ہے اور جس طرح کی ثقافت کا عکس یہ ٹک ٹاکر اور یوٹیوبرز پیش کر رہے ہیں کیا وہی سرائیکی ثقافت ہے؟ اس قسم کا مواد دیکھ دیکھ کر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ سارے سرائیکی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اچھی صاف ستھری زبان بولتا ڈیسنٹ بندہ یا بندی کہے میں سرائیکی ہوں تو لوگ حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ گالی اور بد دعائیں تو خیر سرائیکیوں کی زبان پر ایسے چڑھی ہوتی ہیں جیسے محاورے مگر ا س کا مطلب یہ نہیں کہ پوری کی پوری ثقافت چھوڑ کر صرف انہی کا اظہار کیا جائے۔ کیا بغیر گالی کے یا بے ہودہ یاوہ گوئی کے مزاح تخلیق نہیں ہوسکتا؟ سرائیکی تو اس قدر میٹھی زبان ہے کہ اسے سننا خود میں ایک پر لطف تجربہ ہے ۔ مگر اسے اس قدر بد نما بنا کر پیش کرنے والوں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