اللہ رب العزّت نے قرآن کریم کو چند مضامین پر تقسیم کیا ہے، جن میں توحید اور رسالت اور بعث بعد الموت کے احوال کو خاص طور پر بیان کیا ہے، اورساتھ ہی جابجا مختلف قوموں کے واقعات اور ان پر نازل ہونے والے عذابات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔۔۔ اور جگہ جگہ اپنی نعمتوں کو بتا کر لوگوں کو اس میں غور وفکر کی دعوت بھی دی ہے، تو کیا قرآن کریم کوئی فلسفہ اور ہیئت کی کتاب ہے، کہ جسکا موضوع بحث حقائق کائنات یا آسمانوں اور ستاروں کی ہیئت وحرکات وغیرہ کا بیان ہو،؟ یا پھر وہ ہمیں اسکی تعلیم کا حکم دیتا ہے۔؟
اگر قرآن کریم کی ان تمام آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے کہ جن میں ہمیں اشیاءِکونیہ کے متعلق غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے،تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن ان حقائقِ کونیہ کے متعلق انسان کو صرف وہی بات بتانا چاہتا ہے کہ جسکا تعلق اسکے عقیدہ اور نظریہ کی درستگی سے ہو، اور یا پھر اسکے دینی یا دنیاوی فوائد اس سے وابستہ ہوں۔ مثال کے طور پرقرآن کریم نے بار بار آسمان ، زمین ،سیاروں ،ستاروں کا ذکر کیا ہے اور انکی حرکات اور سکنات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس طرح کی عجیب و غریب صنعت اور مافوق العادۃ آثرات دیکھ کر انسان اس باات کا یقین کر لے کہ ضروبالضرور اس جہان کا کوئی بنانے والا ہے۔ اسی طرح سورج اور چاند کا روز انہ طلوع اور غرواب ہونا اور چاند کا ہر دن چھوٹا اور بڑا ہونا، دن کا آنا اور جانا، اور مختلف خطوں میں دن کے کھٹنے اور بڑھنے کے عجیب و نظام کو دیکھ کر اس بات کا ادراک کر لے وہ خالق حقیقی بڑی قدرت کامالک ہے کہ جو اس وسیع و عریض جہان کے تمام انتظامات کو ایسی خوبی کے ساتھ چلا رہا ہے کہ سالہا سالوں میں بھی اس میں ذرّہ کے برابر کوئی فرق نہیں آتا ہے۔۔۔ اور یہ سب ایک ادنیٰ بصیرت رکھنے والا شخص بھی جان لے گا کہ یہ حکیمانہ نظام خود بخود تو نہیں چل سکتا ، ضرور اسکا کوئی نہ کوئی چلانے والا ہے۔ اور اتنا کچھ سمجھنے کے لیے انسان کو کسی قسم کی فلسفی تحقیق کی یا آلات رصدیہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ، اور نہ ہی قرآ ن نے اسکی طرف انسان کو دعوت دی ہے۔۔۔ قرآن کی دعوت تو صرف اسی قدر ہے جتنی کہ انسان کو مشاہدہ سےحاصل ہو سکے۔ اس سے زیادہ کا انسان کو مکلف نہیں بنایا ۔ اگر قرآن کریم کاان آیاتِ مبارکہ میں غور کرنے کا یہ مقصدہوتا کہ آسمان و زمین کےحقائق کو جانا جائے اور آلات رصدیہ کو استعمال میں لاتے ہوئے آسمان اور چاند سورج تک پہنچا جائے، اور ان کے مادّے کے حقائق معلوم کیےجائیں۔(جیسا کہ آج کل کے جدّت پسند علاماء اورمحققین قرآن کی ان آیات کی اسی طرح تشریح کرتے ہیں ( تو پھر قرآن کریم میں مو جود "وَیَسئَلُونَکَ عَن اَلاَھِلَّۃ" اور" وَیَسئَلُونَکَ عَن اَلرُّوحِ" کےجواب میں بجائے اسکے کہ اسکے مادّے کی حقیقت کا بیان ہوتا ، اسکے فوائد اور "وَمَااُوتِیتُم مِن اَلعِلمِ اِلّا قَلِیلاً" سے کیوں دیا گیا ہے۔؟ اور آپ ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں کیوں ان کے حقائق کی معلومات کی کوششیں نہیں کی گئیں ؟ (اور یہ کہنا کہ اس وقت ان چیزوں کا علم اس قدر نہ تھا بالکل بے جابات ہے۔ کیوں کہ فلسفہ اور حقائقِ مادّہ کے علوم کا اس وقت مصر ،شام اور چین وہند میں رواج تھا، اور اسکے تعلیم و تعلّم کا سلسلہ بھی موجود تھا۔)
سائنسی تحقیقات اور علوم ِفلسفہ کو فروغ دینے کیلیے اور اسکی اہمیت کو لوگوں میں مقبول کرنے کے لیے قرآن کریم کی آیات کی غلط تفسیر بیان کرنا نہ صرف گناہ کبیرہ ہی نہیں بلکہ علوم ِقرآن کے ساتھ سراسرزیادتی ہے۔ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ قرآن نہ اس فلسفی اور سائنسی تحقیقات ِقدیمہ یا جدیدہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے، اور نہ ہی اس موضوع سے بحث کرتا ہے، اور نہ ہی اسکی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا ، اور لوگوں میں یہ ثابت کرنا کہ قرآن نے خود سائنسی تحقیقات کی دعوت دی ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ بلکہ قرآن کریم میں موجود ان تمام آیات کا مقصدِ بیان وہ ہے جو اُپر گزرا، اسکے علاوہ دوسری کوئی بھی تفسیر "وَضعُ الشَّئِ فِی غَیرِ مَحَلِہ ظُلْم" کے قاعدے کی رو سے ظلم ہے۔
تبصرہ لکھیے