ہوم << رشتے داری کے گھن اور علاج - سید ثمر احمد

رشتے داری کے گھن اور علاج - سید ثمر احمد

سید ثمر احمد چند رسوم، عقائد، عبادات کے مجموعے کو مذہب کہتے ہیں۔ جیسے کچھ دن ہندو مندروں میں چلے گئے، بدھ ازم کے پیروکار اپنے ٹیمپلز میں چلے گئے، عیسائی گرجا گھر ہو آئے، یہودی سینیگاگز میں ہو آئے یا سکھ گردواروں کا دیدار کر آئے۔ اب باقی زندگی جیسے چاہو گزارو۔ اس محدود چیز کو مذہب کہتے ہیں۔
دین کہتے ہیں ضابطہ زندگی کو۔ جس میں پہلے دم سے لے کے آخری دم تک زندگی گزارنے کی اصولی ہدایات فراہم کی گئی ہوں۔ اسلام دین ہے، مذہب نہیں۔ قرآنِ حکیم نے بھی اسلام کے لیے 92 جگہوں پر دین کا لفظ استعمال کیا ہے حالانکہ مذہب کا لفظ استعمال کیا جاسکتا تھا۔ ہمارے نبی ﷺ یہی دینِ کامل لے کے 22اپریل، 571ء، یکم جیٹھ ،628بکرمی، 9/12ربیع الاول ( برِصغیر میں 12 زیادہ مشہور ہے )، ایک عام الفیل کو صبحِ کاذب کے بعد اور صبحِ صادق سے پہلے، بہار کے موسم میں زندگی کو بہار بنانے کے لیے تشریف لائے۔
حضور ﷺ نے خوشگوار زندگی اور اس کے بعد خوشگوار آخرت کے لیے تمام شعبہ ہائے زندگی کے متعلق عملی اصولی ہدایات تعلیم فرمائیں۔ دنیا کے ذہین ترین انسان کے علم میں تھا کہ تمام تر ترقی کا انحصار ایک مضبوط گھرانے اور خاندان پر ہے۔ اس لیے اس ضمن میں تفصیلی تعلیم فرہم کی۔ یہ رشتے جن کا کوئی بدل نہیں، جو انسان کے لیے بازو ہیں، زندگی میں دلاسا ہیں، غم میں گویا ڈھال ہیں، دھوپ میں سائبان ہیں، صحرا میں نخلستان ہیں، یعنی انسان کی زندگی کو زندگی بناتے ہیں، یعنی مکان کو گھر بناتے ہیں، یعنی بے بدل ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی کا حکم ملاحظہ کیجیے:
[pullquote]ان اللہ یامرکم بالعدل و الاحسان وایتآی ذی القربٰی وینھٰی عن الفحشاء و المنکر و البغی یعظکم لعلکم تذکرون[/pullquote] اللہ تمہیں عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی اور نامعقول کاموں سے منع کرتا ہے۔ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
ایک اور جگہ فرمایا:
[pullquote] واتقوا اللہ الذی تسآئلون بہ و الارحام ان اللہ کان علیکم رقیبا[/pullquote] اس خدا سے پرہیزگاری اختیار کرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچا کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
[pullquote] واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربٰی والیتٰمٰی والمساکین [/pullquote] اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو۔
حضور ﷺ نے فرمایا، قطع رحمی (تعلق کاٹنا) کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا (مسلم)۔ پھر فرمایا، ظلم اور قطعِ رحمی کے سوا اور کوئی گناہ اس لائق نہیں جس کے مرتکب کو اللہ تعالٰی دنیا میں جلد سزا دے باوجودیکہ اس نے قیامت کے دن بھی اس کے لیے سزا تیار کر رکھی ہے (ابودائود)۔ ایک اور جگہ ہدایت کا مفہوم ہے کہ صلہ رحمی یہ نہیں کو جو تجھ سے اچھا سلوک کرے تو بھی اس سے بہتر سلوک کرے۔ بلکہ کامل صلہ رحمی یہ ہے کہ جو تجھ سے برا سلوک کرے تو اس سے عمدہ رویہ اختیار کرے، جو تجھ سے کٹے تو اس سے جڑے، جوتجھے محروم کرے تو اس کودے، جو تجھ سے حق چھینے تو اسے اس کا حق عطا کرے۔ ایک اور خوشبو دار بات سنیے۔ فرمایا، جو یہ چاہتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق میں برکت ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ ایک دفعہ حضور ﷺ نے جنابِ عمرؓ کو ریشمی کپڑے کا تحفہ دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں تو نہیں پہن سکتا تو پھر کیا کروں؟ پھر ہدایت کے مطابق وہ کپڑا اپنے مشرک خالہ زاد بھائی کو تحفہ کردیا، حضرت ِعمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ بہتر سلوک کے مقابلے میں بہتر سلوک کرنا، یہ تو کاروبار ہے تجارت ہے، صلہ رحمی نہیں، صلہ رحمی تو اس وقت ہو جب کوئی تیرے سے اچھا سلوک نہ کرے اور تو اس سے اچھا سلوک کرے۔ ایک شخص آیا، پوچھا، میں اپنے رشتہ دار کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہوں لیکن وہ مجھ سے درشتی سے پیش آتے ہیں، میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں لیکن وہ سختی دکھاتے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا، اگر تم ویسے ہی حسین اخلاق رکھتے ہو جیسے بیان کر رہے ہو تو تم ان کے منہ میں بھوبھل (گرم راکھ ) ڈال رہے ہو۔ اللہ نے تمہارے لیے فرشتے مقرر کردیے ہیں جو تمہاری وکالت کرتے ہیں، اور ان کی شرارتیں تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گی۔
یعنی اہمیت کے پیشِ نظر تفصیلی ہدایات ہیں۔ رسول اللہ جو انسانی معاشرت کی حسین اور پائیدار عمارت تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس راستے کی رکاوٹوں سے بھی آگاہ تھے، رخنوں سے بھی واقف تھے، اور جانتے تھے کہ جب گھن لگ جاتے ہیں تو کرسیاں سلامت نہیں رہا کرتیں۔ دیمک لگ جاتی ہے تو بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ رشتوں کے بھی ہاتھ پائوں ہوتے ہیں۔ ہمارے رویوں کے باعث یا تو یہ چلتے چلتے قریب آجاتے ہیں، یا پھر آہستہ آہستہ دور چلے جاتے ہیں۔ نیلسن مینڈیلا بیان کرتے تھے، رشتے کبھی طبعی موت نہیں مرتے۔ ان کو انسان قتل کرتے ہیں۔ غلط فہمی سے اور نظر اندازی سے۔ اس لیے عزیزو، پہلا گھن ہے:
گمان:
حکم ہوا[pullquote] فاجتنبوا کثیر من الظن ان بعض الظن اثم[/pullquote] کثرتِ گمان سے پرہیز کرو۔ ان میں سے بعض اللہ کے غضب کو بھڑکانے والے ہوتے ہیں۔
گمان کیا ہے؟ ناقص معلومات کی بنیاد پہ مکمل تصویر بنانا۔ یونہی کسی کے بارے میں سوچ بنا لینا، وہ ہے ہی ایسا۔ اس سے توقع ہی یہ تھی۔ اس نے یہی کرنا تھا۔ یعنی سننا اور ذہن میں نقش بنا لینا۔ حضورﷺ نے فرمایا، ایک شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات بہت ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے کردے (یعنی بالخصوص منفی بات کی تحقیق کیے بغیر کہتا پھرے)۔ فرمایا،[pullquote] ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث[/pullquote] گمان کرنے سے بچو کیوں کہ گمان کرنا بڑا جھوٹ ہے۔
یعنی تمہارے پاس کیا ثبوت ہے ۔جو بات کِہہ رہے ہو اس کے غلط ہونے چانسز بھی اتنے ہی ہیں جتنے صحیح ہونے کے (اکثر تو منفی سوچ کے معاشروں میں غلطی ہی زیادہ ہوتی ہے)۔ بلکہ ایک قدم آگے آنحضرتﷺ کی نصیحت ہے کہ ’اگر تمہیں کسی کے بارے میں گمان ہو جائے تو اس کی تحقیق میں نہ پڑو‘۔ اپنے آپ کو آزاد، مطمئن رکھنے اور تعلقات کو بہترین صورت میں رکھنے کی کیا زبردست ہدایت ہے سمجھنے والوں کے لیے۔
ایک دفعہ میں نے نماز کے بعد مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر اپنے ایک عزیز کو اس کے ایک معاملے میں اچھے کردار کو سراہنے کے لیے فون کیا۔ وہ جانے کس تناظر میں بات کو سمجھے۔ ناراض ہو بیٹھے۔ یوں سمجھے کہ میں نے ان پر طنز کیا ہے۔ جو بات میرے گمان میں نہیں تھی وہ ان کے لب پر تھی۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
خیر ایک عرصہ لگا انہیں منانے میں۔ ایک دفعہ میری آنٹی نے مجھ سے کہا ثمر کیا کہتے ہو ان صاحب کے اس معاملے میں۔ میں نے کہا میں کچھ نہیں کہتا۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کے متعلق ویسا ہی سوچ رہے ہوں جیسا انہوں نے کہا۔ اور ہم غلط گمان کر بیٹھیں۔ آخر اور گمان ہوتا ہی کیا ہے؟ کہنے لگیں دنیا جینے نہیں دے گی۔ عرض کی دنیا کی کیا اوقات ہے کہ جینے نہ دے؟ یہی گمان ہے جہاں سے بات آگے بڑھتی ہے۔ دلوں کو روگ لگتا ہے۔
اللہ نے مجھے توفیق بخشی کہ اپنی شادی میں جہیز جیسی معاشرتی لعنت سے بچا لیا۔ اب بعد کو کچھ ایسی باتیں سننے کو ملیں۔ ثمر نے سنا ہے لاکھوں کیش لیے ہیں؟ سنا ہے کہ گاڑی کا مطالبہ کیا ہے جو بعد میں پورا کیاجائے گا۔ میں سنتا رہا، سر دھنتا رہا، کہاں کہاں کی موشگافیاں ، کہاں کہاں کے سِرے، کہاں کی اینٹ، کہاں کا روڑا، عجیب عجیب باتیں، قہقہے لگاتا رہا، اڑاتا رہا، اس لیے اگلا گھن ہے
غیبت:
کسی کی ذاتی کمی یا نقص کو اس کی غیر موجودگی میں بیان کرنا ، جسے اس کے سامنے بیان کیا جائے تو اسے برا لگے۔ غالباََ حضرت صفیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرتِ عائشہ نے بتایا کہ یہ قد میں چھوٹی ہیں۔ حضورﷺ نے فوراََ فرمایا کہ عائشہ تم نے ایسی بات کی کہ اگر سمندر میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ بھی کڑوا ہو جائے۔ یہ آج کل ہماری زبان کی چٹنی ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا لفظ اتنا طاقت ور ہے کہ تنظیمیں منتشر کر کے رکھ دے، خاندان اجاڑ دے، تعلقات کاٹ ڈالے۔
اس سنگینی کو بیان کرتے ہوئے اللہ کریم فرماتے ہیں کہ کیا کوئی تم میں سے پسند کرے گا کہ وہ انسانی گوشت کھائے؟ پھر وہ انسان بھی کوئی اور نہیں تمہارا بھائی ہو؟ پھر وہ بھائی بھی زندہ نہ ہو بلکہ اس کی نعش ہو؟ بولو، تم اس سے یقینا نفرت کروگے نا؟ بس غیبت کا نتیجہ اتنا ہی سنگین ہے۔ ایک دفعہ ہمارے گھر پر خاندان کی بڑی سربراہ عورتوں کا اکٹھ ہوا۔ گھڑی دیکھ کر میں بھی بیٹھ گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری زندگی میں تبدیلی نئی نئی آئی تھی۔ میرا اللہ کی طرف سفر شروع ہوا تھا۔ وہ سب بیٹھی کبھی اِس کی برائی کبھی اْس کی برائی۔ ”وہ تو ہے ہی ایسی۔ اس سے خیر کی توقع کب تھی؟ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے، دیکھ لیا؟ وہ پہلے کب ہماری بنی تھی جو اب بنےگی؟ اس کی ناک دیکھی ہے پکوڑے جیسی؟“ میں بھی پاس بیٹھا سنتا رہا۔ اڑھائی گھنٹے گزر گئے۔ جب گفتگو کچھ ٹھنڈی پڑی تو میں نے عرض کی۔ آنٹی کچھ وقت ہمیں اللہ کے راستے میں دینا چاہیے۔ گھر میں بیٹھے رہنا تو اپنے آپ کو برباد کرلینا ہے۔ ذرا امہات المومنین کی زندگیوں کو دیکھیے۔ کہنے لگیں، بیٹے، ٹائم ہی کوئی نہیں ملتا۔ میں نے لقمہ دیا کہ یہ کام کرنے کے لیے ٹائم مل جاتا ہے۔ اڑھائی گھنٹے سے یہ باتیں ہو رہی ہیں۔ بس اسی وقت کو ذرا مختلف انداز میں استعمال کرنا ہوتا ہے۔ بھنّا کے بولیں،چل بھاگ جا یہاں سے، اب ہمیں سکھانے آیا ہے۔اس لیے عزیزو یہ بڑی خطرناک گھاٹی ہے۔ یہاں سے سنبھل کے نکلو۔ تیسرا گھن ہے،
حسد، کینہ، بغض:
یہ تینوں سگی بہنیں ہیں۔ صحابہ ؓ کی مجلس تھی۔ حضورﷺ نے فرمایا جو کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے وہ ابھی آنے والے شخص کو دیکھے۔ ایک نوجوان صحابی ظاہر ہوئے۔ ایک صحابی کو تجسس ہوا اور وہ بہانہ لگا کے کچھ دن ان کے پاس رک گئے۔ جب کچھ دن گزر گئے تو پوچھا، حضرت آپ کچھ خاص عمل تو نہیں کرتے۔ جیسے ہم نمازیں ادا کرتے ہیں، زندگی گزارتے ہیں، ویسے ہی آپ کے بھی شب و روز ہیں۔ انہوں نے جواباََ پوچھا کیا بات ہوئی۔ کہا حضور ﷺ نے آپ کے بارے میں جنت کی بشارت دی ہے۔ بولے مجھے تو کچھ نہیں پتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ میں اپنے کسی بھائی کے بارے میں اپنے سینے میں کبھی کینہ نہیں رکھتا۔ وہ صحابی بولے بس یہی بات ہے۔
میں نے کتنی دفعہ خاندان میں سنا۔ جی ان کے پاس تو پیسہ ہی بہت ہے۔ پیسہ ہو تو انسان کیا کر نہیں سکتا۔ ساری گیم پیسے کی ہے ۔ ہاں وہ یہ کر سکتے ہیں۔ وہ نہ بھی جہیز لیں تو گزارا ہو جاتا ہے۔ ایک سے عرض کیا کہ بہن ہمارے پاس تو پیسہ نہیں تھا، ہم نے بھی جہیز نہیں لیا تو محترمہ کو فوراََ چپ لگ گئی۔ ہم کیسے عجیب ہوگئے کہ رشک کرنے کے بجائے حسد کرنے لگے۔ اور جانتے نہیں کہ تیزاب جس برتن میں ڈالا جاتا ہے اسے سب سے پہلے نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ تو ہمارے اندر کو لے بیٹھے گا۔ خواہ مخواہ میں بیٹھے بیٹھے جلے جائیں گے۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ پیسہ زندگی کی خوشیوں کا ضامن نہیں۔گارے مٹی سے مکان بنتے ہیں، گھر اسے رہنے والے بناتے ہیں۔ پیسوں سے نرم گدے خرید سکتے ہو میٹھی نیند نہیں۔ کن چکروں میں ہم گھوم گئے اور اپنے روح و جسم کو بیماریوں کے حوالے کردیا۔اگلا گھن ہے…
غصہ:
فرمایا، (گویا) پہلوان وہ نہیں جو کشتی میں کسی کو پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو اپنے غصے پہ قابو پائے۔ کسی نے کہا کہ غصے کا آغاز حماقت اور اختتام ندامت پہ ہوتا ہے۔ کوئی معقول بات غصے کی حالت میں نہیں سوچی جا سکتی۔ کسی نے کہا کہ لمبی دوستی کا راز یہ ہے کہ اپنے دوست سے غصے میں بات نہ کرو اور دوست کی غصے میں کہی گئی بات کا برا نہ مانو۔ غصیلے آدمی کے دوست بہت کم ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ یہ بات کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو جی سچ بولیں گے، چاہے کسی کو کڑوا لگے۔ حضرات، اکثر سچ کڑوا نہیں ہوتا، سچ کہنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے۔ ہم کسی کواپنے انداز سے ذلیل کر رہے ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری اس حرکت کو سچ سمجھا جائے۔ کسی سے کہیں کہ اپنے والد صاحب کو بلائیں، اور دوسرے سے کہیں اپنے ماں کے خصم کو بلا (ساتھ ازدواجی زندگی کی تفصیلات بتائیے)۔ دونوں صورتوں میں ردِّعمل مختلف ہوگا۔ ایک میں عزت بنے گی، دوسرے میں سر پھٹے گا حالاں کہ دونوں سچ تھے بلکہ دوسرا زیادہ کھلا سچ تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ محض غلط انداز تعلق برباد کرڈالے۔ پانچواں گھن ہے…
صلے کی امید:
اللہ نے مجھے بہت حساس دل دیا ہے۔ بعض دفعہ یہ حساسیت جان کو آجاتی ہے۔ جہاں زیب بھائی سے کہا بہت دعا کرتا ہوں کچھ کم ہوجائے۔ بعض دفعہ کئی دن ایک ٹرانس سے باہر نہیں آسکتا۔ کہنے لگے یہ کم ہونے کی نہیں۔ میں بھی سوچتاہوں شاید اللہ جو کام مجھ سے لینا چاہتا ہے اس میں اس حساسیت کی ضرورت بھی ہے۔ خیر بعض دفعہ کہا کہ جان کو آجاتی ہے۔ یہاں بھی اپنی کہانی سناتا ہوں
میرے ایک دوست ہیں۔ ان سے دوستی بڑھی اور بہت بڑھ گئی۔ قربتیں اتنی ہوئیں کہ رازدار اور قریب ترین دوست ٹھہرے۔ مجھے ان سے بات کرکے بڑی خوشی اور اعتماد ملتا۔ لیکن اچانک بغیر کوئی وجہ بتائے بات کرنا بند کردی۔ جواب نہیں، رسپانس نہیں، بات کروں تو جھٹک دیں، فون بند کردیا، اِدھر اس حساسیت کی وجہ سے میرا حال خراب ہونا شروع، کوئی وجہ تو پتہ لگے، غلط فہمی تو دور کرسکوں۔ رابطہ کروں پر خاموش، ہاتھ جوڑے یار کچھ تو بولو، کوئی حرکت نہیں۔ اپنی حالت یہ ہوئی کہ ہرکام سے دل اچاٹ، جاب ہو یا کاروبار، دل چسپی ختم، کھانے کو دل نہ کرے، نیند ا گئی، لوگ پکارتے رہتے مجھے کچھ خبر نہ ہوتی، اسی فکر میں غلطاں۔ سفر کرتا تو لوگ کہتے زندگی پیاری نہیں۔ یعنی میرا قصور کیا تھا؟ کیا جرم ہوا؟ کون سی اتنی بڑی خطا ہوگئی، کبھی غصہ آئے میں نے کیا ایسا کردیا
وہ تجھے بھولے ہیں تو تجھ پہ بھی لازم ہے میر
خاک ڈال آگ لگا نام نہ لے بات نہ کر
لیکن دل کی یہ کیفیت پھر کچھ دیر بعد پوری شدت سے ابھر آئے،
سو بار کہا میں نے انکار ہے الفت سے
ہر بار صدا آئی تو دل سے نہیں کہتا
……………
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں؟
جب دو اڑھائی ہفتے ایسے گزر گئے، سجدوں اور آنسوئوں میں راتیں گزرگئیں اور بیماری کی کیفیت تک طاری ہوگئی تو میرے اللہ کو ترس آیا، پھر وہ پکارا تجھے سمجھ آئی؟ میں نے کہا کیا ہوا؟ کہا، اوقات میں رہ اوقات میں۔ لیکن ہوا کیا؟ جواب آیا ، ہم نے تجھے شروع میں کِہہ دیا تھا کہ جب ہمارا ہونے نکلا ہے تو امید بھی صرف ہم ہی سے رکھنی ہے۔ تجھے جرات کیسے ہوئی کسی اور سے امید باندھنے کی؟ دیکھ جس کو تو سب سے قریب سمجھتا تھا۔ ہم نے اسی کے ہاتھوں تجھے سب سے بڑا دکھ دلوایا…اوہ… میرے اللہ، معاف کردے۔ واقعی جرم ہوگیا۔ لیکن … لیکن تیرا در چھوڑ کے کدھر جائوں۔ میں تیری طرف پلٹتا ہوں، معاف کردے۔ اب مجھے بتا میں کیا کروں؟ جواب آیا، کرنا کیا ہے۔ آرام کر اب۔ وکفٰی باللہ شھیدا۔ تیری وکالت کے لیے ہم بہت ہیں۔ اب بے فکر ہوجا۔ ہم ظالم کا دل اجاڑ دیتے ہیں۔ ان اللہ سریع الحساب۔ ہم دیر تھوڑی لگاتے ہیں۔تم نے کبھی بے سکون کرنے والے کوسکون سے نہیں دیکھا ہوگا۔ اسے مظلوم کی آہیں اور اس کا ظلم تنگ کر کے رکھ دیتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی قہقہے لگاتا پھرے ۔عرض کی، یا اللہ درد بہت شدید ہے۔لیکن محبت بھی بہت ہے۔ نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ کہا، ان اللہ علیم بذات الصدور۔ ہم تیرے خلوص سے آگاہ ہیں۔ لوگوں کے دل ہماری دو انگلیوں کے درمیان ہیں، جب چاہیں پلٹ کے رکھ دیں۔ تو بے فکر رہ۔
اسی اثنا میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے، بیٹے معاف کردو۔ میں نے کہا معاف نہیں کروں گا، آپ دیکھتے نہیں کس تکلیف سے گزر رہا ہوں۔ کہنے لگے، معاف کردو ورنہ تمہارے آگے بڑھنے کے راستے مسدود کر دیے جائیں گے، تمہاری ترقیاں روک دی جائیں گی۔ بیٹے، اللہ کی حکمتوں کو سمجھو۔ تم نے کبھی ہل چلتے دیکھا ہے؟ جی۔ اس میں زمین کا سینہ چیرا جاتا ہے، مٹی اوپر سے نیچے کردی جاتی ہے، نظام الٹ پلٹ دیا جاتا ہے۔ کیوں بھلا، اس لیے کہ یہ نرم ہوجائے اور بارآور ہو سکے۔ اسی طرح جب کوئی اس کا خاص ہونے کا عزم باندھتا ہے تو اس پر تہمتیں لگوائی جاتی ہیں، الزامات لگوائے جاتے ہیں، دکھ پہنچائے جاتے ہیں، اور جواب میں اس نے صرف مسکرانا ہوتا ہے، خاموش رہنا ہوتا ہے۔ جب یہ درد ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے تو اس کا دل زرخیز ہوجاتا ہے، اب اس میں گداز عطا کیا جاتا ہے۔ پھر تمہیں شروع میں جب بتا دیا گیا تھا کہ امید کسی سے نہیں لگانی تو آخر یہ جرم کیا کیوں؟ اس لیے ہمارے بڑے کہا کرتے تھے کہ’ نیکی کر دریا میں ڈال‘۔ میں اس کا مطلب مثبت معنوں میں یہ لیتا ہوں کہ صلے کی امید نہ رکھو، بس محبت کرو، غیر مشروط محبت
’مومن ، مومن کا آئینہ ہے‘:
ایک بندہ مومن کا دوسرے بھائی کے ساتھ تعلق کیسا ہو، یہ حدیث مختصر الفاظ میں وضاحت کردیتی ہے۔ سوچیے آئینہ کیا کام کرتا ہے؟ یہ اپنے سامنے آنے والے کی خوبصورتی اور نقص دونوں بیان کردیتا ہے۔ جب ایک شخص اس نقص کو دور کرلیتا ہے تو اس کو اب پچھلی بدصورتی کے طعنے نہیں دیتا۔ خاموشی سے بات بتاتا ہے، شور نہیں مچاتا۔ رسوا نہیں کرتا۔ اگلے آنے والے سے پچھلے کی غیبت نہیں کرتا۔ حقیقت سامنے رکھتا ہے، غلط نہیں بتاتا۔ غور کرتے چلے جائیں، مومن کا تعلق بھی دوسرے کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ بھی سرتاپا خیر ہی خیر ہوتا ہے بھلائی ہی بھلائی ہوتا ہے۔اگر اپنے بھائی میں کچھ کمی پاتا ہے تو اسے دور کرنے کی صحیح کوشش کرتا ہے اس کے رسوائی کے نعرے نہیں لگاتا پھرتا۔
مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے ایک رشتے دار کسی معاملے میں میرے حوالے سے کچھ منفی باتیں خاندان میں کرتے پھر رہے ہیں، ان کی بیگم بھی اس کام میں سرگرم ہیں۔ یہ بات کچھ دوسری طرف پہنچی۔ بزرگوں کی سکھائی باتوں کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ میں کچھ اور باتیں بڑھا چڑھا کے ان کے خلاف کرتا اور نہلے پہ دہلے مارتا، میں اکیلا ان کے پاس چلا گیااور کہا: ہماری سوسائٹی میں عام چلن ہے کہ چھپکلی کو مگرمچھ بنادیتے ہیں اور ٹڈے کی ٹانگ پہ ہاتھی کا خول چڑھا دیتے ہیں۔ بات شروع کہیں سے ہوتی ہے اور بیچ میں رنگ شامل ہوتے ہوتے بن کچھ اور جاتی ہے۔ میں اس لیے چل کے خود آپ کے پاس آگیا کہ یہ کچھ باتیں آپ کے حوالے سے سننے میں آ رہی ہیں۔ شاید آپ نے نہ کہی ہوں لیکن واسطوں کی وجہ سے بات کی شکل بگڑ گئی ہو تو سوچا خود واضح کردوں اور اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے تو اسے دور کردوں۔ وہ رشتے دار بہت شرمندہ بھی ہوئے، مجھے دعائیں بھی دیں، آیندہ وہ بات بھی مجھے سننے کو نہ ملی۔ اس لیے یاد رکھیں کہ[pullquote] المومن مراۃ المومن[/pullquote] دولت کا خمار:
یہ وہ فتنہ ہے جس کے بارے میں اپنی امت کو ہادی برحقﷺ نے بہت پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔ جب بینک بیلنس سے، زندگی آسائشوں سے، پیٹ کھانوں سے، الماریاں کپڑوں اور جوتوں سے، دل تمنائوں سے بھر جائے تو پھر خرابیاں آجانا کچھ عجیب نہیں ہوتا۔ کیا واہیاتی ہے کہ ایک طرف ایک رات کا عروسی جوڑا لاکھوں میں بن رہا ہے اور دوسری طرف اتنے پیسوں میں کتنی ہی لڑکیوں کی پوری شادی ہو سکتی ہے۔ اور دلیل یہ کہ ’شادی ایک ہی دفعہ تو ہونی ہوتی ہے‘۔ ’اور بندہ کماتا کس لیے ہے؟‘۔ ’ہم کوئی کمّی کمین ہیں‘۔ ’ایسے شادی کریں گے کہ دنیا یاد رکھے گی‘۔ دوسری طرف جہیز کی لعنت، کتنا عجب ہے کہ لڑکی بھی لے کے جائو اور ان سے سامان بھی منہ بھر کے چاہو۔ ارے اپنے جگر کا ٹکڑا کاٹ کر دے دیا ہے اور کیا چاہتے ہو۔ بیٹی والوں کے لیے تو حقیقتاََ وہ غم کا موقع ہوتا ہے۔جب لاڈوں سے پلی، باپ کی راج دلاری، بھائیوں کی محبت جا رہی ہوتی ہے۔ ماں وہ جو لوٹنیاں لیتی ہے تو جدائی کا غم بھی ہوتا ہے لیکن یہ دھڑکا بھی ستائے رکھتا ہے کہ نجانے کیسا سسرال ملے گا۔ معاشرے کی حالت ابتر جو ہوگئی۔ اللہ کے رسولﷺ نے دو چیزوں کو سب سے آسان بنایا تھا۔ ہم نے انہی دو کو سب سے زیادہ مشکل بنادیا۔ شادی اور مرگ۔ جینا آسان نہ مرنا۔ ارے لوگو، قدم اپنی جگہ سے نہ ہلا سکو گے جب تک قیامت کے دن یہ نہ بتادو کہ پیسہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔
کیا ہوگا اس دن جب ایک طرف سے روزانہ مرغِ مسلّم کھانے والا بدہضمی کی وجہ سے کھٹی ڈکاریں مارتا ہوا آ رہا ہوگا اور دوسری طرف وہ غریب رشتہ دار داخل ہو رہا ہوگا جس کا پیٹ ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ لگا ہوا ہوگا۔ وہ آ کر کہے گا کہ اے اللہ یہ ساتوں دن اعلی ترین کھانا کھاتا تھا۔ یہ چھ دن بھی کھا سکتا تھا۔ ایک دن کے پیسوں سے میرے ہفتے بھر کی دال روٹی کا خرچ نکل سکتا تھا۔ لیکن اللہ اس نے نہیں کیا، اس کو پکڑ۔ اب پناہ کہاں ہگی جسے پکڑ لے۔ بھاگ کہاں سکےگا جو بھاگے؟
کیا ہوگا اس دن جب ایک طرف اکڑے ہوا سوٹ پہنے کلف لگی گردن کے ساتھ صاحب بہادر داخل ہو رہے ہوں گے اور دوسری طرف چیتھڑوں میں ملبوس رشتے دار داخل ہوکے فریاد کرے گا کہ اللہ اسے پکڑ۔ یہ دس دس ہزار کے سوٹ پہنتا تھا۔ یہ یوں بھی کرسکتا تھا کہ آٹھ ہزار کا پہن لیتا۔ دوہزار میں مجھے دو سوٹ بنوا کے دے دیتا ۔ اس نے ایسا نہیں کیا۔ اب مجھے انصاف دلا۔ اسے بھاگنے نہ دے۔ تو اب کہیں نکل سکتا ہے تو نکل کے دکھائے۔ این المفر؟
میری زندگی میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کے باعث میں اس دنیا کے رنگ ڈھنگ سے بیزار ہوگیا ہوں۔ پردے رکھنے کا حکم ہے ورنہ میں اس خاندان کو جانتا ہوں جو ایک روٹی کو گھی اور پانی میں بھگو کے روکھی ہی کھا گیا کہ نہ سالن تھا اور نہ مزید پیسے کہ روٹی ہی اور منگوا لیتے۔ رات کے ڈیڑھ بجے ماڈل لنک روڈ کے گند کے کنٹینر سے ایک شخص کو پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے خوراک تلاش کرتے دیکھا ہے۔ اس خاندان کو نہیں بھولا جس کی کْل ماہانہ آمدنی ہی ڈیڑھ ہزار روپے تھی۔ میں اس بچے کو نہیں بھولا جس نے میرے ساتھ بیٹھے برگر کھاتے ہوئے لڑکے سے کہا تھا کہ یہ مجھے بھی دلا دیں انکل، یہ میں نے کبھی نہیں کھایا۔ ان الفاظ میں کتنا درد تھا کہ باقی کا برگر کھانا میرے لیے عذاب بن گیا تھا۔ اور آج دس سال گزرنے کے بعد بھی یہ بات مجھے اداس کر جاتی ہے۔ مجھے وہ معصوم خوبصورت لڑکی نہیں بھولی جس کے آنسوئوں کی لکیریں اس کے گالوں پہ پھیلی ہوئی تھیں، اور جو ڈاکٹر اسرار صاحب کی مسجد کے آگے جمعہ کے بعد فریاد کناں تھی کہ میرے ابو مر گئے ہیں، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں، کرایہ بھی دینا ہے، اور یہ الفاظ اٹک اٹک کے گلے سے نکل رہے تھے۔ اس غریب شخص کی پکار نہیں بھولی جب دسمبر کی سرد راتوں میں وہ دستِ سوال یہ کہتا ہوا دراز کر رہا تھا کہ میں کرائے پہ ہوں۔ گھر کی دیواریں تو ہیں پر چھت نہیں، اور کھلے آسمان تلے اوڑھنے کو کمبل بھی نہیں۔
ہم کیسے مطمئن ہوکے، مزے میں رہ کے، لوگوں پہ آسانی سے تبصرے کر کے، پتھر دلوں کے ساتھ مکان کے ماتھے پہ ھذا من فضل ربی لکھوا کے زندگیاں گزار لیتے ہیں۔ جب چاروں طرف محرومیاں ہوں تو کیسے یہ چسکے ہمیں گوارا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ہم درگزر کرنا سیکھیں، خیال رکھنا سیکھیں، پیار کرنا جانیں، محبت پھیلائیں، نفرتیں مٹائیں، غلط فہمیاں ختم کریں۔ انسان ہیں تو غلط فہمیاں تو پیدا ہو ہی جاتی ہیں۔ حضراتِ حسنین ؓ کے درمیان ہوگئی تھی، حضرتِ علی ؓ اور حضرتِ فاطمہ ؓ کے درمیان ہو گئی تھیں۔ اس لیے ان سے گھبرانا تو نہیں ہے، حل کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے.
خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظامِ زر کو اب برباد ہونا چاہیے
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوئوں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے
(سید ثمر احمد کمیونی کولوجسٹ، ٹرینر، مصنف ہیں)

Comments

Click here to post a comment

  • کوئی کہتا ہے،یہ زنانہ تحریر ہے. کوئی کہتا ہے میرا دوست ہے اگر وہ جیل بھی جائے گا تو خود چھوڑ کر آونگا .بھائی یہ دوستی کا یا تحریر کا مسلہ نہیں ہے ، یہ ایک آگ کا مسلہ ہے جو علما اکرم کی عزت کو جلا کر خاک کر سکتی ہے اس کی تحقیق تو اسی وقت ہونی چاہے تھی جب علما اکرم کو اسکا پتا چلا تھا اب تو یہ عوام کے پاس ہے اب تو ضرور تحقیق ہونی چاہے ورنہ اسلام اور خود علما اکرم کو ںا قابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے