ہوم << وطن عزیز کی گورننس کے امتیازی پہلو - حافظ محمد قاسم مغیرہ

وطن عزیز کی گورننس کے امتیازی پہلو - حافظ محمد قاسم مغیرہ

وطن عزیز کی گورننس کو اقوام عالم میں چند "امتیازات" حاصل ہیں۔

1- اس گورننس کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ کوئی "معاشی بحران" اشرافیہ کے معیار زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ 1947 میں جب قوم " قیام پاکستان کے ابتدائی مسائل" سے نمٹ رہی تھی، اشرافیہ کے بچے ایچی سن میں پڑھ رہے تھے۔ بعد کے برسوں میں بھی جنگوں ، سیلابوں، زلزلوں، قدرتی آفات ، معاشی بحرانوں ، وبائی امراض اور خالی خزانوں کا اشرافیہ کے طرز زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ان کی صورت حال افریقی ضرب المثل کے مصداق ہے کہ
" جنگل کی معیشت کیسی بھی ہو، شیر کبھی گھاس نہیں کھائے گا۔" تنخواہوں ، مراعات، بجلی کے فری یونٹس کی فراہمی سے لے کر ٹیکس استثنیٰ تک - عوام اور خاص میں ایک خلیج حائل ہے۔ اس وقت جب کہ سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکوں پر ہیں، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے قومی خزانے کا انتہائی شرم ناک حد تک آزادانہ استعمال ہورہا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ عدلیہ ، افسر شاہی اور عساکر پاکستان بھی قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔

2- ٹیکس چوری کے معاملے میں بھی ہمیں اقوام عالم میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہاں تنخواہ دار طبقہ ٹیکس ادا کرتا ہے جب کہ کاروباری طبقے کی ایک غالب اکثریت ٹیکس چور ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے 545 ارب روپے ٹیکس جمع کرایا جب کہ کاروباری طبقے نے صرف 62 ارب روپے۔ بدعنوان کاروباری طبقے اور بدعنوان سیاست دانوں کی شراکت مفادات کی ایک بھاری قیمت تنخواہ دار طبقے کو ادا کرنا پڑتی ہے۔

3- سوشل میڈیا گورننس ہماری گورننس کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ فیس بک گورننس اور وٹس ایپ گورننس۔ فیس بک گورننس عوام الناس کے لیے ہے اور وٹس ایپ گورننس افسران بالا کو مطلع کے لیے۔ تمام اضلاع کی انتظامیہ اور پولیس فیس بک پیجز پر بہت متحرک نظر آتی ہے۔ انتظامیہ بازاروں کے دورے کرکے چھوٹے دکان داروں، ریڑھی بانوں اور چھابڑی فروشوں کو جرمانے کررہی ہے، غریبوں کی ریڑھیاں الٹارہی ہے۔ بڑے مگرمچھوں سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا خاموش معاہدہ چل رہا ہے۔ سوشل میڈیا گورننس کے تحت ڈی پی او صاحب کھلی کچہری لگا کے بیٹھے ہیں۔ چہرے پر عاجزی نما تکبر ہے، درخواستیں فوراً نمٹائی جارہی ہیں۔ ویڈیوز فیس بک پر وائرل ہورہی ہیں۔ لاکھوں ویوز، شیئرز اور لائکس کے بعد اسی کھلی کچہری سے باہر پولیس عوام سے کیا سلوک کرتی ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ وٹس ایپ گورننس کے تحت ہر کارروائی کی تصویر افسران بالا کو بھیجنا از حد ضروری ہے۔ پولیس کا کسی چوک چوراہے پر کھڑے ہوکر تصاویر بذریعہ وٹس ایپ بھیجنا کرائم کنٹرول ، شفاف تفتیش اور پولیس اصلاحات سے زیادہ ضروری ہے۔ شجر کاری کاری ضروری نہیں ہے لیکن پہلے سے لگائے گئے کسی پودے کو ہاتھ میں پکڑ کر فوٹو شوٹ کرنا اور افسروں کو تصویریں بھیجنا زیادہ ضروری ہے۔ سرکاری دستاویزات میں ہرچیز ٹھیک نظر آنی چاہیے۔

4- برسر اقتدار طبقہ پائیدار ترقی کے بجائے شعبدہ بازی، خود نمائی اور شہرت پسندی کو ترجیح دیتا ہے۔ نتیجتاً کبھی مفت شناختی کارڈ ، احساس پروگرام ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، سستی روٹی ، راشن کی تقسیم وغیرہ قسم کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں۔ یہ منصوبے پانی کے بلبلے ثابت ہوتے ہیں اور قومی خزانے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

5- وطن عزیز کی گورننس کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکثر کاموں کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔ اس کی ایک بڑی مثال سموگ کے بارے میں حکومتی رویہ ہے۔ سموگ کا باعث بننے والے عوامل کے خاتمے کے لیے سال بھر تدابیر کرنے کے بجائے سموگ کا انتظار کیا جاتا ہے اور فورا" ہنگامی صورت حال نافذ کردی جاتی ہے۔
اسی طرح افسر شاہی اپنی ذمہ داری پوری کیے بغیر سرکاری سکولوں کے اساتذہ کا احتساب چاہتی ہے۔ ہر صبح پاکستان ایڈمنسٹریٹر سروسز کا کوئی آفیسر کسی سرکاری سکول میں جا پہنچتا ہے اور معیار تعلیم کا جائزہ لیتا ہے۔

