Tag: دلت

  • بھارتی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟ افتخار گیلانی

    بھارتی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟ افتخار گیلانی

    چونکہ اس وقت کرکٹ کی چیمپین ٹرافی اب آخری مرحلہ میں داخل ہو رہی ہے، اس ٹورمامنٹ میں بھارتی ٹیم نے اپنی صلاحیت، لیاقت اور قابلیت کا لوہا منوا لیا ہے۔

    سوال مگر یہ ہے کہ کرکٹ، جو اب حالیہ عرصے میں بالی ووڈ کی طرح بزنس اور تفریح سے لبریز ایک چکا چوند کے مرکب کے طور پر سامنے آیا ہے، اورجس کے کھلاڑی راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں، آخر اس کی ٹیم کے اسکواڈ میں ہندوستان کی اکثریتی آبادی کو جگہ کیوں نہیں مل پاتی ہے؟ اگر ہندوستان کی موجودہ ٹیم کا جائزہ لیا جائے،اس میں سات اونچی ذات کے ہندو، تین مڈل کاسٹ یعنی دیگر پسماندہ ذاتوں (او بی سی) سے تعلق رکھنے والے اور ایک مسلمان ہیں۔

    چند برس قبل بھی ایک جریدہ اکنامک اینڈ پولیٹکل ویکلی نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ہندوستانی ٹیسٹ کرکٹ کی نوے سالہ تاریخ میں کل 300کرکٹروں میں سے بس چھ یا سات ہی دلت یعنی نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ٹیم میں ابھی تک جگہ بنائی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کرکٹ میں سیلکشن ذات پات کی بنیاد کے بجائے صرف میرٹ پر ہونی چاہیے۔ مگر سوال ہے کہ پچھلے 70سالوں سے ملک کی اکثریتی آبادی کو زمینی سطح سے ہی اس پر تعیش کیریئر کے لیے تیار کیوں نہیں کیا جاتا ہے، جس میں پیسہ اور نام وافر مقدار میں دستیاب ہے؟
    یا پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرکے ان کو قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا ہے؟

    موجود ٹیم میں سات اونچی ذاتوں کے کھلاڑیوں میں چار برہمن، دو ویشیا یعنی بنیا برادری سے اور ایک راجپوت ہیں۔ پچھلے نوے سالوں میں ہندوستانی ٹیم میں اعلیٰ ذاتوں کی شرح اپنی آبادی سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ اب کچھ عرصے سے سوریہ کانت یادو، کلدیپ یادو، اکسر پٹیل وغیرہ کو موقع ملنے سے او بی سی کھلاڑیوں کو موقع مل رہا ہے۔ مگر عمومی طور پر آج بھی قومی ٹیم میں برہمن طبقے کی بالا دستی ہے، جو ہندوستان کی مجموعی آبادی کا بس 3.5 فیصد ہے؟ برہمن، چھتری (راجپوت)، ویشیا یا بنیا، جو ہندو آبادی کی اعلیٰ ذاتیں مانی جاتی ہیں، کل آباد ی کا صرف 15 فیصد ہیں اور کرکٹرز میں ان کا تناسب تو 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ موجودہ ٹیم کے پندرہ رکنی اسکاڈ میں بھی اونچی ذاتوں کا تناسب 46 فیصد سے اوپر تھا۔

    چند برس قبل جب گجرات سے تعلق رکھنے والے دلت کھلاڑی یوزویندرا چہل نے ٹیسٹ کرکٹ میں پیش قدمی کی، تو ان کے سینئر ساتھی یوراج سنگھ ان کو ‘بھنگی’ کہا تھا جس کے بعد دلت سماجی کارکنوں نے پولیس میں ان کے خلاف شکایت کی اور اس کو ایک نسل پرستانہ اور تعصب سے بھر پور جملے سے تعبیر کیا۔ بعد میں یوراج سنگھ نے اس پر معافی مانگی۔ مگر یہ شاید عمومی فکر اور ذہن کی نما ئندگی کرتی ہے، جو کرکٹ جیسے چکا چوند کھیل میں کسی بھنگی کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ حالانکہ بتایا جاتا ہے کہ صرف چھ دلت -پال وانکر بالو، ایکناتھ سولکر، کرسن گھاوڑی، ونود کامبلی، بھونیشور کمار اور اب یوزوندرا چہل ہی ہندوستان کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیل چکے ہیں۔

    وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں وزیر اور دلت لیڈر رام داس آٹھوالے نے کئی برس قبل تجویز دی تھی کہ کرکٹ میں دلت کھلاڑیوں کے لیے اسی طرح کوٹہ رکھا جائے، جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام کھلاڑیوں اور دیگر نسلوں کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کم از کم اکیڈیمی اور نچلی سطح کی کرکٹ میں اس طرح کا کوٹہ نافذ کردینا چاہیے۔ 2008 میں کرکٹ بورڈ کے سکریٹری نرنجن شاہ نے بھی جنوبی افریقہ کی طرز پر ہندوستان میں بھی کرکٹ میں کوٹہ سسٹم لاگو کرنے کی تجویز دی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیم میں کم از کم سات کھلاڑی نچلے طبقات سے آنے چاہیے۔ مگر اس پر بورڈ میں ہی ہنگامہ برپا ہوگیا اور اس کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔

    محقق سری وایام آنند کے مطابق کرکٹ کا کھیل برہمن کے رسم و رواج کے ساتھ عین مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ اس کھیل میں دیگر کھیلوں کے برعکس دیگر کھلاڑیوں کو چھونا نہیں پڑتا ہے۔ بس گیند اور بلا ہی ایک دوسرے کو چھوتے رہتے ہیں۔ مشہور تاریخ دان اور مصنف رام چندر گہا نے ہندوستانی کرکٹ پر لکھی اپنی دو تصنیفات میں درج کیا ہے کہ جب برصغیر میں کرکٹ کی بنیاد ڈالی گئی تو کئی دلت کھلاڑی اس کا حصہ تھے۔ متحدہ ہندوستان کے پہلے بڑے کرکٹر اور مشہور بالر پال وانکر بالو، دلت تھے۔ وہ ایک چمار فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1875 میں کرناٹک کے دھارواڑ شہر میں پیدا ہوئے، مگر ان کی فیملی نے روزگار کی خاطر مہاراشٹرہ کے شہر پونہ ہجرت کی۔ وہ شہر کے جمخانہ کلب میں نوکری کرتے تھے کہ وہ ایک برطانوی افسر کی نظر میں آگئے اور نیٹ پریکٹس کے دوران اس نے ان کو گیند بازی کروانے پر متعین کیا۔ بس کیا تھا دیگر برطانوی افسران جو کرکٹ کھیلتے تھے، اپنی بلے بازی درست کروانے کے لیے ان سے بالنگ کرواتے تھے۔ ان دنوں شہر کی مقامی ٹیم، جو برہمن ٹیم کے نام سے موسوم تھی، برطانوی ٹیم کو ہروانے کی تگ ودو تھی۔ انہوں نے بالو کو ٹیم میں شامل کردیا۔ گو کہ فیلڈ میں وہ دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے، مگر ڈریسنگ روم میں آنے یا دیگر ٹیم ممبران کے ساتھ کھانا کھانے کی ان کوممانعت تھی۔ ان کو چائے یا تو مٹی کے برتن میں دی جاتی تھی یا گھر سے ان کو اپنا کپ لانا پڑتا تھا۔ بالو کی دیکھا دیکھی اس کے دیگر بھائی شیوارام، گنپت اور ومل نے بھی کرکٹ کھیلنے کی شروعات کی۔ بالو اور شیوارام 1906 کی اس ہندوستانی ٹیم کا حصہ تھے، جس نے یورپی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلا۔ بالو نے اس میچ میں آٹھ وکٹ لیے۔ مگر اس کار کردگی کے باوجود ان کو بعد میں ڈراپ کیا گیا۔ خدشہ تھا کہ وہ کہیں ٹیم کی کپتانی کی مانگ نہ کریں۔ احتجاج میں اس کے بھائیوں نے بھی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک بیان جاری کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’’ان کی ذات کی وجہ سے ان کو تحقیر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور اگر کرکٹ میں قابلیت سے زیادہ ذات کی اہمیت ہے، تو وہ اس سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔‘‘ یورپ میں اپنی بالنگ کا لوہا منوا کر واپسی پر ڈپریسڈ کلاس ایسوسی ایشن نے بمبئی میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ منعقد کیا، جس میں دلت رہنما اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تقریر کی۔

    مؤرخ رام چندر گہا نے اپنی کتاب ’’اے کارنر آف فارن فیلڈ‘‘ میں ان کا موازنہ امریکی سپر اسپورٹ اسٹارز جیکی رابنسن اور محمد علی جیسے شہری آزادیوں کی تحریک کے ہیرو سے کیا ہے۔ ہندوستان کے اس عظیم کرکٹر پلوانکر بالو کو ان کی دلت شناخت کی وجہ سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ ان کے نام پر کوئی یادگار، مجسمہ یا ٹورنامنٹ ابھی تک نہیں رکھا گیا ہے۔

