Tag: محب وطن

  • کیا یہ محب وطن ہیں- اوریا مقبول جان

    کیا یہ محب وطن ہیں- اوریا مقبول جان

    جس ملک کے فیصلہ ساز سیاست دان اور ان کی ٹیم میں موجود، عالمی سُودی مالیاتی نظام کے پروردہ معاشی ماہرین، ایک ایسا عوام دُشمن فیصلہ کریں جس کا کوئی جواز موجود نہ ہو، وہاں ترقی، خوشحالی اور عوامی فلاح کے خواب دیکھنا دیوانگی کے سوا کچھ نہیں۔

    15 اگست 2022ء کو دُنیا بھر میں خام تیل کی قیمتیں تقریباً چار ڈالر کم ہو گئیں۔ امریکی مغربی ٹیکساس انٹرمیڈیٹ خام تیل کی قیمت پانچ فیصد گر کر 87.86 ڈالر فی بیرل ہوئی، جبکہ برطانوی برینٹ (Brent) کی قیمت بھی اتنے فیصد ہی گر کر 93.80 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ اب یہ قیمتیں 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے وقت والی سطح سے بھی نیچی آ چکی ہیں۔

    مملکت خدادادِ پاکستان کے عوام کے لئے خوفناک دھچکا یہ نہیں کہ اس کی کابینہ نے قیمتیں کم کرنے کی بجائے بڑھائی ہیں، بلکہ یہ جھوٹ بھی بولا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کے مطالبات پورا کرنے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے یہ سب کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملکی تاریخ کا یہ بدترین عوام دُشمن فیصلہ صرف پاکستان میں موجود عالمی منافع خور تیل کی کمپنیوں کو نقصان سے بچانے کے لئے کیا گیا ہے۔ عوام کا خون چوسنے اور سیاست دانوں کے انتخابی اخراجات برداشت کرنے والی ان کمپنیوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم نے تیل چونکہ دو ماہ قبل اس وقت خریدا تھا، جب مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 240 روپے تھی اور ابھی تک تیل سٹاک میں موجود ہے۔

    ڈالر چونکہ گر کر 214 روپے ہو چکا ہے، حکومت اگر تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائے گی تو پھر ہمیں شدید خسارے کا سامنا ہو گا۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ’’کارپوریٹ وزیر خزانہ‘‘ اور پی ڈی ایم کی پوری کابینہ نے بائیس کروڑ عوام کے مقابلے میں صرف چند آئل کمپنیوں کے مفادات کو اہمیت دی اور عوام کی جیب سے سرمایہ لوٹ کر ان کی تجوریاں بھرنے کے لئے قیمت بڑھا دی۔ وجہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور معیشت دان دہری غلامی کے اسیر ہیں، عالمی مالیاتی طاقتوں کے غلام ہیں اور ملکی سرمایہ داروں کے اسیر۔ جہاں سیاست دان اور معیشت دان محب وطن اور آزاد ہیں، ایسے ملکوں میں اس طرح نہیں ہوتا۔ گذشتہ چھ ماہ سے جو معاشی صورتِ حال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پیدا ہوئی ہے.

    اس سے نمٹنے کے لئے دُنیا کے ہر ملک نے اپنے حالات، وسائل اور تعلقات کے حوالے سے آزادانہ اقدامات اُٹھائے ہیں اور اپنی معیشتوں کو مستحکم کر کے عوام کو معاشی مصیبت و پریشانی سے نکالا ہے۔ جنگ کا سب سے زیادہ اثر روس کی معیشت پر ہونا چاہئے تھا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دُنیا بھر کی کرنسیوں کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم ہوئی ہے، مگر روس کا روبل جو جنگ کے آغاز میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 85 کا تھا اور جسے امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ اب یہ ایک کاٹھ کباڑ (Rubble) ہے، آج روبل 35 فیصد کی بلند شرح پر ہے اور ایک ڈالر کے مقابلے میں 53 روبل آتے ہیں۔ ایسا کس طرح ممکن ہوا… ایسا صرف ملک سے محبت کرنے والے اور عالمی مالیاتی نظام سے آزاد معیشت دانوں اور سیاسی رہنمائوں کے فیصلے کی وجہ سے ہوا۔ روس کے سنٹرل بینک نے ایک پالیسی مرتب کی کہ سرمائے کو کیسے ملک سے باہر جانے سے روکا جائے۔

