دل دکھتا ہے
آنکھ خوں بہاتی ہے.
یہ بچے اور بچیاں کسی اور کے نہیں، ہمارے ہیں.
پاکستانی بچے،
مسلمان بچے،
انسان کے بچے،
ہمارا تمہارا مستقبل،
اس لیے تو پیدا نہیں کیا ماں نے اپنے بیٹے کو، باپ اس لیے تو اپنی بیٹی کو کاندھے پر بٹھا کر سکول داخل کروانے نہیں لے گیا تھا کہ سکول سے کمسن بچی اغوا کی جائے گی، اذیت سہے گی. الامان،
نہ ہی حافظہ عالمہ فاضلہ کے نام پر کچھ اور سیکھنے کے لیے داخل کروایا جاتا ہے.
وہ ماں باپ جیتےجاگتے لگتے ہیں، زندہ نہیں. مردہ بدست زندہ کی عملی تفسیر ہیں جن کے بچے ان درندوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں.
یہ کیا ہے. یہ سب کیسے ہو سکتا ہے.
یہ تو وہ کہانیاں ہیں جو طشت از بام ہو گئی.
ہمارے ارد گرد ہر گلی کوچے میں یہی کہانی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے.
خصوصاً مشترکہ خاندانی نظام میں یا ایسے تنگ محلوں میں جہاں آزادانہ طور پر مختلف خاندانوں کے بچے اکٹھے پرورش پا رہے ہوتے ہیں.
یاد رکھیں.
نئے نئے جوان ہوئے کزنز بڑے بہن بھائی نہیں ہوتے.
استاد اور قاری صاحب سگے والد نہیں ہوتے، اور ان کی ناجائز بات ماننا فرض نہیں.
آپ کا بچہ (قطع نظر اس کے کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی) آپ کی نظر سے اوجھل بھائی جان کے کمرے میں یا ساتھ والے انکل یا باجی کے گھر یا ٹیوشن پر استاد و قاری صاحب کے ساتھ غیرمعمولی وقت نہ گزارنے لگے، اسے نوٹ کریں.
بچ ہ اپنے موبائل یا ٹیبلٹ پر کس کام میں مصروف رہتا ہے، والدین کو اس کا علم ہونا از بس ضروری ہے،
مائیں اپنے بچوں کو مرغی کے پروں میں چھپائے چوزوں کی طرح بچا کر پالیں ورنہ کوئی نہ کوئی چیل کوا یا رال ٹپکاتا گدھ اس کے چوزے کو لے اڑے گا.
اپنے بچوں پر تھانیدار نہ بنیں، ان کے دوست بنیں، اپنے بچے کی تمام دن کی روداد سنیں.
اس کی گیمز میں حصہ لیں.
اس کے دوستوں سے واقف رہیں.
اپنے بچے میں در آنے والی تبدیلیوں کا نوٹس لیں.
اس کی وجہ جاننے کی جستجو کریں.
معاشرتی دباؤ یا رشتے بچانے کے لیے ایسے کسی معاملے میں خاموش رہنا جرم ہے.
اپنی اولاد کو اعتماد میں لیں، ان کا خود پر اعتماد بحال کریں اور انہیں ابتدائی حفاظتی تدابیر سے آگاہ کریں. مثلاً
.. اجنبی پر بھروسہ نہ کرنا
.. اجنبی سے کچھ لے کر مت کھانا
.. انکل کی گود میں نہیں بیٹھنا
.. انکل/ بھائی جان/سر/قاری صاحب کہاں ٹچ کر سکتے ہیں
اور کہاں ٹچ کریں تو بچے نے چیخنا ہے، بھاگنا اور محفوظ جگہ پر پہنچنا ہے.
یہ بچے جنہوں نے کل ڈاکٹر، انجینئر، استاد، عالم، حافظ، سائنسدان بننا تھا وہ آج کیا بنائے جا چکے ہیں. زبردستی ہی سہی لیکن وہ 50 ,50 روپے کے عوض بکنے والی ایکس ریٹڈ فلموں کے جیتے جاگتے کردار بن چکے ہیں، واٹس ایپ اور سکائپ پران کی ویڈیوز بکتی ہیں، استاد کی خدمت کے نام پر ان سے کیا خدمات لی جا رہی ہیں.
