Author: عدنان الیاس

  • محبت اور قربانی کی علامت “بیٹیاں” – عدنان الیاس

    محبت اور قربانی کی علامت “بیٹیاں” – عدنان الیاس

    یہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود بعض اوقات ہمیں ایک لمحے میں سمیٹ کر رکھ دیتی ہے۔ کہیں بلند و بالا عمارتیں ، چمچماتی سڑکیں ، شور مچاتی گاڑیاں ، ترقی کی دوڑ میں سرپٹ بھاگتی دنیا۔ لیکن ان سب کے بیچ کہیں کہیں ایسی کہانیاں سانس لیتی ہیں جو دلوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں ، جو محبت کے وہ چراغ جلاتی ہیں جن کی لو کبھی مدھم نہیں پڑتی۔

    یہ ایک حقیقی کہانی ہے مقدس خلیل کی ، ایک ایسی بیٹی کی جو محض بیس سال کی عمر میں محبت اور قربانی کی وہ مثال بن گئی جسے وقت کبھی بھلا نہ سکے گا۔ شجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گھر میں پلنے والی مقدس نے شاید کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کی زندگی اتنی جلدی ایک ایسا موڑ لے گی جہاں محبت اور زندگی کی حدیں آپس میں یوں مدغم ہو جائیں گی کہ جیت بھی قربانی مانگے گی۔ مقدس کے والد ، خلیل احمد ، ایک جان لیوا مرض میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ زندگی اگر بچانی ہے تو جگر کی پیوندکاری ناگزیر ہے۔ بیٹوں کے معاشرے میں ، جہاں اکثر بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ، وہاں مقدس نے اپنی محبت کا وزن دکھا دیا۔ وہ آگے بڑھی ، اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنا 60 فیصد جگر والد کو عطیہ کر دیا۔

    زندگی اور موت کی کشمکش میں مقدس نے اپنی کہانی خود لکھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ قربانی محض ایک فیصلہ نہیں ، بلکہ ایک محبت کا امتحان ہے اور اس نے یہ امتحان سرخرو ہو کر پاس کیا۔ وہ خود زندگی کی بازی ہار گئی اور اپنے والد کو نئی زندگی دینے کی پوری کوشش کی۔ بیٹیاں کبھی بوجھ نہیں ہوتیں ، بلکہ وہ روشنی کا وہ مینار ہوتی ہیں جس کی کرنیں خاندانوں کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتی ہیں۔

    مقدس خلیل کی کہانی محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے ، جو ہمارے معاشرے کو دکھاتا ہے کہ وہ بیٹیاں ، جنہیں اکثر کمزور سمجھا جاتا ہے ، محبت کے سب سے مضبوط قلعے کی اینٹیں ہوتی ہیں۔ وہ بیٹیاں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پرائے گھر کی امانت ہیں ، اصل میں اس گھر کی جڑیں ہوتی ہیں جہاں وہ پیدا ہوتی ہیں۔

    یہ واقعہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں ، یہ عالمی خواتین کے دن کی اصل روح ہے۔ یہ دن صرف تقریروں اور سیمینارز کے لیے نہیں ، بلکہ ان بیٹیوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جو ہر دن محبت ، ایثار اور قربانی کے جذبے کی نئی تاریخ رقم کرتی ہیں۔ ہم اکثر عالمی خواتین کے دن پر بلند و بانگ دعوے سنتے ہیں ، عورتوں کے حقوق پر بات کرتے ہیں ، برابری کی تلقین کرتے ہیں لیکن کیا ہم واقعی ان بیٹیوں کی قدر کرتے ہیں جو اپنی محبت سے گھروں کو جنت بناتی ہیں؟

    مقدس خلیل کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عورت صرف ایک وجود نہیں بلکہ وہ جذبہ ہے جو خاندانوں کی بنیاد مضبوط کرتا ہے۔ وہ ماں بنتی ہے تو محبت کی علامت ، بہن بنتی ہے تو شفقت کا مجسمہ اور جب بیٹی بنتی ہے تو ایثار کا ایسا استعارہ جس کی چمک کبھی ماند نہیں پڑتی۔ یہ دن ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ان بیٹیوں کو سراہیں جو اپنی ہنسی خوشی والدین کے سکھ کے لیے قربان کر دیتی ہیں۔ جو اپنے خوابوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنے والدین کی خدمت میں اپنی جوانی گزار دیتی ہیں۔ جو اپنے جذبات کی قربانی دے کر خاندان کو جوڑنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ مقدس نے جو کیا ، وہ اس کی محبت اور وفا کی معراج تھی مگر ایک لمحے کو رک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا یہ معاشرہ ان بیٹیوں کو ان کا جائز مقام دے رہا ہے؟ کیا بیٹیوں کی عزت صرف اسی وقت ہوتی ہے جب وہ قربانی دیتی ہیں؟ کیا ہمیں بیٹیوں کی قدر صرف ان کے ایثار کے بعد محسوس ہوتے ہیں ؟

