کچھ عرصہ پہلے ۔۔ایک پوسٹ نظر سے گزری۔ "سَمِعَ اللهُ لمَن حَمِدَه"، شاید اس کا ترجمہ بھی لکھا تھا۔
تب سے یہ جملہ نجانے کیوں میرے ذہن پر چسپاں ہوکر رہ گیا۔اور وقتاً فوقتاً بار بار ذہن میں فلیش کرنے لگا۔۔ایک روز نماز پڑھتے ہوئے ذہن رکوع کے بعد ادا کیے جانے والے اس جملے کی طرف چلا گیا۔نماز میں رکوع کی ہیئت ،رکوع میں ادا کیے اور کم ازکم تین بار دہرائے جانے والے الفاظ۔۔۔ سبحان ربی العظیم۔۔سبحان ربی العظیم۔۔سبحان ربی العظیم۔۔ اور رکوع سے اٹھ کر خود بندے ہی کے ذریعے،بندے کے لیے، پروردگار کے بآواز بلند سنائے جانے والے جواب اور راحت افزا اعلان ۔۔ سَمِعَ اللهُ لمَن حَمِدَه اور فوراً ہی بندے کے منہ سے نکلوائی جانے والی اپنی حمد وثناء کے استحقاقی کلمات۔۔ ربنا ولک الحمد۔۔ اور اس پر اکتفا نہیں۔۔بندے کو تعلیم کہ لگے رہو مسلسل اور خوبصورت الفاظ اور انداز اور جذبے سے پروردگار،محسن و منعم کی حمد وثناء میں۔ حمداً کثیراً طیبا مبارکاً۔
ذرا چند لمحوں کے اس انداز بندگی،اظہار بندگی اور عمل و رد عمل پر غور کیجیے۔
یہ" نماز "جو ہم عاجز و بے اختیار بندوں پر ہمارے پروردگار،مالک و مختار ،ہماری زندگی،موت،سانس،قدرت ،صلاحیت بلکہ ہر سوچ،ارادے اور عمل پر کلی اختیار و تسلط رکھنے والے رب کی جانب سے فرض ہے۔۔کسی god,پرماتما یا دیوتا کی جانب سے نہیں،خدائے واحد و لم یزل کی جانب سے، جس کی قدرت و اختیار پر بھی کوئی شبہ ہے،نہ ذات و صفات و اختیار اور تصرّف پر کوئی شک،اور نہ جس کی ہستی مخفی ہے ،نہ بے اختیار و بے ثمر۔۔کائنات کے پتے پتے،بوٹے بوٹے ،شجر حجر،برّ و بحر۔۔۔ہر جگہ اس کی،بلکہ صرف اُسی کی شان و شوکت،جاہ و جلال اور عظمت و سطوت کے حاوی و لافانی نقوش پختگی اور قطعیت و وحدانیت کے ساتھ نہ صرف بکھرے ہوئے، بلکہ ثبت اور مؤثر و غالب ہیں،یہ نماز اسی کی جانب سے بندے کے اپنے مفاد میں عطاکردہ تحفۂ خاص ہے۔۔
اپنی ہی تخلیق کردہ،اپنی ہی زیر تسلط مخلوق کی جانب سے اپنی بلاشرکت غیرے،اخلاص اور حسن عمل سے معمور بندگی کے اظہار کا سب سے بڑا مظہر نماز ہے۔ اپنے ہی خلق کردہ بندوں سے بار بار ہاتھ اٹھوا کر،بندھوا کر،جسم جھکوا کر،پھر اٹھوا کر، اور سارا جسم۔۔اپنے،حسن و جمال،غرور و انا سمیت زمین پر ٹِکوا کر اپنی ہستی کی تعریف سننا،باربار سننا،دن میں صبح ،شام، دوپہر،دن ڈھلے ،رات کے پہلے پہر اور رات گئے۔۔سراً و جھراً۔سننا،آنسؤؤں کے ساتھ،سسکیوں کے ساتھ،اٹھے ہاتھوں کی دعاؤں کے ساتھ،منت سماجت،الحاح و زاری کے ساتھ۔خشوع و خضوع کے ساتھ۔محبوب پر درود کے نذرانوں اور تسبیح و تہلیل کے دانوں کے ساتھ۔۔اپنی اور صرف اپنی تعریف سننا اس کی اول و آخر تمنا ہے۔۔اس لیے کہ وہی اکیلا اس کے لائق اور تمام حمد و ثناء کا اول و آخر سزاوار ہے ۔ الحمد للہ۔۔۔ ہر قسم کی،ہر انداز کی،ہر مقدار کی۔ ہر جہت کی حمد و ثناء سب اسی کے لیے ہے ۔
