Tag: رمضان

  • سب کا اپنا اپنا چاند  –  عبیداللہ کیہر

    سب کا اپنا اپنا چاند – عبیداللہ کیہر

    1972ء میں ہم خیرپور سے کراچی منتقل ہوئے تو اس وقت میری عمر تقریباً سات سال تھی۔ اس سال رمضان اکتوبر میں آیا تھا اور عید نومبر میں منائی گئی تھی۔ خیرپور کے چھوٹے شہر سے نکل کر کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ ہماری پہلی عید تھی۔ یہاں کی رونق بھی وہاں سے زیادہ تھی اور یہاں کے میلے ٹھیلے بھی خیرپور سے زیادہ پرکشش تھے۔ اب ہماری قسمت کہ کچھ سال بعد جب زندگی کے پہلے روزے رکھنے شروع کئے تو رمضان شدید گرمیوں میں آیا۔ وہ اولین روزے رکھتے وقت تو میں یہی سمجھا تھا کہ اب ساری زندگی رمضان اسی طرح گرمیوں میں ہی آئیں گے اور ہمیشہ اسی طرح شدید پیاس کے ساتھ ہی روزے رکھنے ہونگے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا، گریگورین اور ہجری کیلنڈر کا فرق سمجھ آتا گیا اور یہ جان کر بھی بڑی خوشی ہوئی کہ ہماری عید کرسمس کی طرح ہر سال صرف سخت سردیوں میں نہیں آئے گی، بلکہ یہ سارے موسموں میں گردش کرتی ہوئی کبھی گرمیوں میں آئے گی اور کبھی سردیوں کو رونق بخشے گی۔

    ہمارے ابا حافظِ قرآن بھی تھے اور ٹیلر ماسٹر بھی، اس لئے رمضان کا مہینہ ان کیلئے دوہری مصروفیت لے کر آتا تھا۔ رمضان کا چاند نظر آتے ہی ان کی مصروفیات عروج پر پہنچ جاتی تھیں۔ وہ دن بھر دوکان پر سلائی مشینوں سے الجھے رہتے کیونکہ عید کے کپڑے سلوانے والوں کی بھرمار ہوتی تھی۔ سارا دن کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہتے اور رات کو تراویح پڑھاتے۔ سلائی مشین چلانے کے ساتھ ساتھ وہ دن بھر قرآنی آیات بھی بلند آہنگ سے دہراتے رہتے۔ چنانچہ ہماری بچپن کی یادوں میں سلائی مشینوں کی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ ساتھ قرآن کی تلاوت بھی گونجتی ہے۔
    رمضان میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے اماں اور ہم سارے بہن بھائی بھی ابا کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ جوں جوں عید قریب آتی جاتی، ہم سب کی مصروفیت بڑھتی جاتی۔ ابا گاہکوں کا ناپ لیتے اور کپڑوں کی کٹائی کرتے، اماں اور بڑے بھائی بہن سلائی میں ان کا ہاتھ بٹاتے اور ہم چھوٹے بھائی کاج بٹن وغیرہ میں ان کی مدد کرتے۔ حتیٰ کہ انتیسویں یا تیسویں رمضان کو چاند کا اعلان ہو جاتا اور وہ رات، چاند رات بن جاتی۔ انتیسویں کا چاند ہمارے لئے بڑا سنسنی خیز ہوتا، کیونکہ ہم پانچوں بہن بھائیوں کے اپنے عید کے کپڑے اسی آخری رات کو سلنے ہوتے جو فجر کی اذان سے کچھ ہی پہلے بمشکل تیار ہو پاتے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے عید کا چاند ہمارے لئے کچھ زیادہ ہی اہمیت رکھتا تھا۔

    ان دنوں ہمارا گھر قائدآباد کراچی میں ایبٹ کمپنی کے پاس مین نیشنل ہائی وے پر تھا۔ عید کے دن صبح ہی صبح گھر کے سامنے مین روڈ عیدگاہ میں بدل جاتی۔ سڑک پر دور دور تک صفیں بچھا دی جاتیں۔ مقرر وقت پر عید کی نماز ادا کی جاتی اور پھر خطیب صاحب خطبہ ارشاد فرماتے۔ نماز ختم ہوتے ہی لوگ ایک دوسرے سے والہانہ گلے ملنا شروع ہو جاتے۔ ہم نے یہاں لوگوں کو تین تین بار گلے لگ کر عید ملتے دیکھا تو حیران ہوئے کیونکہ خیرپور میں لوگ ایک ہی گلے کی عید ملا کرتے تھے۔

    رمضان اور عید کے مختلف موسموں میں آنے والی بات کے ساتھ ایک اور بات بھی تھی جو ہمیں ذرا بعد میں سمجھ میں آئی … اور وہ بات تھی چاند کی۔ اسلامی کیلنڈر اور عیدین کا رویتِ ہلال سے بنیادی تعلق ہے۔ جب تک نیا چاند نظر نہ آئے، نہ نیا مہینہ شروع ہو سکتا ہے اور نہ کوئی عید منائی جا سکتی ہے۔ لیکن ان دنوں تو ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ عید کے چاند میں بھی کوئی اختلاف ہوتا ہے۔ کراچی میں عیدیں مناتے ہوئے چند سال میں ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ عید کے چاند کا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ ہم قائد آباد ہی پر تھے کہ ایک سال عید کا چاند متنازعہ ہو گیا۔ جن لوگوں نے سرکاری اعلان والے چاند کو مانا، وہ صبح ہی صبح عید کی نماز کیلئے حکومتی حامی عیدگاہوں میں پہنچ گئے۔ لیکن ایک دن بعد والے چاند کے حامی ان کو نماز پڑھتا دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹیں پھینکتے رہے اور انہوں نے اگلے دن عید منائی۔ ہم بچوں کیلئے تو یہ معاملہ بڑا حیران کن تھا کہ کچھ لوگ تو بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے روزہ رکھ کر دن گزار رہے ہیں اور کچھ لوگ ان کے سامنے ہی کھاتے پیتے عید مناتے پھر رہے ہیں۔ اس وقت تو ہم یہی سمجھے کہ یہ منظر ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں، لیکن پھر پتہ چلا کہ عید کے چاند کا یہ مسئلہ بڑا پرانا ہے۔

    عید اور رمضان کا انحصار چاند نظر آنے پر ہوتا ہے، جبکہ چاند نظر آنے کا انحصار موسم کے صاف اور آسمان کے شفاف ہونے پر رہتا ہے۔ لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ چاند دیکھنے کے وقت ہر جگہ آسمان صاف شفاف ملے۔ چنانچہ اسلامی ممالک میں ہجری کیلنڈر کے مطابق نئے مہینے کی ابتداء جاننے کیلئے ملک کے ہر بڑے شہر میں رویتِ ہلال کا اہتمام کیا جاتا ہے کیونکہ جب تک عاقل و بالغ افراد کی ایک مطلوب تعداد چاند دیکھنے کی گواہی نہ دے، نئے اسلامی مہینے کی شروعات نہیں ہو سکتیں۔

    یہ معاملہ صرف ایک ہی دن کیلئے ہوتا ہے کیونکہ اسلامی کیلنڈر کے مطابق مہینہ یا تو 29 دن کا ہوتا ہے یا 30 دن کا۔ اگر انتیسویں شام کو نیا چاند طلوع نہیں ہوا تو مہینہ تیس کا ہوگا اور اس سے اگلے دن خود بخود پہلی تاریخ ہو جائے گی۔ البتہ رمضان اور عید کا معاملہ چونکہ نازک ہے اس لئے اس میں ذرا سی بھی چوک روزے اور عید دونوں کو مشکوک بنا سکتی ہے۔ یعنی اگر چاند صحیح طور پر نظر نہ آیا تو آپ روزہ چھوڑ کر عید نہیں منا سکتے اور نظر آ چکا ہے تو پھر عید چھوڑ کر روزہ جاری رکھنا بھی گناہ ہے۔ اسی لئے ہر سال رمضان کی آمد پر سرکاری سطح پر رویت ہلال کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ملک بھر سے چاند دیکھنے کی گواہیاں جمع ہونے پر ہی رمضان کی ابتداء یا عید کا اعلان کیا جاتا ہے۔

    چاند دیکھنے کے حوالے سے ویسے تو پاکستان بننے کے پہلے سال ہی سرکاری سطح پر ایک ادارہ بنا دیا گیا تھا جو ملک بھر سے چاند کی شہادتیں وصول کر کے نئے مہینے کا اعلان کرتا تھا۔ لیکن ملک کے دور دراز علاقوں میں لوگ عام طور پر اس کمیٹی کے اعلان پر انحصار کرنے کی بجائے خود ہی چاند دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے کہ اگلے دن عید منانی ہے یا نہیں۔ خصوصاً صوبہ سرحد و بلوچستان کے بلند علاقوں اور پنجاب و سندھ کے میدانی خطوں میں عام طور سے چاند دیکھنے کی گواہیوں میں اختلافات کا امکان رہتا ہے۔ ایوب کے دور میں 1961ء میں تو یہ غضب بھی ہوا کہ پشاور والوں نے 17 مارچ کو عید منائی، سرکاری سطح پر 18 مارچ کی عید کا اعلان کیا گیا، جبکہ کراچی کے لوگوں نے 19 مارچ کو عید منائی۔ یعنی ایک ہی ملک میں تین الگ الگ عیدیں ہو گئیں۔

    2001ء میں جب میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو یہاں رمضان اور عید کے حوالے سے ایک عجیب مشاہدہ سامنے آیا۔ اسلام آباد پاکستان کے تمام خطوں سے آئے ہوئے لوگوں کا شہر ہے۔ یہ کراچی، کوئٹہ اور لاہور کے مقابلے میں پشاور سے زیادہ قریب ہے۔ صرف دو ڈھائی گھنٹے کا سفر کر کے ہی اسلام آباد سے پشاور پہنچا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں حصول روزگار کیلئے پشاور سے خصوصاً اور دیگر قریبی شہروں سے عموماً ایک بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں اسلام آباد آتی ہے۔ چونکہ رویتِ ہلال میں سب سے زیادہ اختلاف عام طور پر پشاور ہی سے آتا ہے، چنانچہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے اٹک کے مقام پر پنجاب کی حدود میں تو روزہ جاری ہوتا ہے جبکہ دریا پار کرتے ہی نوشہرہ میں دھوم دھام سے عید منائی جا رہی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے وہ پختون بھائی جو اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں، وہ اکثر عید سے دو دن پہلے ہی اپنے شہروں کی جانب لپکتے ہیں تاکہ یہ نہ ہو کہ وہ اسلام آباد سے تو صبح سویرے روزہ رکھ کر نکلیں اور پشاور یا مردان پہنچتے ہی عید کی نماز ادا کرنی پڑ جائے۔ اسی طرح کا اہتمام رمضان سے ایک دن پہلے پہنچنے کا بھی کیا جاتا ہے تاکہ پہلا روزہ قضا نہ ہو۔

    قیام پاکستان کے بعد سے یہ اختلافات کئی سال تک تواتر سے سامنے آتے رہے، حتیٰ کہ 1974ء میں بھٹو دور میں قومی اسمبلی نے ”مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی“ کا قانون پاس کر دیا اور مولانا احتشام الحق تھانوی کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ کمیٹی بننے کے بعد چاند کا جھگڑا کچھ تھما اور اکا دکا اختلاف کے ساتھ ملک بھر میں عام طور سے ایک ہی دن عید منائی جانے لگی۔

  • رمضان المبارک اور اس کا حق – افروز عنایت

    رمضان المبارک اور اس کا حق – افروز عنایت

    اللہ نا کرے کہ اس ماہ مبارک کو ہمیشہ کے لیے ہم الوداع کہیں. یہ تو میرے رب العالمین کا ہمارے لیے انعام واکرامات کے حصول کا سلسلہ اور ذریعہ ہے. ان شاء اللہ اگلے سال پھر رب العزت ہمیں یہ خوبصورت موقع عطا فرمائے گا.