    یہ سوالات عالمی خواتین کے دن پر ہمارے ضمیر پر دستک دیتے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ بیٹیاں صرف قربانی کے لیے نہیں، بلکہ جینے ، آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ہمیں ان کی محبت اور خدمات کو زندگی میں ہی سراہنا چاہیے ، نہ کہ صرف اس وقت جب وہ مقدس خلیل کی طرح قربانی کی علامت بن جائیں۔

    مقدس خلیل کی کہانی محبت ، ایثار اور بیٹیوں کی عظمت کا ایسا چراغ ہے جو کبھی بجھنے والا نہیں۔ اس کی یاد ہمیں ہر بار یہ سبق دے گی کہ بیٹیاں محض اولاد نہیں ، بلکہ وہ روشنی ہیں جو گھروں ، خاندانوں اور دلوں کو منور کرتی ہیں۔ “بیٹیاں جگر کا ٹکڑا نہیں ہوتیں ، بلکہ وہ دل کی دھڑکن ہوتی ہیں، اور جب وہ دھڑکن رکتی ہے ، تو پورا خاندان خاموش ہو جاتا ہے۔”

  • رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان – عدنان الیاس

    رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان – عدنان الیاس

    رمضان المبارک رحمت ، مغفرت اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عبادات، صبر، ایثار اور تقویٰ کا درس دیتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مہینے کے دوران مسلمان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، زکوٰۃ و خیرات کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے، اور ہر طرف نیکیوں کی بہار آ جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ہر سال رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب دیگر مسلم ممالک میں رمضان کے موقع پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، وہیں پاکستان میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی، دالیں، گوشت، سبزیاں، اور دیگر روزمرہ کی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں، اور یوں یہ مقدس مہینہ عام آدمی کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بن جاتا ہے۔

    پاکستان میں رمضان کے دوران مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مصنوعی قلت، ناجائز منافع خوری، حکومتی عدم توجہی، اور عوام کی بے بسی شامل ہیں۔ رمضان سے قبل ہی منافع خور اور تاجر اشیائے ضروریہ کو ذخیرہ کر لیتے ہیں، جس کے باعث بازار میں قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب طلب بڑھتی ہے تو قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی اور دیگر بنیادی اشیاء کی قلت پیدا کر کے ان کی قیمتوں کو غیر معمولی طور پر بڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں رمضان المبارک کو ایک طرح سے “کمائی کا سیزن” سمجھا جاتا ہے۔ بڑے تاجر اور دکاندار اس مقدس مہینے میں نیکی اور ہمدردی کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ عام اشیاء کی قیمتیں دگنی یا تین گنا تک بڑھا دیتے ہیں، جب کہ ان کی پیداواری لاگت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔ ہر سال رمضان سے قبل حکومت سستے بازار، رمضان پیکجز، اور سبسڈی جیسے اعلانات کرتی ہے، لیکن ان اقدامات کا عملی اثر زیادہ نظر نہیں آتا۔ سرکاری نرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں، اور جو ہوتی ہیں، ان کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور کرپشن کے باعث مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

    عوام خود بھی مہنگائی کے مسئلے کو بڑھانے میں کسی حد تک شریک ہیں۔ جب رمضان آتا ہے تو لوگ ضرورت سے زیادہ اشیاء خریدنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر لوگ اعتدال سے خریداری کریں، تو مہنگائی کے مسئلے کو کسی حد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ رمضان کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عام آدمی کے لیے روزہ رکھنا اور افطاری کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور اور غریب طبقہ، جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہوتا ہے، رمضان کے دوران دو وقت کی روٹی کے لیے مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ مہنگی اشیاء کی وجہ سے بہت سے لوگ معیاری کھانے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سفید پوش طبقہ، جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محدود آمدنی پر گزارا کرتا ہے، رمضان میں مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر اپنی بنیادی ضروریات میں مزید کمی کردیتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے مستحق افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے زکوٰۃ، فطرانہ اور خیرات دینے والے افراد پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ رفاہی ادارے اور مخیر حضرات زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں، تو ان کی مدد بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے ۔

