ہوم << تین معصومانہ باتیں - حافظ محمد قاسم مغیرہ

تین معصومانہ باتیں - حافظ محمد قاسم مغیرہ

وطن عزیز کے عوام کو تین معصومانہ باتوں سے بہلایا جاتا ہے۔

1- " یہ مت سوچو کہ ملک نے تمہیں کیا دیا بل کہ یہ سوچو کہ تم نے ملک کو کیا دیا۔"
2- " معاشرے قیادت کو جنم دیتے ہیں۔"
3- " تم ٹھیک ہو جاؤ سب ٹھیک ہو جائیں گے۔"

آئیے ان اقوال زریں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1- " یہ مت سوچو کہ ملک نے تمہیں کیا دیا بل کہ یہ سوچو کہ تم نے ملک کو کیا دیا۔"
ایک ایسے ملک میں جہاں چوالیس فی صد سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، کم و بیش اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، کاروباری طبقہ ٹیکس چور ہے اور ٹیکسوں کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ہے, بلوچستان میں 71 فی صد ، خیبرپختونخوا میں 70 فی صد ، سندھ میں 44 فی صد اور پنجاب میں 50 فی صد گھروں میں گیس کے بجائے لکڑی استعمال ہوتی ہے، اس قسم کے سوالات اٹھانا فکری بانجھ پن کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اس سوال میں دو بڑے نقائص موجود ہیں۔ ایک نقص یہ کہ اس میں سوال کا گلہ گھونٹنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ اس کج فکر کی رو سے کوئی شخص یہ سوال نہیں کرسکتا کہ ریاست کے ساتھ ہونے والے عمرانی معاہدے کے نتیجے میں اسے کیا حاصل ہورہا ہے، ایک شخص اگر ریاست کے قوانین کی پاس داری کر رہا ہے،بروقت ٹیکس ادا کررہا ہے، یوٹیلیٹی بلز بروقت ادا کررہا ہے ، حب الوطنی کے نعرے لگارہا ہے تو بدلے میں ریاست اسے کیا دے رہی ہے؟

ریاست اسے حکم دیتی ہے کہ تعلیم اور علاج کے لیے نجی اداروں سے رجوع کرے، انصاف کی فراہمی ، جو ریاست کی ذمہ داری ہے، کے لیے تگڑے سے وکیل کا بندوست کرے، اشرافیہ کا پیٹ بھرنے کے لیے آئے پی پیز کو رقم ادا کرے۔ مذکورہ فکر میں ایک ایسے شخص ، جس کے لیے ریاست کے پاس تعلیم، علاج ، انصاف ، عزت نفس اور روزگار نہیں ہے، سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ ریاست کی ذمہ داریوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دے۔ ایک ایسے شخص، جس کے ہاتھ پاؤں ریاست نے باندھ دئیے ہیں ، سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ملک کو کچھ دے، سادہ لوحی اور کج فہمی ہے۔

ایسا شخص ملک کو کیا دے سکتا ہے؟ کیا وہ ملک کے لیے ڈیم بنائے، ایٹمی ری ایکٹر لگالے یا سائنسی تحقیق کا ادارہ کھول کر بیٹھ جائے؟ ریاست کا ستایا ہوا شخص صرف دائروں میں سفر کرسکتا ہے، ملک کو کچھ نہیں دے سکتا۔ لوگوں کو اس قسم کے سوالات میں الجھانا غریب اور مفلس لوگوں سے ایک بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔

2- " معاشرے قیادت کو جنم دیتے ہیں۔"
اس سوچ میں بھی بڑی مہارت سے ریاست اور سیاسی جماعتوں کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ اگر بالفرض معاشرہ قیادت کو جنم دے بھی دے تو اس معاشرے سے جنم لینا والا قائد اپنی قیادت کے جوہر کہاں دکھائے گا؟ سیاسی جماعتوں نے نئی سوچ، نئی فکر اور نئے خیالات کو نہ اپنانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں طرز کہن پر ڈھٹائی سے اڑے ہوئے اور آئین نو سے ڈرے ہوئے لوگوں کا ایک اکٹھ ہے۔ یہ جمہوریت سے خوف زدہ لوگوں کا ایک اجتماع ہے۔ ان کے ہاں ایک بھی روزن ایسا نہیں کہ جس سے نئی فکر ان کے حجرے میں داخل ہوسکے۔

سیاسی جماعتوں نے متبادل قیادت کے داخلے کی تمام راہیں مسدود کر رکھی ہیں۔ سیاسی جماعتیں خاندانی کاروبار کی طرح چلائی جارہی ہیں۔ سیاست دان جمہوریت سے اتنا خوف زدہ ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے بدکتا، داخلی جمہوریت سے بھاگتا، بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتا اور سٹوڈنٹ یونین کی بحالی سے خوف زدہ ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت میرٹ اور سیاسی سمجھ بوجھ کو مد نظر نہیں رکھتیں بل کہ سرمایہ داروں کو نوازتی ہیں۔ ایسے غیر جمہوری اور فسطائی ماحول میں جب میرٹ کا قتل ہو رہا ہو، معاشرے کو مورد الزام ٹھیرانا قرین انصاف نہیں ہے۔