    رحمتوں اور برکتوں والے اس ماہ مبارک کے یہ چند دن ابھی باقی ہیں، ذرا اپنے من کو ٹٹولیں کہ کیا پایا؟ اس خزانے کا صرف دور سے ہی نظارہ کرتے رہے یا دامن میں کچھ سمیٹا؟ اس ماہ مبارک کی فضیلت اسی میں چھپی ہے کہ نہ صرف اپنے من کی دنیا کو سنوار لو بلکہ دوسروں کے دامن میں بھی کچھ ڈال دو .اس ماہ مبارک سے کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں؟ان پاک گھڑیوں کو کس طرح گذارنا ہے؟ کن باتون کا خیال رکھنا ہے؟ کیا ہم نے ان سب چیزوں اور باتوں کے بارے میں سوچا اور خیال رکھا؟؟

    جی ہاں!
    اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ روزے رکھنا، نہ صرف فرض نمازوں کا اہتمام کرنا بلکہ نوافل کا بھی دلجمعی سے ادا کرنا، باقاعدگی کے ساتھ کلام الہی کی تلاوت کرنا، حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی پاسداری کرنا بھی لازمی ہے، سوچیں کہ کہیں ہم سے کسی کے معاملے میں کوتاہی یا زیادتی تو سرزد نہیں ہوئی، ہوئی ہے تو تلافی ضروری ہے.

    ویسے تو ہر نیکی کا اجر وثواب بے انتہا ہے مگر انفاق فی سبیل اللہ اس ماہ کا ایک بہترین عمل ہے. یہ عمل نہ صرف ہمارے لیے ثواب و اجر کا باعث ہے بلکہ ضرورت مندوں کا حصہ و حق ہے جو اللہ رب العالمین نے انھیں پہنچانے کے لیے ہمیں سونپا ہے. کیا ہم نے یہ امانت ایمانداری کے ساتھ ان حقداروں تک پہنچا دی ہے؟ نہیں تو ابھی بھی چنددن باقی ہیں، جلدی سے اس فرض کو انجام دے دیں-کسی کا قرض، کسی کی جائیداد کا حصہ وغیرہ آپ کے ذمہ ہے تو جلد اس سے بھی فارغ ہو جائیں. اللہ رب العزت کو نا انصافی پسند نہیں.

    ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں داخل ہو چکے ہیں. نیکیوں کے اہتمام کے ساتھ اپنے دامن کو گناہوں سے پاک کرنے کے عشرے سے مستفید نہ ہونا اپنی ذات کے ساتھ نا انصافی ہوگی، خود سے ظلم کے مترادف ہوگا، لہذا رو رو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرلو. آنسوؤں کے نذرانے کے ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے بخشش طلب کرلو. اللہ ہی تو ہے جو ہمیں معاف کر سکتا ہے، ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان، اللہ ہم سب کے ظاہر وپوشیدہ گناہوں سے واقف ہے، ہمیں معاف کردے، خطاکاروں کو بخش دے. رات کے آخری پہر اپنے رب سے سرگوشیوں میں جو طلب کرو گے یقیناً وہ مایوس نہیں کرے گا. اس کا دربار تو ہم گناہگاروں کی توبہ کے لیے ہر گھڑی کھلا ہے. نہ صرف اپنی آخرت کی کامیابی و بھلائی کے لیے دعا مانگو، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے، اپنے والدین کی مغفرت کے لیے، اپنے عزیز و اقارب کی بھلائی کے لیے دعائیں مانگو. یقیناً میرے رب کو آپ کی یہ ادا بھی پسند آئے گی اور وہ آپ کی دعاؤں کو مستجاب فرمائے گا، کیونکہ وہی تو ہے جو ہمارے دل کی جائز خواہشات کو زبان پر آنے سے پہلے ہی سن لیتا ہے اور قبول فرماتا ہے. سبحان اللہ

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے رب العالمین کے اس مہمان عظیم ماہ رمضان کی ٹھیک طرح سے ضیافت کی، جو اس کا حق تھا. اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو اب بھی وقت ہے، ان چند دنوں سے فیض اٹھایا جاسکتا ہے. میرا رب تو بندے کے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کی سر گوشیوں والے ایک سجدے کو بھی اپنے دربار میں قبول کرلیتا ہے. اس کا دربار تو ہر گھڑی ہم گنہگاروں کی خطاؤں کی معافی مانگنے کے لیے کھلا ہے. آئیں آگے بڑھیں اور رجوع الہی کی طرف مائل ہوجائیں. ہمیں نہیں معلوم کہ اگلا سال زندگی کا ملے یا نہ ملے، پھر یہ موقع نصیب ہو یا نہ ہو، ان چند دنوں میں اپنے دامن کو گوہر نایاب سے بھر لیں، جو ہماری آخرت کے لیے زاد راہ بن جائے اور ہمیں جنت الفردوس کا مکین بنائے. آمین ثم آمین

  • اعتکاف کریں یا  کرنے والوں کا ساتھ دیں – ابوالاعلی سید سبحانی

    اعتکاف کریں یا کرنے والوں کا ساتھ دیں – ابوالاعلی سید سبحانی

    اعتکاف رمضان کے آخری عشرے میں انسانی سماج کی الجھنوں اور معاملات سے بھری زندگی سے نکل کر روحانیت کی تلاش میں یا اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لیے مسجد والی زندگی کو اختیار کرنے کا نام ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کا خاص اہتمام کرتے تھے، اور امت کے بزرگوں، اولیاء اور صالحین کے یہاں بھی اس کا خاص اہتمام ملتا ہے۔ اعتکاف تربیتِ ذات کا ایک بہت ہی غیرمعمولی الہی انتظام ہے، اس سے ضرور مستفید ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

    جن افراد کو توفیق حاصل ہو، ان کو رمضان کے آخری عشرے میں ضرور اعتکاف کرنا چاہیے۔ پورے دس دن کا اعتکاف کیا جاسکے تو زیادہ بہتر ہے، جن لوگوں کے لیے دس دن کا وقت نکالنا مشکل ہو وہ چند دن کے لیے بھی اعتکاف کی نیت کرسکتے ہیں۔ جن افراد کے لیے پورے دن رات کا وقت نکالنا مشکل ہو، انہیں کچھ دیر کے لیے ہی سہی اعتکاف کی نیت سے مسجد میں جاکر ضرور بیٹھ جانا چاہیے، اور اعتکاف کی لذت اور اعتکاف کے ماحول کو محسوس کرنا چاہیے۔

    ہماری وابستگی کے زمانے میں طلبہ تنظیم ایس آئی او آف انڈیا کے تربیتی نظام میں اس پر خاص زور دیا جاتا تھا، اس وقت شائع ہونے والی تزکیہ گائیڈ آج اٹھاکر دیکھی تو اس میں اعتکاف کے عنوان سے درج یہ عبارتیں بہت اہم اور دل کو چھو لینے والی محسوس ہوئیں:
    ”طلبائی زندگی میں اعتکاف بہت ضروری ہے، علوم اور معلومات کے ازدحام میں انسان اپنے دل سے غافل ہوجاتا ہے، روح کی آواز دب جاتی ہے، دنیاوی علوم کا دباؤ دینی معلومات کی تحصیل کے لیے وقت فارغ نہیں کرنے دیتا، ایسے میں جبری فراغت ضروری ہوجاتی ہے، رمضان کے آخری عشرے میں منصوبہ بند اعتکاف ہر سال یا ایک سال کے ناغے سے ہر فرد کو کرنا چاہیے، علاوہ ازیں تزکیہ گائیڈ کے مقاصد کے حصول کے لئے روزانہ کا اعتکاف تجویز کیا جاتا ہے، جس کی مناسب شکل یہ ہے کہ روزانہ کسی ایک نماز میں اذان اور نماز کے درمیانی وقفہ میں طالب علم اعتکاف کی نیت سے مسجد میں بیٹھے، اور اپنے متعین کردہ اہداف کی تکمیل کرے۔ طے شدہ آیتیں، دعائیں، احادیث، قرآن میں غوروفکر اور اس جیسے دوسرے اعمال کے حصول کی کوشش کرے۔“

    ترکی میں مقیم سوڈانی مفکر ڈاکٹر عصام بشیر نے اپنی تازہ پوسٹ میں اعتکاف کرنے والوں کو کچھ اہم نصیحتیں فرمائی ہیں، وہ نصیحتیں درج ذیل ہیں:
    – نیت کو اللہ کے لیے خالص کرلیں، کیونکہ اخلاص نیت ہی اعتکاف کی اساس اور بنیاد ہے۔
    – اللہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت کے ذریعہ اپنے دل اور اپنے اعضاء وجوارح کی حفاظت کریں۔
    – تنہائی میں زیادہ وقت گزاریں، زیادہ ملنے جلنے سے احتراز کریں۔
    – اپنے دل کی نگرانی کرتے رہیں، اور بار بار اپنی نیت کو تازہ کرتے رہیں۔
    – اپنے اندر اس بات کا احساس اور شعور پیدا کریں کہ آپ اعتکاف کے دوران اللہ کے گھر میں اللہ کے مہمان ہیں۔
    – دل کی انکساری کے ساتھ اور رضائے الٰہی کی طلب لے کر بار بار رب کے سامنے گریہ وزاری کریں۔
    – اعتکاف کو اللہ رب العزت کے ساتھ اپنے تعلقات کی اصلاح اور درستگی کا ذریعہ بنالیں۔
    – دعاؤں کا خوب خوب اہتمام کریں، یہ دعائیں عبادتوں کا مغز ہوتی ہیں۔
    – سمجھ سمجھ کر اور غوروفکر کے ساتھ قرآن کی تلاوت کریں، اور اس کے ذریعہ اپنے دل کی زندگی کا سامان کریں۔
    – سحری کے وقت کثرت سے استغفار کریں۔
    – راتوں کو عبادت اور ذکر الٰہی سے روشن رکھیں۔
    – اول درجہ میں مسنون دعاؤں کے اہتمام کی کوشش کریں۔
    – سحری کا وقت دعا اور مناجات کے لیے خاص کرلیں۔
    – موبائیل فون سے زیادہ سے زیادہ دور رہیں، یہ تنہائی کے اوقات کا سب سے بڑا قاتل ہے۔
    – فضول اور لایعنی باتوں سے بچیں، ایسی مجلسیں تقرب الٰہی میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
    – زیادہ وقت سونے میں نہ گزاریں، وقت اعتکاف کا خزانہ ہوتا ہے، اس کو جتنا سمیٹ سکیں سمیٹنے کی کوشش کریں۔
    – بے کار بحث ومباحثے سے بچیں، یہ خیر کے کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
    – ہر نماز تکبیر تحریمہ کے ساتھ ادا کریں۔
    – ہر نماز میں پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
    – کم کھائیں تاکہ نیکی کے کاموں کے لیے خوب تقویت حاصل ہو۔
    – اعتکاف کرنے والوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئیں، اور کچھ ناگوار گزرے تو صبر کا مظاہرہ کریں۔
    – پاکی، صفائی اور مسواک کا اہتمام کریں۔
    – مسجد آنے جانے والوں کو کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچائیں۔
    – اس نیت کی بار بار تجدید کریں کہ رمضان کے بعد بھی رمضان کی نیکیوں کو جاری رکھیں گے۔
    – رمضان کے بعد نیکیوں کے اہتمام اور پابندی کے عزم کو تازہ کرتے رہیں۔

    اعتکاف کرنے والوں کے لیے ایک بڑے اسلامی مفکر کی یہ کچھ ہدایتیں اور نصیحتیں ہیں۔ اعتکاف کرنے والوں کو ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ البتہ ان میں بہت سی ہدایتیں اور نصیحتیں ایسی ہیں جو عمومی نوعیت کی ہیں، اور جن کا اہتمام سبھی کو کرنا چاہیے، اعتکاف کرنے والوں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو اعتکاف کی سعادت سے محروم رہ گئے ہیں۔ ایسا کرکے ہم ایک طرف بہت ساری نیکیاں اور بہت سارا ثواب بھی سمیٹ لیں گے اور ساتھ ہی ساتھ اعتکاف کرنے والوں کا ساتھ دینے والے بھی بن جائیں گے، ان شاء اللہ۔

  • بھارت: مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اوردہلی کی افطار پارٹیاں – افتخار گیلانی

    بھارت: مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اوردہلی کی افطار پارٹیاں – افتخار گیلانی

    ابھی حال ہی میں بھارت کے شمالی اتراکھنڈ صوبہ کے ہردوار کے ایک کالج میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلم طلبہ کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کو درہم برہم کردیا۔ بعد میں پرنسپل نے بھی مسلم طالب علموں کو افطار کے وقت کھانا لانے اور اس کودیگر طلبہ کے ساتھ ساجھا کرنے پر بھی پابندی عائد کی۔ اسی طرح میرٹھ کی ایک یونیورسٹی کے احاط میں نماز ادا کرنے پر ایک طالب علم کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر دائر کی۔

    کانگریس رہنما راہول گاندھی افطار پر مسلمان رہنماؤں سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے

    ایک وقت تھا کہ خاص طور پر دارالحکومت دہلی میں رمضان میں سیاسی و سماجی لیڈروں، سیاسی پارٹیوں، سفارت خانوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے افطار پارٹیاں منعقد کرنا اور اس کی آڑ میں رابطہ اور باہمی میل جول بڑھنا قابل اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ صدارتی محل یعنی راشٹرپتی بھون، وزیر اعظم دفتر، وزیروں و سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں رمضان کے دوران اذان کی آواز گونجتی تھی اور مدعو مسلمان باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ کئی بار تو وزیروں کو نماز کےلئے مصلے بچھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ مگر جیسے جیسے مسلمانوں کو ۲۰۱۴ کے بعد سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے، دہلی کی افطارپارٹیاں بھی قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔

    موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران بھی اپنے گھروں پر افطار پارٹیاں منعقد کرتے تھے۔ اس کے لیڈران سابق وزرا سید شاہنواز حسین اور وجے گوئیل کی افطار پارٹیاں دہلی کے اشرافیہ اور صحافیوں میں خاصی مشہور ہوتی تھیں۔ وجے گوئیل تو پرانی دہلی میں سحری کا انتظام کرتے تھے۔ رات بھر ایک سماں ہوتا تھا۔ کانگریس پارٹی کی افطار پارٹی کی ایک الگ ہی شان ہوتی تھی، جو اس کے دفتر میں منعقد ہوتی تھی۔ ملک بھر کے کانگریسی لیڈران دہلی وارد ہوکر اس میں شرکت کرتے تھے۔ بعد میں کئی بار پارٹی کے اس کو دفتر کے بجائے اشوکا ہوٹل میں منعقد کروایا۔ پارٹی صدر سونیا گاندھی خود روزہ داروں کو افطار کرواتی تھیں اور ہر میز پر چند لمحے توقف کرکے سبھی کا حال چال پوچھتی تھیں۔

    کانگریس صدر سونیا گاندھی ایک افطار کے موقع پر

    مجھے یاد ہے کہ بی جے پی نے اپنے دفتر اشوکا روڈمیں 1998ءمیں ایک افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا۔ چونکہ اس کے بعد وہ حکومت میں آئی تھی، اس لیے وزیر اعظم بننے کے بعد اٹل بہاری واجپائی پارٹی دفتر کے بجائے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔ 2014ءسے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔

    خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کے لیے افطار پارٹیاں، سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور سیاسی حالات کی نبض پرکھنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔ اس مقدس ما ہ میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں اس قدر عروج پر ہوتی تھیں کہ میڈیا اداروں میں افطار پارٹیاں کور کرنے کے لیے باضابطہ رپورٹروں کی بیٹ لگتی تھی۔ وزیراعظم ہاؤس یا راشٹرپتی بھون میں حکومت اور عدلیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتیں ہوتی تھیں، اور خاصی آف ریکارڈ انفارمیشن حاصل ہوتی تھی۔ مخلوط حکومتوں کے دوران اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی تھی کہ حکومتی اتحاد کے کس لیڈر نے افطار پارٹی میں شمولیت کی، اور باڈی لنگویج کیسی تھی اور حکومت پر کس طرح کے خطرے منڈ لا رہے ہیں۔ صاحب اختیار و استطاعت افراد اس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بطور، مگر زیاد ہ تر اپنے آپ کو سیکولر جتانے اور اس کی نمائش کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام کراکے اپنا ووٹ بینک پکا کروانے کا بھی سامان کرتے تھے

    ۱۹۹۸ء میں بی جے پی کے صدر دفتر پر منعقد افطار کی تقریب میں جب میں پہنچا تو دیکھا کہ پارٹی آفس کے وسیع و عریض لان میں شامیانہ لگا ہوا تھا، جس کے دروازے پر خود واجپائی اور چند دیگر لیڈران ٹوپی پہنے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ ابھی افطار میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، مگر شامیانہ کے اندر چائے، سموسہ اور کھجوروں کا دور چل رہا تھا۔لوگ آرام سے کھا پی رہے تھے، افطار کے وقت کا کسی کو احساس نہیں تھا۔ سید شاہنواز حسین، جو بعد میں مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے، ان دنوں بی جے پی یوتھ ونگ کے لیڈر تھے۔ بستی نظام الدین اور دیگرعلاقوں سے چنندہ مسلمانوں کو افطار پارٹی میں لانے کی ذ مہ داری ان کو دی گئی تھی۔ وہ کیٹرنگ والے سے الجھ رہے تھے کہ افطار سے قبل ہی انھوں نے ناشتے کی قابیں کیوں سجائی ہوئی تھیں۔ خیر جب افطار کا وقت ہوا، تو خالی قابیں روزہ داروں کا منہ چڑا رہی تھیں۔کسی طرح پانی وغیرہ پی کر روزہ تو کھولا۔ اب مغرب کی نماز ادا کرنے کا کوئی نظم نہیں تھا۔جن مسلمانوں کو تقریب میں لایا گیا تھا، و ہ شاہنواز پر برس رہے تھے۔ کسی طرح اس نے دفتر کے پچھواڑے میں نماز کے لیے لان کو صاف کروایا۔ اب جس وقت روزہ دار نماز ادا کررہے تھے، کیٹرنگ والے نے ڈنر پیکٹ بانٹنے شروع کردیے۔ بجائے قابوں میں کھانا پروسنے کے، پارٹی نے ڈنر پیکٹوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ جب تک نماز ختم ہو جاتی اور روزہ دار شامیانہ میں واپس آجاتے، معلوم ہوا کہ سبھی ڈنر پیکٹ ختم ہو چکے تھے۔ بھوکے پیاسے روزہ دار شاہنواز اور بی جے پی کو صلواتیں سناتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے۔

    دارالحکومت دہلی میں 2014ءمیں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی اس ماہ کی رونقیں چھن گئی ہیں۔ مودی کی دہلی آمد کے فوراً بعد ہی دارالحکومت میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔چونکہ انھوں نے اپنے وزراء کو بھی پارٹیوں میں شامل ہونے سے منع کردیا ، اس لیے دیگر سماجی تنظیموں نے بھی آہستہ آہستہ افطار پارٹیوں کے انعقاد سے ہاتھ کھنچ لیا۔ افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے، مگر بھارت جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے اور آؤٹ ریچ کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ایک منظم اور پروقار ماحول میں روزہ کھولنا اور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام کا کام ضرورکرتا تھا۔

    کشمیر میں بھی چونکہ افطار پارٹیوں کا کوئی رواج نہیں تھا، اس لیے دہلی آمد کے بعد یہ میرے لیےبھی ایک نیا تجربہ تھا۔ کشمیر میں تو زمانہ امن میں بھی افطار سے قبل ایک طرح سے کرفیو سا لگتا تھا۔مارکیٹ سنسان ہوجاتے تھے۔ لوگ عام طور پر اپنے گھروں یا مقامی مساجد میں ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے تھے۔ افطار کا بھی الگ سے کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی نماز ادا کرنے کے بعد لوگ ڈنر کرتے تھے۔اس ماہ کے دوران تقریباً سبھی سرگرمیاں اور روابط ماند پڑ جاتے تھے۔

    اپنے دور طالب علمی میں ہی 90 کے اوائل میں مجھے پہلی بار سابق وزیر اور کیرالہ صوبہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان کی رہائش گاہ پر افطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا۔ دوران طالب علمی ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے دعوت نامہ دےکر آنے کی تاکید کی تھی۔افطار پارٹی کیا تھی، بس ایک عالیشان شادی کا سا سماں تھا۔ جن سیاسی و سماجی چہروں کو ٹی وی یا اخباروں میں دیکھتے آرہے تھے، وہ گوشت و پوست کے ساتھ الگ الگ میزوں پر برا جمان تھے۔ وزیر اعظم سمیت سبھی مرکزی وزراء، بالی وڈ کے نامور اداکار وغیرہ موجود تھے۔

    اس پارٹی میں میری پہلی بار مرحوم مفتی محمد سعید سے ملاقات ہوئی۔ گو کہ سوپور میں کئی بار پبلک جلسوں میں ان کی تقاریر سننے کا موقع ملتا تھا، مگر بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ابھی حال تک بھارت کے وزیر داخلہ رہ چکے تھے۔ اس لیے ان کا ساتھ خاصا تام جھام تھا۔ کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے بھی میں ان کو گہرے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ میں ان کوہندوستانی ایجنسیوں کا پروردہ، جس کو کشمیری خواہشات کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہو،سمجھتا آرہا تھا، جس نے 1977ء میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو گرایا اور بعد میں 1984ء میں دہلی کی ایما پر فارق عبداللہ کو معزول کروایا ،اور جو کشمیر میں سیاسی بے چینی کا سبب بھی رہا۔

    میری میزبان نے میرا ان سے تعارف کرایا توانھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ کشمیری مسلم نوجوان یا تو صحافت میں آتے ہی نہیں، یا کیریئرکے لیے دہلی کا رخ نہیں کرتے۔انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ مجھ سے قبل یو این آئی کے شیخ منظور احمد اور سنڈے آبزرور کے ایڈیٹر محمد سعید ملک ہی بس دو ایسے کشمیری مسلمان ہیں، جنھوں نے دہلی میں صحافت میں کیریئر بنایا۔ انھوں نے کسی کو شیخ منظور، جو ان دنوں یو این آئی نیوز ایجنسی میں سینئر پوزیشن میں کام کرتے تھے، کو ڈھونڈنے کے لیے کہا۔ منظور صاحب پر نظر پڑتے ہی انھوں نے مجھے ان سے متعارف کرواکر ان کو صلاح دی کہ وہ میرا خیال رکھیں۔ مجھے بھی مشورہ دیا کہ کشمیر واپس جانے کے بجائے دہلی ہی میں جرنلزم میں جگہ بناؤں اور منظور صاحب اور ملک صاحب سے مشورہ لیتا رہوں۔

