ہوم << کتنا ہے مہربان رب اور بھلا کتنا زیادہ؟ حافظ یوسف سراج

کتنا ہے مہربان رب اور بھلا کتنا زیادہ؟ حافظ یوسف سراج

یوسف سراج کسی نے کہیں لکھا: ”سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اللہ اتنا مہربان کیوں ہے؟“
اس پر میں نے جو کچھ وہاں لکھا، جی چاہا وہی کچھ آپ سے بھی شئیر کر لوں. کیا عجب کہ کائنات کے اس سب سے اہم تر معاملے کی کچھ نہ کچھ ہمیں وسعت و حقیقت سمجھ آ سکے اور کیا عجب کہ کسی ایک لمحے کوئی ایک لفظ کسی ایک بھی دل کی دنیا بدل دے اور یوں اس کی وسیع رحمت کی وسعت کا کوئی ایک قطرہ اس خاکسار کا بھی نصیبہ سنوار دے.
تو بھلا یہ ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ وہ رب ہم پر اتنا مہربان کیوں ہے؟
جب ایک خاردار بیری کا درخت پتھر کھاتا اور ہر پتھر کے جواب میں اپنی کوکھ کا بہترین پھل پتھر مارنے والے کو لوٹاتا ہے. جب ایک باپ اپنی گستاخ اور بےمہر اولاد کی ساری غلطیاں اپنی جان پر جھیل کر بھی اولاد کے لیے دعا و دوا اور جہد و جستجو کے طوفان اٹھائے رکھتا ہے. جب ایک بادل برسنے پر آئے تو سبزہ و گل پر ہی نہیں پتھر وصحراور کچرے و کوڑے پر بھی بے دریغ بارش برساتا چلا جاتا ہے. جب ایک سورج اپنے ہر دفعہ طلوع ہونے پر کائنات کی اک اک چیز کو اپنی تابناک کندن میں بھگو کے سونا بناتا جاتا ہے. جب چودھویں کا کوئی ایک چاند محض اپنی فطرت پر کاربند رہتے ہوئے رات میں چھپے ذرے ذرے کو سیال چاندی کے گھونٹ پلاتا جاتا ہے. جب ایک محب اپنی کسی بھی خاکی و خستہ محبوب ہستی پر اپنی جان تک دان اور قربان کرتا چلا جاتا ہے. جب کسی نامعلوم اجنبی راہ گیر و مسافر آدمی کے لیے، کسی ناواقف مظلوم و مجبور کے لیے، کسی اجنبی بھوکے اور بے بس کے لیے ہم ایسے سخت دلوں کا بھی دل پسیج پسیج جاتا ہے.
تو وہ جو ان سب سے ماورا ہے، اعلیٰ و بالا ہے، بہتر و برتر ہے، جو ان سب کا خدا ہے اور سچا الہ ہے. وہ جس کی دی محبت کے ایک قطرے سے سیراب ہوئے لوگوں کے ایثار و اعجاز کا یہ عالم، یہ منظر اور یہ محبت نامہ ہے اور،،، اور اسی قطرہ کا ماخذ و منبع جس کے پاس قلزم بیکراں ہے.
وہ جس نے اپنے عرش پر، اپنی رحمت کو اپنے غصے پر چھا جانے کو اپنی سنت و عادت کا سرنامہ لکھوا رکھا ہے.
اسی خالق کے اپنی مخلوق پر اس قدر مہربان ہونے پر گر ہمیں حیرت ہو تو پھر حیرت کو کیوں نہ ہماری فہم کی اس نارسائی پہ صد بار بلکہ بہزار حیرت ہو.
اے سوچنے اور پوچھنے والے دوست! جانیے کہ اگر وہ مہربان اور اتنا ہی مہربان ہے تو اور وجوہات کے علاوہ بس اور محض اس لیے بھی ہے کہ وہ خدا ہے اور ایک خدا کو اپنی مخلوق پر بس مہربانی ہی روا ہے. ہزار باپ سے بھی زیادہ، اور صد ہزار ممتائوں کے ممتا نامی طلسم سے بھی زیادہ. اور زیادہ!