    مسئلے کا اب حل یہ ہے کہ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت، تاجروں اور عوام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ ہر شہر میں ایک فعال پرائس کنٹرول کمیٹی ہونی چاہیے جو قیمتوں کی نگرانی کرے اور عوامی شکایات کا فوری ازالہ کرے۔ رمضان کے دوران ہر علاقے میں معیاری سستے بازار قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو مناسب داموں اشیاء مل سکیں۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف فراہم کریں اور نفع کمائیں لیکن ناجائز منافع خوری سے بچیں۔ اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سپلائی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر لوگ اپنی ضروریات کے مطابق خریداری کریں اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں، تو طلب اور رسد میں توازن برقرار رہے گا اور قیمتیں کم ہوں گی۔ اگر دکاندار غیر ضروری طور پر قیمتیں بڑھا رہے ہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کریں اور سرکاری نرخوں پر خریداری کریں۔ رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ غریب افراد کی مشکلات کم ہو سکیں۔

    رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں صبر، ایثار اور دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے، لیکن پاکستان میں مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے باعث یہ مہینہ کئی لوگوں کے لیے مشکلات لے کر آتا ہے۔ اگر حکومت، تاجر، اور عوام مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو رمضان کی حقیقی برکات سب تک پہنچ سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاجر ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے باز آئیں، اور عوام شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خریداری میں اعتدال پیدا کریں۔ اسی صورت میں رمضان المبارک حقیقت میں رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بن سکے گا، اور عام آدمی بھی اس کی برکات سے فیض یاب ہو سکے گا۔

  • معاشی استحکام یا بے روزگاری کا طوفان؟ عدنان الیاس

    معاشی استحکام یا بے روزگاری کا طوفان؟ عدنان الیاس

    پاکستان آج شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ، صنعتیں سکڑ رہی ہیں ، اور لاکھوں نوجوان روزگار کی تلاش میں دربدر ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا ، لیکن آج بے روزگاری اور کاروباری عدم استحکام نے عام شہری کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس صورت حال کی وجوہات کیا ہیں؟ اور کیا اس کا کوئی حل ممکن ہے؟

    پاکستان میں بے روزگاری کے پیچھے کئی بنیادی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ معیشت کا زوال ہے۔ جب معیشت بحران کا شکار ہوتی ہے ، تو سب سے پہلے اس کا اثر روزگار پر پڑتا ہے۔ کاروبار سکڑنے لگتے ہیں ، صنعتیں بند ہو جاتی ہیں اور نوکریاں کم ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی نے عام آدمی کی قوتِ خرید کو کمزور کر دیا ہے ، جس کی وجہ سے کمپنیاں اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے ملازمین کو نکال رہی ہیں۔

    پاکستان کا تعلیمی نظام آج بھی روایتی اور کتابی علم پر مبنی ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل نوجوان جدید ٹیکنالوجی اور مہارتوں سے ناواقف ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں مارکیٹ میں اچھے مواقع نہیں مل پاتے۔ دوسری طرف، ترقی یافتہ ممالک میں ہنر پر مبنی تعلیم دی جاتی ہے ، جس سے ان کے نوجوان عالمی سطح پر کامیاب ہو کر نوکریاں حاصل کرتے ہیں۔

    پاکستان میں کاروبار کرنا آسان ہے ؟؟؟
    یقیناً اس کا جواب نفی میں ہوگا ۔ ٹیکسوں کی بھرمار ، مہنگی بجلی ، گیس اور غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کاروباری طبقے کے لیے شدید مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی کاروباری شخصیات اور کمپنیاں پاکستان سے اپنا سرمایہ نکال کر بیرون ملک منتقل کر رہی ہیں ، جس سے مقامی روزگار کے مواقع مزید کم ہو رہے ہیں۔ کاروبار کے لیے ایک مستحکم اور متوقع ماحول کی ضرورت ہوتی ہے ، اور پاکستان میں یہ حالات مفقود ہیں۔

