Author: آصف محمود

  • کیا سیاسی کلٹ سے نجات ممکن ہے؟-  آصف محمود

    کیا سیاسی کلٹ سے نجات ممکن ہے؟- آصف محمود

    جب کوئی ’ کلٹ‘ Cult کسی معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو کیا اس سے نجات کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا یہ نظام فطرت ہے کہ معاشرے اور اس کی دو تین نسلوں کو اب یہ کلٹ بھگتنا پڑنا ہے اور طوفان کے گزر جانے کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ اب کیا کچھ باقی گیا ہے اور اس ملبے سے کوئی بنیاد کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟

    مذہبی کلٹ ہمارے ہاں حالات کے جبر کے تحت زیر بحث آیا لیکن سیاسی کلٹ پر یہاں کوئی کام نہیں ہوا۔ سیاسی کلٹ کیا ہوتا ہے اور ہنستے بستے معاشروں کو یہ کیسے لاحق ہو جاتا ہے اور لاحق ہو جائے تو اس سے نجات یا کم از کم ڈیمیج کنٹرول کا کوئی امکان موجود ہے یا نہیں اور ہے تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے سماج میں تاحال اجنبی ہیں۔ ابلاغ کے منصب جن کے ہاتھ میں ہیں انہیں سنجیدہ موضوعات سے کوئی رغبت ہی نہیں۔ کلٹ کے موضوع پر امریکی سکالر ڈاکٹر سٹیون ایلن نے بہت کام کیا ہے۔دماغی ا ور نفسیاتی صحت ، مائنڈ کنٹرول ، کلٹ جیسے موضوعات پر نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا میں انہیں ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہے۔

    2019میں ان کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام تھا:The Cult of Trump ۔کتاب کے سرورق پر ایک فقرہ لکھا ہے کہ’’ کلٹ کے بڑے ماہر واضح کر رہے ہیںکہ صدر ( ٹرمپ)نے مائنڈ کنٹرول کو کیسے استعمال کیا‘‘۔ گویا مصنف کے نزدیک کلٹ کا یہ سارا کھیل’’مائند کنٹرول‘ کے ذریعے کھیلا جاتا ہے ۔یاد رہے کہ پاکستان میں بھی ایک سابق وزیر اعظم کا یہ دعوی ہے کہ ’’ میں مائنڈ گیم کا ماہر ہوں‘‘۔ اس کتاب کے سامنے آنے کے بعد مصنف کے ساتھ بعض لوگوں نے انٹرویوز کیے ۔ان انٹرویوز کو آپ گویا اس کتاب کی شرح قرار دے سکتے ہیں۔سین النگ کا ایک انٹرویو،اس میں پوچھے گئے چند سوالات اور ان کے جوابات ہمیں معاملہ فہمی میں مدد دے سکتے ہیں۔

    ایک سوال یہ تھا کہ آپ’ کلٹ‘ سے کیا مراد لیتے ہیں؟سٹیون ایلن نے جواب دیا کہ’ کلٹ‘کی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہی لیکن آسان زبان میں اسے یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ایک ایسا ’’ آمرانہ اہرام‘‘ ہے،جس کے اوپر ایک فرد بیٹھا ہے۔نہ صرف یہ کہ ساری طاقت اسی شخص کے پاس ہے بلکہ اس کا یہ دعوی بھی ہے کہ ساری عقل بھی صرف اسی کے پاس ہے۔اسی دھوکے کی بنیاد پر لوگوں کو اپنا ہمنوا بنایا جاتا ہے۔اس سارے جھوٹ کے طلسم کو’کلٹ‘کہا جائے گا۔

    دوسرا سوال یہ تھا کہ مذہبی اور سیاسی کلٹ میں کوئی فرق ہے؟ڈاکٹر سٹیون اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر کلٹ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن ان تمام میں دھوکہ ایک قدر مشترک ہو گی کہ اس کرہ ارضی کا نجات دہندہ اب ایک ہی رہنما ہے اور سچائی تک رسائی صرف اسی عظیم رہنما کو حاصل ہے۔بس دلیل کی بجائے آنکھیں بند کر کے اس عظیم رہنما کی اطاعت کی جائے۔

    تیسرا سوال یہ تھا کہ جو لوگ اس’کلٹ‘ کا شکار ہو جاتے ہیں کیا انہیں اس کا احساس ہوتا ہے؟ ڈاکٹر سٹیون نے کہا کہ ہر گز نہیں۔نہ صرف یہ کہ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا بلکہ یہ بات ان سے کی جائے تووہ دوسروں کو احمق سمجھ کر ہنستے ہیں۔ان کا مائنڈ کسی اور کے کنٹرول میں ہوتا ہے اور وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ شعوری فیصلے کر رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں وہ معاشرے اور دنیا کی بھلائی کا کام کر رہے ہوتے ہیں اور خدا کی خوشنودی اور رضا کے لیے میدان میں اترتے ہیں ورنہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت ہوتا ہے اور انہیں ایسی جدوجہد کی خود تو کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

    چو تھا سوال یہ تھاکہ ’’ کلٹ لیڈر‘‘ اور مقبول لیڈر میں کیا فرق ہوتا ہے؟ ڈاکٹر سٹیون نے کہا کہ ’ کلٹ لیڈر‘ خود کو عظیم سمجھتا ہے،وہ مرکز نگاہ رہنا چاہتا ہے،اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے،وہ ہمدردی سے محروم ہوتا ہے ، خبط عظمت کا شکار ہوتا ہے اور جھوٹ بولنے میں اسے کوئی جھجھک اور شرم محسوس نہیں ہوتی۔وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔وہ دوسروں کو ہراساں کرنا اور ان پر مقدمات بنانا اپنا حق سمجھتا ہے ۔چنانچہ اس کے پاس اپنے ہر تباہ کن اقدام کا جواز موجود ہوتا ہے۔

    پانچواں سوال تھا کہ آپ ٹرمپ کو ’’ کلٹ لیڈر‘‘ کیوں کہتے ہیں؟جواب تھا کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور اس کے چاہنے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ وہ خدا کے مقرب ہیں اور ان کے مخالفین شیطان کے ایجنٹ ہیں۔یہ Apostolic Reformation کا مذہبی تصور ہے جو سیاسی کلٹ بن چکا ہے۔

    ڈاکٹر سٹیون کے مطابق کلٹ لیڈر موجود مسائل کو ایکسپلائٹ کرتا ہے۔ وہ جھوٹ کی بنیاد پر ایسا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ اسے سچ بن کر دکھا دیتا ہے۔ وہ کسی کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے مفاد کو مقدس جدو جہد بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس کے پاس جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے ذہن قابو کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ اپنی محبت اور عقیدت کے عوض لوگوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔ وہ لوگوں کے ذہن قابو کر لیتا ہے۔وہ مائنڈ گیم کا ماہر ہوتا ہے۔

    اب آئیے اس سوال کی جانب کہ جب کوئی’کلٹ‘ Cult کسی معاشرے کو اپنی گرفت میںلے لیتا ہے تو کیا اس سے نجات کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا یہ نظام فطرت ہے کہ معاشرے اور اس کی دو تین نسلوں کو اب یہ کلٹ بھگتنا پڑنا ہے اور طوفان کے گزر جانے کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ اب کیا کچھ باقی گیا ہے اور اس ملبے سے کوئی بنیاد کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟ اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔اور دل چسپ بات یہ ہے کہ سٹیون ایلن نے بھی اس سوال کو موضوع نہیں بنایا۔

    میرا خیال تھا کہ کم علمی اور نیم خواندگی کا شکار معاشرے ’ کلٹ لیڈر‘ کا آسان شکار ہوتے ہیں لیکن امریکہ کا سماج تو نیم خواندہ نہیں تھا ۔ امریکہ کا اجتماعی رد عمل البتہ مختلف تھا۔وہاں معاشرہ کلٹ کا شکار تو ہوا لیکن شعور اجتماعی نے آگے بڑھ کر سماج کو تھام لیا۔ ٹرمپ کا طریق واردات بھی سوشل میڈیا سے عبارت تھا۔اس کے ٹویٹر پر 8 کروڑ90 لاکھ فالورز تھے۔لیکن جب اس کا جھوٹ اور پروپیگنڈا حد سے گزرا تو اجتماعی شعور نے رد عمل ظاہر کیا۔پہلے ان کی پوسٹس ڈیلیٹ ہوئیں پھر ساتھ فیکٹ چیک لیبل لگائے گئے اور اس کے بعد انسٹا گرام اور فیس بک نے ان پر پابندی لگا دی اورٹویٹر ہینڈل معطل کر دیا ۔

    فاکس نیوزز پر ٹرمپ نے جھوٹ بولے تو سی این این نے فیکٹ چیک کا کام کر دیا۔ ریٹنگ کے ہیجان میں سب پاگل نہیں ہوئے بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا۔ تو کیا ہمارا سماج ، ہمارے ذرائع ابلاغ اور ہمارے اہل الرائے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ پائیں گے؟

  • غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا  – آصف محمود

    غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا – آصف محمود

    جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہ قصہ ماضی ہے، انہیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

    جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا، اور یہاں اسرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔ جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہل غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے۔ جن کو یقین تھا کہ فلاڈلفیا اور نیٹسارم کاریڈور اب ہمیشہ کے لیے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انہیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔

    جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیت حنون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔ جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انہیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ فوجی سروس نہ لی جائے۔

    غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ اُدھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں وضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہاہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔

    نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دے رہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حساب سودوزیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔

    اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکہ کمزور پڑ گیا یا اس نے منہ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منہ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ان پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انہیں کوئی مسلمان ملک پانی ا ور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟

    کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہو نے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟

    جس مزاحمت کا نام لینے پر مغرب کے سوشل میڈیا کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو کھانسی، تپ دق، تشنج اور پولیو جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں، اتفاق دیکھیے اسی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے، معاہدے میں اسی مزاحمت کا نام لکھنا پڑا اور عالم یہ ہے کہ امریکی صدر اور نو منتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔

