برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اور پاکستان کے شہریوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات تاریخ، مذہب اور ثقافت کے انتہائی گہرے رشتوں میں بندھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرتا ہے کہ اس نے تمام مشکل حالات میں تن من دھن کیساتھ پاکستان کا ساتھ دیا ۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے سعودی عرب کے دورے میں سعودی حکومت نے اسٹیٹ بینک میں 3ارب ڈالر جمع کرانے اور 1.2ارب ڈالرکے ادھار تیل کی فراہمی کا اعلان کرنے سے پاکستانی روپے کی قدر جو مسلسل گررہی تھی، ڈالر کے مقابلے میں 175سے 170روپے پر بحال ہوئی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ جو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث تعطل کا شکار تھا، جلد طے پانے کی راہ ہموار ہوئی جس سے ملکی معیشت کو استحکام ملے گا۔
سعودی عرب کی پاکستان کو مشکل وقت پر حالیہ امداد پہلی بار نہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان خصوصی تعلقات دو چار سالوں کی بات نہیں بلکہ 70سالوں پر محیط ہیں جو کہ گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتے آئے ہیں،بلاشبہ سعودی عرب ہی وہ ملک تھا جس نے پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی سب سے پہلے اسے تسلیم کیا۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا ، جبکہ شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں ہے جنہوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کی تعمیر سمیت سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا، جو کہ آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے ۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کو مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا، ان کے اس فیصلے کو پاکستان کے عوام آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام بھی شاہ فیصل سے محبت میں ان کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام سے منسوب ہے جو کہ شاہراہ فیصل کہلاتی ہے ۔ اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل کالونی کہلاتی ہے اور اسی نسبت سے کراچی کے ایک ٹاؤن کا نام بھی شاہ فیصل ٹاؤن ہے۔
1998 ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب ہی نے ایک سال تک پاکستان کو 50 ہزار بیرل یومیہ تیل ادھار پر فراہم کیا۔ اور 2005 ء کے تباہ کن زلزلے ،2010ء اور2011 ء کے سیلاب کے وقت بھی پاکستان کی بھرپورمالی مدد کی۔ براہ راست مالی امداد کے علاوہ سعودی عرب نے پاکستان میں انفراسٹرکچر، صحت اور تعلیم سمیت فلاحی شعبوں میں کئی منصوبے مکمل کئے ۔ دنیا میں سعودی عرب واحد ایسا ملک ہے جہاں85 لاکھ اوور سیز پاکستانیوں میں سے تقریباً 20 لاکھ سے زیادہ پاکستانی موجود ہیں جو کسی بھی ملک میں اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے ۔ سعودی عرب میں موجود یہی پاکستانی ہر سال 8ارب ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں جو ملک کی مجموعی ترسیلات زر کا 25سے 30فیصد ہے ۔ 2018ء میں پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب نے 3ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے تھے اور 3سال کیلئے 3.2ارب ڈالر سالانہ تیل کی موخر ادائیگی کی سہولت بھی دی تھی لیکن مسئلہ کشمیر پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک متنازع انٹرویو کے بعد سعودی عرب پاکستان کے تعلقات میں تنائو دیکھنے میں آیا اور صرف 9ماہ بعد 2020ء میں پاکستان سے ادھار تیل کی سہولت اور اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے 3ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر واپس لے لئے گئے جس کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو چین سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑا تھا۔ اسی دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ہوئی جس میں یہ تمام باتیں زیر بحث آئیں۔ جنرل باجوہ کے دورہ سعودی عرب میں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے اہم کردار ادا کیا جو سفیر بننے سے پہلے پاکستان میں سعودی عرب کے ملٹری اتاشی رہ چکے ہیں۔
حرمین الشریفین مکہ اور مدینہ کی وجہ سے پاکستانی عوام سعودی عرب کے ساتھ ذہنی، قلبی اور روحانی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک کو دشمن عناصر پر گہری نظر رکھنی چاہیے جو کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برآمدات ودرآمدات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو اس حوالے سے انتہائی خوش آئند بات ہے کہ آنے والے وقتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادیات، معاشیات اور تجارت سے متعلق تعلقات میں مزید اضافہ ہو گا جس سے دونوں ممالک میں استحکام اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی ۔
تبصرہ لکھیے