    گو کہ مودی نے آتے ہی وزیر اعظم ہاؤس میں افطار کا سلسلہ تو بند کروادیا، مگر صدر پرنب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا تھا۔ 2017ء میں اپنی مدت صدارت ختم ہونے تک ا نھوں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ تمام ممالک کے سفیر ، اپوزیشن لیڈران و دیگر افراد اس میں شرکت تو کرتے تھے، مگر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی نے کبھی بھی اس میں شرکت نہیں کی۔ مگر ایک یاد و وزیر حکومت کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے، جو صدر کی ہال میں آمد پر ان کا استقبال کرکے فوراً ہی رخصت ہوجاتے تھے کہ کہیں دیگر مہمانوں سے ملنے جلنے کے دروان ان کی فوٹو ریکارڈ پر نہ آجائے۔

    راشٹرپتی بھون میں ایک بار افطار پارٹی کے بعد مغرب کی اذان تو ہوئی، مگر نماز کے لیے امام کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔وسیع و عریض صدارتی اسٹیٹ کے احاطہ میں ایک مسجد موجود ہے۔ اسی مسجد کے یا پارلیمنٹ کے بغل میں جامع مسجد نئی دہلی کے امام صاحبان اس موقع پر امامت کرتے تھے۔ مگر دونوں اس دن غائب تھے۔ معلوم ہوا کہ نئی دہلی کی جامع مسجد کے امام محب اللہ ندوی جو اب خیر سے رام پور سے لوک سبھا کے منتخب ممبر ہیں، دیرسے آنے کی وجہ سے باہر سکیورٹی اہلکاروں سے الجھے ہوئے تھے۔ اس دوران تمام مسلم ممالک کے سفراء، اراکین پارلیمان اور دیگر زعماء صفوں میں کھڑے امام کو تلاش کر رہے تھے۔ راجیہ سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن غلام نبی آزاد ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ پاکستانی سفیر عبد الباسط نے آگے بڑھ کر امامت کا منصب سنبھال کر نماز ادا کروائی۔ اس دن معلوم ہوا کہ باسط صاحب ایک خوش الحان قاری بھی ہیں۔ایک روح پرور منظر تھا کہ تمام دنیا کے مسلم ممالک کے سفرا اور ہندوستانی مسلم زعماء، اشرافیہ اور مسلم اراکین پارلیمان ایک پاکستانی سفیر کی اقتدا میں نماز ادا کررہے تھے۔

    پرنب مکھرجی مسلم سفرا سے ملتے ہوئے۔ پاکستانی سفیر عبدالباسط بھی موجود ہیں

    اسی طرح ایک بار صدارتی محل ہی میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کی دوسری مدت حکومت میں مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہاں اس تقریب میں ہم دو کے بغیر کوئی اور روزہ دار نہیں لگ رہا، افطار کا وقت ہورہا ہے، اس لیے ہم ڈنر ہال کے گیٹ کے پاس بیٹھ کر فوراً ہی اندر چلے جاتے ہیں۔ صدروسیع و عریض اشوکاہال میں آکر سبھی مہمانوں سے ایک ایک کرکے مل رہے تھے، فاروق صاحب سمجھا رہے تھے کہ ہم افطار کرنے آئے ہیں، دیگر افراد کی طرح صدر سے ملنے نہیں آئے ہیں۔ شاید راشٹرپتی بھون کے بیرے بھی ہمیں دیکھ کر تاسف کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے آکر ہمیں تسلی دی کہ افطاری میں خاصے لوازمات وافر مقدار میں ہیں۔ وہ یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ ندیدوں کی طرح دروازے پر پہرہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، افطار کے وقت ناشتہ وغیرہ مل ہی جائےگا۔ میں نے فاروق صاحب سے پوچھا کہ ان کی رنگیلی طبعیت اور امیج کے برعکس وہ آج کل مؤمن کیسے ہوگئے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں وہ سبھی دنیاوی کام چھوڑ کر روزوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں، اور ختم قرآن شریف بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ماں اکبر جہاں کا اعجاز ہے کہ وہ ان کو اور دیگر بھائیوں اور بہنوں کو روزہ اور تلاوت قرآن کی تاکید کرتی تھیں۔اپنے باپ شیخ محمد عبداللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت ہی سخت گیر قسم کے والد تھے اور اکثر ان کو چھڑی سے پیٹتے تھے، والدہ ہی ان کو چھڑا تی تھی۔ بیگم اکبر جہاں، ایک نومسلم انگریز جان نیڈواور ایک کشمیر ی گوجر لڑکی کی اولاد تھیں۔سخت مذہبی اور صوم و صلوات کی پابند خاتون تھی۔ فاروق صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں وہ رمضان میں روزہ و نماز کا سختی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔

    من موہن سنگھ کی وزات اعظمیٰ کے دور میں وزیر اعظم ہاؤس میں افطار پارٹی کے موقع پر دیکھا کہ چند مسلم زعما نے وزیر اعظم اور سونیا گاندھی کو گھیرا ہوا تھا. وہ سوال کر رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے چند سال قبل مسلمانوں سے متعلق سچر کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرنے کے باوجود عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟ پبلک سیکٹر بینک مسلم تاجروں یا اسٹارٹ اپ کو قرضے دینے سے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ میں انھی دنوں میرٹھ کسی اسٹوری کے سلسلے میں گیا تھا، اور وہاں ہاشم پورہ محلہ کے ۱۹۸۹ء کے فسادات کے مثاثرین سےملنے پہنچا۔ فسادات کے متاثرین میں ایک ڈاکٹر جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے، ٹھیک ہوکر بزنس کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ان کا میڈیکل لائسنس کینسل کر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اعلانات کے باوجود، کوئی بھی بینک لون نہیں دے رہا تھا۔ وہ مجھ سے اپنے ایک پرنٹنگ پریس میں گفتگو کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ پریس پھر کیسے وجود میں آیا؟ تو انہوں نے کہا کہ سال بھر قبل ادھر چوک میں ایک کشمیری بینک کھلا۔ جب میں نے وہاں درخواست دی، تو انھوں نے فوراً منظور کی۔ معلوم ہوا کہ جموں و کشمیر بینک، جو بھارت کا پبلک سیکٹر کا چوتھا بڑا بینک تھا، اس کی شاخ کھل گئی تھی۔ اس سے میرے دماغ کی بتی جیسے روشن ہوگئی۔ وزیر اعظم کے ساتھ اس گروپ کی تکرار سنتے ہوئے، میں نے وہیں کھڑے ہی مشورہ دیا کہ بینکوں کے اس رویہ کا حل بس یہ ہے کہ جموں و کشمیر بینک کو ترغیب دی جائے کہ مسلم علاقوں میں زیادہ سے زیادہ اپنی شاخیں کھولے۔

    من موہن سنگھ نے کہا کہ ابھی افطار کا وقت ہو رہا ہے۔ ڈنر کے بعد چند منٹ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ ان زعما کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ پر میں نے ان سے کہا کہ اس وقت ملنے کے بجائے ان سے باضابطہ اپائنٹمنٹ لیکر تیاری کے ساتھ میٹنگ کا بندوبست کرو۔ ہوسکے تو سچر کمیٹی کے افسران ظفر محمود اور ابو صالح شریف کو اپنے ساتھ وفد میں لے کر ملاقات کا بندوبست کرو۔ وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، چونکہ اس کو معلوم ہوگا کہ ملاقات کا ایجنڈا کیا ہے وہ کیبنٹ سیکرٹری یا کم سے کم فنانس سیکرٹری کو بھی بلائیں گے، اور ہاتھوں ہاتھ آپ کے مسائل حال ہوجائیں گے۔ مگر کون سنتا۔ خیر ڈنر کے بعد لان کے متصل کمرے میں ان زعما کو بلایا گیا۔ چونکہ جس وقت انھوں نے وزیر اعظم کو گھیرا ہوا تھا، میں بھی موجود تھا، اس لیے گھیر کر مجھے بھی ان کے ساتھ ہی لے جایا گیا۔

    وزیر اعظم کے سیٹ پر بیٹھتے ہی، بجائے ان سے سچر کمیٹی کی سفارشات پر گفتگو کی جاتی، لکھنو سے آئے ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ حال ہی میں بھار ت نے کیوں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹنگ کی؟ اس معامعلہ کو لیکر انھوں نے خوب تقریرجھاڑی۔ مجھے بس اتنا سنائی دیا کہ من موہن سنگھ نے کہا کہ اس میں ملک کا مفاد تھا، اس پر وہ کوئی اور گفتگو نہیں کریں گے۔ لگا کہ اب اپنے مسائل پر یہ زعما بات کریں گے کہ ایک کونے سے ایک اور صاحب نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہو رہی بربریت کا ایشو اٹھایا، اور سوال کیا کہ ان کی حکومت اس پر کیوں خاموش ہے؟ دس منٹ کی یہ میٹنگ اسی غیر سنجیدگی اور خارجہ پالیسی سے متعلق تقریروں کے ساتھ ختم ہوگئی۔ جس کےلیے یہ میٹنگ منعقد کی گئی تھی، وہ ایشو ہی نہیں اٹھائے گئے۔ اس واردات سے پرے افطار پارٹیاں یقیناً حکمرانوں کے ساتھ ایک کھلے اور باوقار ماحول میں براہ راست ملنے کا موقع فراہم کرتی تھیں.

    بتایا جاتا ہے کہ 70کی دہائی کے اواخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آؤٹ ریچ کے لیے افطار پارٹیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے دور میں یہ افطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔وزیر اعظم مودی اور ان کے دست راست وزیر داخلہ امت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو ایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے، افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضح مثا ل ہے۔ حال اب یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی اپنے حامیوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈر افطار کا اہتمام کرتا ہے تو لیڈروں کی تصویر یا پارٹی کا بینر آویزاں نہیں ہونا چاہیے۔ چند سال قبل اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی نے لیڈروں کو ہدایات دی تھیں کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں، یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔

    ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظر آئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ پچھلے سالوں سے کئی شہروں میں مسلمانوں کے لیے افطاری کا بندوبست کرتی ہے۔ اس سال تو دہلی میں اسرائیلی سفارت خانہ نے بھی افطار پارٹی منعقد کی۔ پتہ نہیں کہ اس میں شامل مسلمانوں نے اسرائیلی سفیر کو فلسطین اور غزہ پرمسلط جنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا یا بس شکم بھر کر ہی واپس لوٹے۔

    خیر بھارت میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے، اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یا ان کی تقریبات میں شرکت کریں گی، ان کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے، مگر اب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظر آتی ہیں، تو انھیں ہندو اکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے لیے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی آبادی کا دسواں حصہ بھارت میں ہے، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا، اس کے ماننے والوں نے ہندوستان میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کا استعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے۔

  • روزے کے جدید مسائل اور ان کا حل – ڈاکٹرمولانا محمد جہان یعقوب

    روزے کے جدید مسائل اور ان کا حل – ڈاکٹرمولانا محمد جہان یعقوب

    روزے کی حالت میں انڈوسکوپی کرانا:
    روزے کی حالت میں انڈوسکوپی کرانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس روزے کی قضا لازم ہوگی ،کیونکہ انڈواسکوپی میںپیٹ ، آنتوں اور دل وغیرہ کے معائنے کے لیے کیمرہ استعمال کرتے وقت عام طور پر کیمرے پر منہ کے راستے سے پانی وغیرہ ڈالاجاتا ہے، تاکہ کیمرہ کے گلے سے گزر کر بدن کے متعلقہ حصے پر پہنچنے تک کیمرے پر بدن کی جواندرونی رطوبات لگ گئی ہوںوہ صاف ہوجائیں ۔

    روزے کی حالت میںانجیوگرافی کرانا:
    روزے کی حالت میںانجیوگرافی کرانے سے روزہ نہیںٹوٹے گا،کیونکہ انجیوگرافی ران کی رگ میں تار ڈال کر کی جاتی ہے ،ا ور رگ کے ذریعے جسم میں دواڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

