''اگناسٹک کا مطالعہ قرآن" جیسی تحریروں پر آج کل خوب رولے پڑے ہوئے ہیں۔ (تھوڑی ہلچل تو بنتی ہے!) مگر ان تحریروں کا براہِ راست جواب دینے کے بجائے، میری کوشش یہ ہے کہ میرے قارئین خود اس قابل ہو جائیں کہ ان نام نہاد "عقلی آرگیومینٹس" میں چھپی ہوئی بنیادی غلطیوں کو پہچان سکیں۔
"اگناسٹک کا مطالعہ قرآن" جیسے بیانیے دراصل ایک خاص اندازِ فکر (Style of Thinking) کا نتیجہ ہیں، جسے "منطق (Logical Thinking)" کہا جاتا ہے۔ آج کی تحریر میں ہم اسی انداز کی حقیقت کا پردہ چاک کریں گے۔
پچھلی تحریروں میں ہم نے یہ سمجھا کہ عقل کا استعمال محض ایک فطری ضرورت نہیں، بلکہ "انسان، حیات، اور کائنات کی پیدائش کا مقصد، اس سے قبل کیا تھا، اور اس کے بعد کیا ہوگا" جیسے بڑے سوالات کے جواب تک پہنچنے کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سوچ کا نقطۂ آغاز "حقیقت (Reality)" ہونا چاہیے—یعنی وہ حقیقت جو ہمارے حواس یا حسی امداد کے آلات کے ذریعے مشاہدے میں آئے۔
یونانی فلسفے نے حقیقت کو حواس کی بنیاد پر پرکھنے کے بجائے، قیاسی استدلال (Speculative Reasoning) پر انحصار کیا، جس کے نتیجے میں "انسان، حیات، اور کائنات کی پیدائش کا مقصد" جیسے سوالات پر گمراہ کن نظریات نے جنم لیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر فلسفہ سچائی تک پہنچنے میں ناکام رہا تو کیا منطق کا استعمال وہ درست طریقہ ہے جو ہمیں سچائی تک لے جائے؟
آج ہم منطق کے استعمال سے پیدا ہونے والی سوچ کے انداز کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا یہ واقعی درست طریقہ استدلال ہے یا اس میں بھی خامیاں موجود ہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر لوگ منطق کو ہی عقلی (Rational) استدلال سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں عقل (Rational Thinking) منطق (Logic) سے کہیں مختلف ہے—جس پر ہم آنے والی تحریروں میں تفصیل سے بات کریں گے۔
اس تحریر میں ہم جانیں گے کہ:
1. منطق کی بنیاد پر سوچنا کیا ہے اور منطقی سوچ کیسے کام کرتی ہے؟
2. منطقی طریقہ استدلال کہاں اور کیسے ناکام ہوتا ہے؟
3. منطقی طریقہ سے سوچنا روزمرہ زندگی میں کیوں قابلِ اعتماد نہیں؟
1. منطق کیا ہے؟
منطقی سوچ (Logical Thinking) ایک ایسا استدلالی اسلوب/انداز (style) ہے جس میں مقدمات (Premises) کی بنیاد پر ایک نتیجہ (Conclusion) اخذ کیا جاتا ہے۔ منطقی سوچ مندرجہ ذیل طریقہ سے کام کرتی ہے:
پہلا مرحلہ: مفروضہ (Premise) قائم کرنا۔
دوسرا مرحلہ: اس مفروضے کو کسی دوسرے مفروضے سے جوڑنا۔
تیسرا مرحلہ: ان مقدمات کے ربط سے ایک منطقی نتیجہ نکالنا، چاہے حقیقت کچھ اور ہو۔
مفروضوں کے قیام اور ربط سے نتیجہ تک پہنچنے کا یہ عمل عام طور پر دو طریقوں سے ہوتا ہے:
(i) قیاسی منطق (Deductive Logic)
یہ عمومی اصولوں سے مخصوص نتائج نکالنے کا طریقہ ہے، لیکن اگر عمومی اصول مکمل یا حقیقت پر مبنی نہ ہوں، تو نتیجہ بھی غلط ہو سکتا ہے۔
مثال:
"اچھے طالب علم ہمیشہ زیادہ نمبر لیتے ہیں۔" (Premise 1)
"زید کے نمبر کم آئے ہیں۔" (Premise 2)
"لہٰذا، زید اچھا طالب علم نہیں ہے۔" (نتیجہ)
یہ استدلال منطقی لحاظ سے درست معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ غلط ہو سکتا ہے کیونکہ:
*امتحان میں حاصل کیے گئے نمبر صرف محنت یا ذہانت کا نتیجہ نہیں ہوتے، بلکہ ان پر گھریلو مسائل، صحت اور امتحانی طریقۂ کار جیسے دیگر عوامل بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
*کئی عظیم مفکرین اور کامیاب افراد تعلیمی نظام میں اچھے نمبر حاصل کرنے میں ناکام رہے، مگر ان کی سوچ اور صلاحیتیں غیرمعمولی تھیں۔
یہاں منطق اس لیے ناکام ہوئی کیونکہ اس کا پہلا مقدمہ (Premise) حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔
(ii) استقرائی منطق (Inductive Logic)
استقرائی منطق مخصوص مشاہدات کی بنیاد پر عمومی نتیجہ اخذ کرنے کا طریقہ ہے، لیکن اگر مشاہدات محدود ہوں یا سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے، تو نتیجہ غلط ہو سکتا ہے۔
مثال:
"سیاستدان A بدعنوان ہے۔" (Premise 1)
"سیاستدان B بدعنوان ہے۔" (Premise 2)
"سیاستدان C بدعنوان ہے۔" (Premise 3)
"لہٰذا، تمام سیاستدان بدعنوان ہوتے ہیں۔" (نتیجہ)
یہ استدلال مشاہدے کی بنیاد پر منطقی معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں غلط ہو سکتا ہے کیونکہ:
*یہ نتیجہ محدود شواہد پر مبنی ہے—چند سیاستدانوں کے بدعنوان ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تمام سیاستدان بدعنوان ہوں۔
*یہ عمومی نتیجہ (Generalization) حقیقت کے خلاف جا سکتا ہے، کیونکہ کچھ سیاستدان ایماندار بھی ہو سکتے ہیں۔
*یہ مشاہدے کی حد بندی (Sampling Bias) کا شکار ہے—کچھ مخصوص کیسز کی بنیاد پر پوری کلاس کے بارے میں نتیجہ نکالنا غلط ہو سکتا ہے۔
یہاں منطق کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ مشاہدات محدود تھے اور مکمل حقیقت کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے۔
2. منطقی سوچ کی خامیاں اور مسائل
(i) مفروضوں پر انحصار (Dependence on Assumptions)
منطق ہمیشہ مقدمات (Premises) پر انحصار کرتی ہے، اور ان مقدمات کے باہر کی حقیقت اور ڈائنامکس کو نظر انداز کرتے ہوئے غلط نتیجہ تک پہنچاتی ہے۔
مثال:
- "اگر کوئی محنت کرے تو وہ کامیاب ہوگا۔" (Premise 1)
- "علی ناکام ہو گیا۔" (Premise 2)
- "لہٰذا، علی نے محنت نہیں کی۔" (نتیجہ)
یہ استدلال بظاہر درست لگتا ہے، لیکن حقیقت میں غلط ہے کیونکہ:
*کامیابی صرف محنت پر منحصر نہیں ہوتی، بلکہ وسائل، مواقع اور دیگر عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
*کئی لوگ محنت کے باوجود ناکام ہوتے ہیں، اور کئی بغیر محنت کے کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یہاں منطقی استدلال مختلف زاوئیوں سے حقیقت کی پرکھ (judgment of reality) کے بجائے صرف مفروضے پر چل رہا ہے، جو اسے ناقص بنا دیتا ہے۔
(ii) حقیقت سے علیحدگی (Disconnection from Reality)
منطق بعض اوقات سچائی کے برعکس نتائج دیتی ہے، کیونکہ یہ صرف الفاظ اور اصولوں پر چلتی ہے، حقیقت (reality) کو حواس اور حواس کی مدد کرنے والے ٹولز کے ذریعے پرکھا نہیں گیا ہوتا۔
مثال:
"اگر کوئی چیز حرکت کر رہی ہو، تو ہمیں اس کی حرکت محسوس ہوتی ہے۔" (Premise 1)
"ہم زمین کی حرکت محسوس نہیں کرتے۔" (Premise 2)
"لہٰذا، زمین حرکت نہیں کر رہی۔" (نتیجہ)
(iii) پیچیدہ مسائل کو سادہ اصولوں میں قید کرنا
