بیٹی کی شادی کے لئے ان کے پاس دو راستے تھے، یا تو ایک دینی مزاج رکھنے والے پڑھے لکھے مگر not well established لڑکے سے شادی کر دیں، یا پھر دین سے دور مگر امیر اور well established لڑکے سے کردیں۔۔۔۔!!
انہیں پتا تھا کہ رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن انہوں نے well established لڑکے کا انتخاب کیا، بات چلی اور پکی ہو گئی، شادی کی تاریخ بھی آن پہنچی،،، چونکہ وہ دین سے دور تھا، تو شادی میں نکاح کے خطبہ کے علاوہ کچھ بھی اسلام کی جھلک نظر نا آئی، لڑکے والوں نے جہیز سمیت دیگر مطالبات بھی رکھے جو پورے کرنے پڑے، خیر ہنسی خوشی شادی ہو گئی،، لیکن شادی کے اگلے مہینے لڑکے کی نوکری ختم ہوئی پھر ان کا خاندانی کاروبار ڈوب گیا، قرضے اتارتے اتارتے، وہ سڑک پر آگئے۔۔۔۔۔! چونکہ اس لڑکے اور اس کے خاندان کا دینی مزاج بھی کوئی خاص نہیں تھا، چنانچہ تازہ شادی کے باوجود گھریلو ناچاکی بھی پیدا ہو گئی۔
۔
دوسری طرف دینی مزاج رکھنے والے مگر not well settled لڑکے کو ایک دینی مزاج رکھنے والی لڑکی کا ہی رشتہ مل گیا، ان کی بھی شادی ہو گئی، لیکن نا تو جہیز ہوا نا ہی مہندی، نا بارات آئی۔۔۔۔۔ سادہ طریقہ سے سنت نبوی ﷺ کے مطابق ،مسجد میں جمعہ کے وقت نکاح ہوا، تمام اخراجات سادگی کے ساتھ لیکن دولہے کے خاندان کی طرف سے ہی ادا ہوئے ۔ بغیر کسی بوجھ اور تکلف کے لڑکی کو رخصتی بھی ہو گئی۔ مغرب کے بعد ولیمہ تھا،جس میں سادگی سے لڑکے اور لڑکی کے قریبی عزیزوں نے شرکت کی. اگلے ہی ہفتے لڑکے کو اچھی خاصی تنخواہ پر نوکری مل گئی؛ چونکہ شادی کی بنیاد مکمل طور پر سنت نبوی ﷺ پر تھی، دونوں میاں بیوی اور سسرال میں محبت و الفت بھی خوب پیدا ہوئی۔۔۔ اور ہنسی خوشی زندگی گزرنے لگے۔
میرے نبی محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سچ ہی فرمایا تھا۔۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ::: اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا ) سُنن الترمذی و سنن ابن ماجۃ
وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (بیہقی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو(مسند احمد)
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کے بارے میں تُم لوگوں کو جو حُکم دِیا ہے اُس میں اُس کی اطاعت کرو ، اللہ نے تُم لوگوں سے تونگری(رزق میں برکت) دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا
وَقَالَ عُمَرُ ، عَجِبْتُ لِمَنِ ابْتَغَى الْغِنَى بِغَيْرِ النِّكَاحِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:
اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا ، میں اس کے بارے میں حیران ہوں جو نکاح کیے بغیر تونگری (غنیٰ /رزق میں برکت ) چاہتا ہے ، جبکہ اللہ عَز ّو جَلَّ تو کہتا ہے کہ، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا(معالم التزیل فی تفسیر القران، المعروف بالتفسیر البغوی)
عن عبداللہ بن مسعود،،،التَمِسُوا الغِنَى فِي النِّکاح ،،، يَقُولُ اللہُ تَعالیٰ ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ُ)کے بارے میں روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا )نکاح میں تونگری تلاش کرو ،،، اللہ تعالیٰ کہتا ہے،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں(تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا ، ( تفسیر الطبری)
اللہ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ جو خبر کروائی ہے حق ہے کہ
لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا :::اگر تُم لوگ اللہ پر توکل کا حق ادا کرتے ہوئے توکل کرو تو یقیناً وہ تم لوگوں کو اُس طرح رزق دے گا جِس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ صُبحُ کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ ہوتے ہیں(سُنن ابن ماجہ)
بیٹی کی شادی کے لئے ان کے پاس دو راستے تھے، یا تو ایک دینی مزاج رکھنے والے پڑھے لکھے مگر not well established لڑکے سے شادی کر دیں، یا پھر دین سے دور مگر امیر اور well established لڑکے سے کردیں۔۔۔۔!!
انہیں پتا تھا کہ رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن انہوں نے well established لڑکے کا انتخاب کیا، بات چلی اور پکی ہو گئی، شادی کی تاریخ بھی آن پہنچی،،، چونکہ وہ دین سے دور تھا، تو شادی میں نکاح کے خطبہ کے علاوہ کچھ بھی اسلام کی جھلک نظر نا آئی، لڑکے والوں نے جہیز سمیت دیگر مطالبات بھی رکھے جو پورے کرنے پڑے، خیر ہنسی خوشی شادی ہو گئی،، لیکن شادی کے اگلے مہینے لڑکے کی نوکری ختم ہوئی پھر ان کا خاندانی کاروبار ڈوب گیا، قرضے اتارتے اتارتے، وہ سڑک پر آگئے۔۔۔۔۔! چونکہ اس لڑکے اور اس کے خاندان کا دینی مزاج بھی کوئی خاص نہیں تھا، چنانچہ تازہ شادی کے باوجود گھریلو ناچاکی بھی پیدا ہو گئی۔
۔
دوسری طرف دینی مزاج رکھنے والے مگر not well settled لڑکے کو ایک دینی مزاج رکھنے والی لڑکی کا ہی رشتہ مل گیا، ان کی بھی شادی ہو گئی، لیکن نا تو جہیز ہوا نا ہی مہندی، نا بارات آئی۔۔۔۔۔ سادہ طریقہ سے سنت نبوی ﷺ کے مطابق ،مسجد میں جمعہ کے وقت نکاح ہوا، تمام اخراجات سادگی کے ساتھ لیکن دولہے کے خاندان کی طرف سے ہی ادا ہوئے ۔ بغیر کسی بوجھ اور تکلف کے لڑکی کو رخصتی بھی ہو گئی۔ مغرب کے بعد ولیمہ تھا،جس میں سادگی سے لڑکے اور لڑکی کے قریبی عزیزوں نے شرکت کی. اگلے ہی ہفتے لڑکے کو اچھی خاصی تنخواہ پر نوکری مل گئی؛ چونکہ شادی کی بنیاد مکمل طور پر سنت نبوی ﷺ پر تھی، دونوں میاں بیوی اور سسرال میں محبت و الفت بھی خوب پیدا ہوئی۔۔۔ اور ہنسی خوشی زندگی گزرنے لگے۔
میرے نبی محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سچ ہی فرمایا تھا۔۔ کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ::: اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا ) سُنن الترمذی و سنن ابن ماجۃ
وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (بیہقی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو(مسند احمد)
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کے بارے میں تُم لوگوں کو جو حُکم دِیا ہے اُس میں اُس کی اطاعت کرو ، اللہ نے تُم لوگوں سے تونگری(رزق میں برکت) دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا
وَقَالَ عُمَرُ ، عَجِبْتُ لِمَنِ ابْتَغَى الْغِنَى بِغَيْرِ النِّكَاحِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:
اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا ، میں اس کے بارے میں حیران ہوں جو نکاح کیے بغیر تونگری (غنیٰ /رزق میں برکت ) چاہتا ہے ، جبکہ اللہ عَز ّو جَلَّ تو کہتا ہے کہ، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا(معالم التزیل فی تفسیر القران، المعروف بالتفسیر البغوی)
عن عبداللہ بن مسعود،،،التَمِسُوا الغِنَى فِي النِّکاح ،،، يَقُولُ اللہُ تَعالیٰ ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ُ)کے بارے میں روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا )نکاح میں تونگری تلاش کرو ،،، اللہ تعالیٰ کہتا ہے،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں(تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا ، ( تفسیر الطبری)
اللہ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ جو خبر کروائی ہے حق ہے کہ
لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا :::اگر تُم لوگ اللہ پر توکل کا حق ادا کرتے ہوئے توکل کرو تو یقیناً وہ تم لوگوں کو اُس طرح رزق دے گا جِس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ صُبحُ کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ ہوتے ہیں(سُنن ابن ماجہ)
تبصرہ لکھیے