ہوم << کیا سیکولر کافر ہمارے مفاد میں ہے؟ رضوان اسد خان

کیا سیکولر کافر ہمارے مفاد میں ہے؟ رضوان اسد خان

رضوان اسد خان ”تم جو ہر روز سیکولرزم کے خلاف کیل کانٹے سے لیس ہو کر نکل پڑتے ہو، کیا تمہیں یہ پتہ ہے کہ بھارت میں سیکولرزم کی وجہ سے ڈاکٹر ذاکر نائک، دہشتگردی میں معاون قرار دیے جانے سے پہلے جتنا بولتا رہا ہے، اتنا تو پاکستان میں بھی نہیں بول سکتا تھا۔ اور نعمان علی خان جو کچھ سیکولر امریکہ میں کہہ سکتا ہے، اس کے مقابلے میں سعودی اسلامی حکومت تو اسے چار بندے اکٹھے کرنے کی اجازت نہ دے۔ اور یہ جو تمہارے تبلیغی بھائی ہر کافر ملک میں گھس کر اسلام پھیلاتے پھرتے ہیں، یہ سیکولرزم کی ہی ’برکات‘ ہیں۔ کیا کسی اسلامی حکومت میں اتنی اخلاقی جرٱت ہے کہ غیر مسلموں کو اپنے ملک میں تبلیغ کی اجازت دے؟ تم لوگ تو نماز روزے جیسے ’انتہائ ذاتی‘ معاملات بھی لوگوں سے ڈنڈے کے زور پہ کروانا چاہتے ہو عرب ’بدوؤں‘ کی طرح۔ کیا سمجھے؟“
آج وہ خوب تپا ہوا اور اپنے تئیں دلائل سے ”مسلح“ تھا۔
”یار تم بھی بڑے بھولے بادشاہ ہو۔ میری جان سیکولرزم کی ڈھال کے پیچھے ہی تو کفر کی بقا ہے۔“
”واہ واہ۔ کیا منطق ہے۔ تم تو کہتے ہو ان ملکوں میں اسلام بڑا پھیل رہا ہے۔ اور اب کہہ رہے ہو کہ سیکولرزم کے بغیر یہ ختم ہو جاتے۔ کچھ تو عقل کے ناخن لو.“
ہاں یہ پیچیدگی ضرور ہے۔ اور بظاھر یہ ایک پیرا ڈاکس لگتا ہے لیکن حق یہی ہے۔ اور وجہ اس اجمال کی یہ ہے کہ کفر جانتا ہے کہ اس کے پاس اپنے حق ہونے کی کوئی ایک بھی ایسی ٹھوس دلیل نہیں جس سے وہ آج کے سائینٹفک ذہن کو متاثر کر سکے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام سے بھی زیادہ تیزی سے وہاں الحاد پھیل رہا ہے۔ اگر ہر ملک اپنا اپنا اکثریتی مذہب ریاستی سطح پر نافذ کر دے تو اسے بیک وقت دو عظیم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو اس کے اپنے لوگ کسی بھی ایسی دینی رسم، مثلاﹰ چرچ یا مندر میں لازمی حاضری یا جبری چندہ وغیرہ، پہ عمل کرنے سے انکار کر دیں گے جو ان کی عقل میں نہ آتی ہو۔ اور جمہوریت کے ارتقاء کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ وہ اسے اپنے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق پہ ڈاکہ متصور کریں گے۔ کہ یہی تو وہ چیز ہے جسے وہ ’ڈارک ایجز‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جس سے چھٹکارے کے لیے انہوں نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔
اور دوسرا بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ چونکہ کسی بھی دوسرے مذہب میں اقلیتوں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو اسلام میں ہیں۔ اور یہ میں کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہا بلکہ تاریخ اس پر شاہد ہے۔ مجوسی ظلم و تکبر نے فارس کو اسلام کے زیر نگیں کیا۔ چرچ کے زیر اثر یورپ نے عیسائیت کو اسلام کے خلاف کھڑا کر کے صلیبی جنگوں کا تحفہ دیا۔ ہندو راجہ داہر کے اچھوت مسلمانوں کے ساتھ سلوک نے برصغیر میں اسلامی یلغار کو دعوت دی اور ماضی قریب میں بندے ماترم کے جبری نفاذ نے پاکستان کو اکھنڈ بھارت سے کاٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاتاری یلغار نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے کافی حد تک جگایا اور ابن تیمیہ جیسے بطل جلیل کے تحت متحد کیا۔ اور تم دیکھو کہ آج ایک صیہونی ریاست کے خلاف دنیا بھر کے مجاہدین اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ اس ناسور کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ لہٰذا سیکولرزم کو کفار نے ہمارے فائدے کے لیے نہیں بلکہ اپنی حفاظت کے لیے اختیار کر رکھا ہے کیونکہ ہم سے کہیں بہتر وہ یہ جانتے ہیں کہ جس دن اس کا خاتمہ ہوا، مسلم امہ ان کے خلاف ایک ہو جائے گی اور پھر ان کی بقا مشکل ہے۔
اور یہ سیکولرزم بھی منافقانہ ہے۔ اس کی کئی مثالیں تمہیں بش کے افغانستان پر حملے کو صلیبی جنگ قرار دینے، بھارت میں آئے دن انتہا پسند ہندوؤں کی زیادتیوں اور حکومت کی خاموش حمایت، چین میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندیوں، برما میں مسلمانوں پر حالیہ ریاستی ظلم، فرانس میں حجاب پر پابندی وغیرہ وغیرہ میں مل سکتی ہیں۔
باقی اگر اس کا کوئی فائدہ اسلام کو پہنچتا ہے اور اللہ جمہوریت اور سیکولرزم جیسے فاسد نظاموں سے مسلمانوں کی آسانی کی راہ نکالتا ہے تو یہ اس کی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ کا مظہر ہے کہ وہ کفار کی چالوں کو انہی پر الٹ دیتا ہے اور پھر ان سے فرماتا ہے، ’موتوا بغیظکم‘، کہ اپنے ہی غصے اور غیظ و غضب میں (بے بسی سے) مر مٹو.