    دنیا اپنے فوجیوں کی تحسین کرتی ہے مگر ادھر خوف کی فضا یہ ہے کہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کی شناخت خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کہیں کسی ملک میں جنگی جرائم میں دھر نہ لیے جائیں۔ ان جنگی مجرموں کے لیے باقاعدہ مشاورتی فرمان جاری ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیں تو گرفتاری سے بچنے کے لیے کون کون سے طریقے استعمال کیے جائیں۔خود نیتن یاہو کے لیے ممکن نہیں کہ دنیا میں آزادانہ گھوم سکے۔ قانون کی گرفت میں آن ے کا خوف دامن گیر ہے۔ یہ فاتح فوج کے ڈھنگ ہیں یا کسی عالمی اچھوت کے نقوش ہیں جو ابھر رہے ہیں؟

    ادھر اسرائیل میں بائیڈن کے سفیر جیک لیو کا کہنا ہے کہ ا سرائیل نے نہ صرف گلوبل ساؤتھ گنوا دیا ہے بلکہ مغرب بھی اس کے ہاتھ سے جا رہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے اور اگلے بیس تیس سال میں معاملات نئی نسل کے ہاتھ میں ہوں گے۔جیک لیو کے مطابق بائڈن اس نسل کا آخری صدر تھا جو اسرائیل کے قیام کے بیانیے کے زیر اثر بڑی ہوئی۔ اب بیانیہ بدل رہا ہے۔

    نیا بیانیہ کیا ہے؟ نیا بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ میں ایک تہائی یہودی ٹین ایجرز فلسطینی مزاحمت کی تائید کر رہے ہیں۔ 42 فی صد ٹین ایجر امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا جرم کر رہا ہے۔ 66 فی صد امریکی ٹین ایجر یہودی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی اعدادوشمار ہیں؟غزہ نے اپنی لڑائی اپنی مظلومیت اور عزیمت کے امتزاج سے لڑی ہے ورنہ مسلم ممالک کی بے نیازی تو تھی ہی، مسلمان دانشوروں کی بڑی تعداد نے بھی اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی سلامتی کی قیمت پر غزہ کو فراموش کر دیا تھا۔

    اسرائیل کا مظلومیت کا جھوٹا بیانیہ تحلیل ہو چکا ہے۔دنیا کے سب سے مہذب فاتح کی کوزہ گری کرنے والی فقیہان ِ خود معاملہ طفولیت میں ہی صدمے سے گونگے ہو چکے۔ مرعوب مجاورین کا ڈسکو کورس منہدم ہو چکا ہے۔انکے جو ممدوح مزاحمت کو ختم کرنے گئے تھے، اسی مزاحمت سے معاہدہ کر کے لوٹ رہے ہیں۔ جدوجہد ابھی طویل ہو گی، اس سفر سے جانے کتنی مزید عزیمتیں لپٹی ہوں، ہاں مگر مزاحمت باقی ہے، باقی رہے گی۔مزاحمتیں ایسے کب ختم ہوتی ہیں؟
    ڈیوڈ ہرسٹ نے کتنی خوب صورت بات کی ہے کہ غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیاہے۔

  • یکم مئی:  آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟ آصف محمود

    یکم مئی: آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟ آصف محمود

    ابن خلدون کے جن مبینہ خلیفوں کو فلسطین کے لیے ہڑتال پر اعتراض تھا کہ قومی زندگی کا ایک دن بلاوجہ ضائع کر دیا گیا، وہ نابغے یکم مئی کی عام تعطیل پر یوں خاموش ہیں جیسے انہیں کسی اژدہے نے سونگھ لیا ہو اور ان کی زبان گدی سے کھینچ کر ساتھ لے گیا ہو۔
    میرے بس میں ہو تو ان کی خدمت میں ایک قاصد روانہ کروں جو ان کا دامن کھینچ کر پوچھے: آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

    میرے حلقہ احباب میں ہر طرح کے لوگ ہیں، مولوی بھی اور شدید مولوی بھی، سیکولر بھی، فرمائشی سیکولر بھی اور شدید سیکولر بھی۔ خدا جانتاہے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ دوسروں کے احساسات کا خیال رکھا جائے۔یا کم از کم اتنا ضرور ہو کہ ان کی توہین نہ کی جائے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے جواب میں دوسری صف کے دوستوں کا رویہ ہمیشہ الٹ ہی رہا ہے۔ انہیں جب بھی موقع ملا، انہوں نے ہم جیسوں کی حساسیت کو پامال کیا۔ گاہے میں حیرت سے سوچتا ہوں کہ یہ رویہ روشن خیالی اور انسان دوستی ہے یا اسے بھی انتہا پسندی کا نام دیا جا سکتا ہے۔

    فلسطین پر ہم دکھی ہیں۔ اس دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ دل پھٹتا ہے۔ بیٹھے بیٹھے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ہم بے بس لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ اللہ نے قلم دے رکھا ہے تو مسلمہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ان مظلوموں کا مقدمہ پیش کر دیتے ہیں۔ یہ ہماری حساسیت ہے۔ دوستوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کس کی کیا حساسیت ہے۔ اس کا احترام ہونا چاہیے۔ اگر وہ غلط ہو تو اچھے انداز سے اصلاح کی جاسکتی ہے لیکن یہ کیا کہ طنز کیا جائے اور فقرے اچھالے جائیں؟

    میں نے کبھی کسی دوست کی حساسیت پر گرہ نہیں لگائی۔ لیکن ان ڈیڑھ سالوں میں مجھے میرے روشن خیال، سیکولرا ور جدید مذہبی رجحانات رکھنے والے بعض دوستوں کے رویے نے بہت تکلیف دی۔ فلسطین پر لکھا اور مسلسل لکھا۔ بین الاقوامی قانون کی روشی میں ا س کے ایک ایک پہلو پر لکھا۔ کہیں کچھ غلط لکھا ہو تا اس کی اصلاح سر آنکھوں پر لیکن مسخروں کے سے لہجے میں، اگر کوئی دوست فقرہ اچھالتا ہے ، ارے آپ تو جذباتی ہو گئے، ارے آپ تو مولوی نکلے، توبہ توبہ آپ تو خاصے انتہا پسند ہیں، اوہو آپ تو ٹی ایل پی ہو گئے، ارے صاحب آپ تو جماعتیے نکلے، اوہ اوہ، آپ تو غیرت برگیڈ ثابت ہوئے آپ تو فلاں اور فلاں نکلے۔۔۔۔۔۔تو آدمی اس کا کیا جواب دے۔

    میں نے تعلق خاطر برقرار رکھنے کو یہ فقرے تسلسل کے ساتھ سنے ا ور نظر انداز کیے۔ میں نے بحث سے اجتناب کیا لیکن دوست بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح بحث پر مائل نظر آئے۔ میرا دل دکھی ہے، میں نے کسی مکالمے تک سے اجتناب کیا کہ باہمی احترام اور تعلق پر حرف نہ آئے لیکن دوسری جانب سے لوگ بازو اور آستینیں چڑھائے تصادم پر مائل نظر آئے۔

    میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانا اتنا ہی بڑا جرم ہے کہ لوگ بتیسی کو آری بنا کر آپ پر چڑھ دوڑیں۔
    کیا ان احساسات اور جذبات کی کوئی قدر نہیں ہے جن کا تعلق مسلمانوں کی بچوں کے قتل عام سے ہوتا ہے؟
    کیا تعلق خاطر کا سارا بار ہم نے ہی اٹھانا ہے۔کیا تعلق برقرار رکھنے کی یہی قیمت ہے کہ ہماری روح پر زخم چھڑک کر شیطانی قہقہے بلند کیے جائیں؟

    فلسطین کے لیے ہڑتال کی کال دی گئی۔ مجھے درجن بھر دوست بھگتنا پڑ گئے۔ بتاؤ اس کال کا کوئی فائدہَ، بتاو اس سے اسرائیل کو کیا نقصان؟َ بتاو اس سے قومی زندگی کو کتنا نقصان؟ بتاو اس سے فلسطین کو کیا فائدہ؟ میں نے ایک ایک سے معذرت کی کہ میں اس بحث کے قابل نہیں، مجھے اس بحث سے معذور جانیے۔
    میں نے اس سارے دورانیے میں کسی سے کوئی بحث نہیں کی۔ جس کے دلوں پر لگی مہریں غزہ پر بیتی قیامت سے بھی نہ پگھل سکی ہوں ان پر میرے دلائل کیا اثر کریں گے۔ جہاں جہاں حد ہی ہو گئی، وہاں وہاں بس ایک لکیر کھینچی اور خود کو دوسری طرف کھڑا کر لیا۔

    آج مگر میں یہ سوچ رہا ہوں، افلاطون کی وہ اولاد نرینہ کہاں ہے، جسے فلسطین کے لیے ہڑتال پر بہت تکلیف تھی؟ جو تکلیف فلسطین کے لیے ہڑتال پر تھی وہ تکلیف یکم مئی کی تعطیل کے لیے کیوں نہیں؟
    فلسطین کی ہڑتال تو ایک رضاکارانہ عمل تھا، جو چاہے اس میں حصہ لے جو چاہے نہ لے۔ مگر یکم مئی کی چھٹی تو جبر ہے۔ہر ایک کو چھٹی کرنا ہے کہ یہی حکم ہے۔
    فلسطین کی ہڑتال پر جنہیں بہت تکلیف تھی کہ معیشت کا نقصان ہو گا، ابن خلدون کے وہ تمام صاحبزادے اب حساب سودوزیاں کیوں نہیں کر رہے کہ کس کا کتنا نقصان ہو گا۔
    فلسطین کی ہڑتال پر تو کاروبار بند تھا آج تو بنک بھی بند ہیں۔
    یہ سارے لوگ جو اس دن ’ست ربڑی‘ گیند کی طرح اچھل رہے تھے آج کدھر گئے ہیں؟
    آج یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا جارہا کہ یوم مئی کی چھٹی سے مزدوروں کو کیا فائدہ؟
    جو دانشوری اس روز دعوت جنگ دے رہی تھی آج کس کے ساتھ ہنی مون پر چلی گئی ہے؟

    معاملہ کیا ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ یہ سب فکر کی دنیا کے غیر فقاریہ جانور ہیں۔ ان کے نزدیک انسانی تہذیب صرف وہ ہے جسے مغرب انسانی تہذیب سمجھے۔ مغرب کے سوا سب ’چھان بورا‘ ہے۔ یکم مئی کی تعطیل کا حکم چونکہ فرنگی تہذیب سے آیا ہے اس لیے ا س دن کسی احسن اقبال کے کان میں کوئی سر گوشی نہیں کرتا کہ نہیں ہے بندہ حر کے لیے جہاں میں فراغ۔اس چھٹی پر کسی دانشور کا قلم بھی برہم نہیں ہوتا۔ انہیں ساری تکلیف صرف اس وقت ہوتی ہے جب معاشرے میں مسلمانوں کے حوالے سے کوئی حساسیت دکھائی جائے۔

    ان کے سارے بھاشن مسلمانوں کے لیے ہیں۔ان کے تیز دانت صرف مسلمانوں کی حساسیت پر کمال دکھاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر سے مذہبی تقسیم سے بالاتر ہو کر لوگ فلسطین کے مظلوموں کے لیے بول رہے ہیں، یہ وہ گونگے شیطان ہیں جو ایک ہڑتال پر برہم ہو جاتے ہیں۔
    ان سے تو وہ یہودی بہت بہتر ہیں جو اسرائیلی وزیر کے دورہ امریکہ پر اس کے منہ پر کہتے ہیں کہ تم نے یہ مظالم کر کے ہمارے یہودی مذہب کی بھی توہین کر دی ہے۔

    میری سمجھ سے باہر ہے ان لوگوں کا عارضہ ہے۔ فلسطین کا مقدمہ حقوق انسانی کا مقدمہ ہے۔ یہ انسانیت کا مقدمہ ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کا مقدمہ ہے۔ لیکن یہ لوگ بھولے سے بھی اس ظلم پر بات نہیں کرتے۔ یہ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کو سینگ مار لیں۔
    یہی وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود؟
    ان مسلمانوں کو یکم مئی مبارک ہو۔

  • افسانہ: گدھ – آصف محمود

    افسانہ: گدھ – آصف محمود

    زیتون کے پودے کی چھاؤں میں گڑیا سے کھیلتی میری بیٹی چلائی: بابا! بابا!
    میں بھاگ کر اس کے پاس پہنچا تو دیکھا، کھیت کی منڈیر پرایک آنکھ والا کریہہ صورت گدھ بیٹھا تھا۔ اس کے چھ پنجے تھے جو زمین میں اندر ہی اندر کسی آسیب کی طرح گھستے چلے جا رہے تھے۔
    ”میرے کھیت میں کیوں گھس آئے ہو“؟۔ میں نے اسے للکارا۔
    اس نے حقارت سے قہقہہ لگایا، تمہارا کھیت؟“
    ”ہاں میرا کھیت۔ تم دیکھ نہیں رہے کہ اس مٹی میں جتنے زیتون کے درخت ہیں اس سے زیادہ میرے قبیلے کی قبریں ہیں“۔
    گدھ بولا: ”ا ب تیرا یہاں کچھ بھی نہیں۔ گدھوں کی پنچایت نے یہ سب مجھے دے دیا ہے۔یہ کھیت، وہ صحرا، یہ اونٹنیاں، وہ کنویں، یہ باغ، وہ نخلستان، سب میرا ہے۔ تب اب ریت کے ذروں کی طرح بے توقیر ہوچکے ہیں۔ تمہارے گھروں میں صحرا کی ریت اڑے گی اور تمہاری بستیاں اجاڑ بیابان ہو جائیں گی “۔
    ”ٹھہر، اے دور کی زمینوں کے آسیب!“۔ میں تلوار سونت کر اس کی جانب بڑھا لیکن وہ بھدی سی آواز میں شور مچاتا بھاگ گیا۔
    دو موسم گزر گئے۔وہ گدھ نظر نہ آیا۔

    پھر بہار کی رت میں ایک صبح، جب میری بیٹی گلاب چن رہی تھی، اور میں گھوڑے پر زین کس رہا تھا، وہ چلائی: بابا! بابا! وہ پھر آ گیا۔
    میں نے دیکھا،وہی گدھ کھیت کی منڈیر پر بیٹھا تھا۔لیکن اب کی بار وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے پیچھے آسمان پر کالے سیاہ گدھوں کا ایک لشکر چلا آ رہاتھا۔
    میں نے بیٹوں کو آواز دی اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ کمان اور تیر میں نے بیٹی کی طرف اچھال دیے اور عربوں کی بیٹیاں تیروں کو کمان پر یوں چڑھاتی ہیں جیسے ہار پرو رہی ہوں۔اس کے چلائے تیرکتنے ہی کریہہ صورت گدھوں کے سینے سے پار ہو گئے اور وہ کھیت تک پہنچنے سے پہلے ہی مردار ہو گئے۔
    میں گھوڑے پر تلوار لیے آگے بڑھا۔ میرے گھڑسوار بیٹے بھی میرے پیچھے تھے۔ ان کے گھوڑے ہرنوں جیسے چابک دست اور شتر مرغ جیسی ٹانگوں والے تھے، وہ بھیڑیے کی طرح دوڑتے ہوئے اپنے سواروں کو لے کر کھیت کی منڈیر پر میرے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔
    گدھوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جانے کن کن زمینوں کے گدھ تھے۔ یہ چیختے چنگھارتے چلے آ رہے تھے۔ ان کی بد صورت چونچوں سے آگ اگل رہی تھی، ان کے پروں میں آسیب تھا، یہ درختوں کے جس جھنڈ پر اترتے، وہ خشک ہو جاتا۔
    ”بھاگ جاؤ، بھاگ جاؤ“۔ گدھوں نے آواز لگائی۔
    ”اے کریہہ صورت گدھ ہم پہلے کبھی بھاگے ہیں جو اب بھاگ جائیں“؟

    پھر خون کا رن پڑا۔ میرے بیٹے اسی طرح لڑے جیسے ماؤں نے انہیں لوریوں میں لڑنا سکھایا گیا تھا۔ یہ لڑائی بہت طویل تھی۔گھڑ سواروں پر کتنے ہی سورج طلوع ہوئے اور غروب ہو گئے۔ ہماری پور پور لہو ہو گئی مگر ہم نے پیٹھ پر کوئی زخم نہ کھایا۔ نیامیں ہم نے توڑ دیں اور ہم زرہوں کے بغیر لڑے۔ہمارے زخموں نے رجز کہے۔ہاں مگر ہم کم تھے، ہم گھائل ہو گئے۔ ہم نے شکست تو نہیں مانی، ہاں مگر ہم قتل ہو گئے۔ہم نے لہو سے انہیں سیراب کیا مگر ہاں، ہمارے کھیت صحرا ہو گئے۔ میرے بیٹوں کے لاشے یوں بکھر ے جیسے آندھی میں کھجور کا پھل گر جائے۔میری بیٹی کی کمان ٹوٹ گئی، اور اس کے جسم کے ٹکڑے گلاب کے پودں میں جا اٹکے۔

    اب میں ہی بچ گیا تھا۔میرے جسم کو جگہ جگہ سے نوچا جا چکا تھا۔میں نہتا تھا، مگر میری تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹی تھی۔میرے بازو شل ہو چکے تھے، مگر وہ تیرچلا چلا کر شل ہو ئے تھے۔ میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں، مگر ان میں مزاحمت کے الاؤ سرد نہیں ہوئے تھے۔ کھیت کے بڑے حصے پر قبضہ ہو چکا تھا۔میں کنویں کے پاس زیتون کے ایک پودے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا، میرے جسم سے خون رس رس کر زیتون کی جڑوں میں جذب ہو رہا تھا۔

    گدھ میرے اوپر منڈلا رہے تھے۔ ان کی شکلیں مزید بد صورت ہو چکی تھیں۔ میں نے ایک چھڑی اٹھا لی کہ عرب جنگجو کو مزاحمت کے بغیر موت نہیں آتی۔
    ساتھ والے کھیت میرے بھائیوں کے تھے۔ میری ٹوٹتی نگاہیں ادھر اٹھ گئیں۔
    گدھ بولا: ”ادھر کیا دیکھتے ہو؟ یہ ہم گدھوں کا وقت ہے، اب کوئی ابابیل نہیں آئے گا۔یہ جوسب تیرے ہیں،یہ سب تیرے نہیں ہیں“۔
    ”اے بد صورت گدھ، وہ میرے بھائی ہیں۔وہ ضرور آئیں گے۔ وہ میرا انتقام لیں گے“۔
    اتنے میں پڑوس کے کھیتوں سے شور اٹھا، اور تلواروں کے ٹکرانے کی آواز آئی۔”دیکھ میرے بھائی آ رہے ہیں۔ ان کی تلواروں کی آواز سن“۔
    ”یہ کند تلواریں ہیں، تیری مدد کو نہیں آ سکتیں۔ ان کی بجلیاں برفاب ہو چکیں، اب ان سے صرف رقص کیا جاتا ہے“۔گد ھ ہنستے ہوئے مزید بد صورت ہو گیا۔

    میں نے گردن گھمائی، ساتھ والے کھیت میں کند تلواروں کا رقص ہو رہا تھا۔جھنکار بلندہوتی جا رہی تھی۔میں لڑکھڑا گیا، میری آنکھیں بند ہو نے لگیں۔میری سانسیں اب اکھڑ رہی تھیں۔میں نے ہمت جمع کی اور چھڑی ایک گدھ کی اکلوتی آنکھ میں پیوست کرد ی۔ باقی گدھ مجھ پر پل پڑے۔
    جاں حلق تک آگئی تھی اور وہاں ایک سوال پھنسا تھا: یہ آگ کیا صرف میرے کھیت کو جلا کر ٹھنڈی ہو جائے گی؟ یہ گدھ کیا آگے نہیں بڑھیں گے؟

  • امریکہ 7 ارب ڈالر کا اسلحہ افغانستان میں کیوں چھوڑ گیا؟  آصف محمود

    امریکہ 7 ارب ڈالر کا اسلحہ افغانستان میں کیوں چھوڑ گیا؟ آصف محمود

    افغانستان سے جاتے ہوئے امریکہ وہاں جو اسلحہ چھوڑ گیا اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ غلطی تھی یا کوئی اہتمام تھا؟ غلطی تھی تو یہ کیسے ہو گئی؟ اہتمام تھا تو یہ کس کے خلاف تھا؟ کیا پاکستان کے خلاف تھا؟