    روزے کی حالت میں  ای ٹی ٹی کا استعمال:
    ای ٹی ٹی(ETT) ایک ٹیوب ہوتی ہے جوآکسیجن دینے کے لیے منہ کے ذریعے سانس کی نالی میں ڈالی جاتی ہے ،ا س میں کبھی دواڈالی جاتی ہے اور کبھی نہیں ڈالی جاتی ، لہٰذا اس کے استعمال کے وقت اگر اس میں دوا یاپانی وغیرہ ڈالاجائے توروزہ ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر اس کے ذریعے صرف آکسیجن دی جائے جس میں کوئی دوا شامل نہ ہو اور کوئی دوایاپانی وغیرہ نہ دیاجائے، توایسی صورت میں ای ٹی ٹی کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

    روزہ کی حالت میں ڈائیلاسس کرانا:
    روزہ کی حالت میں ڈائیلاسس کرانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا،کیونکہ ڈائیلاسس کی دوشکلیں ہیں ۔ڈائیلاسس کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ بدن کے اندر کاخون مشین اپنے اندر کھینچ کرلے لیتی ہے، پھر اسی خون کوصاف کرتی ہوئی دوسری طرف سے بدن کے اندر داخل کرتی جاتی ہے، اور یہی شکل عام طور پر رائج ہے ۔ڈائیلاسس کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ بدن کی کھال کا ٹ کر اس کے اند ر ایک تھیلی جیسی رکھ دی جاتی ہے،تھیلی کے پائپ کا منہ بدن کے باہر ہوتاہے،اور پائپ کے منہ کے ذریعے اس تھیلی کے اندر کیمیکل ڈال دیا جاتاہے، پھر بارہ گھنٹے کے اندر یہ کیمیکل خون کے خراب مادے کواپنے اندر جذب کرتاجاتاہے اور بارہ گھنٹے بعد یہ کیمیکل (جس نے خراب مادے کو اپنے اندر جذب کرلیاہوتاہے) اسی پائپ کے راستے سے نکال لیاجاتاہے، پھر اسے نکالنے کے بعدنیاکیمیکل اس میں ڈال دیاجاتاہے، اوریہ کیمیکل بارہ گھنٹوںمیں اپنا کام کرلے گا۔مفتیانِ کرام کی جدید تحقیق یہ ہے کہ ڈائیلاسس کی ان دونوں شکلوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ بدن کے فطری راستوں میں سے کسی راستے کے ذریعے اندر کوئی چیز نہیں پہنچائی گئی ، اس لیے ڈائیلاسس کی دونوں شکلیں روزے کی حالت میں جائز ہیں، ان میں سے کوئی بھی شکل روزے کی حالت میں اختیار کی جائے توروزہ فاسد نہیں ہوگا۔(فتاویٰ قاسمیہ )

    مسئلہ:مرد کی پیشاب کی جگہ میں نلکی ڈالنا:
    اگر بیماری کی وجہ سے کسی شخص کی پیشاب گاہ میں نلکی ڈال دی جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

    مسئلہ: عورت کی پیشاب کی جگہ میں نلکی ڈالنا:
    اگر عورت کی پیشاب گاہ میں خشک نلکی ڈالی جاتی ہو تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،کیونکہ عورت کی شرم گاہ اور معدہ اور آنتوں کے درمیان راستہ نہیں ہے، اس لیے خواتین کی شرم گاہ میں دوائی رکھنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ عورت دوادن میں نہ رکھے، رات کو رکھے۔

    جسم کے بعض حصے کی بے ہوشی:
    مسئلہ:ناک میں گیس سونگھاکر یا حساس مقام پر سوئی چبھوکر بعض حصے کو بے ہوش کرنا ناقض ِروزہ نہیں ہے۔اسی طرح مریض کی رگ میں سریع العمل انجکشن لگاکر مخصوص مدت کے لیے عقل کو ماؤف کرنا بھی ناقض روزہ نہیں ہے ۔
    مسئلہ:مریض نے بے ہوشی سے پہلے روزے کی نیت کرلی اورپھر بے ہوش ہوگیا اورغروبِ شمس سے پہلے پہلے افاقہ ہوگیا تو اس کا روزہ صحیح ہے، مگر غروب آفتاب کے بعد افاقہ ہواتو روزہ درست نہیں ہوگا۔ اس روزے کی قضا کرلے ۔

    روشے دار کا حجامہ کرانا:
    مسئلہ:روزے کی حالت میں حجامہ کروانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا،البتہ اگرروزے کی حالت میں حجامہ کروانے کی صورت میں کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو یہ عمل مکروہ ہوگا۔

    دل کے مریضوں کا روزہ:
    مسئلہ:دل کی بعض بیماریوں کے لیے طبیب حضرات ٹکیوں کا نسخہ دیتے ہیں ، یہ ٹکیاں زبان کے نیچے رکھی جاتی ہیں اور فورا ًمنہ میں تحلیل ہوجاتی ہیں ، ایسا کرنے سے مریض کو راحت محسوس ہوتی ہے ۔اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس لیے کہ قصداً اس کا ذائقہ حلق کے نیچے اتاراجاتا ہے۔(الفتاویٰ الشرعیۃ)
    تاہم اس کا اثر زبان تک ہی محدود رہے اور حلق سے نیچے نہ اترے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا ، کیونکہ اس صورت میں یہ کلی کی طرح ہوگا کہ جس طرح کلی سے پانی کا اثر معدے میں حلول نہیں کرتا،ٹھیک اسی طرح ٹکیہ کا اثربھی معدے میں حلول نہ کرے تواس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

    بعض ہومیو پیتھک ادویات کو سونگھنا:
    مسئلہ:بعض ہومیوپیتھک دوائیں صرف سونگھی جاتی ہیں، ان کو کھایا پیا نہیں جاتا اور سونگھنے یازبان پرٹپکانے سے ان کا کوئی جز بدن کے اندر منتقل نہیں ہوتا، لہٰذا ایسی دواؤں کے سونگھنے سے یا خارجی استعمال سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ (مراقی الفلاح مع الطحطاوی ، بحوالہ: آئینہ رمضان) اگر ہومیو پیتھک کی دوا ایسی ہو جس کا اثر دماغ یا معدے تک پہنچتا ہو تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔

    روزے دار کا آپریشن کرانا:
    مسئلہ:روزے کی حالت میں آپریشن کرانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، کیونکہ عام طور پر آپریشن میں کوئی چیز معدے میں نہیںجاتی۔ (فتاوی قاسمیہ،محقق ومدلل جدید مسائل)

    روزے دار کا بائی پاس کرانا:
    مسئلہ: بائی پاس آپریشن اور ہر ایسا آپریشن جو کہ پیٹ یا دماغ کے علاوہ ہاتھ پائوں وغیرہ کا ہو، اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، کیونکہ ان میں پیٹ یا دماغ تک کسی چیز کے پہنچنے کا امکان نہیں ہوتا، البتہ اگر آپریشن غروب کے بعد تک مؤخر کیاجاسکتا ہو تو روزے کی حالت میں آپریشن نہ کرانابہترہے، کیونکہ اس میں خون وغیرہ نکلنے کی وجہ سے ضعف لاحق ہوگا جس سے روزہ توڑنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔(نجم الفتاویٰ )

    روزے دار کا لینس لگوانا:
    مسئلہ:روزے کی حالت میںلینس(Lans)لگوانا جائز ہے۔(رمضان اور جدید مسائل)

    روزے دار کا پھیھڑوں سے پانی نکلوانا:
    مسئلہ:روزے کی حالت میں پھیپھڑے سے پانی نکلوانا جائز ہے ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ پھیپھڑے سے پانی نکالنے میں معدے کاکوئی واسطہ نہیں ، اس سے معدے اورپھیپھڑے میں کوئی چیز داخل نہیں ہوتی ،بلکہ اس سے نکالی جاتی ہے۔(فتاویٰ قاسمیہ،محقق ومدلل جدید مسائل )

    حلق یا ناک سے دوربینی نالی ڈالنا:
    مسئلہ:اگر معدے وغیرہ کے ٹیسٹ کے لیے حلق یا ناک کے راستے سے دوربین والی نلکی ڈالی گئی، جس میں کوئی دوایا چکناہٹ شامل نہ تھی اور اس کا ایک سرا باہر تھا، تو محض اس نلکی کے ڈالنے سے روزہ نہیںٹوٹے گا،لیکن اگر نلکی کے ساتھ کوئی اور مادہ بھی شامل ہو، تو اس کے اندر داخل ہونے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔(مفطرات الصیام المعاصرۃ)

    مقعد سے دوا چڑھانا:
    مسئلہ:پیٹ کی صفائی کے لیے پیچھے کے راستہ سے جو دوا چڑھائی جاتی ہے،جس کو انیما کہا جاتا ہے،کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

    بواسیری مسوں پر دوا لگانا:
    مسئلہ:بواسیر کے اندرونی مسوں پر مرہم یا دوا لگانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، مگر جو مسے باہر رہتے ہیں ان پر دوا لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ اگر بواسیر کے مسے دو تین انگل کے اندر ہوں اوردوا لگانا ناگزیر ہو تو ان پر کریم لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ تری کا اندر پہنچنااس صورت میں روزے کو توڑدیتاہے جب تری پانچ چھ انگل پر پہنچ جائے، اس سے کم مقدار میں تری اندر پہنچنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور بواسیری مسے اتنے اندر نہیں ہوتے ،بلکہ ایک دو انگل کے اندر ہوتے ہیں۔تاہم ایسے مریض کو حتی الامکان احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

    لوپ چڑھانا:
    خونی بواسیر کی تکلیف میں روزے کے درمیان خون نکلے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
    مسئلہ:عارضی مانع حمل اشیا میں سے ایک لوپ ہے، جو عورت کی شرم گاہ میں چڑھایا جاتاہے،چونکہ لوپ فرج میں غائب ہو جاتا ہے اور باہر کچھ نہیں رہتا ، اس لیے اس کوروزے کی حالت میںداخل کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ روزہ رکھنے سے پہلے سے یہ چڑھاہوا تھا تو روزے پرکوئی اثر نہیںپڑے گا۔(رمضان اور جدید مسائل)

    شوگر کے مریض کا روزہ:
    مسئلہ:طبی تحقیق کے مطابق شوگر کے مریض افراد کی شوگر کا لیول جب 60یا 70تک پہنچ جائے تو انہیں جان کاخطرہ لاحق ہوجاتا ہے، اس صورت میں ان کے لیے روزہ توڑنے کا حکم ہے، تاہم اگر روزہ توڑنے کے بجائے اگر کوئی آدمی کسی شربت کی کلیاں کرتا ہے اور اس بات کا یقین ہو کہ شربت کے یاچینی کے ذرات وغیرہ حلق سے نیچے نہیں اترے تو اس صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

    انسولین لگانا:
    مسئلہ:انسولین چوں کہ کھال میں لگانے کا انجکشن ہے اور روزہ کی حالت میں کھال یا گوشت وغیرہ میں انجکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس لیے روزیکی حالت میں انسولین لگانیسے روزہ نہیں ٹوٹے گا،اس لیے شوگر کے مریض روزے کی حالت میں انسولین لگاسکتے ہیں۔

