جمعیت علما ئے اسلام ( س) کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی اکوڑہ خٹک میں واقع جامعہ دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں عین نماز ِجمعہ کی ادائی کے وقت مبینہ خودکش بم دھماکے میں شہید ہوگئے ہیں۔صوبہ خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید نے صحافیوں سے گفتگو میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ یہ ایک خود کش بم حملہ تھا اور حملہ آور بمبار نے نمازیوں کے بیچ خود کو دھماکے سے اڑایا ہے۔ اس واقعے میں تین پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔تاہم دمِ تحریر اس خود کش حملے کی کسی دہشت گرد گروہ نے ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔اللہ تعالیٰ مولانا حامد الحق حقانی اور دوسرے شہداء کے درجات بلند کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان کا قاتل کون ہوسکتا ہے اور مسجد کے اندر اس بہیمانہ دہشت گردی میں کس گروہ کا ہاتھ کارفرما ہوسکتا ہے؟مولانا حقانی اپنے خیالات اور نظریات میں بڑے پختہ کار تھے۔وہ ہمیشہ دفاع پاکستان کے لیے فعال رہے۔انھوں نے چند روز قبل ہی دوٹوک انداز میں خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کے عمل کو اسلامی تعلیمات کے منافی قراردیا تھا۔ ظاہر ہے ان کا اشارہ افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف تھا، جس نے پاکستان سمیت اسلامی ممالک کے مشورے اور مطالبے کے باوجود خواتین پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔بعض سکیورٹی ذرائع کے مطابق ان پر خود کش بم حملے میں ایک یہ محرک بھی کارفرما ہوسکتا ہے. لیکن کیا علمی یا عملی نقطہ نظر کا یہ اختلاف اتنا ہی شدید ہے کہ بے گناہوں کی بم دھماکوں میں جان لے لی جائے۔ تاریخِ اسلام میں اس طرح کی دہشت گردی کی مثالیں ہمیں ہر دور میں ملتی ہیں۔ ماضی میں حسن بن صباح کی باطنی تحریک اور دور حاضر میں داعش اور کالعدم ٹی ٹی پی ایسی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے فدائین( حشیشین) ایک ہی جیسے کردار ہیں۔ وہ ماضی کی طرح آج بھی معمولی اختلافات پر اپنے مخالفین اور بالخصوص سرکردہ علماء اور حکومتی عہدے داروں کی جان لے لیتے ہیں۔ بس نام اور چہرے تبدیل ہوگئے ہیں۔ آج کے خوارج اور دہشت گرد وطن ِعزیز پاکستا ن میں گذشتہ کئی برسوں سے بروئے کار ہیں اور بے گناہ شہریوں کو بم دھماکوں اور فائرنگ میں قتل کررہے ہیں۔
مولانا حامد الحق حقانی کی ایک عالم کے علاوہ سیاسی حیثیت بھی تھی ۔ وہ سابق جنرل صدر پرویز مشرف کے دور میں 2002ء میں منعقدہ عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل ( ایم ایم اے) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اسی دور میں ہم نےروزنامہ اوصاف کے سنڈے میگزین میں ان کا انٹرویو بھی شائع کیا تھا۔ان سے پہلی ملاقات میں یہ تاثر قائم ہوا ،وہ بہت بے ضرر اور شریف النفس انسان تھے۔ ان میں بڑے علماء کے روایتی صاحب زادگان والی کوئی تیز طراری نام کو نہیں تھی۔ وہ بہت سادہ مزاج، درویش منش اور علم دوست تھے۔ان کے دیرینہ قریبی ساتھیوں نے بھی ان کے ان اوصاف کی تصدیق کی ہے۔ وہ اپنے والد مولانا سمیع الحق کی 2018ء میں ایک پراسرار قاتلانہ حملے میں شہادت کے بعد جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم مقرر ہوئے تھے۔ وہ درس وتدریس کے ساتھ ادارے کا انتظام وانصرام بھی بہ حسن خوبی سنبھال رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائیں اور سیئات سے درگزر فرمائیں۔