    یہ کوئی معمولی واردات نہیں ہے۔ امریکہ جاتے جاتے افغانستان میں جو اسلحہ ا ور فوجی سازو سامان چھوڑ گیا ، اس کی مالیت 7 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کا کُل دفاعی بجٹ 6 ارب ڈالر ہے۔ یعنی پاکستان کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ مالیت کا اسلحہ اور فوجی سازو سامان امریکہ افغانستان میں چھوڑ گیا ۔ تھوڑا بہت اسلحہ ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ جاتے جاتے چھوڑ دیا۔ لیکن جب اس اسلحے اور فوجی سازوسامان کی مالیت 7 ارب ڈالر ہو تو پھر معاملہ اتنا سادہ نہیں رہتا۔ سوال وہی ہے: امریکہ اتنا زیادہ اسلحہ افغانستان میں کیوں چھوڑ گیا؟ اس کی وجہ؟ اس کی حکمت؟ یہ معاملہ کیا ہے اور یہ کھیل کیا ہے؟

    پینٹاگون کی جانب سے امریکی کانگریس کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق امریکہ افغانستان میں 7 اعشاریہ 2 ارب ڈالر مالیت کا فوجی سازو سامان چھوڑ کر گیا ہے جس میںجہاز ، ہیلی کاپٹر ، گولہ بارود ، نائٹ ویژن چشمے ، اور بائیومیٹرک ڈیوائسز شامل ہیں۔امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ کے مطابق امریکہ افغانستان میں 78 ہیلی کاپٹرا ور جنگی جہاز چھوڑ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ اڑان بھر کر واپس نہیں جا سکتے تھے؟ ان کو چھوڑ جانے میں کیا حکمت تھی؟

    الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کو افغانستان میں 61 ہزار امریکی فوجی گاڑیاں ، 3 لاکھ لائٹ ویپن ( چھوٹی مشین گنیں اور رائفلیں وغیرہ) اور 26ہزار ہیوی ویپن ملے ہیں۔ تعداد پر غور فرمائیے او امریکہ کے لائٹ اور ہیوی ویپن کی تفصیل دیکھ لیجیے ۔ یہ اتنا بھاری اسلحہ ہے جو دنیا کے بہت سارے ممالک کی افواج کے پاس نہ ہو۔ یہ اسلحہ کیا کوئی اپنے دشمن کے پاس غلطی سے چھوڑ کر جاتا ہے؟

    یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ امریکہ جیسی قوت افغانستان سے نکلے اور اپنا بھاری اسلحہ وہیں چھوڑ جائے۔ ہالی وڈ کی فلموں میں بھی یہ اہتمام موجود ہوتا ہے کہ کہیں سے امریکہ کو اچانک بھاگنا پڑے تو اس کے فوجی اسلحہ ساتھ لے جاتے ہیں یا اسے ضائع کر دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کیا امریکہ کی فوجی قیادت ہالی وڈ کے پروڈیوسروں سے بھی فارغ العقل تھی کہ وہ جاتے ہوئے اپنا بھاری اسلحہ وہیں چھوڑ کر چلی گئی۔ نہ ساتھ لے جا سکی نہ ہی اسے تباہ کر سکی؟ ظاہر ہے یہ غلطی نہیں ہے۔ یہ اہتمام ہے اور بادی النظر میں ا س اہتمام کا نشانہ پاکستان ہے۔

    امریکہ افغانستان سے ایک معاہدہ کر کے نکلا۔ ایسا نہیں کہ رات کو اس کے فوجی سورہے ہوں اور انہیں اچانک بھاگنا پڑا ہو۔ جب آپ معاہدہ کر کے نکلتے ہیں تو آپ اپنا سازو سامان ساتھ لے جانے کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ امریکہ نے یہ انتظام کیوں نہیں کیا؟ ڈھنگ کا انتظام نہیں کر سکا تو جو اسلحہ وہ چھوڑ کر جا رہا تھا اسے تباہ کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ چند منٹ؟ وہ یہ کام بھی نہ کر سکا۔

    اب جب ہم دن میں اٹھارہ اٹھارہ فوجیوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا یہ سب ایک غلطی تھی ، اتفاق تھا یا یہ ایک اہتمام تھا کہ اسلحہ چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکے۔

    فارن پالیسی میگزین کے مطابق امریکہ کا چھوڑا گیا یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ میں بھی دستیاب ہے ۔ سب سے زیادہ مانگ امریکہ کی M-4سالٹ رائفل ہے۔ یہ وہی رائفل ہے جو اس وقت پاکستان کے خلاف بلوچستان میں استعمال ہو رہی ہے۔ معاملہ صرف اس ایک رائفل کا نہیں ہے ، پاکستان کی پریشانی یہ ہے کہ بلوچستان میں جو عناصر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کے پاس اب وہی اسلحہ ہے جو امریکہ افغانستان میں چھوڑ کر گیا۔

    پاکستان کے خلاف اس دورانیے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے تو یہ بے سبب نہیں ، اس میں امریکہ کے چھوڑے ہوئے اس اسلحے کا اہم کردار ہے۔ امن عامہ کے چیلنج کے سامنے پہلی دیوار پولیس کی ہوتی ہے اور پولیس کے سامنے جب سپر پاور کے اسلحے سے لیس عناصر ہوں تو پولیس کے لیے اس سے نبٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    ٹرمپ نے اس اسلحے کا سوال اٹھایا ہے اور اس نے بائیڈن انتظامیہ پر اس حوالے سے سخت تنقید کی ہے کہ اس نے اتنا بھاری اسلحہ افغانستان میں کیوں چھوڑا۔ ٹرمپ کی یہ تنقید بتاتی ہے کہ معاملہ وہ نہیں جو بائیڈن انتظامیہ بتاتی رہی کہ ہم نے نکلتے ہوئے اسلحہ ضائع کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ معاملے کی نوعیت بہت سنگین ہے۔

    یہ اتفاق نہیں ہے کہ گذشتہ سال بلوچستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے۔ بلوچستا ن حکومت کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق اس ایک سال میں دہشت گردی کے 555 واقعات میں 300 لوگ جاں بحق ہوئے جن میں عام شہری ،پولیس اہلکار اور فوجی شامل ہیں۔ پاکستان کے لیے اب یہ بہت بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے کہ اس ساری صورت حال سے کیسے نبٹا جا سکے۔پاکستان کے لیے اس پر خاموش رہنا ممکن نہیںرہا۔ ایک ایک دن میں اگر ہمارے 18، 18 نوجوان شہید ہونے لگیں تو اس پر ریاست خاموش رہ بھی کیسے سکتی ہے۔( حیرت کی بات ویسے یہ بھی ہے کہ حقوق انسانی کے نام پر ہر وقت اپنی ہی ریاست کے خلاف فرد جرم عائد کرنے والے خواتین و حضرات ان شہادتوں پر یوں گونگے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ رویہ بھی غور طلب ہے اور اس پر بھی تفصیلی بات ہونی چاہیے)۔

    امریکہ کے اپنے ادارے اب اعتراف کر رہے ہیں کہ اس کا چھوڑا ہوا یہ اسلحہ اس پورے خطے کو کسی الائو میں دھکیل سکتا ہے۔ اسلحے کی نئی بلیک مارکیٹ وجود میں آ جانے کی باتیں بھی پاکستا ن نہیں ، مغربی ممالک اب خود کر رہے ہیں۔ ان ہی ممالک کے غلط فیصے ہوتے ہیں جن کا تاوان ہم جیسے ممالک کو دینا پڑتا ہے۔ امریکہ سے ہر فورم پر یہ سوال ہونا چاہیے کہ7 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا یہ اسلحہ جو تم چھوڑ گئے ، یہ غلطی تھی ، اتفاق تھا یا اس میں کوئی اہتمام تھا؟ غلطی تھی تو اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ اہتمام تھا تو کیا اس کا نشانہ پاکستان ہے؟ کیا امریکی فیصلہ ساز اتنے ہی سادہ طبیعت کے ملنگ لوگ تھے کہ جاتے ہوئے 7 ارب ڈالر کا اسلحہ ایسے ہی چھوڑ دیا؟

  • ٹرمپ کا غزہ فارمولا: انٹر نیشنل لا کیا کہتا ہے؟ آصف محمود

    ٹرمپ کا غزہ فارمولا: انٹر نیشنل لا کیا کہتا ہے؟ آصف محمود

    ٹرمپ فارمولے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا انٹر نیشنل لا اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے علاقے غزہ سے جبری بے دخل کر کے اردن، مصر یا کسی افریقی ملک بھیج دیا جائے؟ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں اس بارے میں چند اصول طے کر دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق:
    1. کسی مقبوضہ علاقے سے آبادی کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔
    2. قابض قوت کو یہ حق بھی نہیں کہ کسی کو جبری طور پر کسی دوسرے علاقے یا کسی دوسرے ملک میں دھکیل دے۔
    3. آبادی کے جبری انخلا اور اسے کہیں اورمنتقل کرنے پر پابندی ہو گی چاہے اس کا مقصد کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
    4. اگر ایسے لوگ اپنے علاقوں سے کسی ناگزیر وجہ سے نکال دیے جائیں تو ان کی جلد از جلد واپسی کو یقینی بنایا جائے گا. لوگوں کو ان کے اہل خانہ سے جدا نہیں کیا جائے گا۔

    اسرائیل نے جہاں جہاں سے مسلمانوں کو نکالا،ان کی زمینوں پر قبضے کیے اوروہاں اپنے یہودی شہریوں کو لا بسایا۔ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں اس کی بھی ممانعت کی گئی ہے، وہاں لکھا ہے: [english] The Occupying Power shall not deport or transfer parts of its own civilian population into the territory it occupies [/english] ” قابض قوت اپنی شہری آبادی کو اپنے زیر قبضہ علاقے میں منتقل نہیں کرے گی۔ ” جو کام اسرائیل کر رہا ہے، یہ تو ہٹلر نے بھی نہیں کیا تھا۔ جہاں سے فرانسیسی کسانوں کو نکالا گیا وہاں ہٹلر نے جرمن شہریوں کی ناجائز کالونیاں آباد نہیں کیں۔ اسرائیل مگر یہ کام کر رہا ہے اور تسلسل سے کر رہا ہے۔

    انٹرنیشنل لا کا سب سے اہم حصہ کسٹمری انٹر نیشنل لا ہے۔ دیگر معاہدوں کے برعکس، یہ ضابطے،کسی ملک کی توثیق کے محتاج نہیں۔ ہر ایک پر لازم ہے کہ ان کی پابندی کرے۔ اس کے کچھ Rules باقاعدہ وضع کر دیے گئے جن میں سے Rule 51 کے مطابق قابض قوت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی پر قبضہ کر لے۔ Rule 51 میں لکھا ہے:[english] Private property must be respected and may not be confiscated [/english]جنگوں کے دوران مقبوضہ علاقوں میں لوگوں کی نجی پراپرٹی کا تحفظ انٹر نیشنل لا کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ یہی اصول آکسفرڈ مینوئل کے آرٹیکل 50 میں بھی موجود ہے۔ ہیگ ریگولیشنز کے آرٹیکل 46 کے مطابق بھی نجی جائیداد ضبط نہیں کی جا سکتی۔ لکھا ہے: [english] Private property cannot be confiscated [/english] لیکن جب معاملہ فلسطین کا ہو تو انٹر نیشنل لا کے یہ سارے ضابطے بے رحمی سے پامال کر دیے جاتے ہیں۔

    انٹر نیشنل لا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی ملک کسی مقبوضہ علاقے پر حق ملکیت کا دعوی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کو اقوام متحدہ نے آج تک اسرائیل کا علاقہ تصور نہیں کیا۔ انہیں مقبوضہ فلسطین ہی لکھا جاتا ہے۔ قانون کے مطابق کسی علاقے میں کسی ریاست کا قبضہ ہو بھی جائے تو وہ عارضی قبضہ تصور ہو گا۔ اس قبضے سے وہ ریاست اس علاقے کی مالک نہیں بن جائے گی۔

    یہ اصول 1928 کے معاہدہ پیرس میں طے ہوا، اسی کا اعادہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی دفعہ 4 میں کیا گیا۔ انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے اپنے 4 اگست 2004 کے اعلامیے میں بھی اسی اصول کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ قبضہ کر لینے سے کوئی ملک اس مقبوضہ علاقے کا مالک نہیں بن جاتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی وضع کردہ حدود سے باہر اسرائیل کے جتنے قبضے ہیں، اقوام متحدہ نے انہیں ناجائز قرار دے رکھا ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 194 میں بھی اسی اصول کا اعادہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کا کمیشن UNCCP بھی 1949میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں یہی اصول طے کر چکا ہے۔ اسی اصول کے تعین اور اطلاق کے بارے میں سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی کئی اور قراردادیں بھی موجود ہیں جن میں سلامتی کونسل کی قرارداد 476 اور 478 بھی شامل ہیں۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 242 میں بھی [english] Emphasizing the inadmissibility of the acquisition of territory by war [/english] کی بات کی گی ہے اور اسرائیل سے تمام مقبوضہ جات خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔

    ہیگ کنونشن کے آرٹیکل 45 میں اسی اصول کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ مقبوضہ علاقہ جات کے عوام سے قابض قوت کے ساتھ وفاداری کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل نہیں کہا جا سکتا، یہ آج بھی فلسطین ہے اور فلسطین کے شہریوں سے اسرائیل کی اطاعت اور وفاداری کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
    ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ریاست مقبوضہ بھی ہو جائے تب بھی وہ اپنی حیثیت تبدیل نہیں کرتی۔ اصول یہ ہے کہ: [english] State remains the same international person[/english] یعنی جیسے وہ قبضے سے پہلے تھی، اب بھی اس کی حیثیت وہی ہو گی۔ سلطنت عثمانیہ کے قرض کے حوالے سے جو آربٹریشن رپورٹ تیار کی گئی تھی اس میں بھی یہ اصول لکھ دیا گیا تھا کہ قابض قوت کی حیثیت قابض کی ہوگی مالک کی نہیں۔ چنانچہ سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 674 میں، عراق کا کویت پر قبضہ اسی اصول کی بنیاد پر ناجائز قرار دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 62/243 میں اسی بنیاد پر اقوام عالم سے کہا تھا کہ آذر بائیجان کے علاقے پر قبضے کو تسلیم نہ کیا جائے۔ جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد 3061 میں گینی بساؤ پر پرتگال کے قبضے کو اسی بنیاد پر ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ اسی قانون کے تحت جنرل اسمبلی نے فلسطینی مقبوضہ جات پر قرارداد نمبر 3414 منظور کی تھی۔ اب اگر کوئی کہے کہ قانون کی بات نہ کی جائے، یہ تو فضول کام ہے، اور چونکہ طاقت کا توازن درست نہیں ہے، اس لیے خاموشی سے ٹرمپ فارمولے کے سامنے سر جھکا دیا جائے تو درویشوں کے اس تصرف کو قبول کرنا اہل غزہ پر لازم نہیں ہے۔بات قانون ہی کی، کی جائے گی۔

  • غزہ کے خلاف “راشن خیال” مسلمانوں کی فرد جرم – آصف محمود

    غزہ کے خلاف “راشن خیال” مسلمانوں کی فرد جرم – آصف محمود

    مسلمانوں کی ملامتی دانش، فلسطینیوں کے خلاف فرد جرم مرتب کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے دلیل، منطق، قانون اور اخلاقیات کی دنیا میں اس فرد جرم کا کوئی اعتبار ہے؟

    ایک مکتب فکر نے تو اب عادت ہی بنا لی ہے، جہاں بھی مسلمانوں کا معاملہ ہو تو اکتائے ہوئے رہنا۔ مسلمانوں کو ہی لعن طعن کرتے رہنا۔ انہیں ہدف ملامت بنائے رکھنا۔ مغرب سے ہر وقت، ہر معاملے میں، ہر مقام پر، غیر مشروط طور پر مرعوب رہنا۔ یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں اور منہ پر کہیں مسلمانوں کی نسل کشی کے چھینٹے نظر آئیں تو انہیں ان کے عارض و رخسار کی سرخی قرار دے لینا۔ منفرد ہونے کی خواہش بے کراں۔ ہمیشہ امت کے عمومی موقف کی الٹی سمت کھڑاہو کر ملامتی فکر کا پرچم بلند کیے رکھنا۔ مسلمانوں کی آنکھ کے تنکے کو شہتیر سمجھ کر دہائی دینا اور مغرب کے شہتیر کو تنکا سمجھ کر نظر انداز کر دینا۔

    فلسطین میں پندرہ ماہ مقتل آباد رہا، یہ ایسے بے نیاز رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، مسلمانوں پر سوگ کا عالم رہا یہ لاتعلق رہے۔ یہ منادی دیتے رہے کہ حماس نے اسرائیل سے ٹکرا کر حماقت کی ہے اور اب اس کا وجود مٹ چکا ہے، اب وہ قصہ ماضی بن چکی ہے۔ اور جب اسرائیل نے اسی حماس کے ساتھ سیز فائر کیا تو جیسے ہی مسلمانوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑی ، یہ بے اختیاری میں میدان میں آ گئے ہیں کہ رکو تو، خوش کیوں ہو، تم کب جیتے، تم تو ہارے ہو۔

    اس فرد جرم کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو صہیونیوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے تھی، انہوں نے حماقت کی، انہوں نے عقل سے کام نہیں لیا، رخصت کی بجائے راہ عزیمت اختیار کی،اس کے نتیجے میں اب جو بھی وبال آیا ہے اس کے ذمے دار یہ خود ہیں۔انہیں تعلیم سے جڑنا چاہیے تھا انہوں نے کم عقلی کی اور بندوق اٹھا لی۔ یہ خود اپنے خیر خواہ ہی نہیں اور یہ لاشوں کا کھیل کھیلتے ہیں۔

    غزہ کو تعلیم سے دور ہونے اور حماقت کا مرتکب ہونے کا طعنہ دینے والوں کی سادگی اور لاعلمی دونوں گدگدا دیتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اوسطا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ غزہ کے ہیں۔مسلم دنیا کے اہل علم و فکر کو غزہ کو طعنہ دیتے ہوئے ازہ مروت، کم از کم تھوڑا نادم تو ہونا چاہیے۔ مسلم دنیا میں امن ہے، دولت ہے، آسودگی ہے، بلند بالا عمارتیں بن رہیں ہیں، کھیلوں کے میدان آباد ہیں، پھر بھی تعلیم کے میدان میں غزہ کا مقتل ان سے آ گے ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی نے انہیں دنیا کے بہترین تعلیم یافتہ پناہ گزین قرار دے رکھا ہے۔ اس جنگ کے آغاز پر بھی غزہ کی اس چھوٹی سی بستی میں جتنے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر انجینیئر وغیرہ موجود تھے، اتنے پڑوس کی بعض پوری کی پوری دولت مند ریاستوں میں نہ ہوں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جتنے طالب علم تھے، قریب اتنی ہی طالبات تھیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا یہ تناسب کسی اور مسلم ملک میں ہو تو بتا دیجیے۔ غزہ والے تو انتہا پسند ٹھہرے، روشن خیال مسلم معاشروں میں سے کوئی معاشرہ اپنی بچیوں کے لیے ایسا شاندار علمی ماحول رکھتا ہوتو بتائیے۔ غزہ 1948 کے پناہ گزینوں کی چھوٹی سی بستی ہے۔ سکول کم پڑ گئے تو 198 سکول ڈبل شفٹ میں اور 75 سکول تین شفٹوں میں کام کرتے رہے لیکن انہوں نے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا۔ بات طویل ہو جائے گی، بس اتنا جان لیجیے کہ پاکستان کا لٹریسی ریٹ 62 فی صد ہے اور غزہ کا لٹریسی ریٹ 96 فی صد تھا۔ آفرین ہے کہ پاکستان کے دانشور غزہ پر فرد جرم عاید کر رہے ہیں کہ ان کم عقل مزاحمتیوں کو عقل کو زحمت دینا نہیں آتی۔