جب بندہ پورے شعور سے ،اخلاص اور وفاداری سے حمد وثناء کے نذرانے پیش کرتا ہے،خواہ تین ہی لفظ۔۔۔سبحان ربی العظیم ۔خواہ صرف تین ہی بار۔۔۔ ادائیگی کے اگلے ہی لمحے میں،سر اٹھاتے ہی قبولیت کا پروانہ پاتا ہے ۔ ہاں میرے بندے ۔میں نے سن لیے تیرے تین لفظ
۔۔ سمع اللہ لمن حمدہ ۔
اس کائنات میں جو تعریف کا حقدار ہے،اور جس کی تعریف کی گئی،اور جس نے کی۔۔سب امر ہوگئے۔۔بندے تو خود ہی اپنے منہ سے قبولیت حمد و ثنائے رب کریم و رحیم کا اعلان کر اور وہ بھی بآواز بلند ۔۔اور یہ بھی جان لے کہ تیرے پروردگار نے تیری تعریف سننے اور قبول کرنے اور تیرے اظہار بندگی کو اپنی بارگاہ میں محفوظ کرلینے میں لمحے بھر کی دیر نہیں لگائی ۔
مخلص بندہ جو پورے شعور اور دل و دماغ کی حضوری سے نماز پڑھ رہا ہو۔ بے ساختہ پھر پکار اٹھتا ہے۔۔ربنا ولک الحمد۔۔پروردگار ۔۔سب تعریفیں اور حمد و ثناء تیرے لیئے ہی ہیں۔شعوری بھی اور لاشعوری بھی۔۔۔ایک بار پھر۔اور بار بار۔۔تعریف اللہ کی، اگلے ہی لمحے۔اللہ اکبر۔۔
سجدہ۔۔رب اعلیٰ کی پاکیزگی۔۔کا اعلان تجلیٔ سجدہ کے ذریعے۔۔عجز و انکساری اور قربتِ پروردگار کے بے مثال اور انمول مظاہرے کے دوران۔۔۔۔ اس سارے عمل کا دلکش و دلنشیں اور دلآویز لمحہ وہی ہے،بندے کے لیئے شہ رگ سے قریب اور ہر حال میں ولی و نصیر پروردگار کی جانب سے حمد وثناء اور اظہار بندگی کی قبولیت کا فوری اطمینان بخش اعلان۔۔
سمع اللہ من حمدہ
سن لیا ہے اس نے بندے کی تعریف و توصیف کا ہر لفظ،
دیکھ لیا ہے بندگی کا اظہار و اخلاص ۔
اور محفوظ کرلیا ہے اپنے پاس روز جزا کئی گنا بڑھاکر لوٹانے کے لیے ۔
ہاں ہاں !
اسی نے جو اس حمد و ثناء کا بلا شریک مستحق اور بدلہ دینے پر بھی واحد اور کامل قادر ہے۔۔۔
بندے پھر ایسے پروردگار کی حمد و ثنا کیوں نہ کریں۔۔۔
سبحان اللہ و بحمدہ ،سبحان اللہ العظیم۔۔۔
اگر رب یہی چاہتا ہے تو بندے کیوں بُخل کریں اس کی حمد و ثناء میں اور کیوں کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ کریں۔۔ادھر تعریف اور حمد و ثناء اور اگلے لمحے قبولیت و جزاء۔۔سودا معمولی تو نہیں۔ کبھی اس شعور اور احساس کے ساتھ یہ کلمات حمد و ثنائے رب جلیل ادا کریں،کوئی ایک نماز ایسی بھی پڑھیں کہ لگے کہ بندہ کہہ رہا ہے اور آقا سن رہا اور قبولیت کی تھپکی دے رہا، بلکہ خود آپ کی زبان سے اعلان قبولیت کروا رہا اور سننے والوں کو سنا رہا ہے۔۔بندہ و آقا ہم زبان،ہم گوش و ہم آواز ہو رہے ہیں۔۔اور یہ منزل اس نمازی کے اپنی دسترس میں ہے کہ اس کا محمود۔۔یعنی سزاوارِ حمد۔۔۔بندے کے آنکھ کان بن جائے۔۔ شعوری بندگی کا یہ پہلا قدم۔۔بڑا روح پرور بھی ہوگا اور ایمان افروز بھی۔اور آخرت کا بہت بھاری زادراہ بھی۔۔
تبصرہ لکھیے