اللہ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات میں انسان افضل ترین مخلوق ہے۔ باری تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا ارادہ کیا تو اسی کی اپنی پسندیدہ مخلوق فرشتوں نے سب سے پہلے اعتراض کر دیا کہ اے اللہ! ہم جو ہیں تیری عبادت و بندگی کرنے کے لئے پھر کیا ضرورت ہے انسان پیدا کرنے کی جو زمین میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا؟ فرشتوں کا اعتراض کرنا بجا مگر اللہ کریم کی اپنے بندوں سے محبت کا اندازہ کیجئے کہ فرشتوں کے اعتراض کرنے پر ان کو انسانیت کی خدمت پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لگا دیا۔ جنات و شیاطین کے سردار ابلیس نے سجدہ کرنے سے اس وجہ سے انکار کیا کہ میں آگ سے بنایا گیا ہوں اور آدم مٹی سے ۔ لہٰذا میرا سجدہ کرنا میرے مقام و مرتبہ کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کو شیاطین کی اپنے بندوں کے بارے میں یہ تکبرانہ ہرزہ سرائی بھی پسند نہ آئی اور ہمیشہ کے لئے اسے راندہ درگاہ بنا دیا کہ خود کو بڑا سمجھنے والے ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا رہ۔
گویا اللہ کریم نے انسانیت کی ابتداء میں ہی ہمیں درس دے دیا کہ اسے غرور اور تکبر سے پاکیزہ کردار مطلوب ہے۔ تکبر و غرور چاہے نیکی کا ہو یا برائی کو دونوں ہی ناپسندیدہ کردار ہیں۔ انسان کے لئے پاکیزہ ترین کردار کا انتخاب کیا گیا جس سے وہ انسانیت کی معراج حاصل کرتے ہوئے باری تعالیٰ کا قرب حاصل کرے۔ اور وہ کردار ہے اس فطرت کا جس پر اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :’’ہر ایک پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘‘ اور اس فطرت سے مراد مقصد حیات کا حصول یعنی دین توحید پر قائم رہتے ہوئے بندگی بجا لانا ہے۔
دوسری طر ف عصر حاضر کی کردار سازی ہے ۔ جس میں ہمارے نزدیک عظمتِ کردار مغرب کی نقالی ہے۔ جبکہ یہ بات فطرت میں شامل ہے کہ جب تک اپنی حدود و قیود میں رہا جائے عزت بھی باقی رہتی ہے اور حریّت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جو نہی ہم دوسروں کی حدود میں داخل ہوتے ہیں ہماری عزت بھی نیلام ہوتی ہے اور ہماری آزادی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بعینہٖ طوطے اور میناء کی طرح کہ وہ انسانوں کی بولی بولتے ہیں نتیجتاً انہیں انسانی قید میں رہنا پڑتا ہے۔
ہمارے کردار کی حدود و قیود کیا ہیں؟ یقینا رسول مکرم ﷺ کی زندگی بندہ مومن کے کردار کی حدود و قیود ہیں۔ انسان بلند کردار کا حامل تب ہی ہوگا جب وہ خیر البشرؐ کی اتباع کرے گا۔ جسے قرآن نے بہترین کردار شمار فرمایا ہے۔ اور یہ بات اٹل ہے کہ انسان بحیثیت انسان کچھ بھی نہیں اگر اس کا کردار نہیں۔ کہاوت معروف ہے کہ ’’یہ انسان کا کردار ہی ہے جو اسے عظیم بناتا ہے‘‘ یہ بات ہمارے تجربے میں ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ ہماری نظر میں عظیم ہیں وہ محض اپنے کردار کی وجہ سے ہیں۔ کردار کی حفاظت شیوہ انبیاء ہے۔ نبیِ وقت کے پاس مال و اسباب سے زیادہ عظمت کردار ، بڑی دولت ہوا کرتی تھی۔ جس کی مثال رسول مکرمﷺ کی دعوتی زندگی کے آغاز کی ہے کہ صفیٰ مروہ کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر نِدا لگاتے ہیں۔ جب لوگ جمع ہوگئے تو یہ نہیں فرمایا کہ میں معزز خاندان، سردار خاندان اور پڑھے لکھے مہذب خاندان کا فرد ہوں بلکہ فرمایا کہ اے مکہ کے لوگو! اگر میں تمہیں کہوں کہ پہاڑ کی دوسری جانب ایک ایسا لشکر آرہا ہے جو تمہیں ملیامیٹ کردے گا تو کیا تم میری بات کا یقین کرو گے؟ تو سب نے بیک زبان ہو کر کہا کیوں نہیں!اس لیے کہ ہم نے آپ ﷺ کے کردار سے سوائے سچ کے اور کچھ سنا ہی نہیں۔
قارئین محترم! دنیا نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ کردار کی سچائی سے شروع ہونے والا نبوی ؐ مشن مختصر عرصے میں وہ شاندار کامیابی حاصل کرتا ہے کہ قیامت تک اس کی مثال نا ممکن ہے۔ تب ہی تو اقبال نے اپنے مسلمان بھائیوں کو اس انداز میں سبق دیا کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ھاشمی
آج ہم کسی بھی شعبہ میں ناکام محض اس لئے ہیں کہ ہم کامیابی کے حصول کے لئے جو راستہ اختیار کر رہے ہیں اس کا رسول مکرمؐ کی زندگی سے کوئی تانا بانا نہیں ملتا۔ ہاں اگر جھلک دکھائی دیتی ہے تو مغربی تہذیب کی دیتی ہے۔ جب ہماری چال ڈھال اور گفتار میں باری تعالیٰ کے بتائے ہوئے کردار کی جھلک ہی نہیں ہوگی تو ہم کیونکر کامیابی حاصل کریں گے؟ ہم محض تکبر کے گھمنڈ میں ڈوبے ہوئے عقلی تیر چلانے والے اور نقطہ چینی کے ماہر ہیں۔ دوسروں کے کردار کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنے کردار کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔ طوطے اور میناء کی طرح دوسروں کی زبان بولتے ہیں اور اپنی تہذیب و تمدن میں نقص پیش کرتے ہیں۔ اپنا کردار اپنانے سے گریز کرتے ہیں اور دوسروں کے کردار کو اپنانے میں فخر کرتے ہیں۔ مرد عورت کا اور عورت مردوں کے کردار اپناتے ہوئے عظمت کردار پر دھبے لگا رہے ہیں پھر ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم پسپا ہو رہا ہے۔ بازبان شاعر
ہر روز سورج دیتا ہے یہ دھائی
مغرب کی طرف جائو گے تو ڈوب جائو گے
مسلم کی معراج اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں دیئے ہوئے تہذیب و تمدن اپنانے میں ہے اور اس صورت میں بندہ مومن کا کردار دنیا والوں کے لئے بھی قابل تقلید ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے نذدیک بھی قابل قبول ہوگا۔ دوسری طرف غیر مسلم اقوام کے تہذیب و تمدن کی روشنی میں پنپتے ہوئے کردار کی حیثیت بازبان رسول مکرم ﷺ یہ ہے کہ ’’وہ انہی میں سے ہے جن کا کردار اپناتا ہے‘‘۔ آج بھی ہمیں عزت چاہیے، عظمت چاہیے اور کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی چاہیے تو ہمیں وہ نبوی کردار اپنانا ہوگا جس کو صحابہ نے اختیار کیا تو خیر القرون کا زمانہ رکھنے والے شمار ہوئے اور آج بھی حدیث مبارکہ کے مطابق اسی کردار کی قیمت ہے جس کردار پر نبیﷺ اور اس کے صحابہ اکرامؓ تھے۔ بحیثیت انسان ہمیں یاد رکھنا ہوگا یہ کردار غرور اور تکبر سے پاک و صاف ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول ہوگا۔
تبصرہ لکھیے