Tag: نیلی آنکھیں

  • نیلی آنکھوں کے ساتھ لال آنکھیں بھی دیکھیں – عاطف نعیم

    نیلی آنکھوں کے ساتھ لال آنکھیں بھی دیکھیں – عاطف نعیم

    عاطف نعیم کافی دنوں سے الیکٹرانک وسوشل میڈیا کی ویب سائٹس، ارشد خان چائے والا کے نام سے بھری پڑی ہیں۔میں نے خود کو سنبھال کر رکھا کہ کچھ نہ لکھوں۔ مگر کیا کرتا، حالات ایسے بنے کہ میں چپ نہیں رہ سکتا تھا۔ سوشل میڈیا بھی کیا عجیب ہے جو ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔جیسے اٹھارہ سالہ نیلی آنکھوں والا نوجوان ارشد خان ہے۔
    ارشد-خان-چائے-والا چائے تو بہت بناتے ہیں مگر ارشد خان چائے والے کو پذیرائی اُس وقت ملی جب ایک فی میل فوٹو گرافر جویریہ نے اِس کی تصویر کو سوشل میڈیا پر آن کیا۔ تب ہر کوئی ارشد خان کی تصویر کو لائک کرنے لگا اورساتھ ہی ساتھ اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے فارورڈ بھی کرنے لگا۔دماغ کی پتلی لڑکیاں بے ہودہ قسم کے کُمینٹس بھی کرنے لگیں۔ کُمینٹس ملاحظہ کیجئے۔۔ظالما سانوں چائے پلادے۔۔۔کیا تمہارے اور بھی بھائی سُندر ہیں۔۔۔میں تمہیں ڈھونڈو گی اور ایک کپ چائے پیوں گی۔اسی طرح کے اور بھی۔
    %da%86%d8%a7%d8%a6%db%92-%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7%d8%a2%d9%86%da%a9%da%be%db%8c%da%ba
    کیا اِن کو ایسی باتیں زیب دیتی ہیں کہ اس کو خوابوں کا شہزادہ ٹھہرائیں اور شادی تک کی پیشکش کر ڈالیں،اس کےساتھ سیلفیاں بنائیں، تصاویر کھینچاؤئیں، یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک جھلک ہے۔
    %d8%b3%d9%86%d8%af%d8%b1
    دوسری طرف حالات تو ایسے ہیں کہ ہماری شہ رگ، جنت نظیر وادی کشمیر میں معصوم بچوں، مردوں اور عورتوں کا قتلِ عام جاری ہے اور تو اور شام اور فلسطین میں مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں ۔ کیا کبھی اُن کشمیری معصوموں کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پذیرائی دی، جن کی آنکھیں لہو سےلال ظلم و بربریت کی وضع داستاں سُنا رہی تھیں۔نہیں نا۔۔؟ شاید اس لیے کہ وہ آنکھیں نیلی کی بجائے لال تھیں۔ کیا کبھی اُن کو پذیرائی ملی جن کی عید بھی گزری کرفیو کرفیو ۔ نہیں نا ۔۔؟ تو پھر کیا خوب ہوتا کہ ہم سوشل میڈیا میں اُن کشمیری بچوں کی تصویریں وائرل کرتے جن کی آنکھیں بھارتی گن شروں کی وجہ سے لال تھیں۔
    %d9%84%d8%a7%d9%84-%d8%a2%d9%86%da%a9%da%be%db%8c%da%ba
    %d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86%db%8c
    اور کمینٹس میں لکھتے۔
    ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ بھارتی ظالموں ظلم بند کرو۔۔۔ننھے کشمیری جنید شہید سے پوچھتے کہ کیا تیرے اور بھی سُندر اور بہادر بھائی ہیں جو آزادی کی خاطر اپنی جان کا سودا کرنے کو تیار میں۔۔۔ بھارتی ظالموں کو کہتے کہ ہم تمہیں ڈھونڈیں گے اور ایک کپ چائے کی بجائے تمہیں زہر کا پیالہ پلائیں گے۔
    افسوس کہ ہماری نوجوان نسل کس ڈگر پر نکل پڑی ہے۔آخر کب تک ہم مغربی ہتھکندوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔

  • وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں – آصف محمود

    وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں – آصف محمود

    آصف محمود چائے والے ایک پشتون کی تصویر زیر بحث ہے اور اب میڈیا میں اس کی نیلی آنکھوں پر غزلیں کہی جا رہی ہیں۔ ہردفعہ جب اس کی وجاہت اور خوبصورتی پر کوئی مصرعہ اٹھاتا ہے، میرے اندر کچھ ٹوٹ سا جاتا ہے اور ایک آواز لہو رلا دیتی ہے: ’ زماں کونترے زماں کونترے‘۔
    یہ اسلام آباد کا ڈی چوک تھا۔ ڈرون حملوں کے متاثرین نے یہاں ایک کیمپ لگا رکھا تھا۔ میں اس کیمپ سے اپنا ٹاک شو ریکارڈ کرنے وہاں پہنچا تو ایک گاڑی سے محمد علی درانی نکلے اور اظہارِ یک جہتی کے لیے ان بچوں کے بوسے لینے لگ گئے جن کے جسمانی اعضاء ڈرون حملوں میں ضائع ہو چکے تھے۔ میں نے ایک بچے سے، جس کی دونوں ٹانگیں اور ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی، پوچھا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں نے وزیرستان کے عبدالکریم سے کہا کہ اس بچے کو بتاؤ کہ یہ مولوی صاحب پرویز مشرف کے وزیر تھے۔ درانی صاحب کی التجائیہ نظروں کے باوجود عبدالکریم نے پشتو میں بچے کو ساری صورت حال بتا دی۔ اس بچے نے جو جوب دیا وہ سن کر ہم سکتے کے عالم میں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بچے نے کہا:
    ”میں انہیں کسی اسلامی جماعت کا رہنما سمجھ رہا تھا، یہ مشرف کے وزیر نکلے، لیکن کوئی بات نہیں، یہاں یہ ہمارے مہمان ہیں۔“
    میں نے بہت سے لوگوں سے پختونوں کی مہمان نوازی کا سن رکھا تھا لیکن یہ اتنے زیادہ اعلی ظرف کے حامل ہوں گے، اس کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آپ ذرا تصور کر کے دیکھیے ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ، جس کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی ہوں، ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہو، اتنی اعلی قدروں کا مظاہرہ کرے۔ میں کتنی ہی دیر حیرت سے اسے تکتا رہا۔
    درانی چلے گئے تو میں نے ریکارڈنگ شروع کر دی۔ ریکارڈنگ کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی بچی مسلسل بولے چلے جا رہی تھی۔ وہ عبد الکریم کی قمیض پکڑ کر کھینچتی اور کہتی ”ذماں کونترے ذماں کونترے“۔ میں نے کیمپ کے مہتمم اور مترجم عبدالکریم سے پوچھا یہ بچی کیا کہنا چاہ رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک ڈرون حملے میں اس کے مکان کا ایک حصہ جزوی طور پر تباہ ہو گیا ہے۔اس حصے میں انہوں نے کبوتر رکھے ہوئے تھے وہ سب مر گئے۔اس لئے یہ مجھے کہہ رہی ہے کہ آپ کو بتاﺅں کہ اس کے کبوتر بھی مار دیے گئے۔’زماں کونترے زماں کونترے‘( میرے کبوتر، میرے کبوتر)۔ میں نے اس معصوم سی بیٹی کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اسے اردا نہیں آتی تھی اور میں پشتو نہیں جانتا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں بول رہی تھیں اور میں آنکھوں کے سارے شکوے سمجھ رہا تھا۔ مجھے عباس تابش یاد آ گئے؛
    ”اس کو کیا حق ہے یہاں بارود کی بارش کرے
    اس کو کیا حق ہے مرے رنگلے کبوتر مار دے“
    پروگرام تو ختم ہو گیا لیکن ایک عرصہ اس بچی کی آواز میرے کانوں میں گونجتی رہی”زماں کونترے ، زماں کونترے“۔
    مجھے صرف اتنا کہنا ہے ، اس بچی کی معصوم آنکھیں بھی بہت نیلی تھیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں، جس بچے کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں، اس کی آنکھ میں جھیلوں کے عکس تھے، پشتونوں کے خوبصورت بچے اور کسی پری دیس سے اتری دیومالائی کشش والی کتنی ہی معصوم بیٹیاں ڈرون حملوں میں مار دی گئیں۔ کیا کوئی جانتا ہے ان میں سے کتنی آنکھیں جھیلوں جیسی گہری اور آسمان جیسی نیلگوں تھیں، کتنی پلکوں میں قوس قزح کے رنگ تھے، کتنے معصوم اس حال میں مار دیے گئے کہ ان کے ہونٹوں سے ماں کے دودھ کی خوشبو بھی، ابھی جدا نہیں ہوئی تھی۔
    نیلی آنکھوں کے بچاریو! کبھی اس قتل گاہ میں بند ہونے والی معصوم آنکھوں کو بھی دیکھنا، وہ آنکھیں بھی نیلی تھیں۔

  • چائے والا – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    چائے والا – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا. رات کے روٹی کے بچے ٹکڑے صبح کالی چائے میں بھگو کر پیٹ کے جہنم میں ڈالتا اور باہر گلی میں اپنے جیسے بچوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلنے نکل جاتا. بےفکری کا دور تھا، پر لگا کر اڑ گیا. ہاتھ پیر چلنے کے قابل ہوئے تو چھوٹے لڑکے کو بڑا بھائی ایک چائے کے ڈھابے میں چھوٹا بھرتی کروا آیا.
    اب روز صبح کام پر جاتا تو ماں اس کی بلائیں لیتی اور بہنیں نظر اتارا کرتیں اور یہ دل ہی دل میں تلخ ہنسی ہنستا لیکن بظاہر پرسکون رہتا. جب ماں میرا چاند کہہ کر کالا ٹیکا لگاتی تو اس کی نظر اپنے لباس کے داغوں پر پڑتی. جسے اس کی بوڑھی ماں بےحد محنت سے بےداغ رکھنے کی کوشش کیا کرتی. جب بہنیں شہزادہ بھائی پکارتیں تو یہ ہنس کر انہیں ٹالتا اپنی ٹوٹی چپل گھسیٹتا ڈھابے پر جا پہنچتا.
    آنے جانے والے گاہک آواز لگاتے اوئے ارشد اوئے چھوٹے اور چھوٹا ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے آڈر بھگتاتا رہتا. اب یہ چھوٹا چند روپےگھر لے کر جاتا اور گاہکوں کی بچی دودھ پتی پیتا تھا، اس لیے گھر کا بڑا بنتا جا رہا تھا، ایک دن ایک صاحب نظر گاہک کو چھوٹے کے حسن نے متاثر کیا تو اس نے اونچی آواز میں اسے چھوٹے کے بجائے ”اوئے پیارے“ کہہ کر پکارا. اس دن سے چھوٹے کی ترقی پیارے پر ہوگئی. جب کبھی ڈھابے کا چائے والا کسی حاجت سے اپنی گدی چھوڑتا تو عارضی طور پر چائے کا پوا چھوٹے کے ہاتھ میں پکڑا دیتا، یوں چائے کی دھاریں کھینچے کھینچے پیارا چائے کے عمدہ رنگ اور ذائقے سے نہ صرف واقف ہوگیا بلکہ عمدگی سے چائے بنانے پر قادر بھی ہو گیا. جب وہ چائے کی کیتلی میں پوئے سے دھار گراتا یا چائے کی پونی کیتلی میں ہلاتا تو لگتا اپالو اپنی نگری میں سحر طراز ہے. یوں پیارا کبھی کبھار چائے بنانے لگا.
    ایک روز مالک نے اسے چائے بناتے دیکھا تو اس کی چائے پھینٹنے کی مہارت دیکھ کر پرانے چائے والے کو چلتا کیا اور پیارے کو چائے کی دھاریں گرانے پر مامور کر دیا. پیارا چائے کے سنہری رنگ سے اکتاتا تو نیلے آسمان پر اپنی نیلگوں آنکھیں جما دیتا اور آزاد پنچھیوں کی اڑانیں دیکھنے لگتا. ایسے وقت میں وہ اپالو کا حسین مجسمہ دکھائی دیتا جیسے وقت تھم گیا ہو. بس تصویر میں پوئے سے گرتی چائے اور کتیلی میں جھاگ دار چائے سے اڑتی بھاپ اس مجسمے کے زندہ ہونے کا احساس دلاتی. پیارے کے دل میں خیال آتا میں اس جگہ کے لیے نہیں میرے حصے کا آسمان کہیں اور ہے. یہ چھوٹا سا چائےخانہ میرا کینوس نہیں کہ ایک روز ایک بی بی صاحب اپنے بڑے جدید کیمرے کے ساتھ اس چائےخانے پر چائے کے لیے رکیں.
    یہ بی بی صاحب یونانی حسن مجسم کے لیے قسمت کی دیوی ثابت ہوئی. اور لمحوں میں پیارے کا حسن اس کا تعارف بن گیا. پڑوسی ملک کے نازک دلوں کو لہولہان کیا اور اپنے ملک کی ماؤں کے لیے داماد کے انتخاب کے لیے ایک نیا اسٹینڈرڈ فکس کر دیا. سوشل میڈیا نے پڑوسی ممالک کے دو چائے والوں کی تصاویر اکٹھے لگا کر پاکستانی چائے والے کے حسن کو پہلا نمبر دیا. ملکی میڈیا اس چائے والے کی ویڈیوز بنا کر بریکنگ نیوز چلانے لگا. راتوں رات کالی چائے میں باسی روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے بھگو کر نگلنے والا چھوٹا ملک کی نازنینوں کے دلوں میں براجمان ہو گیا جبکہ پڑوسی ممالک کی صنف کرخت کے دلوں پر سانپ بن کر لوٹنے لگا.
    یوں وہ ایک لمحہ پیارے چائے والے کی زندگی کا ٹرن پوائنٹ ثابت ہوا جس میں قسمت کی دیوی کی بگھی کے کوچوان نے بگھی کو اس چائے خانے کے سامنے روکا یا وہ لمحہ جب قسمت کی دیوی نے حسن کو مجسم کرنے والا جادوئی آلہ اپنے ساتھ لے کر سفر کرنے کا فیصلہ کیا. یا وہ لمحہ جب پیارے ارشد نے عید والا اپنی آنکھوں کا ہمرنگ سحرطراز جوڑا پہننے کافیصلہ کیا ..یہ سب فیصلے ای کدم نہیں ہوتے. ایسے خوشگوار حادثوں کی پرورش تاریخ صدیوں کیا کرتی ہے.