واہ! یہ اس زندہ قوم کی فطرت کے قریب ترین بننے والی فلموں کے ہیرو اور ہیروئین بنا دیے گئے ہیں. یہ بچے ہمارے معاشرے اور ہمارے نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ ہیں.
نہیں طمانچہ نہیں. جب جب ان معصوموں سے کوئی بیمار ذہن ”تسکین“ پاتا ہے تب تب ہماری پوری قوم آبروباختہ ہو جاتی ہے.
Tag: الیاس گھمن
-

سانحہ قصور سے لے کر گھمن تنازع تک – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی
-

پرانا دوست – رعایت اللہ فاروقی
میں اسے پورے تیس سال سے جانتا ہوں یعنی اس وقت سے جب اسے بالغ ہوئے صرف تین سال ہوئے تھے۔ تین چیزیں اس کی شخصیت کی تب بھی شناخت تھیں اور آج بھی شناخت ہیں۔ اعلیٰ درجے کی ذہانت، اعلیٰ ترین درجے کا اخلاق اور خاکساری کی حد کو پہنچا ہوا انکسار۔ میرے اور اس کے تعارف کے اگلے سال یعنی 1987ء میں وہ جامعہ بنوریہ میں درجہ ثالثہ کا طالب علم تھا۔ اس نے جامعہ کی مسجد میں امامت کرائی اور سلام پھیرتے ہی مصلی چھوڑ کر چلتا بنا۔ مینجمنٹ نے دعا نہ کرانے کو ایشو بنا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اتنا بڑا مسئلہ بن گیا کہ جامعہ بنوریہ میں زندگی کی رفتار رک سی گئی۔ مینجمنٹ کا کہنا تھا کہ وہ دعا نہ کرانے پر معافی مانگے اور اس کا کہنا تھا کہ آپ ثابت کردیں کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا فرض یا واجب ہے یا اس کا نماز سے کوئی لازمی تعلق ہے تو میں معافی مانگ لوں گا۔ مفتی محمد نعیم صاحب نے فیکلٹی کا اجلاس بلا لیا اور فیصلہ لکھا کہ محمد الیاس گھمن کا جامعہ سے اخراج کیا جاتا ہے۔ تمام اساتذہ نے دستخط کردیے سوائے میرے والد مولانا محمد عالم رحمہ اللہ کے۔ میرے والد کا موقف تھا کہ آپ نے شرعی مسئلے کو اخراج کی وجہ بتایا ہے، شرعی مسئلے میں الیاس کا موقف درست اور آپ سب کا غلط ہے اور اس مسئلے میں میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اگر میرے دستخط چاہییں تو یہ لکھیے کہ ہمارا انتظامی قاعدہ ہے کہ فرض نماز کے بعد ہر حال میں دعا ہوگی اور الیاس نے یہ دعا نہ مانگ کر ادارے کا ضابطہ توڑا ہے لہذا اخراج کیا جاتا ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ میرے والد کے لاڈلے شاگردوں میں سے ہے۔ اخراج کے بعد اسے رخصت کرتے ہوئے میرے والد نے 100 کا نوٹ دیتے ہوئے کہا تھا۔ ”اب کراچی میں نہ پڑھنا، سیدھے پنجاب جاؤ اور وہیں پڑھو“ اور الیاس نے ایسا ہی کیا۔ وہ دن ہے اور یہ دن ہے، الیاس مسلسل تنازعات کا شکار رہتا ہے اور اس کا سبب اس کی بے پناہ ذہانت اور تحرک کے سوا کچھ نہیں۔ میری درخواست پر اس نے متشددانہ رویہ ترک کیا جو بڑی بات ہے کیونکہ اس لیول پر پہنچ کر لوگ دوستوں کی نہیں بلکہ چمچوں کی سنتے ہیں۔ میں نے اسی فیس بک پر 2014ء میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا تو فورا سرگودھا سے صفائی دینے آ گیا اور بخدا اشارے کنائے میں بھی یہ نہیں کہا کہ آئندہ میرے خلاف نہ لکھنا۔