    پہلا اقدام یہ اُٹھایا گیا کہ ایسی تمام کمپنیاں جو روس میں کاروبار کرتی تھیں اور ساتھ ہی ان کا بیرون ملک بھی کاروبار موجود تھا، ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی آمدن کا 80 فیصد فوراً روسی روبل میں منتقل کر دیں، یعنی اگر ایک کمپنی کا کل سرمایہ ایک ارب ڈالر ہے تو وہ 80 کروڑ ڈالر روبل میں منتقل کرے گی۔ اس فیصلے سے ایک دَم روبل کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہو گیا اور دوسری بات یہ ہوئی کہ سرمایہ روس سے باہر منتقل ہونا بند ہو گیا۔ یورپ کے ممالک روس سے گیس خریدتے تو اس کی ادائیگی یورو میں کرتے تھے، روس نے کہا کہ اگر گیس خریدنا ہے تو پھر قیمت روبل میں ادا ہو گی۔ گیس ان کی مجبوری تھی، یوں اس فیصلے سے بھی روبل کی طلب میں اضافہ ہوا، جبکہ تیسرا اور آخری قدم یہ اُٹھایا گیا کہ بیرون ملک سے اشیاء منگوانے پر شدید پابندیاں لگا دیں اور آج جس روبل کو جوبائیڈن نے ’’کاٹھ کباڑ‘‘ کہا تھا وہ دُنیا کی سب سے مضبوط کرنسی ہے۔

    میرے ملک کا مرعوب معیشت دان کہے گا کہ وہ تو روس ہے، ایک بہت بڑی معاشی قوت ہے، وہ تو کر سکتا تھا۔ ہماری کیا حیثیت، ہم تو آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی نظام کے شکنجے میں ہیں، ہم کیسے کریں گے۔ لیکن بھارت تو ہم سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اس وقت بھارت پر عالمی قرضہ 621 ارب ڈالر ہے اور معیشت بھی تیل، گیس، اسلحہ، گندم، سویابین کی ضروریات کے تحت عالمی شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ بھارتی روپے کا دُنیا کی عالمی معیشت میں کبھی کوئی ایسا کردار نہیں رہا کہ ڈالر یا یورو کی جگہ اس میں کاروبار کیا جا سکے۔ لیکن جہاں سیاست دان عوام سے مخلص اور معیشت دان عالمی غلامی سے آزاد ہوں وہاں بڑے فیصلے کرنا مشکل نہیں ہوتے۔

    جولائی کے آخری ہفتے میں بھارت کے ریزو بینک نے ایک اہم ترین پالیسی کا اعلان کیا کہ وہ آئندہ سے عالمی تجارت بھارتی روپے میں کرے گا۔ اس کا طریقہ یہ بنایا گیا کہ ایسے تمام ممالک جو بھارت سے تجارت کرنا چاہتے ہیں، وہ اب بھارتی روپے میں کیا کریں گے۔ ایسے دونوں ممالک لوکل کرنسی میں اکائونٹ کھولیں گے۔ مثلاً روس بھارت میں روپے میں اکائونٹ کھولے گا اور بھارت روس میں روبل میں اکائونٹ کھولے گا۔ دونوں ممالک اپنی آمدن لوکل کرنسی میں رکھا کریں گے۔ یعنی اگر بھارت سے روس نے اشیاء منگوائیں تو وہ اس کی قیمت اپنی کرنسی روبل میں ادا کرے گا اور وہ سرمایہ ایکسپورٹر کو نہیں دیا جائے گا بلکہ ایک مشترکہ ملکی اکائونٹ میں رکھا جائے گا۔ اب بینک اس روبل کو شرح تبادلہ (Exchange Rate) کے حساب سے بھارتی روپے میں منتقل کرے گا اور پھر ایکسپورٹر کو اس کا حصہ ادا کرے گا۔

    اس سے ہو گا کہ بھارتی امپورٹر اور بھارتی ایکسپورٹر دونوں بھارتی روپے میں ہی ادائیگی کیا کریں گے۔ خدا حافظ ڈالر،یورو۔ اس طریق کار کا پہلا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قیمت مستحکم ہو گی۔ یہ ایک عام اصول ہے جب تاجروں کو بھارتی روپے کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ اسے ہی حاصل کیا کریں گے۔ بھارت اب صرف ضروری اشیاء مثلاً اسلحہ، دوائیاں وغیرہ خریدنے کے لئے اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر استعمال کرے گا۔ سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ روس اور ایران جیسے ممالک جن پر عالمی پابندیاں ہوں گی، ان سے تجارت آسان ہو جائے گی۔ کیونکہ عالمی مالیاتی بینکاری نظام نے ان ممالک کو سوئفٹ (Swift) سسٹم سے نکال دیا ہوتا ہے، اور اب سوائے لوکل کرنسی میں تجارت کرنے کے ان کے لئے اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔

    بھارت اب جہاں ضرورت ہو گی وہاں ڈالر یا یورو میں تجارت کرے گا ورنہ دیگر ممالک سے بھارتی روپے کو ہی دوسرے ممالک کی کرنسیوں کے ساتھ شرح تبادلہ کے حساب سے تجارت کرکرے گا۔ اس پالیسی کے بعد نہ صرف یہ کہ روس اور ایران کے ساتھ بھارتی تجارت اس راستے پر چل نکلی ہے بلکہ اب تو متحدہ عرب امارات جہاں لاتعداد بھارتی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور وہاں سے بھارت کو 45 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد ہوتی ہیں اور بھارت سے 28 ارب ڈالر کی ہے، ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی لوکل کرنسی میں شروع کی جا رہی ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ عالمی معاشی شکنجے سے آزادی کی طرف سفر کا آغاز۔ کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ جس ملک کی کابینہ تیل کی کمپنیوں کو نقصان سے بچانے کے لئے عوام کی جیبیں کاٹے، ایسے حکمرانوں کی موجودگی میں ایسا سوچنا بھی ایک خواب ہے۔

  • محب وطن ہوں، وطن پرست نہیں – نعمان اکرم

    محب وطن ہوں، وطن پرست نہیں – نعمان اکرم

    وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان میں پایا جاتا ہے. جس زمین میں انسان پیدا ہوتا ہے، شب و روز گزارتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار، دوست، والدین، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے۔ وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے، وہاں کی گلیاں، در و دیوار، پہاڑ، گھاٹیاں، پانی اور ہوائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان غرضیکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں اور وہ ان سے محبت کرتا ہے.
    تارک وطن ہونے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کمانے کے لیے باہر جاتے وقت دل بہت افسردہ ہوتا ہے، وجہ یہی کہ وطن سے محبت انسانی فطرت میں شامل ہے. اسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لیے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ الفاظ دیکھیے.
    ”اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے، کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں، اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا.“ (ترمذی)
    یہ الفاظ اس عظیم شخصیت کی مقدس زبان سے نکلے ہیں، جنھیں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور جن کی پیروی کرنا اپنے لیے باعث نجات اور باعث فخر سمجھتے ہیں. یہ الفاظ اس وقت نکلے تھے جب وہ اپنے وطن سے نکل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی ایذیت جھيلی مگر اپنے وطن میں رہنے کو ترجیح دی، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور خدا کا حکم آگیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی مکہ سے نکلتے ہیں، اور نکلتے وقت دل پر اداسی چھائی ہوئی ہے. اور زبان مبارک پر مذكورہ جملہ جارى تھا، جس کا لفظ لفظ دل میں وطن سے بھرپور محبت اور لگاؤ کا احساس پیدا کرتا ہے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آتے ہیں اور مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں ہوتی ہے تو بلال رضی اللہ عنہ کی زبان سے مکہ والوں کے حق میں بد دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ اس وقت آپ سرزمين مدینہ کے ليے دعا فرماتے ہیں:
    ”اے اللہ ہمارے دل میں مدینہ سے ویسے ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.“ (متفق علیہ)
    اسلام نے عالمی برادری کا تصور پیش کرتے ہوئے سارے انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد قرار دیا اور ان کے درمیان ہر قسم کے تقسیم کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہو، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم. نے حکم دیا کہ ”جس کسی نے کسی امن سے رہنے والے غیر مسلم پر ظلم کیا، یا اس کے حق میں کسی قسم کی کمی کی، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ ڈالا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں کل قیامت کے دن اس کا حریف ہوں گا.“
    بلکہ اسلام نے جانوروں، پودوں اور پتھروں کے ساتھ بھى اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ :
    ” اگر قیامت ہونے ہونے کو ہو اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے لگا دو کہ اس میں بھی ثواب ہے“ (صحيح الجامع 1424)
    وطن کی سلامتی اِس امر میں ہے کہ لوگوں کے مال، جان، عزت اور خون کی حفاظت کی جائے، ملک کے مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی جائے، ہر طرح کی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک رکھا جائے۔ معاشرے میں امن وامان کو پھیلایا اور ظلم و زیادتی کے ہر عمل سے خود کو بچایا جائے. معاشرے کے امن کو غارت کرنے والوں کو معاشرے کے لیے ناسور سمجھا اور کیفرکردار تک پہنچانے کےلیے حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ اب ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اب تک اپنے ملک کے لیے کیا کیا ہے. ملک کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے. عوامی بہبود کے لیے کیا کیا ہے. عوامی بیداری مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے؟
    اب
    یہاں ایک اہم نکتے کی وضاحت بہت ضروری ہے جس کو اکثر لوگ سمجھ نہیں پاتے اور کنفیوز کر دیتے ہیں
    ”مسلمان محب وطن ہوتا ہے لیکن وطن پرست ہرگز نہیں ہوتا“،
    وطن پرستی اور حب الوطنی دو بلکل مختلف چیزیں ہیں۔ حب الوطنی (وطن سے محبت) ایک فطری جذبہ ہے لیکن وطن پرستی کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان حق و ناحق کا معیار خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنے وطن کو بنا لے۔ یہ شرک کی ایک شکل ہے اور اسلام اس کی بھی اسی طرح بیخ کنی اور مخالفت کرتا ہے جس طرح شرک کی باقی تمام شکلوں کی. (بحوالہ پروفیسر خورشید احمد … حاشیہ ۔ اسلامی نظریہ حیات)
    یہ وہ نقطہ ہے جہاں پر وطن پرست یعنی نیشنلسٹ اور اسلام آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔ پس جب تک یہ محبت ایک انس تک ہے تو شاید کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو، لیکن جب ہم اس بنیاد پر اپنے آپ کو دوسروں سے کاٹ دیں، اور وطن پرستی کو حق و باطل کا معیار بنا لیں اور اس کی وجہ سے ظلم پر آمادہ ہو جائیں تو یہ مطلوب نہیں ہے. یاد رہے کہ وطن سے محبت ہمیں عصبیت کی طرف نہ لے جائے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں۔ عصبیت سے مراد یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے اپنی قوم، ذات قبیلے اور علاقے کی وجہ سے دشمنی روا رکھے جبکہ ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہماری دوستی بھی انصاف اور اللہ کے قائم کردہ اصول کے لحاظ سے ہونی چاہیے اور دشمنی بھی اسی لحاظ سے، اگر اس کے علاوہ ہے، اور بلاوجہ آپ اپنے ملک، قوم یا علاقے کی حمایت میں کھڑے ہیں جبکہ آپ کو پتہ بھی ہے کہ آپ کی قوم یا علاقے والے غلط ہیں اور ناانصافی کر رہے ہیں تو یقنی طور پر آپ عصبیت ہی کا شکار ہو رہے ہیں۔
    ایک مسلمان اپنے وطن سے بےحد محبت کرتا ہے اور اس کی راہ میں جان دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے، بشرطیکہ وہ راہ جس کے لیے وہ جان دے رہا ہے خدا اور اس کے رسول ﷺ سے نہ ٹکراتی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک مسلمان اپنے والد سے تو بہت محبت کرتا ہے، اپنی ماں کے سامنے اف تک نہیں کہتا، اپنی اولاد کے لیے تو جان بھی دے دیتا ہے لیکن جب ماں باپ یا اولاد ہی کفر کی تعلیم دیں یا کفر کی طرف سے تلوار اٹھا لیں تو ایک مسلمان اپنی اس محبت کی خاطر اللہ تبارک و تعالی کو ناراض نہیں کر سکتا پھر وہ وہی کرتا ہے جو ایک صحابی رضی اللہ تعالی نے اپنے غیرمسلم بھائی کے بارے کہا تھا کہ جب وہ قیدی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو فرمایا اس کے ہاتھ کس کے باندھو، اس کی ماں بہت امیر ہے، چھڑوانے کے لیے کافی جزیہ دے گی، تو بھائی نے کہا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو، ہم دونوں بھائی ہیں، مجھے تم چھڑوانے کے بجائے مزید پھنسا رہے ہو تو اس صحابی نے کہا کہ تم نہیں، یہ میرے بھائی ہیں جو تمہیں باندھ رہے ہیں۔
    ہمارے لیے صیحیح صرف وہ ہونا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق صحیح ہے اور غلط وہ ہونا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کے مطابق غلط ہے۔ ایک مسلمان کی محبت سب سے زیادہ اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہوتی ہے جیسا کہ محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے تب تک کوئی مومن نہیں ہووسکتا جب تک میں اسے اس کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجائوں۔ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ سامنے آجائے تو تمام محبتیں چھوٹی پڑ جاتی ہیں. بس یہی وہ حب الوطنی اور نیشنل ازم میں فرق ہے جسے اکثر لوگ کنفیوژ ہوتے ہیں یا جان بوجھ کر کر جاتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ میں وطن پرست نہیں محب وطن ہوں.
    اے اللہ پاکستان کو محبت، امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے، اسلام کا قلعہ اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے. آمین