    روزے دار کا صمد بونڈ سونگھنا:
    مسئلہ:روزے کی حالت میںصمدبانڈ سونگھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ اگرناک میں رکھ کر نشے کے طور پر سونگھی جائے تو عام طور سے اس کے ذرات دماغ تک پہنچ جاتے ہیں، اس لیے صمد بانڈ کو ناک میں رکھ کر سونگھنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر صمد بانڈ کو ناک میں ڈالے بغیر باہر سے ہی سونگھا جائے تو دیکھا جائے گا کہ اس کے ذرات ناک کے راستے سے اندر گئے یا نہیں ؟ اگر صمد بانڈ کے ذرات اندر چلے گئے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اگر باہر سے سونگھنے سے اس کے ذرات اندر نہیں گئے تو صرف سونگھنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن بہرحال باہر سے سونگھنے کی صورت میں بھی اس کے ذرات اندر چلے جانے کا احتمال موجود ہے، اس لیے صمدبانڈ سونگھنے سے روزہ بہرحال مکروہ ہو جائے گا ،چاہے ذرات اندر نہ بھی جائیں، لہذا روزے کی حالت میں ناک سے باہر صمدبانڈ رکھ کر سونگھنے سے بھی مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

    اورل سیکس:
    مسئلہ:اورل سیکس، یعنی: عورت کا مردکی اگلی شرم گاہ اپنے منہ میں لینا یا مرد کا عورت کی شرم گاہ چاٹنا، جانوروں کا طریقہ ہے، مسلمانوں کو اِس سے بچنا چاہیے۔ اور اگر کسی نے روزے کی حالت میں بیوی سے اورل سیکس کیا اور انزال ہوگیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، البتہ صرف قضا واجب ہوگی، کفارہ نہیں۔ اور اگر انزال نہیں ہوا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔(الدر المختار مع رد المحتار)

    لیکوریا کی مریضہ کا روزہ:
    مسئلہ:لیکوریا کی مریضہ عورت روزے کی حالت میں اپنے خاص حصے میں کپاس کا ٹکڑا اس طرح رکھ لے کہ کچھ کپاس اندر ہو اور کچھ حصہ باہر رہے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ البتہ اگر کپاس اس خاص حصے میں اس طرح چھپ جائے کہ باہر سے نظر نہ آئے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔

  • رمضان المبارک روحانی تجدید کا مہینہ – راؤ محمد اعظم

    رمضان المبارک روحانی تجدید کا مہینہ – راؤ محمد اعظم

    رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ وہ مبارک وقت ہے جب مسلمان نہ صرف روزے رکھتے ہیں بلکہ عبادات میں بھی خصوصی طور پر مصروف ہو جاتے ہیں۔ نمازِ تراویح، صدقات و خیرات، زکوٰۃ، افطار کی دعوتیں، اور رشتہ داروں اور مستحقین کی مدد اس مہینے کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ لیکن رمضان المبارک کی سب سے خاص عبادت قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر تدبر ہے۔

    قرآن کریم کی تلاوت: سکونِ قلب اور روحانی بالیدگی
    جب ہم رمضان کی راتوں میں مختلف مساجد میں تراویح کے دوران قرآن کریم کی تلاوت سنتے ہیں تو ایک عجیب روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ مقدس کلام دل میں اتر کر اسے سکون بخشتا ہے، غموں کو دور کرتا ہے، اور روح میں اطمینان کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ اور انداز براہ راست قلب و ذہن پر اثر ڈالتے ہیں، جس سے دل کی دنیا بدلنے لگتی ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔

    قرآن کی تلاوت میں تدبر اور غور و فکر
    قرآن صرف پڑھنے کے لیے نازل نہیں کیا گیا، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس پر تدبر کریں، اس کے معانی کو سمجھیں اور اپنی زندگی میں اس کے احکامات کو نافذ کریں۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں عمومی رجحان یہ ہے کہ قرآن کو محض ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے، جبکہ اس کی اصل روح اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ قرآن ہمارے دلوں میں اتر جائے اور ہمیں اللہ کا قرب نصیب ہو، تو ہمیں اس کی تلاوت تدبر اور فکر کے ساتھ کرنی ہوگی۔

    رمضان میں قرآن سے تعلق مضبوط کرنے کا موقع
    رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم ایک مرتبہ مکمل قرآن پڑھ لے یا سنے۔ لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس مقدس کتاب کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنی زندگیوں میں اس کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنائیں۔ اگر ہم روزانہ تھوڑا سا وقت نکال کر قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں، تو ہمارے دل کی کیفیت بدل سکتی ہے اور ہمیں اللہ کی قربت حاصل ہو سکتی ہے۔

    قرآن: ہر شعبہ زندگی کے لیے رہنمائی
    قرآن محض ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمیں عدل و انصاف، محبت و رواداری، صبر و شکر، اور دنیا و آخرت کی بھلائی کے اصول سکھاتا ہے۔ اگر ہم قرآن کو سمجھ کر اس پر عمل کریں، تو نہ صرف ہماری انفرادی زندگی میں تبدیلی آئے گی بلکہ ہمارا معاشرہ بھی حقیقی اسلامی اقدار کا مظہر بن جائے گا۔

    رمضان المبارک میں ہمیں قرآن کریم کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنا چاہیے۔ صرف تلاوت پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اس کے معانی کو سمجھنے، اس پر غور و فکر کرنے اور اپنی عملی زندگی میں اس کے احکامات کو شامل کرنے کی کوشش کریں۔ یہی حقیقی روحانی ترقی ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ کی رحمت اور ہدایت کے قریب لے جاتا ہے۔

  • رمضان اور اتحاد بین المجرمین! عابد ہاشمی

    رمضان اور اتحاد بین المجرمین! عابد ہاشمی

    شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ”نیکی کر،اس سے قبل آواز آئے کہ فلاں شخص اَب اِس دُنیا میں نہیں رہ“۔ نیکی ایک چھوٹا سے لفظ ہے‘مگر اپنے معنی اور مفہوم کے باعث تمام دُنیاوی خزانے اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ نیکی میں اتنی خوبصورتی ہے کہ دُنیابھر کی تمام برائیاں ایک چھوٹی سی بھلائی کے سامنے سر نگوں ہو جاتی ہیں۔رمضان امت ِ مسلمہ کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ جسے نیکیوں کی فصل ِ بہار کہا جاتا ہے۔ رحمت العالمین ﷺ کی حیات ِ مبارکہ بہترین نمونہ ہے۔ ہم نے اس ماہ ِ مقدس کی آمد کو مال بناؤ پالیسی بنا دِیا۔ایک غریب‘ متوسط کا اس ماہ میں جینا محال ہو چکا ہے۔ وہ مزدور جس کی آمدن کے ذرائع ہی محدود ہیں پہلے ہی جن کے بچے کوڑا کرکٹ سے ٹکڑے چُن کرکھاتے ہیں‘ وہ رمضان میں سحر‘ افطار‘ اور پھر عید کے اخراجات کہاں سے پورے کر سکتا ہے؟ ہر سال ماہ صیام کا آغاز ہوتے ہی خود ساختہ مہنگائی کا طوفان آ جاتا ہے۔ ملک میں روزمرہ کی عام اشیا ء کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ ہو جاتا ہے۔جب کہ غیر مسلم ان مقدس ایام میں نرخ کم کر دیتے ہیں‘ اور جہاں تک ممکن ہو مسلمانوں کو سہولت فراہم کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم جب رمضان آتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ کمائی اور منافع کا مہینہ سمجھتے ہوئے ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گناء اضافہ کر دیا جاتا ہے اور غریب آدمی اس مہینے میں رحمتوں کو سمیٹنے کے بجائے اپنا نان نفقہ پورا کرنے کی فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ مہینہ ان کے لئے زحمت سے کم نہیں ہوتا۔ہمارے ہاں وہ تمام اشیاء جن کا تعلق رمضان سے ہے خود ساختہ مہنگی کر دی جاتی ہیں۔خودساختہ مہنگائی کرنا‘ساتھ دینا‘غریبوں کی زیست یوں اجیرن کرنا یہ سب اتحاد المجرمین کے مترادف ہے اور یوں ماہ مقدس کی حرمت پامال کی جاتی ہے۔

    دُنیا بھر میں جب کوئی مذہبی یا عوامی تہوار آتے ہیں تو شہریوں کی سہولت کے لیے اشیائے خورونوش کے علاوہ دیگر اشیا ء کی قیمتوں میں بھی خاطر خواہ کمی کر دی جاتی ہے مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔رمضان کی آمد کے پیش نظر اشیائے خورد و نوش کی ہوش ربا مہنگائی عوام الناس میں ایک اضطراب اور ہیجانی کیفیت لے آتی ہے۔ اللہ ربّ العزت اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ مبارک کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں جن کی اہمیت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان المبارک کیا چیز ہے تو میری اُمت یہ تمنا کرے کہ پورے سال رمضان ہی رہے۔ اس مبارک مہینے کی فضیلت اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کا نزول بھی اسی مبارک مہینے میں ہوا۔ قرآن حکیم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے (ترجمہ) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو سیدھی راہ دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔روزہ ہر مسلمان کے لیے یکساں طور پر فرض ہے خواہ وہ روئے زمین کے کسی بھی ملک یا خطے میں آباد ہو۔ اس کے لیے انھیں اسی طریق کار اور ان ہی اوقات کی پابندی کرنا ہوگی۔ بلاشبہ مختلف مقامات کے سحری اور افطار کے اوقات ان کے جغرافیائی محل و قوع کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں لیکن نہ تو یہ مہینہ تبدیل ہوسکتا ہے اور نہ وہ احکامات تبدیل ہوسکتے ہیں جن کے مطابق سحری و افطار کے اوقات معین کیے جاتے ہیں۔

    رمضان المبارک کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ تقویٰ اور پرہیزگاری کی اجتماعی فضا اور ماحول پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیوں اور آبادیوں پر خشیت الٰہی کی روح پرور کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور روزے داروں کے دلوں میں برائی سے نفرت اور نیکی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ رمضان کے ایام میں بالعموم لوگوں میں گناہوں سے توبہ اور صدقہ وخیرات کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے‘مساکین کوکپڑے پہنائے اور ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرے۔ اس اعتبار سے رمضان کا مبارک مہینہ خیرو ہمدردی کی علامت اور مظہر ہے اور اسلامی معاشرے میں مساوات کے فروغ کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔اس کے علاوہ یہ مقدس مہینہ مسلمانوں میں ملی وحدت اور یکجہتی کے جذبے کو بھی فروغ دیتا ہے جس کی جانب علامہ اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے:جس طرح موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ آنکھوں کو طراوت اور تسکین بخشتا ہے ٹھیک اسی طرح ہر سال رمضان المبارک کا موسم بہار اپنے دامن میں بے شمار فضیلتوں اور برکتوں کی سوغات لے کر آتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے۔ شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزے کو بے مثل اس اعتبار سے قرار دیا ہے کہ اس میں نفس امارہ کو مغلوب کرنے اور اس کی خواہشوں کو دبانے کی صفت بدرجہ غایت پائی جاتی ہے۔ روزوں کی یہ صفت عمومی ہے۔ رہی بات رمضان المبارک کے فرض روزوں کی تو ان کے فضائل اور جسمانی و روحانی فوائد کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔

    چونکہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے لہٰذا اس کے فوائد و برکات سے وہی مسلمان مستفیض ہوسکتے ہیں جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مکمل نیک نیتی اور خدا ترسی کے ساتھ خلوص دل سے کوشش کریں۔ ان میں امیروکبیر‘آجر‘مزدور اور کسان سمیت تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ ان تمام طبقات میں تاجر کا کردار رمضان شریف کے حوالے سے سب سے زیادہ قابل ِ ذکر ہے کیونکہ تاجر ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔ ویسے بھی اسلام میں تجارت کو دیگر تمام پیشوں میں ایک خاص فضیلت و اہمیت حاصل ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پیشے کو تمام پیشوں سے افضل قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اسی پیشے کو اختیار فرمایا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک میں ایک مسلمان تاجر پر دہری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو ان آداب و قواعد تجارت کی سختی سے پابندی جن کا دین اسلام پر مسلمان تاجر سے خصوصی طو رپر تقاضا کرتا ہے۔ مثلاً مال کی خریدوفروخت میں نرمی کا برتاؤ‘ ذخیرہ اندوزی سے گریز‘ ملاوٹ سے مکمل اجتناب‘ ناجائز منافع خوری سے پرہیز‘ مال کا عیب نہ چھپانا‘پورا ناپنا اور تولنا اور مال بیچنے کے لیے قسمیں کھانے سے احتراز‘ دوسرے ان تمام باتوں سے بچنا جو مسلمان کو روزے کے اجروثواب سے محروم کردیتی ہیں مثلاً جھوٹ بولنا‘غیبت کرنا‘بے ہودہ باتیں کرنا‘گالیاں بکنا‘فضول قسم کی گفتگو کرنا، لڑنا جھگڑنا اور خلاف شرع کاموں میں مشغول رہنا۔ہمیں غریبوں‘بے کسوں کی مدد کرنی چاہیے‘خودساختہ مہنگائی‘لغویاں کا ساتھ دے کر اتحاد المجرمین کا حصہ نہیں بنناچاہیے۔

  • رمضان میں بہتے لہو کا نوحہ  – حافظ احمد اقبال

    رمضان میں بہتے لہو کا نوحہ – حافظ احمد اقبال

    یہ رمضان المبارک کی پرنور رات تھی… آسمان سے رحمتیں برس رہی تھیں، زمین پر سجدے بچھے تھے، ہر طرف قرآن کی تلاوت کی صدائیں بلند تھیں۔ در و دیوار اللہ کے ذکر سے گونج رہے تھے، مساجد میں نور برس رہا تھا، اور روزہ دار اپنے رب کے حضور جھکے ہوئے تھے۔ یہ وہ لمحات تھے جب رحمت کے دروازے کھلتے ہیں، جب مغفرت کے طلبگار اپنے گناہوں کے بوجھ سے نجات کی امید لیے دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے ہیں، جب اللہ کی رحمت آسمان سے زمین پر نازل ہوتی ہے۔

    لیکن پھر…!

    قیامت ٹوٹ پڑی!

    ایک نہیں، دو نہیں… بلکہ تیرہ چراغ بجھا دیے گئے!

    مسجدوں کے محراب خون سے رنگین ہوگئے، منبروں پر بیٹھے علماء کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ وہ ہاتھ، جو ہمیشہ دعا کے لیے اٹھتے تھے، آج بے جان ہو چکے تھے۔ وہ زبانیں، جو قرآن کی روشنی پھیلاتی تھیں، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔ وہ چہرے، جو اللہ کے نور سے منور تھے، خون میں نہا گئے۔

    یہ علماء کون تھے؟
    یہ وہ لوگ تھے جو امت کو سیدھا راستہ دکھاتے تھے، جو قرآن و حدیث کی روشنی میں حق اور باطل کا فرق سمجھاتے تھے۔ یہ وہ چراغ تھے جو معاشرے کو اندھیروں سے نکالنے کے لیے جلتے تھے، مگر آج انہی چراغوں کو بجھا دیا گیا۔ یہ وہ سچائی کی آوازیں تھیں، جنہیں خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔

    کسی کو مسجد میں سجدے کی حالت میں مار دیا گیا…
    کسی کو قرآن پڑھاتے ہوئے شہید کر دیا گیا…
    کسی کے سینے میں گولیاں اتار دی گئیں، کیونکہ وہ حق کا علم بلند کر رہا تھا…

    نماز کے مصلے، جو گناہوں کی بخشش کے لیے بچھائے جاتے تھے، آج ان پر خون کے دھبے ثبت ہو چکے تھے۔ وضو کے پانی کی جگہ لہو بہہ رہا تھا، اور وہ مسجدیں جو امن و سکون کا گہوارہ تھیں، آج وہاں شہیدوں کے لاشے پڑے تھے۔

    ریاست ماں کہاں ہے؟

    کیا کوئی ہے جو ان شہداء کے خون کا حساب لے؟
    کیا کوئی ہے جو ان یتیم بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھے، جو اپنے والد کی راہ دیکھ رہے تھے؟
    کیا کوئی ہے جو ان ماؤں کے آنسو پونچھے، جو اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھا رہی ہیں؟
    کیا کوئی ہے جو ان بیواؤں کا دکھ سمجھے، جن کے سہاگ چھین لیے گئے؟
    کیا کوئی ہے جو اس امت کو یہ احساس دلا سکے کہ جب ایک عالم قتل ہوتا ہے، تو درحقیقت دین پر ایک وار کیا جاتا ہے!

    یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، اور شاید آخری بھی نہ ہو!

    ہم نے کتنے رمضان ایسے دیکھے، جہاں سجدے خون میں رنگے گئے؟
    ہم نے کتنی عیدیں ایسی دیکھیں، جہاں گھروں میں ماتم چھایا ہوا تھا؟
    ہم نے کتنی بار دیکھا کہ ایک حق کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا؟
    مگر پھر بھی امت خاموش رہی، ریاست نے آنکھیں بند رکھیں، انصاف دبا دیا گیا، اور قاتل دندناتے رہے۔

    کب تک؟
    یہ خاموشی کب ٹوٹے گی؟
    یہ بے حسی کب ختم ہوگی؟
    کیا ہم صرف مذمتی بیانات دینے کے لیے رہ گئے ہیں؟
    کیا ہم صرف چند آنسو بہا کر، چند لمحے افسوس کر کے آگے بڑھ جائیں گے؟

    اے اللہ!
    ہم تیری بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں!
    ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ رمضان میں بہنے والے اس خون کو ضائع نہ جانے دینا!
    اے ربِ کریم! ان علماء کی شہادتوں کو امت کے لیے بیداری کا سبب بنا دینا!
    اے مالکِ ارض و سما! ہمیں اتنی ہمت عطا کر کہ ہم اپنے اصل دشمن کو پہچان سکیں!
    اے اللہ! ہمارے دلوں کو جھنجھوڑ دے، ہمیں غیرت عطا کر، ہمیں جرات عطا کر کہ ہم ظلم کے خلاف اٹھ سکیں، تاکہ یہ خون ہمارے دامن پر ہمیشہ کا دھبہ نہ بن جائے!

    ریاست ماں کہاں ہے؟
    کیا یہ ماں اپنے بچوں کے خون پر خاموش رہے گی؟
    کیا یہ ماں اپنے ہی گھر میں بہنے والے لہو کو نظرانداز کر دے گی؟
    کیا یہ ماں ان بچوں کو بھول جائے گی، جو اس کی گود میں پروان چڑھے تھے؟

    اے امت مسلمہ! جاگ جاؤ!
    یہ سونے کا وقت نہیں، یہ وقت ہے حق کے لیے کھڑے ہونے کا!
    یہ وقت ہے ان شہداء کے خون کا حساب لینے کا!
    یہ وقت ہے ظلم کے خلاف اٹھنے کا، تاکہ آنے والے رمضان میں کوئی اور مسجد، کوئی اور محراب، کوئی اور عالم لہو میں نہ نہلایا جائے!

    یا اللہ! ہمیں ہدایت دے!
    یا اللہ! ہمیں جرات دے!
    یا اللہ! ہمیں وہ امت بنا دے، جو اپنے علماء کے لہو کو رائیگاں نہ جانے دے!

    آمین! یا رب العالمین!

  • رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر دھوکہ  – آصف امین

    رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر دھوکہ – آصف امین

    رمضان، جسے ہم صبر، تقویٰ اور روحانیت کا مہینہ کہتے ہیں، آج کل اس کی شکل کسی بڑے میگا شو میں بدل چکی ہے۔ یہ مہینہ جو اللہ کی رضا، غریبوں کی مدد اور دلوں کی صفائی کے لیے مخصوص تھا، اب ٹی وی اسکرین پر چمکتے دمکتے سیٹ، جگمگاتے ملبوسات، اور قیمتی انعامات کے درمیان دم توڑ رہا ہے۔ اصل عبادت پیچھے رہ گئی، اور کاروباری مقابلہ بازی آگے نکل گئی ہے۔

    ہر چینل نے رمضان کو ایک منافع بخش موقع سمجھ کر اپنی اپنی دکان سجا لی ہے۔ کہیں مہنگے موبائل فونز بانٹے جا رہے ہیں، تو کہیں گاڑیوں اور عمرے کے ٹکٹوں کی بارش ہو رہی ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ آپ اسٹیج پر آ کر اچھل کود کریں، مضحکہ خیز سوالوں کے بے تُکے جواب دیں، اور جتنی زیادہ بے عزتی برداشت کریں، اتنا ہی بڑا انعام جیتیں۔ عبادت اور روحانیت کا تقدس بیچ بازار نیلام ہو رہا ہے، اور ہم ناظرین، اس تماشے کو تالیاں بجا کر داد دے رہے ہیں، جیسے یہی رمضان کی اصل روح ہو۔

    کبھی رمضان نشریات میں علما اور دینی سکالرز ہوا کرتے تھے، جو قرآن و حدیث کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ ان کی گفتگو دلوں کو نرم کرتی تھی، ایمان کو تازہ کرتی تھی، اور رمضان کی اصل روح کو اجاگر کرتی تھی۔ مگر آج کے رمضان میں میزبان ایسے چمکتے دمکتے چہرے ہیں، جو باقی سال فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں اور رمضان آتے ہی “روحانی استاد” بن جاتے ہیں۔ کل تک جو اداکار ڈراموں میں ناجائز محبتوں کو پروان چڑھا رہے تھے، وہی آج ہمیں حیا، پردے اور نیکی کا درس دے رہے ہیں۔ کیا یہ منافقت کی انتہا نہیں؟

    یہاں تک کہ دین اور کاروبار کا فرق بھی مٹ چکا ہے۔ ہر رمضان نشریات میں “خصوصی وقفہ” آتا ہے، جس میں میزبان جنت اور بخشش کی خوشخبری دینے کے بعد فوراً کسی کولڈ ڈرنک، چائے، یا کچن آئٹم کا اشتہار پیش کرتا ہے اور کہتا ہے، “روزہ کھولیں تازگی کے ساتھ!” یوں لگتا ہے جیسے دین اور بزنس کا نکاح ہو چکا ہے، اور ہم سب اس شادی میں خوشی خوشی شرکت کر رہے ہیں۔

    سب سے زیادہ افسوسناک منظر وہ ہوتا ہے جب صدقہ و خیرات کو بھی تماشا بنا دیا جاتا ہے۔ کسی مجبور ماں کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے، اس کے آنسو براہ راست نشر کیے جاتے ہیں، اور پھر ایک “مہربان اسپانسر” آگے بڑھ کر امداد کا اعلان کرتا ہے — مگر یہ امداد بھی اس شرط پر دی جاتی ہے کہ سب کچھ آن ایئر جانا چاہیے تاکہ نیکی کے ثواب کے ساتھ ساتھ برانڈ کی مشہوری بھی ہو جائے۔ یہ وہی خیرات ہے جسے اللہ کے لیے خفیہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، مگر ہم نے اسے اپنی شہرت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ اس “رمضان انڈسٹری” کا اصل مجرم کون ہے؟ وہ چینلز جو رمضان کو بزنس سیزن سمجھ کر بیچ رہے ہیں؟ وہ اسپانسرز جو دین کو پروڈکٹ بنا کر پیش کر رہے ہیں؟ یا ہم ناظرین، جو یہ سب دیکھنے کے باوجود تالیاں بجا کر ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں؟

    سچ تو یہ ہے کہ جب تک ہم یہ تماشے دیکھتے رہیں گے، یہ کاروبار پھلتا پھولتا رہے گا۔ جب تک ہم یہ ڈھونگ برداشت کرتے رہیں گے، رمضان عبادت کا مہینہ کم اور ریٹنگز کا بزنس پراجیکٹ زیادہ بنتا جائے گا۔

    کیا اللہ کے سامنے ہمارا روزہ قبول ہوگا، جب ہماری افطاری ایسے شو کی دعاؤں سے ہو، جس میں دعاؤں کے ساتھ اسپانسرز کے لوگو بھی چل رہے ہوں؟ کیا ہمیں ایک نیا “روزہ پیکج” خریدنا پڑے گا، جس میں نماز، دعا اور بخشش کے ساتھ “فری گفٹ ہمپر” بھی شامل ہو؟

    فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے — ہم یہ سب دیکھتے رہیں گے یا اس دھوکے کو مسترد کر کے اصل رمضان کی طرف پلٹیں گے؟ ہم اس تماشے کے ناظر بنے رہیں گے یا اس بازار سے باہر نکل کر عبادت کی اصل روح کو تلاش کریں گے؟

    سوچیے گا ضرور!