الیاس بےانتہا ذہین ہے، اس کا اخلاق اس درجے کا ہے کہ آپ کو دو منٹ میں فتح کرلے، وہ صرف اور صرف دلیل کی زبان میں بات کرنے والا مولوی ہے۔ اس کی آواز پھیل رہی ہے اور اس پھیلاؤ کا مطلب مولویوں کے لیے یہ ہے کہ چندے کا ایک اور اہم دعویدار میدان میں ہے اور یقین جانیے میں مولویوں کی رگ رگ سے واقف ہوں، چندے کو خطرہ لاحق ہوجائے تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کی اسلامک بینکنگ پر یہی تو مسئلہ تھا کہ ملک بھر کے سیٹھ ان کی طرف متوجہ ہوگئے تھے اور بڑے مدرسوں کے ایسے کیسز میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سیٹھوں نے یہ کہہ کر چندہ دینے سے انکار کردیا کہ ”دارالعلوم کو دے دیا ہے“ سیٹھ اسلامک بینکنگ کی وجہ سے ہی مفتی تقی عثمانی صاحب کے دارالعلوم کی جانب متوجہ ہوئے تھے لہذا اسلامک بینکنگ کو ہی نشانہ بنانا ضروری ہوگیا تھا اور یہ اس بے رحمی سے بنایا گیا کہ مفتی تقی صاحب کے بارے میں کہا جانے لگا ”وہ سود کو حلال کر رہے ہیں“ اور یہ بات الیاس پر زنا کی تہمت لگانے سے زیادہ سنگین بات تھی کیونکہ سود کو حلال کرنے والا تو کافر ہوجاتا ہے، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ یہ ان پر کفر کا فتویٰ لگانے کی تیاری تھی۔ تقی صاحب کے بعد مولانا زاہد الراشدی ابھرنے لگے تو ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ تو فیس بک پر ہی بکھرا پڑا ہے۔ زاہد الراشدی کے بعد مولانا طارق جمیل کا بھی نمبر لگا اور ان کے قدم بھی روکنے کی کوشش کی گئی۔ یاد رکھیے جب بھی کوئی مولوی سر اٹھانے کی کوشش کرے گا اور یہ خطرہ پیدا ہوگا کہ وہ بھاری چندہ کھینچ سکتا ہے تو کراچی کے مولویوں کا ایک گروپ لازما اس کی کردار کشی کرے گا۔
……………………………………………………..
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ کیس اپنی نوعیت کے لحاظ سے دارالافتاء جانے کا تھا یا عدالت جانے کا؟ قرآن مجید اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟ صرف اسی طرح کے کیس میں قذف کیوں رکھی گئی ہے؟ الزام لگانے والے قرآنی ہدایات کے بجائے منافقین مدینہ کی راہ پر کیوں چلے؟ جب تک الیاس گھمن کو عدالت مجرم قرار نہیں دےدیتی میں اسے پاک دامن ہی مانوں گا۔ کل کو آپ میں سے کسی شخص پر کوئی الزام لگا دے اور الزام لگانے والا ہوا بھی کسی شیخ الحدیث کا بیٹا تو کیا میں مان لوں؟ یہ تو بہت ہی آسان بات ہوگئی، فیس بک پر بھی جو بندہ قابو نہ آ ئے اس پر ایسا ہی کوئی الزام دھر دو اور اسی سے کہو کہ اپنی پاک دامنی اور معصومیت ثابت کرو ورنہ ہم تمہیں زانی ہی مانیں گے۔ کیا شریعت اور مروجہ قانون ثابت کرنا ملزم کے ذمہ داری بتاتے ہیں؟ جس دن آپ پر تہمت لگی اس دن آپ کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا اور اگر اس دن رعایت اللہ فاروقی بھی آپ سے ہی مطالبہ کرنے لگا کہ اپنی بے گناہی ثابت کرو تو وہ آپ کا ہی دل ہوگا جس پر خنجر چلیں گے۔ میری تو کوئی بیٹی اور بہن نہیں لیکن بہنوں اور بیٹیوں والو ! ایک بار قرآن مجید بھی کھول کر دیکھ لو کہ اس کیس میں اس کے رہنماء اصول کیا ہیں؟
……………………………………………………..
