ہوم << آزادی رائے کو بھونکنے دیں؟ آصف محمود

آزادی رائے کو بھونکنے دیں؟ آصف محمود

آصف محمود محمود خان اچکزئی پھر بولے، پھر سلیم احمد مرحوم کی یاد آئی. 80 کی دہائی میں انہوں نے لکھا تھا:
”آزادی رائے کو بھونکنے دو.“
زندہ ہوتے تو حاضر ہوتا اور پوچھتا: کب تک اور کتنا.
قومی اسمبلی میں خان صاحب نے فرمایا کہ فاٹا کی حیثیت کو مت چھیڑیں ورنہ یہ بین الاقوامی ایشو بن جائے گا.
فاٹا کی حالت ہمارے سامنے ہے. ایف سی آر کے نام پر لاقانونیت. مروجہ آئینی سکیم میں وہاں سپریم کورٹ کو حق نہیں کہ کسی کی داد رسی کر سکے. پولیٹیکل ایجنٹ یہاں کا ان داتا ہے. اور بہت سے مسائل ہیں. چنانچہ اسے قومی دھارے میں لانے اور بنیادی حقوق دینے کی خاطر فاٹا ریفارمز کمیٹی بنائی گئی. ایک طویل مشاورت کا عمل ہوا جو جاری ہے. بہت سی تجاویز زیر غور ہیں کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے یا کے پی کا حصہ بنایا جائے. عمران خا ن کی تجویز ہے کہ ایک مرحلے پر اسے کے پی کا حصہ بنا دیا جائے. یہ معاملات آگے کو بڑھ رہے تھے کہ اچانک اچکزئی صاحب اپنی آزادی رائے سمیت بیچ میں کود پڑے.
سوال یہ ہے کہ کیا ان کا تعلق فاٹا سے ہے؟
کیا وہ فاٹا سے منتخب رکن اسمبلی ہیں؟
کیا وہ فاٹا کے نمائندے یا ترجمان ہیں؟
فاٹا کے بارے میں فاٹا کے منتخب نمائندوں کی مرضی سے اور فاٹا ریفارمز کمیٹی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد اگر منتخب پارلیمان کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ٹھیک ہے آپ مشورہ دیں، رائے دیں لیکن کس استحقاق کی بنیاد پر آپ کی بات کو حرف آخر سمجھ لیا جائے؟ فاٹا پاکستان کا علاقہ ہے، آپ کی جاگیر کا پائیں باغ نہیں.
نیز یہ کہ یہ معاملہ بین الاقوامی ایشو کیسے بن جائے گا؟ اچکزئی کے کس ممدوح ملک کو اس سے تکلیف ہوگی کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ بن جائے گا؟ افغانستان کو یا بھارت کو؟ کس کی شہ پر یہ دھمکی دی جا رہی ہے؟
اچکزئی کس کی زبان بول رہے ہیں؟ کس کی شہ پر ان کا دہن مبارک آگ اگل رہا ہے؟ پاکستان کا ایک داخلی مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ کیسے بن جائے گا؟
سلیم احمد نے ٹھیک کہا ہوگا مگر کب تک اور کتنا؟