منطقی سوچ معاشرتی اور انسانی مسائل جیسے پیچیده معاملات کو سادہ اصولوں میں قید کر دیتی ہے، جو اکثر غلط نتائج پیدا کرتے ہیں۔
مثال:
"ایک اچھا حکمران وہ ہوتا ہے جو عوام میں مقبول ہو۔" (Premise 1)
"عمران خان عوام میں مقبول ہے۔" (Premise 2)
"لہٰذا، وہ اچھا حکمران ہے۔" (نتیجہ)
یہ دلیل بظاہر مضبوط اور پرکشش نظر آتی ہے، لیکن درحقیقت غلط ہے کیونکہ مقبولیت اور حکمرانی کی اہلیت دو مختلف چیزیں ہیں۔
*تاریخ میں کئی مقبول رہنما تباہ کن فیصلے کر چکے ہیں۔ہٹلر، مسولینی اور دیگر کئی رہنما ابتدا میں عوام میں مقبول تھے، لیکن ان کے فیصلے بعد میں قوموں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ اور عمران خان کے سیاسی فیصلے آپ سب کے سامنے ہیں۔
3. منطقی طریقہ سے سوچنا روزمرہ زندگی میں کیوں قابلِ اعتماد نہیں؟
منطق بعض اوقات معاشرتی اور انسانی مسائل کو غیر ضروری طور پر سادہ اصولوں میں قید کر دیتی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ معاملات کئی پیچیدہ اور متحرک عوامل (Dynamic Factors) پر مشتمل ہوتے ہیں۔
مثال :
"اگر تعلیم عام ہو جائے، تو معاشرہ مہذب اور پرامن ہو جاتا ہے۔" (Premise 1)
"پاکستان میں خواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے۔" (Premise 2)
"لہٰذا، پاکستانی معاشرہ اب مہذب اور پرامن ہونا چاہیے۔" (نتیجہ)
*یہاں آپ نوٹ کریں گے کہ
پرامن اور مہذب معاشرے کی طرف قدم بڑھانے جیسے پیچیدہ مسائل کے متعلق منطقی انداز میں سوچنا درست نہیں کیونکہ تعلیم واحد عنصر نہیں جو معاشرے کو مہذب اور پر امن بناتے ہیں۔ دیگر سماجی، سیاسی، اور اقتصادی عوامل جیسے انصاف کا نظام، قانون کی عملداری، اور معاشی استحکام بھی مہذب اور پر امن معاشرے کے قیام میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
*اور صرف شرح خواندگی ہی نہیں، تعلیم کی نوعیت اور معیار بھی اہم ہے، اگر تعلیمی نظام کمزور ہو یا صرف ڈگریاں تقسیم کی جا رہی ہوں تو اس کا مطلوبہ اثر نہیں ہوگا۔
*مزید یہ کہ تاریخ میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں تعلیم یافتہ اقوام بھی جنگوں، استحصال، اور عدم استحکام کا شکار رہیں۔ مثلاً، جرمنی اور جاپان بیسویں صدی میں دنیا کے سب سے زیادہ خواندہ ممالک میں شمار ہوتے تھے، لیکن پھر بھی وہ عالمی جنگوں میں ملوث ہو گئے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ منطقی سوچ اتنی سادہ نہیں ہوتی اور عام معاملات میں کوئی اتنا سادہ نہیں سوچتا۔ چلئیے تحریر کے آغاذ میں کئے گئے کلیم کی طرف واپس آتے ہیں! اور فیس بک کے ایک سیلف پروکلیمڈ مفکر کی عقلی پرواز آپ کے سامنے رکھتے ہیں:
''قرآن میں دعا مانگنے کا طریقہ سکھانے کے لئے قل کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔" (Premise 1)
"سورہ فاتحہ جس سے قرآن کا آغاز ہوا، وہ ایک دعا ہے لیکن یہ قل سے شروع نہیں ہوتی." (Premise 2)
"لہٰذا، اللہ کی کتاب کا آغاذ درست نہیں لگتا۔" (نتیجہ)