6- ترجیحات کا درست تعین نہ ہونے کے باعث اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ مثلاً سرکاری سکولوں میں ہر صبح کا آغاز ڈینگی ایکٹیویٹی سے ہوتا ہے۔ ڈینگی ایکٹیویٹی سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لیے زندگی موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سرکاری سکولوں میں "کارکردگی ایپ" متعارف کرائی گئی تھی۔ اس ایپ نے وقت کے ضیاع کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔

7- گزشتہ حکومت کے منصوبوں کو ختم کرنا یا التواء میں ڈالے رکھنا بھی گورننس کا ایک اہم پہلو ہے۔ اول تو حکومت خیر کا کام کم کم ہی کرتی ہے۔ اگر اس کے ہاتھوں کو بھلائی کا کام ہو جائے تو بعد میں آنے والے حکومت گزشتہ حکومت کو کریڈٹ ملنے کے ڈر سے اس منصوبے کو ختم کرنے یا اس کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ وزیر آباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر کام پرویز الہی کے دور میں شروع ہوا۔ پرویز الہی کی حکومت کی رخصتی کے بعد برسوں اس منصوبے پر کام نہ ہوسکا۔ پرویز الہی کی وزارت اعلیٰ کے بعد شہباز شریف نے ریسکیو 1122 کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ پھر اخبارات میں اس ادارے سے تعاون کے لیے اشتہار بھی دئیے۔ اسی طرح موجودہ حکومت نے صحت کارڈ ختم کر دیا۔

8- پہلے سے موجود اداروں کو درست کرنے کے بجائے ان کے اوپر نئے ادارے بنادینے سے وسائل کا بے پناہ ضیاع ہوا ہے۔ سرکاری سکولوں کو ٹھیک کرنے کے بجائے دانش سکول بنادئیے گئے۔ اب نواز شریف سنٹرز آف ایکسیلنس بھی بنائے جارہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو جواب دہ بنانے کے بجائے پنجاب انفورسمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی بنادی گئی ہے۔ اس ادارے کا مقصد تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنا اور قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے جب اس مقصد کے لیے ہر تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنرز اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اور ہر ضلعے میں ڈپٹی کمشنرز موجود ہیں۔ ریسکیو 1122 کی موجودگی میں کیلنک آن وہیلز منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ بیسک ہیلتھ یونٹس کے ہوتے ہوئے مریم نواز کلینکس شروع کیے گئے ہیں۔

9- وطن عزیز کی گورننس میں ہر چیز دستاویزات میں درست نظر آنا ضروری ہے۔ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے طویل المدتی منصوبہ بندی کا شدید فقدان ہے۔ سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم کی بہتری کے بجائے محض انرولمنٹ ضروری ہے۔ اس اندھا دھند انرولمنٹ کے نتیجے میں معیار تعلیم گرجاتا ہے۔

10- ہماری گورننس کا اک حسن یہ بھی ہے کہ پہلے بے حسی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ادارے تباہ کرو، پھر ان کی نجکاری کردو۔ اسی حکمت عملی کے تحت آج کل سرکاری سکول نشانے پر ہیں۔

11- وطن عزیز میں ترقی کے بجائے ترقیاتی سکیموں زور دیا جاتا ہے۔ ترقی کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ ترقیاتی سکیموں کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو نوازا جاتا ہے۔

12۔ گورننس کے پاکستانی ماڈل کے تحت من پسند افراد کو نوازنے کے لیے پورا ملک داؤ پر لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انڈی پنڈٹ پاور پلانٹس ہیں۔

13- کسی ادارے کا معیار بہتر کرنے کے بجائے اس کا جال بچھانا ایک بہت بڑی کام یابی سمجھی جاتی ہے۔ آج کل بلا ضرورت، یونیورسٹیوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کے معیار پر توجہ دی جائے اور انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

مختصر یہ کہ غلط ترجیحات ، منصوبہ بندی کے فقدان، افراتفری ، ہنگامی بنیادوں پر مسائل حل کرنے ، شہرت پسندی اور بے جا تشہیر کے سبب ہر دور میں حکومتی دعوؤں کے برعکس معیشت عدم استحکام کا شکار رہتی ہے. علاج معالجہ عام آدمی کی بساط سے باہر ہے، تعلیمی ڈھانچہ اس قسم کا ہے کہ یہ طبقاتی تقسیم پیدا کر رہا ہے. عام آدمی عزت نفس نامی کسی شے سے واقف نہیں ہے. کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں. چند بڑے شہروں کے پوش علاقوں کے علاوہ ملک بھر میں معیار زندگی انتہائی پست ہے، عدل ایک ناپید جنس ہے.

استحصال کا چلن عام ہے اور ہم تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اقوام عالم سے بہت پیچھے ہیں۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف پر عمل کیا جائے بہ صورت دیگر یہ سفر دائروں کا سفر ہی رہے گا اور ترقی کا سفینہ ساحل مراد تک نہیں پہنچ سکے گا۔

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment