ہوم << خوشبو اور دُر فِٹے منہ - جاویدالرحمن قریشی

خوشبو اور دُر فِٹے منہ - جاویدالرحمن قریشی

جاوید قریشی پاکستان خوشبوؤں کا دیس ہے۔ دنیا کی عظیم ترین، انمول اور ہمیشہ قائم رہنے والی خوشبوئیں پاکستان میں ہر طرف پائی جاتی ہیں۔ شاید کوئی سوچتا نہیں، غور نہیں کرتا وگرنہ ہر سمت، ہر گلی میں، ہر موڑ پر، ہر بستی میں یہ خوشبوئیں وافر دستیاب ہیں۔ ہمدردی اور غمگساری کی خوشبو، دکھ سکھ بانٹنے کی خوشبو، عزت احترام کی خوشبو، شفقت اور محبت کی خوشبو، غریب پروری کی خوشبو،!مسکین، محتاج، مفلس،مقروض،یتیم کی کفالت کی خوشبو! بیوہ کی عفت کی حفاظت کی خوشبو، معذور کی خدمت کی خوشبو، نابینا کی دست گیری کی خوشبو!انگور کی بیلوں کی خوشبو، نیلے پانیوں والی جھیلوں کی خوشبو، ریت کے ٹیلوں کی خوشبو! ہندوکش، قراقرم، ہمالیہ اور پنجال کی برفوں کی خوشبو! پنجاب کے میدانوں کی خوشبو!
بلوچوں کی غیرت، پٹھانوں کی جرات، سندھیوں کی شرافت، کشمیریوں کی استقامت کی خوشبو! وادیوں، صحرائوں، چراگاہوں، پہاڑوں، میدانوں کی وسعت اور ہیبت کی خوشبو! سمندروں، دریائوں، ندیوں، جھرنوں، آبشاروں کی روانی کی خوشبو! نانیوں دادیوں کی میزبانی کی خوشبو! پرندوں کی چہکار، درندوں کی للکار، پھولوں کی مہکار اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اکثریت کے کردار کی خوشبو!
جب کبھی بارش ہوتی ہے تو مٹی سے دنیا کی سب سے بہترین خوشبو نکلتی ہے۔ وہ خوشبو آدمی کی روح کو بھی معطر کر دیتی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آدمی کا خمیر بھی تو مٹی سے ہی اٹھایا گیا۔ گیلی مٹی کی خوشبو کا مقابلہ دنیا کی کوئی پرفیوم اور کوئی عطر نہیں کر سکتا۔ سکول میں جب نئی کلاس میں پہنچتے تھے تو کتابوں پر نئی جلد چڑھائی جاتی تھی۔ نئی کتابوں پر چڑھی ہوئی نئی جلد سے اٹھنے والی خوشبو بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اب تو جلد بھی ایکسرے اور پلاسٹک کی شیٹ سے ہوتی ہے، چناں چہ یہ خوشبو ہمارے ماحول سے جاتی رہی۔ پرانی کتابوں میں بسی خوشبو بھی ایک لاجواب خوشبو ہے۔ لیکن کمپیوٹر آنے سے یہ خوشبو بھی فراموش ہوتی جا رہی ہے۔ دیسی گھی کی خوشبو، پراٹھوں کی خوشبو، چٹنی کی خوشبو، دھنیا اور ساگ کی خوشبو، پھلاہی اور ٹاہلی کی خوشبو، دیودار اور صندل کی خوشبو!گلاب، چنبیلی، موتیا، رات کی رانی وغیرہ کی خوشبو ! شہیدوں کے لہو کی خوشبو، آزادی کی خوشبو، اور میں کیا بتائوں کہ گھر میں ہر طرف بکھری ہوئی ماں باپ کی خوشبو!
ماں باپ کی خوشبو، ان کی محبت و شفقت کی خوشبو! ان کی موجودگی کی خوشبو! ان کی دعائوں کی خوشبو! یہ خوشبو تو قبر تک ساتھ جاتی ہے، اگر کوئی لے جانا چاہے تو! گھر ایک باغ ہے جس کے مالی، مالک اور سب سے زیادہ خوشبودار ’چیز‘ والدین ہی ہوتے ہیں۔ کچھ بدبخت اس خوشبو کو بدبو سمجھتے ہیں چناں چہ اس کی پاداش میں وہ بدبخت، خوشبو ئوں سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ خوشبو تو موجود ہوتی ہے لیکن ان سے سونگھنے، چکھنے، محسوس کرنے کی صلاحیت چھن جاتی ہے۔ اور ہاں، یہ صرف والدین کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ آدمی اپنے ماحول میں موجود اور خود کو حاصل کسی بھی خوشبو کی ناقدری کرے تو اس سے محروم ہو جاتا ہے۔وہ خوشبو سامنے بھی ہو تو اسے محسوس نہیں کر سکتا، اسے سونگھ نہیں سکتا، اس سے لطف نہیں اٹھا سکتا۔ ٹھہریے کچھ مثالیں دے کر وضاحت کرتا ہوں۔
چودھویں رات کو جب کہ چاند اپنے پورے جوبن پر ہو، چاندنی ہر سو خوشبوئویں بکھیرتی ہو، اور اس خوبصورت رات میں ’جگ راتا‘ منانے کے لیے اگر آدمی ٹینٹ قناتیں لگا کر ان کے اندر بیٹھ جائے تو کیا چاند اور چاندنی رات کا کچھ لطف رہے گا؟ گھر کے اندر ہر طرح کے پھول لگے ہوں، اور گھر کے باہر کوڑے کا ٖڈھیر لگا دیں تو پھولوں کا کچھ فائدہ رہے گا؟ رات کی رانی اور موتیا کے پھول صحن میں ہوں، جب کہ اپنے گھر کے باہر گٹر بند ہو جائے اور پھر بند ہو کر ابلنا شروع کر دے تو کیا اس رات کی رانی اور موتیا کے پھولوں کا کوئی مزہ رہے گا؟ آدمی تازہ تازہ حج کر کے آئے اور ’ٹنڈ‘ پر بال اگنے سے پہلے ہی منہ پر اُگی داڑھی کو صاف کر دے تو کیا ’حاجی صاحب‘ کہنے کا مزہ آئے گا؟
چلیے چھوڑیے، بات الجھتی جا رہی ہے، اسے آسان کر کے بتلاتا ہوں۔ اوپر لکھا تھا کہ شہیدوں کے لہو کی خوشبو، آزادی کی خوشبو! میرا وطن خوشبوئوں کا وطن ہے، اس کے خمیر اور ضمیر میں مقدس لہو کی خوشبو گوندھی ہوئی ہے۔ اسی لیے تو جب ہم ’پاکستان‘ کہتے ہیں تو منہ میٹھا ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو جب ہم ’کشمیر‘ کہتے ہیں تو روح بھی خوشبودار ہو جاتی ہے۔اس دیس کے ذرے ذرے میں خوشبو ہے تو شہیدوں کے لہو کی بدولت! اس ملک کا چپہ چپہ خوشبودار ہے تو مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی قربانیوں کی بدولت! اس وطن کا کونا کونا معطر ہے تو بس اس وجہ سے کہ اس کی بنیادوں ، دیواروں اور اس کی چھتوں پر شہیدوں کے لہو کا چھڑکائو ہوا، ہوتا رہا، ہو رہا ہے۔اسی لیے تو اس ملک میں جو شہیدوں کے لہو کی خوشبو ہے، وہ انمول ہے اور بے مثال ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہاں آزادی کی خوشبو ہے! کراچی سے خنجراب تک، کوئٹہ سے تائو بٹ تک، بھمبر سے گوادر تک جگہ جگہ آزادی کی خوشبو ہے۔اس خوشبو پر اپنی جان بھی قربان! یہ آزادی کی خوشبو بھی تو شہیدوں کے لہو کی بدولت حاصل ہوئی! آزادی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ استقامت والے رہنمائوں کی مسلسل جدوجہد اور لاکھوں شہادتوں، عزتوں کی قربانیوں کے بعد کہیں جا کر حاصل ہوئی تھی۔ یہ آزادی اور یہ آزادی کی خوشبو ہمیں جان سے پیاری ہے۔ جو اس کی مخالفت کرے، جو اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرے، جو تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپے اس کے ساتھ ہمارا کوئی رشتہ ناتا نہیں۔ جو پاکستان اور کشمیر میں رہتے ہوئے بھارت نواز ہو، جو انڈیا کا ٹائوٹ ہو، جو پاک فوج کو جنگ کے موقع پر بھی گالیاں دیتا ہو، ایسے سب بدبودار لوگوں کا ’دُر فِٹے منہ‘۔ ایسے لوگ خود کو ہمارا ہمدرد مت ثابت کریں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو چاندنی رات میں ٹینٹ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں، جو گھر کے باہر کوڑے کے ڈھیر لگاتے ہیں، جن کا گٹر ہمیشہ ابلتا رہتا ہے، ایسے دونمبر حاجیوں کو دور سے سلام!
صاحب! کہنا یہی ہے کہ یہ دیس، یہ وطن، یہ ملک، یہ سرزمین، یہ دھرتی خوشبوئوں کی ہے۔ ان خوشبوئوں کے وارث اور امین ہم ہیں۔ ان خوشبوئوں کو چرانے والے ہمارے دشمن ہیں۔ ان خوشبوئوں کو بدبو سمجھنے والے بھی ہمارے دشمن ہیں۔ اس خوشبو کی ناقدری کرنے والے بھی خوشبو سے محروم ہو جائیں گے! بس یہی کہنا تھا کہ پاکستان ایک خوشبو کا خزانہ ہے، اس کی قدر کیجیے! کشمیر خوشبو بھری وادی ہے، اس کی قدر کیجیے اور اس کی آزادی کی راہ میں روڑے مت اٹکائیے! اللہ، پاکستان اور کشمیر کی خوشبو کو تاقیامت سلامت رکھے، اٰمین! بس اس کی قدر کیجیے، اس کی حفاظت کیجیے اور اس کے محافظوں کی حوصلہ افزائی کیجیے، اللہ آپ کو بھی ہمیشہ ہرا بھرا اور خوشبودار رکھے، آمین!