    سرکاری نوکریوں کو ہمیشہ سب سے محفوظ سمجھا گیا ہے ، لیکن بدقسمتی سے سرکاری اداروں میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ ملازمین موجود ہیں ، جس کے باعث نئی بھرتیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو نوکریاں دستیاب ہوتی ہیں، ان میں اکثر سفارش اور رشوت کا نظام چلتا ہے ، جس کی وجہ سے قابل مگر غریب نوجوان پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ، سیاست کی غیر یقینی صورتحال نے کاروباری طبقے کو مزید مایوس کر دیا ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ منصوبوں کی منسوخی اور نئی پالیسیاں باعث بن رہی ہیں کہ سرمایہ کار عدم اعتماد کا شکار ہیں ، اور سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے ض، جس سے روزگار کے مواقع بھی کم ہو رہے ہیں۔

    اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان بے روزگاری اور کاروباری عدم استحکام سے نکل سکتا ہے؟ یقیناً، اگر کچھ اہم اقدامات پر توجہ دی جائے تو بہتری ممکن ہے۔
    پاکستان میں تعلیم کو صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن دنیا بھر میں ہنر پر مبنی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر حکومت اور نجی ادارے ہنر مند افراد تیار کریں ، تو لاکھوں نوجوان فری لانسنگ ، آئی ٹی، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ آج کل دنیا میں فری لانسنگ انڈسٹری اربوں ڈالر کی معیشت بن چکی ہے۔ پاکستانی نوجوان اگر آن لائن کام سیکھیں تو وہ عالمی کمپنیوں کے لیے گھر بیٹھے کام کر سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل اسکلز پروگرامز متعارف کرائے اور نوجوانوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے کمائی کے مواقع فراہم کرے۔

    سیاسی استحکام اور سرمایہ کاری
    اگر ملک میں سیاسی استحکام آ جائے تو بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ہونے سے نئی صنعتیں قائم ہوں گی ، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر معاشی پالیسیوں پر اتفاق کریں تاکہ کاروباری ماحول بہتر ہو سکے اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو۔ سیاسی استحکام کے ساتھ ہی حکومت کو سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

    پاکستان ایک زرعی ملک ہے ، مگر جدید ٹیکنالوجی کی کمی اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے زراعت بھی زوال کا شکار ہے۔ اگر کسانوں کو جدید سہولتیں ، آسان قرضے اور بہتر منڈیاں فراہم کی جائیں تو زراعت میں روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتی شعبے کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ زراعت کی جدید کاری سے نہ صرف ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا بلکہ کسانوں کی زندگی میں بھی بہتری آئے گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

    بے روزگاری اور کاروباری عدم استحکام پاکستان کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہیں، مگر یہ ناقابلِ حل نہیں۔ اگر حکومت ، کاروباری طبقہ اور عوام مل کر ان مسائل کا حل نکالیں تو پاکستان ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ روایتی نوکریوں کے انتظار کے بجائے نئے مواقع تلاش کریں ، ہنر سیکھیں اور خود روزگاری کی طرف بڑھیں۔ اگر ہم سنجیدگی سے ان مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک خوشحال اور معاشی طور پر مستحکم ملک بن جائے گا۔

    اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ صرف حکومتی سطح پر اصلاحات کافی نہیں ہوں گی ، بلکہ عوام کو بھی اپنے طرزِ زندگی اور سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اگر ہم سب مل کر ملک کی معیشت کی مضبوطی کے لیے کام کریں، تو پاکستان دوبارہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے اور ہمیں وہ دن ضرور دیکھنے کو ملیں گے جب روزگار کے نئے مواقع فراہم ہوں گے اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔۔

  • منشیات کے باعث برباد ہوتا معاشرہ اور بے حس حکمران – عدنان الیاس

    منشیات کے باعث برباد ہوتا معاشرہ اور بے حس حکمران – عدنان الیاس

    پاکستان میں منشیات کا کھلے عام استعمال ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ زہرِ قاتل ہماری نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے اور ملک کے مستقبل کو اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔ بدقسمتی سے، منشیات فروشوں کا اصل ہدف اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ہیں، جو قوم کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ ترقی اور کامیابی کے خواب دیکھنے والے یہ نوجوان نشے کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، جہاں سے واپسی اکثر ممکن نہیں ہوتی۔

    یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ منشیات فروشی ایک منظم مافیا کے کنٹرول میں ہے، جو دن بدن مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے نیٹ ورک میں بااثر شخصیات، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور بعض حکومتی اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں، جو اس کاروبار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کے خلاف بنائے گئے قوانین بے اثر ثابت ہو رہے ہیں، کیونکہ جن پر اس لعنت کو روکنے کی ذمہ داری ہے، وہی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

    منشیات نہ صرف جسمانی اور ذہنی صحت کو برباد کرتی ہیں بلکہ سماجی اور خاندانی نظام کو بھی تباہ کر دیتی ہیں۔ اس زہر کی وجہ سے کئی نوجوان تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں، مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنی جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ آج کل بازار میں کئی اقسام کی منشیات آسانی سے دستیاب ہیں، جن میں چرس، ہیروئن، کوکین، آئس، کرسٹل میتھ اور نشہ آور گولیاں شامل ہیں۔ یہ صرف جسمانی بیماریوں کا باعث نہیں بنتیں بلکہ ذہنی امراض جیسے ڈپریشن، بے چینی اور شیزوفرینیا کو بھی جنم دیتی ہیں۔۔۔

    ماضی میں نشے کے عادی افراد مخصوص علاقوں تک محدود ہوتے تھے، لیکن اب یہ لعنت تعلیمی اداروں میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ منشیات فروشوں کا طریقہ کار بڑا خطرناک ہے؛ وہ ابتدا میں طلبہ کو مفت نشہ فراہم کرتے ہیں اور جب وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں تو انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، جو بعض اوقات زندگی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ منشیات کے استعمال سے یادداشت کمزور ہو جاتی ہے اور ذہنی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ دل ، جگر اور گردوں کی سنگین بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ نشے کے عادی افراد اپنی گھریلو زندگی برباد کر لیتے ہیں اور والدین و دوستوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ نشے کے عادی نوجوان تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور اکثر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔

    منشیات کا نشہ پورا کرنے کے لیے لوگ چوری، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرے میں بدامنی بڑھتی ہے۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ حکومتی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے محکمے اس مسئلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی نوجوان اس لعنت کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ پولیس اور منشیات مافیا کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے؟ جواب واضح ہے کہ جہاں کہیں بھی منشیات کا کاروبار ہوتا ہے، وہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں یا خود اس گھناؤنے دھندے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    اگر ہم واقعی منشیات کی لعنت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں درج کیے گئے اقدامات فوری طور پر اٹھانے ہوں گے ۔۔۔
    منشیات فروشوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں اور ان کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے۔ جو لوگ اس دھندے میں ملوث ہوں، انہیں کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے۔
    اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کی روک تھام کے لیے سخت نگرانی کی جائے۔ طلبہ کو نشے کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی سیمینارز اور آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
    پولیس اور دیگر اداروں کو جوابدہ بنایا جائے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ اگر کوئی افسر منشیات فروشوں کے ساتھ ملا ہوا پایا جائے تو اسے فوری معطل کر کے سخت سزا دی جائے۔
    میڈیا، مساجد، تعلیمی اداروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں آگاہی پیدا کی جائے کہ منشیات کس طرح ہمارے معاشرے کو تباہ کر رہی ہیں۔
    والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان سے کھل کر بات کریں۔

    نشے کے عادی افراد کو مجرم سمجھ کر سزا دینے کے بجائے انہیں بحالی مراکز میں داخل کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ بحالی مراکز کی تعداد میں اضافہ کرے اور انہیں جدید سہولیات سے آراستہ کرے۔ اگر حکومت اور معاشرہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کرے گا، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک اس لعنت کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس لعنت کے خلاف آواز بلند کریں، اپنے ضمیر کو جھنجھوڑیں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔

    اگر ہم نے آج اس مسئلے پر قابو نہ پایا تو کل ہمارے تعلیمی ادارے علم کے مراکز کے بجائے نشے کے اڈے بن جائیں گے، اور ہماری نسل ایک ایسی تاریکی میں کھو جائے گی جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ لہٰذا حکومت، والدین، اساتذہ اور ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے اور اس ناسور کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرے، تاکہ ہمارا معاشرہ ایک صحت مند، خوشحال اور روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