  • یہ ’تراویح‘ کا لفظ کہاں سے آگیا؟ ابونثر

    یہ ’تراویح‘ کا لفظ کہاں سے آگیا؟ ابونثر

    گلستانِ جوہرکراچی کی سعد آباد سوسائٹی سے سلمان بیگ صاحب کا سوال بالواسطہ موصول ہوا ہے:
    ”قرآن و حدیث میں تہجد اور قیام اللیل کا ذکر ہے، یہ ’تراویح‘ کا لفظ کہاں سے آگیا؟“

    سوال سُن کر خوشی ہوئی۔ ہم بھی ہر لفظ کے پیچھے پیچھے اسی دُھن میں بھاگے پھرتے ہیں کہ دیکھیں تو سہی، ہمارے دیاروں میں یہ لفظ کہاں سے در آیا؟ بس اسی غرض سے اِن کالموں میں ہم الفاظ کا پیچھا کرتے ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں پیچھا کرتے پا کر الفاظ ہم سے آگے آگے اورخوب تیز تیز بھاگ لیتے ہیں۔ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا، جز آہِ سحرگاہی۔

    فقہی اور مسلکی معاملات مفتیانِ کرام جانیں۔ ہم تو اتنا جانے ہیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ’تراویح‘ جمع ہے ’ترویحہ‘ کی۔’ترویحہ‘ کے معنی یوں تو مطلقاً بیٹھنے کے ہیں، مگر بعد میں اس لفظ کے اصطلاحی معنی تراویح کی چار رکعتوں کے بعد تازہ دم ہونے کی غرض سے بیٹھنے کے ہو گئے۔’ترویحہ‘ کا مطلب ’ایک دفعہ آرام کرنا‘ بھی لیا گیا ہے،بالکل اُسی طرح جیسے ’تسلیمہ‘ کا مطلب ’ایک دفعہ سلام پھیرنا‘لیا جاتا ہے۔ مثلاًتراویح کی تکمیل پردو رکعتوں کے بجائے وتر کی تین رکعتوں کے بعد ’تسلیمہ‘ کیا جاتا ہے۔

    پر، یہاں تو سوال یہ ہے کہ رمضان مین عشا کی نماز کے بعد پڑھی جانے والی نماز کو ’تراویح‘ کیوں کہاگیا؟ تو صاحب! وجہِ تسمیہ ’تراویح‘ کی یہ بتائی گئی ہے کہ صحابۂ کرامؓ، رمضان المبارک میں جب جماعت کے اہتمام کے ساتھ قیام اللیل کرتے تھے تو ہر دو سلام (یعنی چار رکعتوں) کے بعد ’ترویحہ‘ فرماتے تھے۔مطلب یہ کہ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے نماز میں وقفہ کرتے۔ یوں یہ نماز ’وقفوں والی نماز‘ یعنی نمازِ ’تراویح‘ کہی جانے لگی۔تراویح کی آٹھ رکعتیں، بیس رکعتیں، حتیٰ کہ چھتیس رکعتیں بھی پڑھی گئی ہیں۔ان پر وتر کی تین رکعتیں مزید۔

    آج بھی ماہِ رمضان میں پورے عالمِ اسلام میں ’تراویح‘ بڑی دھوم دھام سے ادا کی جاتی ہے۔ہر مسجد میں حفاظِ قرآن مہینے بھر میں پورے قرآنِ مجید کی تلاوت مکمل کرتے ہیں۔یوں ’تراویح‘ میں پابندی سے شرکت کرنے والے تمام مسلمان سورۂ فاتحہ سے سورۃالناس تک پورا قرآن مجید ایک بار کم از کم سن تو لیتے ہیں۔بعض مساجد میں ایک اہتمام اوربھی ہوتا ہے، وہ یہ کہ ’آج کی تراویح‘ میں پڑھی جانے والی قرآنی سورتوں کا ترجمہ اور تشریح بیان کی جاتی ہے۔ایسی مساجد کی تراویح میں شریک ہونے والے نمازی، تراویح کی برکت سے قرآنِ پاک کے پیغام سے بھی کسی قدر آشنا ہو جاتے ہیں۔

    صاحبو!رمضان وہ ماہِ مبارک ہے جس میں جاپان سے کینیڈا تک قومِ رسولِ ہاشمیؐ ایک ہی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔ایک مخصوص وقت بیدار ہونا اور سحری کھانا۔ایک مخصوص وقت جمع ہو کر افطار کرنا۔نمازِ عشا کے بعد اہتمام سے تراویح پڑھنا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس ماہِ مقدس میں امت مسلمہ کے افراد اور ادارے جتنی بڑی مقدار میں دنیا بھر میں دولت کو گردش میں لاتے ہیں اُس کی مثال دنیا کی کسی دوسری قوم کے ہاں نہیں ملے گی۔اُمت کی صرف خامیوں اور خرابیوں کو کھوجتے پھرنے والی نگاہیں اگر شہد کی مکھی کی طرح پھولوں کی تلاش میں نکلیں تو اُن کی آنکھیں یہ دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ جائیں کہ کیا کیا مچی ہیں یارو ’رمضان‘ کی بہاریں۔ تراویح کے بعد مسلم محلّوں کی مساجد کے ارد گرد بڑی رونق رہتی ہے۔بالخصوص جن مساجدکی ’تراویح‘ میں خواتین کی شرکت کا خاص اہتمام ہوتا ہے،اُن کے باہر عورتوں اوربچوں کا ہجوم کسی تقریب کاساسماں بنا دیتا ہے، گلیوں اور راستوں میں چہل پہل ہو جاتی ہے۔

    لفظ ’تراویح‘ ہے تو اسمِ جمع، لیکن اُردو میں یہ لفظ بطورِ واحد ہی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً تراویح شروع ہوگئی، تراویح ہو رہی ہے یا تراویح ختم ہوگئی۔دلی کے کرخنداروں کے ہاں تراویح کی بھی جمع استعمال ہوتے دیکھی اور سُنی۔ کوئی ’تراوِیاں‘ کہتا ہے اور کوئی ’ترابِیاں‘۔

    لفظ ’ترویحہ‘ ہمارے لیے اجنبی سہی، مگر اس لفظ کے خاندان کے بہت سے الفاظ سے ہم مانوس ہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں بکثرت بولے جاتے ہیں۔ اجنبی ہو جانے والے الفاظ میں سے ایک لفظ ’راح‘ بھی ہے، جس کے معنی خوشی اور نشاط کے ہیں۔ میرانیسؔ مرحوم نے پسر یعنی اولادِ نرینہ کو بھی ’راح‘ قررا دیا ہے۔ انیسؔ اپنی ایک مسدس کے پہلے بند میں کہتے ہیں:
    [poetry]لذت کوئی پاکیزہ ثمر سے نہیں بہتر
    نکہت کوئی بوئے گُلِ تر سے نہیں بہتر
    راحت کوئی آرامِ جگر سے نہیں بہتر
    نعمت کوئی دنیا میں پسر سے نہیں بہتر
    صدموں میں علاجِ دلِ مجروح یہی ہے
    ریحاں ہے یہی، راح یہی، روح یہی ہے[/poetry]

    ’راح‘ بھی اسمِ جمع ہے۔اس کا واحد ’راحۃ‘ ہے۔ اُردو میں ’راحت‘ لکھا جاتا ہے۔اس کے معنی ہیں آرام و آسائش، خوش ہونا یا ہشاش بشاش ہو جانا۔مگر اُردوکے شعرائے کرام راحت کی جمع کے طور پر’راح‘ کی جگہ ’راحتیں‘ استعمال کرتے دیکھے گئے ہیں۔فیضؔ کی ایک مشہور نظم ہے”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“۔ اس نظم میں وہ اپنی محبوبہ کو ترکِ محبت کی اطلاع اس طرح دیتے ہیں جیسے کوئی شخٰص اپنے کسی حاسد دوست کو اپنی ملازمت میں تبادلے کی اطلاع دیتا ہے، بالخصوص اُس تبادلے کی جو ترقی کے ساتھ ہوا ہو۔ چناں چہ فیضؔ اپنی محبوبہ کو خوشی خوشی مطلع کرتے ہیں کہ ”راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا“۔

    راحت ہی کے قبیلے کا ایک لفظ ہے ’استراحت‘۔ اُردو میں خوب مستعمل ہے۔اس کا مطلب ہے آرام کرنا، تازہ دم ہونایاکہیں آسائش کے ساتھ قیام کرنا وغیرہ۔اختر علی اخترؔجب عشق و عاشقی سے تھک گئے تو تھک کر برسوں سروْ کے پیڑ تلے لیٹے رہے۔ وہیں لیٹے لیٹے دم دے بیٹھے۔ البتہ دم دیتے ہوئے یہ کارِ خیر کرتے گئے کہ لواحقین کو اپنے دم دے بیٹھنے کا سبب بتاتے گئے ورنہ وہ تجسس میں مر جاتے:
    [poetry]عاشقِ شیدا کا دم نکلا ہے قد کی یاد میں
    استراحت کی ہے برسوں سایۂ شمشاد میں [/poetry]

    ہمارے ہاں شمشاد مردوں کا نام بھی ہوتا ہے اور خواتین کا بھی۔شمشاد نامی بعض خواتین و حضرات کا قد دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ان جیسے کوئی بیس شمشاداگر اوپر تلے رکھ دیے جائیں تب جا کر سروْ کے کسی کم سِن درخت کے برابر ہو پائیں گے۔اور تب شاید یہ ممکن ہو سکے کہ ’عاشقِ شیدا‘ صاحب ان کے سائے میں استراحت فرمائیں۔ رمضان کی راتوں میں تراویح کے بعد دیر تک سر پر سوار رہنے والا شاگرد بھی جاتے جاتے اکثر یہ احسان دھر جاتا ہے کہ ”حضرت! مجھے اجازت دیجے اور اب آپ بھی اب استراحت فرما لیجے“۔

    لغات میں لفظ ’ترویح‘ بھی ملتا ہے، جس کے لغوی معنی سانس لینے یا ہوا دینے کے ہیں۔’ریح‘ ہوا کو کہتے ہیں، اس کی جمع ریاح ہے۔ مگر اردو والوں کی ہر بات نرالی ہے۔ وہ ریاح بھی بطور واحد نکالتے ہیں۔خوش گوار اور خوشبودار ہوا ’ریحان‘ ہے، ایک خوشبودار پودا (تلسی) بھی ’ریحان‘ کہلاتا ہے۔ خوشبو دینے والی شے یا گُل دستے کو ’ریحانہ‘ کہتے ہیں۔ مگر جاتے جاتے ذرا سرفراز شاہد ؔ صاحب کی بھی سنتے جائیے کہ وہ ’ریحانہ‘ کے متعلق کیا بتاتے ہیں۔چوک پر کھڑے ہو کر ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
    [poetry]یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ پڑھتی تھی
    وہ لڑکی تھی، مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی[/poetry]