    جیمز ایسٹل نے اپنی کتاب ‘دی گریٹ تماشا: کرکٹ، کرپشن، اینڈ دی سپیکٹاکولر ماڈرن انڈیا’ نے ایک اور دلت کھلاڑی وڈا گنیش کا ذکر کیا ہے۔ گنیش نے بھی 1990 کی دہائی میں ہندوستان کے لیے چار ٹیسٹ کھیلے۔ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک اور عظیم کرکٹر، جن کا تعلق ماہی گیر برادری سے تھا، ونود کامبلی تھے، جو کرکٹ لیجنڈ سچن تندولکر کے بچپن کے ساتھی تھے۔ ان دونوں کو رماکانت اچریکر نے تربیت دی تھی۔ کامبلی کے بارے میں، اچریکر کا کہنا تھا کہ وہ تندولکر سے زیادہ باصلاحیت ہیں۔ ان دونوں نے ہیرس شیلڈ اسکول ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ شراکت کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کامبلی نے 349 بنائے اور 6 وکٹیں حاصل کیں، اور تندولکر نے 326 رنز بنائے۔ تندولکر نے ایک سال بعد بمبئی رنجی ٹیم کے لیے ڈیبیو کیا، اور کامبلی نے اس کے ایک سال بعد ڈیبیو کیا۔ تندولکر نے 1991 میں اور کامبلی نے 1993 میں ہندوستان کے لیے کھیل کی شروعات کی۔ کامبلی نے اپنے پہلے سات ٹیسٹ میچوں میں دو ڈبل سنچریوں سمیت چار سنچریاں بنائیں۔ اپنے 17 ٹیسٹوں کے بعد، کامبلی کی ویسٹ انڈیز کے خلاف بری سیریز تھی اور اسے ڈراپ کر دیا گیا۔ 2008 میں ایک انٹرویو میں کامبلی نے کہا کہ انہیں ان کی ذات اور رنگت کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا تھا۔ سچن تندولکر کے اس ساتھی بلے باز ونود کامبلی نے محض تین سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔ مسلسل نظر انداز کرنے پر2000 میں انہوں نے کر کرکٹ کو الوداع کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈریسنگ روم میں ان کو تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جس سے انکی کارکردگی متاثر ہوگئی۔ اعلیٰ ذات کے تندولکر کی کامیابی اور نچلی ذات کے کامبلی کی تنزلی، ہندوستانی کرکٹ اور بھارت کے سماجی نظام کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

    بیسویں صدی کے اوائل تک کئی دلت مقامی و قومی کرکٹ کا حصہ رہے ہیں۔ مگر جیسے ہی راجے مہاراجوں نے کرکٹ کی سرپرستی کرنی شروع کردی، دلت کرکٹر کم ہوتے گئے۔ آزادی کے بعد کارپوریٹ سیکٹر نے راجے مہاراجوں کی جگہ سنبھالی اور سلیکشن میں کئی اور عوامل شامل ہوگئے۔
    ایک کھلاڑی کے لیے کارپوریٹ نوکری کی طرح فرفر انگریزی بولنا، تعلیم اور نفاست ضروری جز وبن گئے، اس کو جنٹلمین گیم کا نام دیا گیا۔ جس کی وجہ سے کسی دیہاتی ٹائپ سنگلاخ شخص کے لیے کرکٹ میں کیرئیر بنانا مشکل ہوگیا۔

    دلتوں کے برعکس ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں مسلمانوں کی نمائندگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ ممبئی، دہلی، بنگلور، حیدر آباد اور کولکاتہ سے نکل کر کرکٹ جوں جوں چھوٹے شہروں کو منتقل ہوتی گئی، ٹاپ کرکٹروں میں مسلمانوں کا تناسب جو 1950 میں چار فیصد تھا، اس صدی کی شروعات تک 12.5فیصد پہنچ گیا تھا۔ سوربھ گانگولی نے اپنے دور کپتانی میں پانچ مسلم کرکٹروں کو ٹیم میں شامل کروایا۔اسی طرح کم و بیش تیس مسلمان کھلاڑیوں کو انڈین پریمیر لیگ میں کھیلنے کا موقع ملا ہے، جن میں اکثریت باؤلروں کی ہے۔ ا س کی شاید وجہ یہ ہے کہ بلے بازی کے لیے ساز و سامان و ٹریننگ خاصی مہنگی ہے، جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی ہے۔

    نوے کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرست نظام کے خاتمہ کے بعد جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں غیر سفید فام طبقات کو ان کا حق دلانے کے لیے اصلاحات کی گئیں، وہیں کرکٹ بورڈ اور دیگر کھیلوں کے ذمہ داران کو بھی بتایا گیا کہ ٹیموں کے لیے بھی غیر سفید فام کھلاڑی تیار کریں۔ کیونکہ سفارت کاروں کی طرح کھلاڑی بھی ملک کی ثقافت، تہذیب، رہن سہن، اور یگانگت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس سعی کا اثر یہ ہوا کہ چند برسوں میں ہی جنوبی افریقہ کی کرکٹ اکیڈیمیاں عمر ہنری، ہرشل گبس، پال آدمز، رباڑا، ہاشم آملہ اور دیگر لاتعداد غیر سفید فام کھلاڑیوں کو سامنے لے آئیں، جنہوں نے کرکٹ کے علاوہ ملک کا نام روشن کیا۔ 2007کے بعد تو کرکٹ بورڈ کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ قومی ٹیم میں کم از کم چھ کھلاڑی غیر سفید فام اور ان میں دو تو لازماً سیاہ فام افریقی ہونے چا ہییں۔ سفید فام کھلاڑیوں نے اس پر احتجاج بھی درج کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپورٹس ایک مسابقتی شعبہ ہے اور اس میں میرٹ ہی مدنظر ہونا چاہیے۔ مایہ ناز بلے باز کیون پیٹرسن نے تو جنوبی افریقہ کو ہی خیر باد کہہ کر انگلینڈ کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ مگر حکومت کا کہنا تھا کہ اگر ٹیم ملک کی آبادی اور اس کی کثرت کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، تو اس کا نہ ہونا ہی بہترہے۔ مگر یہ بھی دیکھا گیا کہ سبھی طبقات کو قومی ٹیم میں نمائندگی دینے سے جنوبی افریقہ کی ٹیم کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا، وہ فتوحات کے جھنڈے متواتر گاڑتی گئی اور دیگر ٹیموں کی ہی طرز پر ہی اس پر بھی اتار چڑھاؤ آتے گئے۔اس بار بھی فائنل میں ہندوستان کا کانٹے کا مقابلہ اسی ٹیم سے تھا، جو ایک کثیر جہتی کلچر اور سماج کی نمائندگی کر رہی تھی، نہ کہ محض ایک قلیل اشرافیہ طبقہ کی۔

  • اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    izhar
    یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔
    وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔
    یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ”گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ”مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
    مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال کر دی۔ انہوں نے بہت سے مردار سرکاری دفتروں کے آگے ڈال دیے اور کہا کہ گائے تمہاری ماں ہے‘ خود سنبھالو۔ سینکڑوں ہزاروں مردہ جانور پڑے پڑے گلنے سڑنے لگے۔ پھر حکومتی کارندوں نے چمار خاندانوں کی منتیں کیں۔ مگر شیوسینا کے مار دھاڑ کرنے والے جتھوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ یہ سب مودی کے چہیتے ہیں۔
    اُتر کھنڈ بھارتی پنجاب کے مشرق میں واقع ہے۔ چند دن پہلے وہاں گندم پیسنے کی چکی میں ایک اچھوت سوہن رام کی گندم پیسی جا رہی تھی۔ اوپر سے ماسٹر للت آ گیا۔ وہ اونچی ذات کا تھا۔ اس نے سوہن رام کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ چکّی کو پلید کر دیا۔ سوہن رام نے احتجاج کیا۔ ماسٹر للت کے ہاتھ میں تیز دھار درانتی تھی۔ اس نے سوہن رام کی گردن پر زور سے چلا دی۔ سوہن رام وہیں مر گیا۔
    یہ صرف دو واقعات ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اچھوتوں کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہے یعنی تقریباً سترہ کروڑ! مگر قیاس یہ ہے کہ حکومتی مشینری یہ تعداد کم سے کم بتاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اچھوت بائیس اور پچیس کروڑ کے درمیان ضرور ہوں گے یعنی بیس فیصد۔ ان کے حقوق کوئی نہیں۔ صرف فرائض ہیں۔ بھارت میں آبادی کی اکثریت کے گھروں میں بیت الخلا کا رواج نہیں۔ بستیوں کے اردگرد جب غلاظت کے انبار آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو اچھوت انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ گلیاں صاب کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی انتڑیاں سنبھالتے ہیں۔ کھالیں اتارتے ہیں۔ ہر گندا اور گھٹیا کام کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد سے زیادہ اچھوت مکمل ان پڑھ ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں کہ اچھوت کون کون سے کام کریں گے اور کون کون سے نہیں کریں گے۔ کہاں رہیں گے‘ کس کس کو پانی پکڑا سکتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں‘ شادیاں کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔
    بھارت ذات پات کے مکروہ نظام میں سر سے پائوں تک جکڑا ہوتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دیوتائوں کے مُونہہ سے برہمن نکلے۔ بازوئوں سے لشکری اور بادشاہ برآمد ہوئے۔ رانوں سے تاجر اور کسان نکلے۔ رہے شودر تو انہوں نے پائوں سے جنم لیا۔ منوں کی تعلیمات آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں سنسکرت کی ڈگری کورس کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق اچھوت‘ سابق زندگی کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پڑھنا لکھنا بھی جرائم میں شامل ہے۔ اونچی ذات کے کسی ہندو کی توہین کی سزا درد ناک اور اذیت ناک موت ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جو چاہیں اچھوتوں کے ساتھ کریں‘ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔
    مودی کا گجرات صوبہ‘ جسے مثالی صوبہ کہا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ پورے بھارت میں اگر کہیں خوفناک ترین سلوک اچھوتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے تو وہ گجرات ہے۔
    جس ملک کی بیس فیصد آبادی اچھوتوں پر مشتمل ہو اور وہ ترقی کے دائرے سے ہر امکانی حد تک باہر ہوں‘ وہ ملک حقیقت میں کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چالاک بھارت نے اپنے چہرے کا یہ ڈرائونا حصّہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔ سکارف باندھنے والی عورتوں کے غم میں دُبلے ہونے والے مغربی ملکوں کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بھارت میں بیس کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی اکثریت انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کر رہی ہے۔
    کیا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ نہیں! پاکستان پر لازم ہے کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے آدم کے ان بیٹوں کی دستگیری کرے اور دنیا کو آگاہ کرے کہ آئی ٹی میں ترقی کے دعوے کرنے والی دنیا کی یہ سب سے بڑی ”جمہوریت‘‘ اپنے بیس بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کس طرح ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق سے وہ محروم ہیں۔ سکول اور ہسپتال کے الفاظ ان کی ڈکشنریوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ مردہ جانوروں کی کھالیں اتارنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور پھر کھالیں اتارنے کی سزا دی جاتی ہے۔ وہ گندم جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ جب اچھوت کے گھر میں پہنچتی ہے تو پلید ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس چکی میں پیسی تک نہیں جا سکتی جس میں اونچی ذات کے ہندوئوں کی گندم کا آٹا بنتا ہے!
    حیرت ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے مودی کو‘ پاکستانی حکومت کا کوئی وزیر‘ وزیر اعظم‘ ڈپلومیٹ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی آبادی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ پہلے ان کے حقوق کی بات کرو!
    پاکستان کے دفتر خارجہ پر لازم ہے کہ ایک مستقل شعبہ اپنے ہاں‘ بھارت کے اچھوتوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم کرے۔ پھر اسے ہر لحاظ سے مستحکم کرے۔ پاکستان کا ہر سفارت خانہ‘ لازماً‘ بھارت کے اچھوتوں کا احوال دنیا کو بتائے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
    پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہا۔ کیا ہمارے اینکر پرسنوں کو‘ ان کے پروڈیوسروں کو اور مالکان کو سرحد پار دہکا ہوا یہ جہنم نظر نہیں آتا؟ اس پر خصوصی پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن میں اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے دنیا بھر کے ناظرین کو بھارت کا اصل روپ دکھایا جائے۔ دلت لیڈروں اور ترجمانوں کو ٹیلی فون لائن پر لے کر ان کا موقف دنیا تک پہنچایا جائے۔
    پاکستان کی فلاحی تنظیمیں اگر چاہیں بھی تو بھارتی حکومت انہیں اچھوت آبادی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے ذریعے اچھوتوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حیرت ہے کہ انجلینا جولی اور بل گیٹس جیسی مشہور شخصیات نے‘ جو فلاحی کاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ بھارت کے بیس کروڑ اچھوتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا انہیں معلوم کہ اچھوت حاملہ عورتیں مر جاتی ہیں لیکن بچوں کو جنم دیتے وقت ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔ سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں کوئی اچھوت پانی کا گھونٹ پینے کے لیے نلکے کو ہاتھ لگا دے تو وہیں مار دیا جاتا ہے!
    بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں میں مخیّر عربوں کی کثرت ہے۔ وہ ہر سال کروڑوں ریال خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں کو بھارت کے اچھوتوں کے حالِ زار سے آگاہ کرے تاکہ وہ ان کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