اٹھائیس جولائی تا آٹھ اگست تک جاری رہنے والی بائیسویں کامن ویلتھ گیمز ، ، برطانیہ کے شہر برمنگھم میں منعقد ہوئیں۔ 1930 سے جاری یہ ایونٹ ،ہر چار برس کے بعد باقاعدگی سے منعقد ہوتا ہے۔ صرف 1942 اور 1946 میں ، دوسری جنگِ عظیم کے باعث کامن ویلتھ گیمز کا انعقاد نہ ہو سکا۔
دولتِ مشترکہ یا کامن ویلتھ سے مراد وہ تمام ممالک یا ریاستیں ہیں جو کبھی تاجِ برطانیہ کی نو آبادیات میں شامل تھیں۔
پاکستان دولتِ مشترکہ کے کھیلوں میں چودہویں بار شریک ہوا۔ پاکستانی دستے کی کارکردگی نے ملے جلے جذبات اور تاثرات سمیٹے ، جس میں کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی قابلِ قدر جبکہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کی عدم توجہی اور بے رخی افسوس ناک ہے۔ بالخصوص لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عارف حسن ، یعنی صدر پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن شائقین کی تنقید کی زد میں رہے۔ 2004 سے اس عہدے پر فائز ، ریٹائرڈ جنرل عارف حسن پر یہ اعتراض کیا گیا کہ انہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کو ضروری تربیتی مواقع ، مناسب سہولیات اور بنیادی سپورٹ دینے کا تردد نہیں کیا۔
پاکستانی دستے نے مجموعی طور پہ 8 میڈلز جیتے ، جن میں دو طلائی ، تین چاندی اور تین کانسی کے تمغے شامل تھے۔ طلائی تمغے ویٹ لفٹنگ اور ایتھلیٹکس میں نوح دستگیر بٹ اور ارشد ندیم نے جیتے۔ چاندی کے تمغے انعام بٹ ، محمد شریف طاہر اور زمان انور نے جیتے ۔ تینوں ریسلنگ مقابلوں کے شرکاء تھے۔ جبکہ کانسی کے تمغےعلی اسد ، عنایت اللہ اور شاہ حسین شاہ کے نام رہے۔ علی اسد اور عنایت اللہ نے ریسلنگ ، جبکہ شاہ حسین شاہ جوڈو مقابلے میں شریک تھے۔
مجموعی طور پہ پاکستانی دستے میں 6 ریسلرز تھے ، جن میں سے 5 میڈلز جیتنے میں کامیاب رہے۔
بیڈ منٹن میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اگرچہ بد قسمتی سے وہ جیت نہ پائے مگر مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔ خصوصاً ماحور شہزاد ، جنہوں نے سخت ترین آسٹریلوی حریف کو انتہائی مہارت سے شکست دی مگر بھارت کے خلاف میچ میں انجری کے باعث کھیل جاری نہ کر سکیں۔
لیکن بد ترین منظر یہ نہیں تھا، بلکہ اصل شرم ناک منظر وہ تھا جب بیڈمنٹن کورٹ میں انجرڈ ماحور شہزاد درد سے بلبلا رہی تھیں مگر پاکستانی دستے میں تو کوئی ڈاکٹر یا طبی مدد گار تھا ہی نہیں۔ چنانچہ ، حریف ٹیم ، بھارت کے میڈیکل اسٹاف نے ہی پاکستانی کھلاڑی کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔
پاکستانی دستے میں کُل 67 شرکاء تھے ، جن میں 25 خواتین اور 42 مرد کھلاڑی شامل تھے ۔ افتتاحی تقریب میں پاکستانی پرچم بلند کرنے کا اعزاز ریسلر انعام بٹ اور قومی خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان ، بسمہ معروف کو حاصل ہوا۔ بسمہ معروف کا 15 رکنی کرکٹ سکواڈ بے نیلِ مرام رہا ، اور کوئی ایک بھی میچ جیتنےمیں ناکام رہا۔
بائیسویں کامن ویلتھ گیمز میں آسٹریلیا 178 میڈلز کے ساتھ پہلے، انگلینڈ 176 میڈلز کے ساتھ دوسرے، کینیڈا 92 میڈلز کے ساتھ تیسرے ، انڈیا 61 میڈلز کے ساتھ چوتھے اور نیوزی لینڈ 49 میڈلز کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہا۔ عالمی سطح پر 72 ممالک اس مقابلے میں شریک تھے، جن میں 8 میڈلز کے ساتھ پاکستان اٹھارہویں پوزیشن تک ہی پہنچ سکا۔
کھیلوں کی دنیا پر نظر رکھنے والے سبھی احباب یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کھلاڑی ٹیلنٹ اور صلاحیت کے اعتبار سے بہترین عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں ۔ مگر پاکستانی اربابِ اختیار کی بے حسی اور کرکٹ کے سوا باقی ہر کھیل کے ساتھ روا سوتیلا سلوک، ہمارے ستاروں کو مکمل آب و تاب سے روشنی بکھیرنے نہیں دیتا۔ انہی کھلاڑیوں کو اگر پاکستان اولمپکس ایسوسی ایئشن کی جانب سے تربیتی مواقع دیے گئے ہوتے ، ان کو دیگر ممالک (یا کم از کم بھارت) کی طرح اداروں نے اپنایا ہوتا تو یقیناً یہ 67 رکنی سکواڈ مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا تھا۔
مگر ، بقول سیف الدین سیف ،
اس تہی دامنی کے عالم میں ،
جو ملا ہے وہی بہت کچھ ہے
اور ،
آنے والے دنوں کی ظلمت میں
آج کی روشنی بہت کچھ ہے
تبصرہ لکھیے