    لڑائی کی ذمہ داری عام فلسطینیوں پر ڈال دینا بھی عجیب رویہ ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ مسلمان تھے جنہوں نے بقائے باہمی کے کسی بھی اصول کی نفی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعلان بالفور کے بعد بھی، جبری طورپر یہود کی آبادکاری کے بعد بھی، مسلمان اس بات پر تیار تھے کہ اب بھی امن کی خاطر مل کر رہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کے قیام سے سالوں پہلے، انتداب اتھارٹی کو مفتی اعظم فلسطین اور فلسطین کونسل نے یہ باقاعدہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر چہ ہمیں یہود کی اس جبری آبادکاری پر اختلاف ہے لیکن امن کی خاطر آئیے ایک مشترکہ پارلیمان بنا لیتے ہیں، یہودی بھی اس کے ممبر ہوں اور مسلمان اور عیسائی بھی اس کے ممبر ہوں اور مل کر معاملات کوچلا لیتے ہیں۔ صہیونیوں نے یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیاکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ انہیں نکال کر اپنا ملک بنائیں گے۔ مسلمانوں کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں۔

    اسرائیل کی ریاست کے قیام کے اعلان سے قبل، قتل عام صہیونیوں نے کیا تھا۔ سینکڑوں گاؤں ملیا میٹ کر دیے اور دو ہفتوں میں ساڑھے سات لاکھ مسلمان ہجرت کر گئے۔ بین الاقوامی قانون انہیں واپسی کا حق دیتا ہے، لیکن اسرائیل نے انہیں آج تک اپس نہیں آنے دیا۔ ان کی اکثریت غزہ میں ہے۔ یہ سارے ہجرتی ہیں۔ یہ کب تک ہجرتیں کرتے رہیں۔ ایک وقت آتا ہے آدمی سوچتا ہے اب جان تو جائے گی، مزید ہجرت نہیں ہو گی۔ غزہ نے یہی کیا۔ ان کی نفسیاتی کیفیت کو سجھے بغیر ان پر طعنہ زن ہو جانا، دلیل اور اخلاقیات دونوں اعتبار سے کمزور رویہ ہے۔

    جنگ کا آٖغاز فلسطینیوں نے نہیں کیا تھا، جنگ کا آغاز صہیونیوں نے کیا تھا۔ جنگ کا آغاز ڈیڑھ سال پہلے اکتوبر میں نہیں ہوا تھا، یہ 1948 میں ہوا تھا اور اسرائیلی صہیونیوں نے کیا تھا۔انٹر نینشل لا بہت واضح ہے کہ جب تک ناجائز قبضہ برقرار رہے جب تک حالت جنگ ہی سمجھی جائے گی۔تب سے اب تک اسرائیل قابض ہے، یعنی جنگ جاری ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے قوانین کی رو سے تو یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں، نابلوس اس کا شہر نہیں، الخلیل اس کا شہر نہیں، سارا مغربی کنارہ اس کا نہیں، غزہ اس کا نہیں، لیکن وہ قابض ہے۔ دنیا کا کون سا اصول فلسطینیوں کو مزاحمت کا حق نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل انہیں یہ حق دیتی ہے۔

    مغربی کنارے میں تو حماس نہیں ہے۔ کیا وجہ سے وہاں دس سالوں سے روزانہ3 بچے ا وسطا قتل کیے جا رہے ہیں اور مقتولین میں سے 96 فیصد کے سر میں گولی ماری جاتی ہے۔کیا کسی کے پاس وقت ہے کہ وہ صرف یہ دیکھ لے کہ جو فلسطینی اسرائیل کے شہری بن چکے وہ کس طرح تیسرے درجے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مقبوضہ جات کو جمہوری جدوجہد کی تلقین کرنے والے کیا یہ جاننے کی زحمت کریں گے کہ اسرائیل کا بنیادی قانون (آئین تو اس کا ہے ہی نہیں) کس طرح نسل پرست قانون ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی فلسطینی کے لیے بطور انسان زندہ رہنے کے امکانات معدوم تر ہو چکے۔ یہ کیسا رویہ ہے کہ قاتل کی مذمت کے تصور سے ہی لوگ کانپ کانپ جائیں اور طنز و حقارت کے سارے تیر مظلوموں کے سینے میں اتار دیے جائیں۔

  • اسرائیل کا بیانیہ کیا ہے؟  آصف محمود

    اسرائیل کا بیانیہ کیا ہے؟ آصف محمود

    جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ تو ہمارے سامنے ہے۔ اس سے بھی اہم مگر یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے اسرائیل کا فکری بیانیہ کیا ہے؟
    اسرائیل کے جنگی جرائم پر تو دنیا بھر میں بات ہو رہی ہے لیکن ان جرائم کے پیچھے جو بیانیہ کارفرما ہے اس پر بات نہیں ہو رہی۔
    دسمبر2024 میں ، اسرائیل کی ہبریو یونیورسٹی کے استادا ور مورخ لی مورڈیکائی نے اسرائیلی جنگی جرائم پر ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی۔ یہ رپورٹ ان دنوں میرے زیر مطالعہ ہے۔ اس کے صرف ایک باب میں دیے گئے چند پہلوئوں کا خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کیونکہ اس میں اس سوال کا جواب موجود ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اسرائیلی جنگی جرائم کے حوالے سے یہ رپورٹ ایک شاندار دستاویز ہے۔ جس میں غزہ کی صورت حال کو مختلف زاویوں سے دکھایا گیا ہے۔ اس میں سے صرف ایک زاویہ آج کے کالم کا موضوع ہے۔اسرائیل کے فکری بیانیے کا مختصر ترین احوال لی مورڈیکائی نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
    1۔ اسرائیل کے صدر آئزک ییٹساگ ہیں ۔ یہ صاحب اپنے سرکاری بیان میں کہہ چکے ہیں کہہ غزہ میں عام شہریوں پر حملے بھی جائز ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہاں کے بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کا قتل جائز ہے۔
    2۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی افواج کو لکھے گئے خط میں غزہ کے فلسطینیوں کو عمالقہ قوم سے تشبیہہ دی۔ ( عمالقہ کو سمجھنے کے لیے طالوت اور جالوت کا واقعہ دیکھ لیجیے) ۔ یہودی مذہبی بیانیے میں جب کسی کو عمالقہ سے تشبیہہ دی جاتی ہے تو اس قوم کی عورتوں بچوں بوڑھوں سب کا قتل جائز ہو جاتا ہے اور ان کے گھر مکان تباہ کیے جا سکتے ہیں۔ انہیں کوئی ایسا حق دستیاب نہیں رہتا جو عام انسانوں کو اور حتی کہ دشمنوں کو بھی حاصل ہوتا ہے۔
    3۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطینیوں کو ایسا جانور قرار دیا جس کی صرف شکلیں انسانوں جیسی ہیں ۔ لیکن انہیں انسان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ( عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر کردہ درخواست میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے کہ باقی کے اراکین فلسطینیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں)۔
    4۔ سماجی برابری کی خاتون وزیر نے کہا کہ ہماری افواج غزہ میں کمال کر رہی ہیں۔ فلسطینی 80 سال بعد اپنے بچوں کو بھی ڈرایا کریں گے کہ یہودیوں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔
    5۔ لیکیوڈ پارٹی کے کنوینئر کا موقف ہے کہ غزہ میں کوئی بے گناہ نہیں ، جائو اور قتل کرو اور قتل کرو اور قتل کرو اور کرتے جائو۔
    6۔ اسرائیلی فوج کا ٹیلیگرام چینل ـ’’ 72 Virginsـ‘‘ اپنی ڈاکومنٹریز میں مسلمانوں کو کاکروچ اور چوہوں کے نام سے پکارتا ہے۔
    7۔ اسرائیلی جارحیت کے پہلے مہینے میں ٹوئٹر پر عبرانی زبان میں 18 ہزار سے زاید ایسے ٹویٹ کیے گئے جن میں غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
    8۔ اسرائیل کے90 نمایاں ڈاکٹرز نے باقاعدہ خط لکھ کر حکومت سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں شفا ہسپتال سمیت تمام ہسپتالوں کو تباہ کر دیا جائے۔ وہاں کے جانوروں کو کوئی حق نہیں کہ ان کے لیے کوئی ہسپتال باقی رہے۔
    10۔ نمایاں اہل صحافت نے ٹویٹ کیے کہ پانچ سال سے بڑی عمر کا ہر بچہ اس قابل ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور اگر زخمی ملے تو اس کو کوئی طبی امداد نہ دی جائے۔
    11۔ جنگ کے تیسرے مہینے میں 42 فی صد اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اسرائیل کو انٹر نیشنل لا کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔
    12۔ اسرائیل کے مین سٹریم میڈیا میں اس کے اداکاروں ، گلوکاروں اور دیگر اہم لوگوں نے مل کر مہم چلائی کہ غزہ کو مکمل تباہ کیا جائے۔ تمام غزہ کو ختم کیا جائے۔ حتی کہ اس بچے کو بھی جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے ختم کر دیا جائے۔ ’’ عربو تمہارے گائوں برباد ہو جائیں ‘‘ جیسے گانے چلائے گئے۔لاشوں پر کتے چھوڑے گئے ا ور ان کی ویڈیوز ہزاروں لوگوں نے فخر سے شیئر کیں۔
    اب اس بیانیے کی عملی شکل بھی دیکھ لیجیے؛
    سی این این کے مطابق غزہ پر فائر کیے تیس ہزار میزائلوں اور بموں میں سے قریب پچاس فیصد unguided تھے۔ یعنی ان کا کوئی مخصوص ٹارگٹ نہیں تھا۔ بس یہی کافی تھا کہ غزہ میں لوگ مریں گے اور عمارتیں تباہ ہوں گی۔ سارا غزہ ہی ان کا ٹارگٹ تھا۔ بچہ مرے یا بوڑھا ، ایک ہی بات ہے۔
    چنانچہ اس جنگ کے صرف پہلے ایک ہفتے میں غزہ میں6 ہزار بم پھینکے گئے ۔ ( یاد ر ہے کہ عراق میں چھ سالوں میں امریکہ نے 3678 بم پھینکے تھے۔ عراق اور غزہ کا رقبہ بھی ذہن میں رکھیے۔ عراق ایک پورا ملک تھا ، غزہ ایک چھوٹی سی پٹی ہے)۔
    مزید یہ یاد رہے کہ افغانستان میں امریکہ کی جانب سے جنگ کے تمام سالوں میں جتنے پھینکے گئے تھے غزہ میں صرف پہلے ایک ہفتے میں اس سے زیادہ بم پھینکے گئے۔
    یوروریڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے مطابق جنگ کے پہلے 200 دنوں میں غزہ پر 70 ہزار ٹن گولہ بارد پھینکا گیا۔ جنگ کے پہلے چالیس دنوں اسرائیل نے محفوظ قرار دیے گئے علاقوں میں 208 حملے کیے جن میں 2 ہزار پائونڈ گولہ بارود پھینکا گیا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ غزہ میں کیا ہوچکا ہے اور کیا ہو رہا ہے اور اسرائیل کے آئندہ عزائم کیا ہیں۔ غزہ کے لوگوں کو غزہ سے نکال کر دنیا کے کس کس کونے میں پھینکنے کے لیے کس کس ملک سے معاملات طے ہو چکے ہیں ، یہ احوال بھی بیان کیا گیا ہے۔
    غزہ میں طبی سہولیات کا عالم کیا ہے ، غذائی مسائل کیا ہیں ، بیماریاں کس کس خوفناک نوعیت کی پھیل چکی ہیں ، یہ سب بھی اس رپورٹ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
    اسرائیلی افواج کی بربریت ا ور ان کے مائنڈ سیٹ پر بھی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔غزہ کی ساحلی پٹی پر کس کس کی نظر ہے یہ احوال بھی اس رپورٹ میں لکھا ہے۔( اس کس کس میں کس پاکستانی سیاست دان کا کون سا ممدوح بھی موجود ہے ، یہ جاننا اب ہمارا کام ہے)۔رپورٹ پڑھیے آنکھیں کھولیے اور بولیے کہ یہ انسانیت کا قرض ہے۔

  • اُوووووو، جناب وزیر اعظم ! اُوووووو – آصف محمود

    اُوووووو، جناب وزیر اعظم ! اُوووووو – آصف محمود

    مسافر جب لوٹ کر آتے ہیں اور دور دیس کی کہانیاں سناتے ہیں تو دل کی دنیا مچل مچل جاتی ہے۔کبھی لطف آتا ہے اور کبھی وجود سے رائیگانی لپٹ جاتی ہے کہ کاش یہاں بھی ویسا ہی کچھ ہو سکتا۔
    میرے دوماموں امریکہ کے شہری ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ راستوں میں کیسے دھند اترتی ہے اور کیسے سڑکوں پر ہرن بے خوف بھاگتے پھرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں دھند تو ہمارے ہاں بھی اترتی ہیں لیکن ہرن تو دور کی بات یہاں تو چڑیوں کو بھی امان نہیں ۔ یہاں تو کسی کو کچھوا نظر آ جائے تو پتھر مار مار کر اس کا حشر نشر کر دیا جاتا ہے۔
    ابھی پرسوں اپنے دوست فیصل سید نے مانچسٹر سے ویڈیو کال کی کہ تم مارگلہ کے حسن کے مداح ہو ، یہ دیکھو یہاں کے پرندے اور جانور کتنے بے خوف ہیں ۔ یہ جھیل سے راج ہنس اڑ رہے ہیں۔ ان کے پروں کی آواز سنو۔ یہ دیکھو یہ راستے میں پرندے کتنے بے خوف ہیں ، کیا کبھی مارگلہ میں تم نے کبھی اتنا بے خوف پرندہ دیکھا؟
    چند ماہ پہلے آئر لینڈ سے ڈاکٹر انعام الحق صاحب کا سندیسہ آیا کہ مارگلہ کا حسن بہت دیکھ لیا ، اب میرے مہمان بنیں اور آئر لینڈ کے جنگل اور جھیلیں بھی آ کر دیکھیے۔
    یہ ایک لمبی داستان ہے اور ہر کہانی سوال بن کر وجود میں اتر جاتی ہے کہ کیا ہم بھی کبھی فطرت کے ساتھ اسی طرح کی دوستی کر پائیں گے؟ سنتا ہوں ، سوچتا ہوں اور تقابل کرتا ہوں مگر دل کی دنیا سے جواب نفی میں ملتا ہے۔ رائیگانی کی کسک اور بڑھ جاتی ہے۔
    اب ایک تازہ کہانی جناب وزیر اعظم نے سنائی ہے کہ جاپان کی محنتی اورمہذب قوم جب احتجاج کرتی ہے تو یہ سڑکیں بند کرتی ہے نہ کسی شہر کا گھیرائو کرتی ہے بلکہ وہ معمول کا کام بھی جاری رکھتی ہے اور ساتھ احتجاج کے طور پر ’ اووو‘ کرتی رہتی ہے۔ یہ سنتے ہی میرے دل کی گھنٹیاں بج اٹھیں اور کہیں کہیں لڈو پھوٹنے لگ گئے۔ دل کے نہاں خانوں سے آوز آئی، اے رائیگانی کے احساس سے جھلسے بے بس انسان، تم اپنی جنگلی حیات کا تحفظ نہیں کر سکتے ، تم اپنے ہرنوں کو نہیں بچا سکتے ، تم اپنی جھیلوں میں اڑتے راج ہنسوں کے پروں کی آواز سننے سے بھی محروم ہو ، تو اب کیا تم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ کم از کم کسی مہذب اور محنتی جاپانی کی طرح ’ اُوووو‘ ہی کر لیا کرو؟
    میں نے سوچا بات اگر ’ اُوو وو‘ پر ہی آ کر رک گئی ہے تو کم از کم ایک کوشش کی جا سکتی ہے۔ احتجاج کی اس شکل کی تو جناب وزیر اعظم خود اجازت عطا فرما رہے ہیں تو اس کا فائدہ نہ اٹھانا کفران نعمت کے مترادف ہو گا۔
    اُووو ہے جناب وزیر اعظم ، ہماری طرف سے اُووو ہے۔دیکھ لیجیے میں کالم بھی لکھ رہا ہوں اور اُوووو کیے جا رہا ہوں ، میرے قاری کالم پڑھ رہے ہیں اور اُووو کیے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پورا ملک ’ اووووو اووو‘ کر رہا ہے۔
    عدالتیں طے کر چکی ہیں کہ پنشن خیرات نہیں ہے ، ریٹائرڈ ملازمین کا حق ہے۔ عدالتیں
    یہ بھی طے کر چکیں کہ جو حق دیا جا چکا وہ چھینا نہیں جا سکتا ۔لیکن آپ کی حکومت نے ایک نوٹی فیکیشن سے اس حق کے ساتھ ناحق کر دیا ہے۔ سرکاری ملازم پکار رہے ہیں: ’ اُوووو‘‘۔
    عوام کی بات آئے تو آپ کے خزانے خالی ہیں لیکن اسمبلیوں میں آپ کی حکمران جماعت کے مزاج یار میں آئے تو خود ہی اپنی ہی تنخواہوں میں 800 فی صد تک اضافے فرما لیے جاتے ہیں ۔ کبھی نہ بکنے ، کبھی نہ جھکنے والے ، کردار کے غازیوں ، بے داغ ماضیوں والے ، ہمارے ووٹ کے جائز حقداروں کی یہ قانون سازیاں دیکھ کر ووٹرز پکار رہے ہیں:۔ اُووووووو۔
    خلق خدا انسانوں جیسی زندگی مانگے تو ارشاد ہوتا ہے خزانہ خالی ہے لیکن پچھلے سال جناب وزیر اعظم نے اپنے وزیر اعظم ہائوس کے ملازمین کے لیے چار اضافی تنخواہوں کی منظوری دی۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان ملازمین نے کون سے کمالات کیے تھے کہ ان پر یہ نوازشات فرمائی گئیں۔ ہاں اتنا ضرور معلوم ہوا کہ اس سخاوت شاہی کے لیے بنکوں سے 23 فی صد شرح سود پر قرض لیا جانا تھا۔باقی کے ملازمین اب منہ طرف وزیر اعظم ہائوس کر کے آواز لگا رہے ہیں: اُووووو۔
    جوڈیشل الائونس کے نام پر عدالتی اہلکار اپنے سکیل سے کئی گنا زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ باقی کے ملازمین سر دھن رہے ہیں کہ :اُوووووو
    سپریم کورٹ کا ایک جج ریٹائر منٹ کے بعد بنیادی تنخواہ کا قریب 80 فی صد پنشن اور مراعات کی شکل میں وصول کر تا ہے۔ باقی کے ریٹائرڈ ملازمین سوچتے ہیں کہ انصاف کے یہ جھرنے اس کے آنگن کا رخ کیوںنہیں کرتے۔ وہ گھٹی گھٹی سی آواز نکالتا ہے: اُووووو۔
    اسلام آباد کے ایک ہسپتال کو ، جہاں شفا قسمت والوں کو ملتی ہے ، اڑھائی ایکڑ زمین ایک سو روپے مربع فٹ کے حساب سے الاٹ کی گئی جس کی قیمت شاید اربوں میں بنتی ہے۔ مریض اور ان کے لواحقین اس عنایت کو دیکھتے ہیں اور سُر لگاتے ہیں: اُووووو۔
    اسلام آ باد کلب کے پاس 224 ایکڑ سرکاری زمین ہے ، یہ اسے صرف ایک روپے فی ایکڑ سالانہ پر الاٹ ہوئی۔ بعد میں شور مچا تو یہ قیمت بڑھا کر گیارہ روپے فی ایکڑ کر دی گئی۔ افسر شاہی کو سرکاری زمین پر مستیاں کرتے دیکھ کر رعایا پکارتی ہے: اُوووووو۔
    محکہ تعلیم کی افسر شاہی مری کے سیر سپاٹوں کو ’’ سرکاری دوروں‘‘کا نام دے کر نکلتی ہے۔ راستے میں خطہ پوٹھوہار آتا ہے۔ اساتذہ کو حکم دیا جاتا ہے چھٹیوں میں سکولوں کالجوں میں حاضر ہو جائو کیا معلوم مری جاتے یا آتے صاحب کارروائی ڈالنے کہیں رک ہی جائیں ۔ اساتذہ ان تاجداروں کے ٹی اے ڈی اے کا صدقہ بن جاتے ہیں اوربغلیں بجاتے ہیں : اُووووو۔
    جنگلات کی زمین پر ٹائون بن جاتے ہیں ، آزادی صحافت کی آنیاں جانیاں دیکھ کر رعایا سہم سہم جاتی ہے: اُوووووو۔
    کہیں سپریم کورٹ کے ملازمین کے لیے سیکٹر بن رہے ہیں ، کہیں آئی بی والوں کے لیے ، کہیں اس وزارت کے لیے کہیں اُس و زارت کے لیے ، سستے پلاٹ ہتھیاکر عوام کو بیچے جاتے ہیں جن کے لیے کوئی سوسائٹی نہیں۔ مجبور عوام جیبیں خالی کر کے چلاتے ہیں: اُوووووو۔
    انصاف ملتا نہیں ، افسر شاہی کی گردن میں سریا ہے ، عوام کو ہر جگہ ذلیل کیا جاتا ہے۔ لوگ صبح اٹھتے ہیں تو انگڑائی لیتے ہیں :اُوووووو۔ شام سوتے ہیں تو آہ نکلتی ہے: اُووووو۔
    جناب وزیر اعظم ! ساری قوم ’’ اووووئیو اوئی ‘‘ ہوئی پڑی ہے۔اووووووو جناب وزیر اعظم! اوووووووو۔

  • پرویز مشرف، ایسا دبدبہ ایسی بے بسی-  آصف محمود

    پرویز مشرف، ایسا دبدبہ ایسی بے بسی- آصف محمود

    پرویزمشرف کے انتقال کی خبر سنی تو یوں محسوس ہوا حسیات میں عبرت کے منظر آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان پر عروج آیا تو ایسے آیا کہ کوئی زوال کبھی آنا ہی نہیں اور ان پر زوال برسا تو ایسے برسا جیسے عروج کبھی تھا ہی نہیں۔

    کہاں وہ رعب و دبدبہ کہ عدالت ان کی جنبش ابرو کا مفہوم سمجھ کر فیصلے دیتی تھی اور کہاں وہ بےبسی کہ عدالت انہی کے خلاف فیصلہ سناتی ہے۔ کہاں وہ عالم ناز کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نہ صرف ان کی آئین شکنی تو جواز فراہم کرتی ہے بلکہ انہیں تین سال حکومت کا حق دینے کے ساتھ ساتھ آئین میں تبدیلی کا وہ حق بھی دے دیتی ہے جو خود عدالت کے پاس نہیں تھا، اور کہاں وہ پردیسیوں جیسی بےبسی کہ عدالت انہیں آئین شکنی پر سزائے موت سنا دیتی ہے۔

    کہاں وہ قوتِ قاہرہ کہ پاکستان میں ان کی مرضی کے بغیر کسی کی جرات نہ تھی کچھ کر پاتا، پاکستان کے فیصلے کسی قانون اور آئین کی بجائے ان کی مرضی سے ہوتے تھے۔ کہاں وہ دکھ میں لپٹی گھڑی کی ہجرتی کے لیے اس کا اپنا پاکستان ہی اجنبی ہو گیا۔ اسلام آباد میں خوابوں کا جو محل بنایا تھا وہ ویران ہو گیا، اس کی دہلیز دھول سے اٹی پڑی ہے اور مکین کو یہاں رہنا نصیب نہیں ہوا۔ وہ اپنی حسرتیں لیے پرائے دیس میں زندگی کے دن پورے کرتا رہا اور خالق حقیقی سے جا ملا۔

    یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ یہ مقام فکر ہے۔ یہ وہ گھاٹی ہے جہاں پڑاؤ ڈال کر زندگی کی حقیقت کو پایا جا سکتا ہے۔ یہ کیسا بھید ہے کہ کبھی کُل خدائی ہاتھ باندھے حرف آشنا ہو جاتی ہے اور کبھی ایسے منہ موڑ لیتی ہے کہ انسان کے لیے آئینہ بھی اجنبی ہو جاتا ہے۔ یہ اصل میں اس بات کا اعلان ہے کہ سارا کرو فر، سارا طنطنہ، ساری قوت، سب خاک ہو جائے گا۔ باقی وہی رہے گا جس کا اخلاقی وجود ایسا ہو کہ تاریخ کے کٹہرے میں اسے سرخرو کر سکے۔

    ایک قومی ریاست کے حکمران کا اخلاقی وجود آئین سے جنم لیتا ہے۔ آئین شکنی سے اقتدار تو حاصل ہو سکتا ہے لیکن اس اقتدار کو اخلاقی زادِ راہ نہیں مل سکتا۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، لیکن حقیقت ہمارے سامنے ہے اور قدیم زمانوں کے سیانوں کا کہنا تھا کہ جب حقائق بولتے ہیں تو دیوتا بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو آج بھی قومی زندگی میں غیر متعلق نہیں ہوا، جنرل ضیاء الحق مگر قومی زندگی سے مکمل طور پر غیر متعلق ہو چکا۔

    نواز شریف کی سیاست آج بھی باقی ہے لیکن پرویز مشرف اپنی زندگی میں ہی پاکستانی سماج کے لیے اجنبی ہو گئے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے مگر تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ پرویز مشرف کا مقدمہ ایسا نہیں کہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ پورے استدلال کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اپنے آرمی چیف کو بھلا ایسے بھی کسی نے برطرف کیا جیسے نواز شریف نے پرویز مشرف کو کیا؟ آرمی چیف سری لنکا کے دورے سے واپس آ رہا ہو اور اس کے جہاز کو اترنے ہی نہ دیا جائے؟

    سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب عدالت نے پرویز مشرف کو تین سال حکومت کا حق دیا تو وہیں دوسرے پیراگرف میں انہیں آئین میں تبدیلی کا حق بھی دیا۔ جہاں آئین میں تبدیلی کا حق دیا وہاں مدت کا تعین ہی نہیں تھا تو پرویز مشرف نے اسی اختیار کے ساتھ ایمرجنسی لگائی تواس میں سزا کیسی؟

    سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 12 سب کلاز 2 بھی تو ہے جس میں لکھا ہے کہ آئین شکنی کا مقدمہ 23 مارچ 1956 سے شروع ہو گا تو اس کے لیے صرف پرویز مشرف کو کیون چن لیا گیا؟

    سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ مقدمہ نومبر کی ایمرجنسی پر کیوں چلایا گیا، اکتوبر میں اقتدار پر قبضے کے جرم میں کیوں نہیں چلایا گیا جب کہ وہ بڑا جرم تھا؟

    سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ مقدمہ صرف پرویز مشرف پر کیوں بنایا گیا ان کے اقتدار کو جواز بخشنے اور انہیں آئین میں ترامیم کا اختیار دینے والی عدالت نے بھی تو آئین شکنی کی تھی؟

    سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ آرٹیکل 6 میں ترمیم کے بعد اب یہ طے ہو چکا ہے کہ عدالت بھی آئین شکنی کو جواز فراہم کرے گی تو ہائی ٹریزن کی مرتکب ہو گی اور آرٹیکل 6 میں ہونے والی ہر ترمیم جب اطلاق بہ ماضی یعنی 23 مارچ 1956 سے لاگو تصور ہو گی تو ایسا ہی مقدمہ ان ججوں پر کیوں نہیں بنا جنہوں نے آمروں کو تحفظ فراہم کیا؟

    لیکن وقت کی عدالت نیم خواندہ شہری کی طرح قانونی پیچیدگیوں میں نہیں پڑتی کہ شریف الدین پیرزادہ جیسے قانو ن دان اسے بےبس کر دیں۔ وقت کی عدالت سادہ اور عام فہم اصول پر چلتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی آمر کو ملک کا آئین پا مال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ شعور اجتماعی بڑھتا جائے گا تو وقت کی عدالت کا دائرہ کار سہولت کاروں تک بڑھتا جائے گا۔ اسی کا نام ارتقا ہے۔

    بطور حکمران پرویز مشرف صاحب کے فیصلوں کا بھی یہی حال ہے۔ کارگل سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کاحصہ بننے تک، ان کے اقدامات کے دفاع میں سو دلیلیں پیش کی جا سکتی ہوں گی، لیکن سماج کے شعورِ اجتماعی نے ان کے تمام فیصلوں کو رد کر دیا۔ اس کے پیچھے بھی امکان ہے کہ یہی سوچ کارفرما ہو سکتی ہے کہ جو آئین پامال کر کے اقتدار میں آیا ہو، اسے قومی زندگی کے اہم فیصلے کرنے کا آخر حق ہی کس نے دیا تھا؟

    جب ایک پارلیمان ہوتی ہے اور اس پر دباؤ آتا ہے تو وہ اس دباؤ کو عوام کی طرف منتقل کر دیتی ہے۔ کچھ حاصل ہو نہ ہو اتنا ضرور ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی میں کچھ مہلت مل جاتی ہے اور اس دوران بات چیت سے کوئی بہتر متبادل آپشن نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن جب آمریت ہوتی ہے تو سب کو معلوم ہوتا ہے فیصلہ سازی کا گھنٹہ گھر ایک ہی شخص ہے۔ اس لیے دباؤ کے ساتھ فوری عمل درآمد کا مطالبہ بھی ہوتا ہے۔

    آمر چونکہ مقامی سطح پر حلقہ انتخاب سے محروم ہوتا ہے اس لیے وہ غیر ملکی قوتوں کو اپنا حلقہ انتخاب بناتے ہوئے ان کی خوشنودی چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ ہر عدسے گزر جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا ڈرون حملے، پرویز مشرف کی فیصلہ سازی سماج کے شعور اجتماعی کو کبھی بھی قائل نہیں کر سکی تو اس کی وجہ شاید یہی نکتہ ہے۔

    پرویز مشرف صاحب کا عروج و زوال ایک عبرت کدہ ہے۔ ایک عشرے کی بادشاہی کے بعد جس طرح اپنا ہی ملک ان کے لیے اجنبی ہو گیا، ایک پردیسی کی طرح ملک سے دور جس طرح ان کی زندگی کی شام ہو گئی، یہ چیز دل کو بوجھل کر دیتی ہے۔

    شاید یہ قدرت کا پیغام ہو کہ جو آمر اپنے ملک کے آئین کو فراموش کر دیتا ہے، اس ملک کا شعور اجتماعی اس آمر کو فراموش کر دیتا ہے۔

    ہر دور میں یہ آواز آتی ہے: لمن الملک الیوم (آج بادشاہی کس کی ہے)

    ہر عہد جواب دیتا ہے: للہ الواحد القھار (اللہ کی، جو سب پر غالب ہے)۔