عالمی سطح پر شہرت کا حامل جامعہ دارالعلوم حقانیہ ان کے دادا مرحوم مولانا عبدالحق صاحب نے اکتوبر 1947ء میں قیام پاکستان کے فوری بعد قائم کیا تھا۔ اس ادارے میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے طلبہ درس نظامی کے درجہ اوّل سے لے کر دورہ حدیث تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دینی تعلیم کے فروغ میں اس ادارے کی نمایاں خدمات ہیں۔اس جامعہ کی شہرت 1980ء کے عشرے میں افغان جنگ کے عروج کے دنوں میں چار دانگ عالم ہوئی تھی، اور مغربی میڈیا نے اس کو افغان مجاہدین کی نرسری قراردیا تھا۔افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کے بیشتر قائدین اسی مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں اور اس نسبت سے وہ حقانی کہلاتے ہیں۔مولانا حامد الحق حقانی شہید نے ان طالبان قائدین کی مادرِعلمی کے نائب سربراہ ہونے کے ناتے اسلام آباد اور کابل کے درمیان حالیہ مہینوں کے دوران میں پیدا ہونے والی شکررنجیوں کو دور کرنے کے لیے اپنا سفارتی کردار بھی ادا کیا تھا، انھوں نے کابل کا دورہ کیا تھا اور طالبان کی قیادت سے بات چیت کی تھی۔ ان کی یہ کوشش تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان ناچاقی اور غلط فہمیاں دور ہوں ،ان میں خوش گوار تعلقات قائم ہوں اور وہ متحد ہوکر اپنے مشترکہ دشمن دہشت گردوں کے خلاف نبردآزما ہوں اور قیام امن کے بعد اپنی توانائیوں کو دونوں ملکوں کی تعمیر وترقی اور عوام کی فلاح وبہبود پر صرف کریں، مگر’ اے بسا آرزو کہ خاک شد‘ کے مصداق دہشت گردوں نے ان کی جان لے لی۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان ایک عرصے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ دہشت گرد آئے دن مختلف شہروں اور علاقوں میں آزادانہ معروف شخصیات ، سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں گذشتہ کچھ دنوں سے اہدافی حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ، اور مولانا حامد الحق کی شہادت کو بھی ٹارگٹ کلنگ (اہدافی قتل) کا شاخسانہ قراردیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صوبے اور وفاق کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان دہشت گردوں کا سراغ لگانے اور ان کے مکمل استیصال میں اب تک کیوں ناکام ہیں؟کے پی سمیت پورے ملک کے عوام کے جان ومال کا تحفظ حکومت کی اوّلین ذمے داری ہے۔ ان حربیوں، دہشت گردوں یا الخوارج کے مکمل قلع قمع کے لیے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو مربوط کارروائیوں کی ضرورت ہے. دہشت گردوں کے خلاف اقدامات میں جدید ٹیکنالوجی سمیت تمام وسائل بروئے کار لانے چاہییں۔ان محاربیوں سے کسی قسم کی کوئی رورعایت نہیں برتی جانی چاہیے۔
پس تحریر؛ہمارے یہاں سوشل میڈیا پر بالخصوص ایک عام روش ہے کہ لوگ لمحۂ موجود میں رونما ہونے والے واقعات کو نہیں دیکھتے اور وہ فوراً ماضی کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں۔ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے افغان جنگ میں کردار سے متعلق حسبِ روایت بے پر کی اور سنی سنائی اڑائی جارہی ہیں جبکہ لمحہ ٔموجود کے سانحہ یہ کی شدت کو نہیں دیکھا جارہا ہے۔ کیا یہ قربانی کم ہے کہ اس ادارے کا نائب مہتمم اور جے یو آئی کے اپنے دھڑے کا سربراہ اپنے کم سن بیٹے سمیت دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ جان سے زیادہ عزیز کیا چیز ہوسکتی ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ دہشت گردوں کے خلاف یک سو ہوں ،رائے عامہ کو دہشت گردوں کے خلاف ہموار کریں،معاشرے میں امن وامان کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں ، مگر تخلیقی انقباض کا شکار یہ لوگ ماضی پرستی میں کھو جاتے ہیں اور کسی ناراض بڑھیا کی طرح وہی روایتی کوسنے دینے لگتے ہیں ۔یہ رویہ افسوس ناک ہی نہیں، قابل مذمت بھی ہے۔دکھ درد کے ایسے مواقع پر شقاوت قلبی کے مظاہرے سے کیا حاصل ہوسکتا ہے۔
تبصرہ لکھیے