ریاستی وسائل پر اشرافیہ قابض ہے اور قومی خزانے پر جس طرح چاہے ہاتھ صاف کرے، اس کی روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ افسر شاہی ، عدلیہ ، سیاست اور عساکر پاکستان کو خزانے کی کنجیاں سونپ کر تہی دست معاشرے کو قیادت کی عدم فراہمی کا دوش دینا ناانصافی اور کج فہمی ہے۔

3- " تم ٹھیک ہو جاؤ ، سب ٹھیک ہو جائیں گے۔"
عوام الناس کو اس لالی پاپ سے بھی بہلایا جاتا ہے کہ تم ٹھیک ہو جاؤ ، سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ گزارش یہ ہے کہ وطن عزیز میں لوگوں کی ایک غالب اکثریت اچھے اخلاق و کردار کی حامل اور قانون کی پابند ہے۔ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کے باوجود جرم کا راستہ اختیار نہیں کرتے ، عرصہ حیات تنگ ہوجانے پر بھی قانون ہاتھ میں نہیں لیتے، غربت اور تنگ دستی کے باوجود یوٹیلیٹی بلز جمع کرانے سے انکار نہیں کرتے۔ یوٹیلیٹی بلز جمع کرانے کے لیے قرض اور ادھار بھی لیتے ہیں، گھر کی اشیاء بھی فروخت کردیتے ہیں،پنکھے ،موٹر سائیکل اور زیورات بھی بیچتے ہیں لیکن بل کی ادائیگی کردیتے ہیں۔

عام آدمی ٹریفک پولیس کے اشارے پر رک جاتا اور خاموشی سے چالان کرالیتا ہے۔ میں صبح سویرے بازاروں میں دیانت دار معاشرے کے مناظر دیکھ کر دعا کرتا ہوں کہ کاش اشرافیہ بھی اتنی ایمان دار ہوجائے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ صبح سویرے دکانیں کھلنے سے پہلے سامان دکانوں کے باہر رکھ دیا جاتا ہے۔ بازاروں سے لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے لیکن سامان چوری نہیں ہوتا۔ کیا قومی خزانے کی حفاظت کے سلسلے میں اشرافیہ سے اتنی دیانت داری کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟

چکوال میں ایک شخص نے ایک دل چسپ سماجی تجربہ کیا۔ اس نے ایک ریڑھی پر آم سجائے ، ایک بینر پر قیمت کے ساتھ لکھ دیا کہ خود تولیے اور رقم یہاں رکھتے جائیے۔ ریڑھی پر کوئی بھی موجود نہیں تھا۔حیرت انگیز طور پر شام کے وقت جب رقم گنی گئی تو تخمینے کے عین مطابق۔ سو فی صد ادائیگی ہوئی یعنی وہاں سے گزرنے والے کسی شخص نے خیانت نہیں کی۔ کیا اشرافیہ سے اتنی دیانت داری کی توقع کی جاسکتی ہے؟

میں نے ایک پھل فروش کی ریڑھی پر ایک مرفوع القلم بوڑھی عورت کو دیکھا کہ پھل کی خریداری کے بعد رقم ادا کیے بغیر بڑے اعتماد سے چل دی۔ میں نے پھل فروش سے پوچھا
" آپ نے اس عورت سے پھل کے پیسے کیوں نہیں لیے؟" ، ریڑھی بان نے بڑا خوب صورت جواب دیا
" یہ بے چاری غریب عورت ہے۔ پیسے نہیں دے سکتی۔ میں اس کے ساتھ یہی معاملہ کرتا ہوں۔"
یہ ایک ریڑھی والے کا ایثار ہے۔ اب اشرافیہ کا ایثار دیکھیے کہ اپنی عیاشیوں میں ذرہ برابر بھی کمی کرنے کو تیار نہیں اور اپنی تنخواہوں میں بے رحمی سے اضافہ کررہی ہے۔

اشرافیہ کی قانون پسندی کا عالم یہ ہے کہ ٹریفک وارڈن کو روند کے گزر جاتی ہے، ٹیکس ادا نہیں کرتی، اسے ٹال ٹیکس سے استثنیٰ ہے، بجلی اور گیس کے مفت یونٹس ملتے ہیں ، بیرون ملک علاج کی سہولت موجود ہے، ہر قسم کا خدم و حشم موجود ہے، دفاتر میں ان کی آمد سے پہلے موسم کی مناسبت سے ایئر کنڈیشنر/ ہیٹر چلادئیے جاتے ہیں اس کے برعکس عام آدمی کو غربت ، ٹیکسز کی بھرمار ، جبر، استحصال اور قرض کی چکی میں پیسنے کے بعد ، اسے نجی ہسپتالوں سے علاج کا مشورہ دینے ، اس کی عزت نفس پامال کرنے اور اس کا جینا دوبھر کردینے کے بعد اسے یہ بھاشن دینا کہ تم ٹھیک ہو جاؤ ، سب ٹھیک ہو جائیں گے غریب آدمی کی تضحیک کے مترادف ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ از خود ٹھیک ہو جائیں اور ملک کی حالت بدل جائے۔

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment