ہوم << سانحہ قصور سے لے کر گھمن تنازع تک - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

سانحہ قصور سے لے کر گھمن تنازع تک - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

دل دکھتا ہے
آنکھ خوں بہاتی ہے.
یہ بچے اور بچیاں کسی اور کے نہیں، ہمارے ہیں.
پاکستانی بچے،
مسلمان بچے،
انسان کے بچے،
ہمارا تمہارا مستقبل،
اس لیے تو پیدا نہیں کیا ماں نے اپنے بیٹے کو، باپ اس لیے تو اپنی بیٹی کو کاندھے پر بٹھا کر سکول داخل کروانے نہیں لے گیا تھا کہ سکول سے کمسن بچی اغوا کی جائے گی، اذیت سہے گی. الامان،
نہ ہی حافظہ عالمہ فاضلہ کے نام پر کچھ اور سیکھنے کے لیے داخل کروایا جاتا ہے.
وہ ماں باپ جیتےجاگتے لگتے ہیں، زندہ نہیں. مردہ بدست زندہ کی عملی تفسیر ہیں جن کے بچے ان درندوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں.
یہ کیا ہے. یہ سب کیسے ہو سکتا ہے.
یہ تو وہ کہانیاں ہیں جو طشت از بام ہو گئی.
ہمارے ارد گرد ہر گلی کوچے میں یہی کہانی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے.
خصوصاً مشترکہ خاندانی نظام میں یا ایسے تنگ محلوں میں جہاں آزادانہ طور پر مختلف خاندانوں کے بچے اکٹھے پرورش پا رہے ہوتے ہیں.
یاد رکھیں.
نئے نئے جوان ہوئے کزنز بڑے بہن بھائی نہیں ہوتے.
استاد اور قاری صاحب سگے والد نہیں ہوتے، اور ان کی ناجائز بات ماننا فرض نہیں.
آپ کا بچہ (قطع نظر اس کے کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی) آپ کی نظر سے اوجھل بھائی جان کے کمرے میں یا ساتھ والے انکل یا باجی کے گھر یا ٹیوشن پر استاد و قاری صاحب کے ساتھ غیرمعمولی وقت نہ گزارنے لگے، اسے نوٹ کریں.
بچہ اپنے موبائل یا ٹیبلٹ پر کس کام میں مصروف رہتا ہے، والدین کو اس کا علم ہونا از بس ضروری ہے،
مائیں اپنے بچوں کو مرغی کے پروں میں چھپائے چوزوں کی طرح بچا کر پالیں ورنہ کوئی نہ کوئی چیل کوا یا رال ٹپکاتا گدھ اس کے چوزے کو لے اڑے گا.
اپنے بچوں پر تھانیدار نہ بنیں، ان کے دوست بنیں، اپنے بچے کی تمام دن کی روداد سنیں.
اس کی گیمز میں حصہ لیں.
اس کے دوستوں سے واقف رہیں.
اپنے بچے میں در آنے والی تبدیلیوں کا نوٹس لیں.
اس کی وجہ جاننے کی جستجو کریں.
معاشرتی دباؤ یا رشتے بچانے کے لیے ایسے کسی معاملے میں خاموش رہنا جرم ہے.
اپنی اولاد کو اعتماد میں لیں، ان کا خود پر اعتماد بحال کریں اور انہیں ابتدائی حفاظتی تدابیر سے آگاہ کریں. مثلاً
.. اجنبی پر بھروسہ نہ کرنا
.. اجنبی سے کچھ لے کر مت کھانا
.. انکل کی گود میں نہیں بیٹھنا
.. انکل/ بھائی جان/سر/قاری صاحب کہاں ٹچ کر سکتے ہیں
اور کہاں ٹچ کریں تو بچے نے چیخنا ہے، بھاگنا اور محفوظ جگہ پر پہنچنا ہے.
یہ بچے جنہوں نے کل ڈاکٹر، انجینئر، استاد، عالم، حافظ، سائنسدان بننا تھا وہ آج کیا بنائے جا چکے ہیں. زبردستی ہی سہی لیکن وہ 50 ,50 روپے کے عوض بکنے والی ایکس ریٹڈ فلموں کے جیتے جاگتے کردار بن چکے ہیں، واٹس ایپ اور سکائپ پران کی ویڈیوز بکتی ہیں، استاد کی خدمت کے نام پر ان سے کیا خدمات لی جا رہی ہیں.
واہ! یہ اس زندہ قوم کی فطرت کے قریب ترین بننے والی فلموں کے ہیرو اور ہیروئین بنا دیے گئے ہیں. یہ بچے ہمارے معاشرے اور ہمارے نظام انصاف کے منہ پر طمانچہ ہیں.
نہیں طمانچہ نہیں. جب جب ان معصوموں سے کوئی بیمار ذہن ”تسکین“ پاتا ہے تب تب ہماری پوری قوم آبروباختہ ہو جاتی ہے.