ایسے معاملات میں میرا یہ مستقل قاعدہ ہے کہ جب کوئی شخص مجھے کسی کے متعلق کوئی کہانی سناتا ہے تو سن ضرور لیتا ہوں لیکن یقین تب تک نہیں کرتا جب تک تحقیق نہ کر لوں اور زمانہ ایسا آگیا ہے کہ سنی سنائی بات فاسق کیا متقی کی ہی کیوں نہ ہو اس کا اعتبار نہیں کرتا۔ ایک سب سے خوفناک روایت یہ ہے کہ دو دوستوں میں اختلاف پیدا کرنے کے لئے یہ کہدیا جاتا ہے کہ فلاں نے آپ کے بارے میں یہ یہ کہا ہے۔ مجھ سے جب کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اس سے کہتا ہوں۔
”کیا آپ یہ بات اس کی موجودگی میں مجھے بتا سکتے ہیں؟“
میری پوری زندگی میں آج تک ایک بھی شخص ایسا نہیں مل سکا جس نے کہا ہو۔
”ہاں اس کی موجودگی میں بھی بتا سکتا ہوں“
بلکہ ہر ایک نے قدم پیچھے کھینچ لئے اور میرا معمول یہ ہے کہ ایسی بکواس پر یقین ہی نہیں رکھتا اور نہ ہی اس دوست کے متعلق کسی بدگمانی کا شکار ہوتا ہوں جس کے حوالے مخبری کی گئی ہوتی ہے۔ میں مخبری کرنے والے دوست سے محتاط ہوجاتا ہوں اور فاصلہ اختیار کر لیتا ہوں کہ یہ دوست نہیں بلکہ منافق ہے، یہ تو کل کو میری طرف بھی کچھ منسوب کرکے کسی سے کچھ کہہ سکتا ہے۔ -

میں الیاس گھمن کو نہیں جانتا، مگر؟ زبیر منصوری
میں الیاس گھمن کو نہیں جانتا
مگر
میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ اس دنیا میں جو بڑے سے بڑا پارسا ہے، وہ بھی اللہ کو چیلنج نہیں کر سکتا کہ وہ پاک صاف ہے، اس لیے بے شک اس پر پڑی ستاری کی چادر ہٹا دی جائے
تو پھر پارسائی اور گناہ گاری میں بس اتنا ہی فرق ہوا ناں کہ میرے رب نے ایک کی چادر ڈھکی ہوئی ہے اور دوسرے کی ہٹا دی۔
یہ نیک نام، وہ بدنام؟
یہ تقی اللہ متقی، وہ بے حیا؟
بھائیو!
افراد کی ذاتی خامیاں اچھالنا دراصل غلیظ کیچڑ میں پتھر مارنا ہے، اس کے نتیجے میں بس گندگی ہی پھیلتی ہے، بدبو ہی بڑھتی ہے، خرابی ہی جگہ پاتی ہے جبکہ ایسے افراد جو اجتماعی معاملات کے ذمہ دار ہیں، ان کی وہ خرابیاں جن کا تعق اجتماعی خرابی سے ہے، انہیں پوری احتیاط سے بیان کرنا اور یہ نیت رکھنا کہ اس سے آپ کا مقصد محض اصلاح ہے، دین تو ہمیں بس یہی اصول سکھاتا ہے۔
ایسے حالات میں کہ جب دین داروں کو سامنے رکھ کر دین کی فضیلت و شرف کی پگڑی کو سر بازار رسوا کیا جا رہا ہو، اس کا حصہ بننا، اس پر مزے لے لے کر تبصرے کرنا، اسے فروغ دینا، اس سے لطف اٹھانا باوجود اس کے کہ سامنے والے فریق نے آپ کے معاملے میں ظلم کی انتہا ہی کیوں نہ کی ہو بہرحال درست نہیں۔
بد قسمتی سے طبقہ علماء نے جس طرح دین کی آڑ میں بدترین دنیا داری کرنے والوں کو کھلا چھوڑا ہوا ہے، اس کی وجہ سے صورتحال یہاں آن پہنچی ہے کہ دین سے محبت رکھنے والے بھی خود کی بورڈ اور ماؤس تھام کر چڑھ دوڑے ہیں اور میرے نبی ﷺ کا دین بیک وقت اندر اور باہر سے شدید تیر اندازی کی زد میں ہے۔
ایسے میں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
اور ہاں یاد رکھنا انسان اپنے ہر لفظ اور خیال پر آزمایا جائے گا، اسے ثابت کرنا ہوگا، انسان بھول، غلطی، گناہ اور نزغہ، شیطان کا آسان شکار ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا کہ زندگی پہیے کی طرح گھومتی ہے، اگر آج کسی کی ”لوز بال“ تمہارے بیٹ کی زد میں ہے تو کل ترتیب تبدیل بھی ہو سکتی ہے، کوئی دوسرا اوپر اور میں اور آپ نیچے ہو سکتے ہیں، اس لیے لفظوں کے تیر برساتے اور حظ اٹھاتے ہوئے ایک لمحہ کو سوچ لیجیے کہ وہ کیا جذبہ ہے جو آپ کو اس پر اکسا رہا ہے، اصلاح یا لطف اندوزی اور ذہنی عیاشی؟
عزیزو!
اللہ کو پردہ پوشی پسند ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں پردہ ڈالنے والوں کے عیب ڈھک دوں گا۔
ہے کوئی جسے اللہ کی طرف سے پردہ ڈھکے جانے کی ضرورت ہو؟
اے اللہ مجھے ضرورت سب سے زیادہ ہے۔
اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔
اے اللہ میں تیری ستاری کا واسطہ دیتا ہوں۔
اے اللہ میں الیاس گھمن پر کچھ آگے نہیں بڑھاؤں گا، بس تو میرے پردے ڈھکے رکھنا۔
تو نے پردہ اٹھایا تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔
اے اللہ معافی
میری معافی
میری ہاتھ جوڑ کر معافی۔ -

الیاس گھمن، متاثرہ خاتون، قاری حنیف جالندھری اور میں – فیض اللہ خان
مولانا الیاس گھمن کے حوالے سے معاملہ معروف صحافی فیض اللہ خان کی فیس بک پوسٹ سے شروع ہوا تھا. اس تحریر میں نے انھوں نے آغاز سے اب تک کی کہانی کو پیش کیا ہے. معاملے کی اہمیت کے پیش نظر اسے شامل اشاعت کیا جا رہا ہے. (ادارہ دلیل)
الیاس گھمن اور متاثرہ خاتون کا دعوی، فریقین کیا کہتے ہیں؟
الیاس گھمن صاحب سے متعلق بحث بہت عام ہوچکی۔ وہ سارے خطوط اب سوشل میڈیا کی زینت ہیں جس کے مطابق ان کے عقد میں رہنے والی خاتون نے دعوی کیا کہ الیاس گھمن نے ان کی صاحبزادی سے مبینہ زیادتی کی اور کئی بار کی۔ اس حوالے سے کچھ ٹیلی فون کالز کا بھی چرچا ہے۔ خاتون نے مختلف دیوبندی علمائے کرام سمیت وفاق المدارس کو بھیجے جانے والے ان خطوط میں فتوی و انصاف مانگا تھا۔ ہمارے یہاں یہ کلچر شدت سے رائج ہے کہ کسی بھی مالی ذاتی یا کاروباری تنازعے کے حل کے لیے ابتدائی طور پر خاندان کے بڑوں، مشترکہ احباب یا علمائے کرام سے رجوع کیا جاتا ہے اور وہاں سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پہ تھانہ کچہری میں معاملات طے کیے جاتے ہیں۔
خاتون کے تحریر کردہ خطوط میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی، جبھی انہوں نے عدالت یا پولیس سے رجوع کے بجائے اپنے داخلی روابط کو متحرک کیا۔ یاد رہے کہ ہمارے مذہبی مدارس سے لاکھوں افراد فتاوی کے حصول کے لیے اپنے اپنے مسالک کے علماء سے رجوع کرتے ہیں ۔ان الزامات میں کتنی صداقت ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب تک کسی سنجیدہ فورم پر ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، اسے الزام ہی کہا جائے گا۔ ایسے کسی بھی جرم کے لیے ملکی قانون یا شریعت جو قواعد طے کرتی ہے، اس معاملے کو اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ تب تک اسے حقیقت تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
ایسے میں متاثرہ خاتون کیا کرے؟
اوپر بھی عرض کیا تھا کہ خاتون نے وہی طریقہ کار اختیار کیا جس کے بارے میں انہیں علم تھا۔ لیکن ملکی قوانین کو نظرانداز کیے جانے اور طویل مدت گزرنے کی وجہ سے ان الزامات کو ثابت کرنا اب ممکن نہیں رہا۔علماء نے کیا کردار ادا کیا؟
خاتون نے اس دوران جن علماء سے رابطہ کیا اور انہیں اپنا سرپرست جانا انہوں نے اس معاملے کی کیا تحقیقات کی؟
کیا انہوں نے فریقین کو طلب کیا؟ یا محض فتوی دینے میں عافیت جانی؟
معاملہ یہ ہے کہ خاصے عرصے سے یہ کہانی دیوبندی مکتب فکر کے اہم حلقوں میں زیر گردش تھی۔ لیکن اس کا کوئی حتمی نتیجہ نہ نکالے جانے کی صورت میں تماشا لگ گیا ہے۔ وہ زمانہ گزر چکا جب قالین کے نیچے گند چھپایا جاتا تھا۔ جدید دور ہے، لوگ بہرحال جواب مانگتے ہیں۔علمائے کرام کو کیا کرنا چاہیے تھا؟
