ہوم << پرویز مشرف، ایسا دبدبہ ایسی بے بسی- آصف محمود

پرویز مشرف، ایسا دبدبہ ایسی بے بسی- آصف محمود

پرویزمشرف کے انتقال کی خبر سنی تو یوں محسوس ہوا حسیات میں عبرت کے منظر آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان پر عروج آیا تو ایسے آیا کہ کوئی زوال کبھی آنا ہی نہیں اور ان پر زوال برسا تو ایسے برسا جیسے عروج کبھی تھا ہی نہیں۔

کہاں وہ رعب و دبدبہ کہ عدالت ان کی جنبش ابرو کا مفہوم سمجھ کر فیصلے دیتی تھی اور کہاں وہ بےبسی کہ عدالت انہی کے خلاف فیصلہ سناتی ہے۔ کہاں وہ عالم ناز کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نہ صرف ان کی آئین شکنی تو جواز فراہم کرتی ہے بلکہ انہیں تین سال حکومت کا حق دینے کے ساتھ ساتھ آئین میں تبدیلی کا وہ حق بھی دے دیتی ہے جو خود عدالت کے پاس نہیں تھا، اور کہاں وہ پردیسیوں جیسی بےبسی کہ عدالت انہیں آئین شکنی پر سزائے موت سنا دیتی ہے۔

کہاں وہ قوتِ قاہرہ کہ پاکستان میں ان کی مرضی کے بغیر کسی کی جرات نہ تھی کچھ کر پاتا، پاکستان کے فیصلے کسی قانون اور آئین کی بجائے ان کی مرضی سے ہوتے تھے۔ کہاں وہ دکھ میں لپٹی گھڑی کی ہجرتی کے لیے اس کا اپنا پاکستان ہی اجنبی ہو گیا۔ اسلام آباد میں خوابوں کا جو محل بنایا تھا وہ ویران ہو گیا، اس کی دہلیز دھول سے اٹی پڑی ہے اور مکین کو یہاں رہنا نصیب نہیں ہوا۔ وہ اپنی حسرتیں لیے پرائے دیس میں زندگی کے دن پورے کرتا رہا اور خالق حقیقی سے جا ملا۔

یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ یہ مقام فکر ہے۔ یہ وہ گھاٹی ہے جہاں پڑاؤ ڈال کر زندگی کی حقیقت کو پایا جا سکتا ہے۔ یہ کیسا بھید ہے کہ کبھی کُل خدائی ہاتھ باندھے حرف آشنا ہو جاتی ہے اور کبھی ایسے منہ موڑ لیتی ہے کہ انسان کے لیے آئینہ بھی اجنبی ہو جاتا ہے۔ یہ اصل میں اس بات کا اعلان ہے کہ سارا کرو فر، سارا طنطنہ، ساری قوت، سب خاک ہو جائے گا۔ باقی وہی رہے گا جس کا اخلاقی وجود ایسا ہو کہ تاریخ کے کٹہرے میں اسے سرخرو کر سکے۔

ایک قومی ریاست کے حکمران کا اخلاقی وجود آئین سے جنم لیتا ہے۔ آئین شکنی سے اقتدار تو حاصل ہو سکتا ہے لیکن اس اقتدار کو اخلاقی زادِ راہ نہیں مل سکتا۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، لیکن حقیقت ہمارے سامنے ہے اور قدیم زمانوں کے سیانوں کا کہنا تھا کہ جب حقائق بولتے ہیں تو دیوتا بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو آج بھی قومی زندگی میں غیر متعلق نہیں ہوا، جنرل ضیاء الحق مگر قومی زندگی سے مکمل طور پر غیر متعلق ہو چکا۔

نواز شریف کی سیاست آج بھی باقی ہے لیکن پرویز مشرف اپنی زندگی میں ہی پاکستانی سماج کے لیے اجنبی ہو گئے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے مگر تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ پرویز مشرف کا مقدمہ ایسا نہیں کہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ پورے استدلال کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اپنے آرمی چیف کو بھلا ایسے بھی کسی نے برطرف کیا جیسے نواز شریف نے پرویز مشرف کو کیا؟ آرمی چیف سری لنکا کے دورے سے واپس آ رہا ہو اور اس کے جہاز کو اترنے ہی نہ دیا جائے؟

سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب عدالت نے پرویز مشرف کو تین سال حکومت کا حق دیا تو وہیں دوسرے پیراگرف میں انہیں آئین میں تبدیلی کا حق بھی دیا۔ جہاں آئین میں تبدیلی کا حق دیا وہاں مدت کا تعین ہی نہیں تھا تو پرویز مشرف نے اسی اختیار کے ساتھ ایمرجنسی لگائی تواس میں سزا کیسی؟

سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 12 سب کلاز 2 بھی تو ہے جس میں لکھا ہے کہ آئین شکنی کا مقدمہ 23 مارچ 1956 سے شروع ہو گا تو اس کے لیے صرف پرویز مشرف کو کیون چن لیا گیا؟

سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ مقدمہ نومبر کی ایمرجنسی پر کیوں چلایا گیا، اکتوبر میں اقتدار پر قبضے کے جرم میں کیوں نہیں چلایا گیا جب کہ وہ بڑا جرم تھا؟

سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ مقدمہ صرف پرویز مشرف پر کیوں بنایا گیا ان کے اقتدار کو جواز بخشنے اور انہیں آئین میں ترامیم کا اختیار دینے والی عدالت نے بھی تو آئین شکنی کی تھی؟

سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ آرٹیکل 6 میں ترمیم کے بعد اب یہ طے ہو چکا ہے کہ عدالت بھی آئین شکنی کو جواز فراہم کرے گی تو ہائی ٹریزن کی مرتکب ہو گی اور آرٹیکل 6 میں ہونے والی ہر ترمیم جب اطلاق بہ ماضی یعنی 23 مارچ 1956 سے لاگو تصور ہو گی تو ایسا ہی مقدمہ ان ججوں پر کیوں نہیں بنا جنہوں نے آمروں کو تحفظ فراہم کیا؟

لیکن وقت کی عدالت نیم خواندہ شہری کی طرح قانونی پیچیدگیوں میں نہیں پڑتی کہ شریف الدین پیرزادہ جیسے قانو ن دان اسے بےبس کر دیں۔ وقت کی عدالت سادہ اور عام فہم اصول پر چلتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی آمر کو ملک کا آئین پا مال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ شعور اجتماعی بڑھتا جائے گا تو وقت کی عدالت کا دائرہ کار سہولت کاروں تک بڑھتا جائے گا۔ اسی کا نام ارتقا ہے۔

بطور حکمران پرویز مشرف صاحب کے فیصلوں کا بھی یہی حال ہے۔ کارگل سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کاحصہ بننے تک، ان کے اقدامات کے دفاع میں سو دلیلیں پیش کی جا سکتی ہوں گی، لیکن سماج کے شعورِ اجتماعی نے ان کے تمام فیصلوں کو رد کر دیا۔ اس کے پیچھے بھی امکان ہے کہ یہی سوچ کارفرما ہو سکتی ہے کہ جو آئین پامال کر کے اقتدار میں آیا ہو، اسے قومی زندگی کے اہم فیصلے کرنے کا آخر حق ہی کس نے دیا تھا؟

جب ایک پارلیمان ہوتی ہے اور اس پر دباؤ آتا ہے تو وہ اس دباؤ کو عوام کی طرف منتقل کر دیتی ہے۔ کچھ حاصل ہو نہ ہو اتنا ضرور ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی میں کچھ مہلت مل جاتی ہے اور اس دوران بات چیت سے کوئی بہتر متبادل آپشن نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن جب آمریت ہوتی ہے تو سب کو معلوم ہوتا ہے فیصلہ سازی کا گھنٹہ گھر ایک ہی شخص ہے۔ اس لیے دباؤ کے ساتھ فوری عمل درآمد کا مطالبہ بھی ہوتا ہے۔

آمر چونکہ مقامی سطح پر حلقہ انتخاب سے محروم ہوتا ہے اس لیے وہ غیر ملکی قوتوں کو اپنا حلقہ انتخاب بناتے ہوئے ان کی خوشنودی چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ ہر عدسے گزر جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا ڈرون حملے، پرویز مشرف کی فیصلہ سازی سماج کے شعور اجتماعی کو کبھی بھی قائل نہیں کر سکی تو اس کی وجہ شاید یہی نکتہ ہے۔

پرویز مشرف صاحب کا عروج و زوال ایک عبرت کدہ ہے۔ ایک عشرے کی بادشاہی کے بعد جس طرح اپنا ہی ملک ان کے لیے اجنبی ہو گیا، ایک پردیسی کی طرح ملک سے دور جس طرح ان کی زندگی کی شام ہو گئی، یہ چیز دل کو بوجھل کر دیتی ہے۔

شاید یہ قدرت کا پیغام ہو کہ جو آمر اپنے ملک کے آئین کو فراموش کر دیتا ہے، اس ملک کا شعور اجتماعی اس آمر کو فراموش کر دیتا ہے۔

ہر دور میں یہ آواز آتی ہے: لمن الملک الیوم (آج بادشاہی کس کی ہے)

ہر عہد جواب دیتا ہے: للہ الواحد القھار (اللہ کی، جو سب پر غالب ہے)۔

Comments

Click here to post a comment