حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
زیر میں بائیں جانب "جیمز ویب خلائی ٹیلیسکوپ" کی پہلی تصویر موصول ہو چکی ہے۔ یاد رہے یہ ٹیلی سکوپ 10 بلین ڈالر کی لاگت سے تخلیق ہونے کے بعد خلا کی زینت بنی۔
تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کے چمکدار اور دمکدار نظر آنے والے عناصر وہ ستارے ہیں جو کہ ہماری اپنی کہکشاں "ملکی وے" کا حصہ ہیں۔ جو کہ اتنا اہمیت کے حامل نہیں۔ اسکے علاوہ جو قابل ذکر عناصر ہیں وہ کہکشاؤں کے جھرمٹ ہیں جن کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام بیضوی شکل کے حامل ہیں یا خم دار اجسام کی مانند ہیں۔ ان کا خم یا بیضوی پن "گریوی ٹیشنل لینزنگ" کے باعث ہے۔
یہ کائنات کا اب تک سب سے گہرا یا نظر آنے والا منظر سے۔ جس سے مراد منظر میں جس روشنی کو ٹیلیسکوپ نے قابو کیا ہے اس کا منبع کم و بیش 13 ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔ عین ممکن ہے ان میں سے کچھ ستارے ایسے ہوں جو اپنی طبعی موت مر چکے ہوں مگر ان کی روشنی سفر طے کرتی ہوئی ٹیلیسکوپ کے لینز سے ٹکرائی ہو۔
قارئین کی سمجھ میں آسانی کے لیے واضح کر دوں روشنی ایک سیکنڈ میں 186000 میل سفر طے کرتی ہے اور ایک دن میں 86400 سیکنڈ ہوتے ہیں۔
زیر میں بائیں جانب تصویر میں ایک گولائی کے مظہر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مظہر کو فلکیاتی عکس بینی میں "گریوی ٹیشنل لینزنگ" کہتے ہیں اور اس کی سمجھ آئن سٹائن کے سپیس ٹائم نظریہ اضافیت سے آتی ہے۔ خلا میں موجود بھاری فلکیاتی اجسام کی وجہ سے سپیس ٹائم میں جو خم پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ سے روشنی بھی خم کھا رہی ہے۔ آئن سٹائن نے یہ سارے مظاہر دیکھے بغیر ہی ریاضیاتی طور پر ثابت کر دیئے تھے۔
جب بھی کسی خلائی مظہر کا منظر دیکھتا ہوں یا ایسی کسی دریافت کے متعلق پڑھتا ہوں تو بطور انسان اپنے چھوٹے ہونے کا احساس تقویت پکڑ جاتا ہے۔ چاہے ہم اس کائنات کی تخلیق کو مدر نیچر سے منسوب کریں یا خالق کے کن کا کرشمہ، مگر اس کائنات کا حجم اور ہیبت ہم انسانوں کے احساس تفاخر کو خاک کرنے کے لیے کافی ہے۔
تبصرہ لکھیے