الیاس گھمن اگر ایک عام سے مولوی ہوتے تو مسئلہ نہیں تھا، لیکن ان کا وسیع حلقہ ہے۔ حنفیت کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ خاص طور پ غیر مقلدین یا سلفی حضرات کے خلاف تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہرحال ان کی شخصیت بن چکی ہے۔ ایسے میں ان خطوط کے بعد علماء کو واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے تھا کہ اس معاملے میں کون غلط ہے؟ کون صحیح ؟ اور اگر یہ الزام ہے تو اس کی کیا اہمیت ہے؟ اور حقیقت ہے تو کون سا راستہ اختیار کرنا پڑے گا؟
اس معاملے میں غیر ضروری تاخیر کے بعد وفاق المدارس نے الیاس گھمن سے فاصلے اختیار کیے اور اپنے رسمی رسالے میں اس حوالے سے لکھا گو کہ اس میں خاتون کے الزامات کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن پھر بھی اس سے الیاس گھمن کی ساکھ متاثر ہوئی۔الیاس گھمن صیب سے میری ملاقات کی روداد
سوشل میڈیا میں گھمن صاحب و خطوط سے متعلق پہلے بھی لکھا جاچکا تھا لیکن میری تین لائنیں بم ثابت ہوئیں اور بہت بڑا دھماکہ ہوا۔ تحریر کے کچھ ہی دیر بعد احساس ہوا کہ بغیر کسی ثبوت کے اتنی بڑی بات کرنے سے مجھے گریز کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد میں نے ایک معذرتی پوسٹ لگائی، سنجیدہ احباب نے اس پہ مجھے سراہا لیکن گالیاں بھی بہت پڑیں، اس کے فوری بعد دیوبندی احباب ہی مجھے سارے ثبوت فراہم کرگئے۔گھمن صاحب سے رابطے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
تحریری معذرت کے بعد میں نے الیاس گھمن سے فون پر بات کی، ان تک سارا معاملہ ویسے بھی پہنچ چکا تھا، اتفاق سے اس کے اگلے روز ہی وہ کراچی آرہے تھے سو ناشتے پر ملاقات طے ہوگئی۔الیاس گھمن سے کیا بات ہوئی؟
میں نے ان سے معذرت کی کہ بغیر ثبوت کے ایسا الزام لگایا اور بالفرض یہ سب خدانخواستہ درست بھی تھا تو مجھے اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔ میری معافی انہوں نے خوشدلی سے قبول کرلی۔خاتون کے خطوط کے بعد علمائےکرام نے رابطہ کیا؟
میرے اس سوال پہ گھمن صاحب کا کہنا تھا کہ مجھ سے اس حوالے سے کسی عالم دین نے رابطہ نہیں کیا، ان کے مطابق میں وہ پہلا صحافی ہوں جس نے اس سنگین معاملے پر ان سے باقاعدہ رابطہ کیا اور حقائق جاننے کی کوشش کی۔الیاس گھمن نے ملاقات میں کیا کہا؟
انہوں نے ایسے کسی بھی معاملے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور اسے الزام قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ انسان خطاؤں کا پُتلا ہوتا ہےمیں نے کیا کہا؟
الیاس گھمن سے گفتگو میں میرا کہنا تھا کہ یہ معاملہ آپ ہی کے مکتب فکر نے اٹھایا ہے، اگر کسی دوسرے مسلک صحافی لادین یا لبرل نے یہ بات کی ہوتی تو اور بات تھی لیکن یہاں تو سارا کٹا دیو بندیوں نے ہی کھولا ہوا ہے، البتہ گالیاں ہمارے نصیب میں رہ گئی ہیں مگر اپنے بڑے علماء کو کلین چٹ دی جا رہی ہے۔الیاس گھمن نے کیا کہا؟
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ الزامات خود ہمارے مسلک کے دوستوں نے ہی زیادہ اچھالے اور بات اتنی خراب ہوگئی۔وفاق نے آپ کے خلاف اشتہار کیوں شائع کیا؟
الیاس گھمن کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف لگنے والے اشتہار کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی، میں نے کچھ علماء کو بیچ میں ڈال کر قاری حنیف جالندھری سے بات کی کہ وفاق کے ترجمان رسالے کو ذاتیات پر حملے کے لیے استعمال نہ کیا جائے لیکن ان کا جواب ملا کہ یہ مولانا سلیم اللہ خان کا فیصلہ ہے، وہ اس بابت کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد یہ اشتہار شائع ہوا اور یوں الیاس گھمن وفاق المدارس کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اسی طرح علامہ احمد لدھیانوی نے بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ایک ہندی عالم دین نے چندے میں خرد برد کے الزامات عائد کیے اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا۔جدید تعلیمی اداروں میں کیا ہوتا ہے؟
اساتذہ کی طالبات کے ساتھ جنسی تعلقات کی داستانیں عام ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جامعہ پنجاب کے استاد پروفیسر افتخار بلوچ سے متعلق یہ اسکینڈل عام ہوا تھا کہ وہ نمبر بڑھانے کے عوض طالبات کو جنسی تعلقات قائم کرنے کا کہتے تھے، یہ معاملہ جامعہ پنجاب کی انتظامیہ و عدالت کے بھی نوٹس میں آیا تھا۔کیا مذہبی اداروں میں بھی یہ ہوتا ہے؟
مذہبی مدارس اسی معاشرے کا جز ہیں، تنزلی ہر شعبے میں ہے تو مدارس بھی اس سے محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مدارس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ خواتین کے مدارس میں بھی بعض ایسی شکایات ملی ہیں کہ مدرسے کے مہتمم نے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ گو کہ ان واقعات کی تعداد خاصی کم ہے لیکن مذہبی تشخص رکھنے والے کسی بھی شخص یا ادارے سے جڑے فرد کے ساتھ یہ خبریں ہوں تو دین بیزار طبقہ اسے مرچ مصالحے کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔خاتون نے کون سے بڑے عالم یا مدارس سے رابطہ کیا؟
متاثرہ خاتون کے مطابق اس معاملے کو ملک بھر دس بڑے مدارس میں لے جایا گیا، ان سے فتاوی مانگے جس میں سے بعض کا جواب آیا۔ کراچی کا احسن العلوم بھی انہی میں شامل ہے۔ خاتون نے وفاق المدارس کے جنرل سیکریٹری قاری حنیف جالندھری سے رابطہ کیا، خاتون کے مطابق قاری حنیف جالندھری اور مولانا حکیم اختر صاحب کے صاحبزادے حکیم مظہر نے اس معاملے کو حل کرانے کی یقین دہانی کرائی لیکن رفتہ رفتہ وہ اس معاملے سے دور ہوگئے اور کچھ نہیں ہوا۔قاری حنیف جالندھری اور حکیم مظہر کیا کہتے ہیں؟
حکیم مظہر اختر سے تو میرا رابطہ نہیں ہوسکا البتہ قاری حنیف جالندھری سے جب میں اس بابت پوچھا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں نے خاتون کو کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرائی نہ انہوں نے مجھ سے ایسا کرنے کو کہا، البتہ قاری حنیف جالندھری نے اس بات کی تصدیق کی کہ خاتون سے ان کی فون پر بات ہوئی تھی اور وہ اپنے بھیجے جانے والے فتوے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہ رہی تھیں کہ اس کا کیا بنا؟ قاری حنیف جالندھری کے مطابق جب انہوں نے معلوم کرایا تو یہ بات سامنے آئی کہ خیر المدارس کو خاتون کا بھیجا گیا فتوی موصول نہیں ہوا۔
اس معاملے کی یہ اب تک کی تحقیق ہے جو کہ بلا کم و کاست پیش کردی گئی ہے۔ اس اتفاق یا اختلاف کی صورت میں آپ اپنا مؤقف دلیل کو بھیج سکتے ہیں.