واہ بھئی! کیا ہی بلند پرواز ہے! اب تو آپ کو ان کی چول سمجھ میں آ ہی گئی ہو گی کہ پہلا مقدمہ وہی "تمام سیاستدان بدعنوان ہوتے ہیں" جیسے لنگڑے پن کا شکار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم میں کئی دعاؤں کے آغاز میں 'قل' کا لفظ استعمال ہوا ہے، مگر یہ کہنا کہ ہر دعا 'قل' سے شروع ہوتی ہے، ویسی ہی بے تکی بات ہے جیسے یہ کہنا کہ ہر فلسفی گنجا ہوتا ہے کیونکہ سقراط گنجا تھا۔ مثال کے طور پر، سورہ کافرون جو کہ دعا نہیں، 'قل' سے شروع ہوتی ہے، اور دوسری طرف سورہ بقرہ کی آیت 286 میں موجود مشہور دعا کا آغاز 'قل' سے نہیں ہوا۔لہٰذا یہ دعویٰ کہ دعا کا آغاز لازمی طور پر 'قل' سے ہونا چاہیے، سراسر منطقی سوچ کی ایک اور لنگڑی مثال ہے۔
اب ان کی باقی مشقیں "اگناسٹک کا مطالعہ قرآن" بھی اسی قسم کی منطقی موشگافیوں کا نتیجہ ہیں۔ آپ خود جا کر ان میں سے غلط مقدمات پر مبنی غلط نتائج الگ کر سکتے ہیں۔
مزید ایک مثال کسی سوڈو انٹلیکچول کی وال سے اٹھائی ہے:
اللہ نے انسان کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (Premise )
قبر میں بھی فرشتے موجود ہوتے ہیں۔ (Premise 2)
لہٰذا، فرشتے قبر میں مردے کے جسم کی حفاظت بھی کرتے ہوں گے۔ (نتیجہ)
یہاں صاف ظاہر ہے کہ پہلا مفروضہ (Premise 1) نامکمل ہے، یہ درست ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو انسان کی حفاظت کے لیے مقرر کیا ہے، لیکن یہ حفاظت دنیاوی زندگی میں ہوتی ہے، نہ کہ موت کے قرآن میں یہ ذکر ہے کہ فرشتے انسانوں کی حفاظت کرتے ہیں "حتیٰ یبلغ اجلہ" (جب تک اس کی مقررہ مدت پوری نہ ہو جائے)۔ یعنی موت کے بعد یہ ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ دوسرا مفروضہ (Premise 2) اور نتیجے کے درمیان غیر ضروری تعلق کہ قبر میں فرشتوں کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا کام جسم کی حفاظت کرنا ہے۔ قرآن و حدیث میں واضح ہے کہ قبر میں فرشتے "سوال و جواب" کے لیے آتے ہیں، نہ کہ جسمانی حفاظت کے لیے۔
بحرحال آپ بیشتر سو کالڈ انٹلیکچولز اور سوڈو انٹلیکچولز کی گفتگو دیکھ لیں، چولوں پر مبنی اسی لئے لگتی ہیں کہ ان میں لاجیکل تھنکنگ کا استعمال ہے۔ اس پوری تحریر میں میں نے یہی واضع کرنے کی کوشش کی ہے کہ کمیوٹر سائنس یا الیکٹرانکس کی فیلڈ کے علاوہ زندگی کے دیگر معاملات میں منطقی انداز میں سوچنا کس قدر بھیانک نتائج دے سکتا ہے۔
المختصر، منطقی سوچ کی ناکامی کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1- حقیقت سے علیحدگی اور مفروضوں پر انحصار: منطق بعض اوقات محض اصولوں پر مبنی ہوتی ہے، جبکہ حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے۔
2- پیچیدہ مسائل کو سادہ بنانا: انسانی اور معاشرتی مسائل کو سادہ اصولوں میں قید کرنا اکثر غلط نتائج دیتا ہے۔
3- مقدمات کا بے ربط تعلق: دو یا دو سے زیادہ ایسے مقدمات کا آپس میں ربط قائم کرنے کی کوشش کرنا جن کا حقیقت میں آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
4- عقل کی حدود کے باہر مقدمات بنانا: مقدمات کو ان حقائق سے اخذ کرنا کہ جن حقائق کا ادراک ہماری عقل, محدود حواس کی وجہ سے نہیں کر سکتی۔
تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فلسفے کی طرح منطق بھی محدود اور اکثر معاملات میں غلط نتیجہ تک پہنچاتی ہے تو درست انداز میں سوچنے کا طریقہ (method) کونسا ہے؟ ان شاء اللہ، اگلی تحریروں میں ہم علم الکلام اور سائنسی طریقہ کار کے طریقہ استدلال پر تفصیلی گفتگو کریں گے، تاکہ ہم سوچنے کے درست طریقے تک پہنچ سکیں۔
تبصرہ لکھیے