اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے باوجود حکومت پی ٹی آئی کیخلاف تاحال کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کرسکی۔
2 اگست کے بعد سے اب تک پونے دو ماہ گزرنے کے باوجود فارن فنڈنگ معاملے پر حکومت اور اس کے اتحادی کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ عمران خان کے خلاف ریفرنس اور پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق ڈکلئیریشن پر حکومتی حلقوں کی جانب سے تاحال مشاورت کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومتی وزارتی کمیٹی بھی اس معاملے پر غیر فعال نظر آتی ہے۔
حکومت فارن فنڈنگ سے متعلق ایف آئی اے کی تحقیقات اور رپورٹ کا انتظار کررہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے سوا حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد حکومت اس سلسلے میں اپنا کام آگے بڑھائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں پی ٹی آئی کے خلاف سپریم کورٹ میں ڈیکلیئریشن داخل نہیں کریں گے۔ایسا نہ ہو جلد بازی میں ڈیکلیئریشن داخل کیا جائے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو جائے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی رپورٹ اگلے ماہ آنے کا قوی امکان ہے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ میں دم خم ہوا تو فوراً پارٹی تحلیل کا ڈیکلیئریشن دائر کرنے کے علاوہ عمران خان کے خلاف بھی ریفرنس دائر کیا جائے گا۔



انکم ٹیکس کے گوشواروں کی دنیا بھی عجیب ہے۔ ہر سال وکیل اس ملک کے سرمایہ داروں کا ٹیکس بچانے کے لیے ایسے ایسے داؤ پیچ اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں کہ آدمی حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک گوشوارے کے بارے میں آج کے ایک اخبار میں ایک مشہور آڈٹ فرم کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف کے ٹیکس گوشواروں میں کسی بھی قسم کی کوئی لاقانونیت نہیں پائی جاتی اور یہ عین انکم ٹیکس قانون کے مطابق ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ آڈٹ کمپنی خواہ وہ کس قدر قابل اعتماد کیوں نہ ہو، کی کوئی رپورٹ اس وقت تک قانون میں اعتماد کا درجہ نہیں رکھتی جب تک اس کام پر مامور سرکاری محکمہ آڈیٹر جنرل یا انکم ٹیکس آڈٹ کے افسران اس کی تصدیق نہ کریں۔ اس لیے کہ تمام آڈٹ فرمیں مختلف کمپنیوں کے آڈٹ اس لیے کرتی ہیں کہ ان کے نامکمل کاغذات کو مکمل کرائیں، اور ان کی خامیاں دور کریں۔ ان کمپنیوں کا خرچہ وہ سرمایہ دار خود ادا کرتے ہیں البتہ وہ رپورٹ قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے جو کسی عدالت یا حکومتی محکمہ کی جانب سے انکوائری کےلیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے طور پر پیش کی جائے۔ اس لیے پہلی بات تو یہ کہ آڈٹ رپورٹ کی حیثیت ایک خبر سے زیادہ نہیں، جو ایک اخبار میں شہ سرخی کے طور پر شائع ہوئی۔