سچ ہی کہا قرآن مجید نے آہ! ہم اسے کبھی نہ سمجھ سکنے والوں کے بارے میں، قرآن نے کہا بھی تو یہ کہا،
[pullquote]وماقدرواللہ حق قدرہ[/pullquote] انسانوں نے اپنے رب کی حقیقی قدر ہرگز نہ جانی، کبھی نہ جانی اور کہیں نہ جانی.
قدر بھلا ہم جانتے بھی کیسے؟ کہ یہاں تو جو حال ہے، وہ کچھ یوں بےحال ہےکہ ہم
[pullquote]وما عرفو اللہ حق عرفہ [/pullquote] نمونے ہیں. یعنی ہم تو اسے محض اچھی طرح جان بھی نہ سکے. اتنا بھی نہیں، جتنا اپنے پہلو میں سوئی بیوی کو، اپنے سامنے پلتی اولاد کو یا پھر اپنے کسی محبوب کو جانتے ہیں.
آہ ! جب عالم یہ ہو تو پھر بھلا ہم اس کی قدر پہچانیں بھی تو آخر کس طرح کہ جاننا تو ماننے اور قدر پہچاننے کی پہلی ہی سیڑھی ہے اور ہم ابھی یہیں پہلی سیڑھی پر مارے حیرت کے دم سادھے کھڑے ہیں.
تو اے لوگو!
سنو ، ایک بنجارے کی بات سنو!
سنو! تمھارا رب اتنا مہربان، اتنا مہربان اور اسی کے أنواع و اقسام کے لامتناہی رحم و کرم کی قسم! وہ اتنا مہربان ہے کہ تم نے اس کے رحم کو کبھی ہرگز جانا ہی نہیں ہے.
وہ اتنا مہربان ہے، اتنا مہربان ہے کہ خود عالمین کے لیے سراپا رحمت ہو جاتے نبی نے اس کی مہربانی کو بتایا تو ایک بار یوں کہ اس کی مہربانی کو دیکھتے کبھی تو یوں بھی لگتا ہے کہ اس کی موسلا دھار اور گرج چمک کے سنگ برسات کی طرح برستی رحمت سے کوئی کافر بھی بن بخشے بچ کے نہ جا سکے گا.
سو تم جو مومن ہو، اس کے نام سے اور اس کے کام سے کہیں اور کچھ نہ کچھ جڑے ہو. برا یا بھلا، کمزور و ناتوں یا بے نام و نشان سا ہی سہی، اس سے جو کوئی ایک تعلق سا رکھتے ہو تو خدارا اس کی مہربانی کو زندگی کے کسی ایک لمحے رک کر، کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ تو جان ہی لو نا!
سنو! وہ اتنا ہی مہربان ہے جتنا کہ ایک لہریں لیتا لامتناہی سمندر، بلکہ اور زیادہ،
اور وہ اتنا ہی مہربان ہے جتنا کہ کوئی ان گنت ذروں میں بکھرا بےانت پیاسا صحرا مگر اور زیادہ،
وہ اتنا ہی مہربان ہے جتنی رحمۃ اللعالمین سمیت ساری انسانیت کی کل مہربانی بلکہ کہیں زیادہ، اور زیادہ .
وہ اتنا ہی مہربان ہے جتنا کل مخلوقات کا اثاثہ تصور و خیال ہے بلکہ مخلوقات کی تعداد سے، سو گنا سے بھی زیادہ، اور زیادہ.
سنو! ایک آدمی اپنے زندگی بھر کے سرکش گناہوں کے باوجود اس کی رحمت کی لپیٹ میں محض اس لیے آ گیا کہ کسی ایک دن کسی ایک راہ سے اس نے بس کوئی ایک خاردار ٹہنی ہٹا دی تھی اور اس کے سوا اور کچھ نہ کیا تھا.
اور ایک شخص اپنی وصیت کے مطابق، ایک ایسی وصیت کے مطابق کہ جو اس نے دم آخر اپنی زندگی کے گناہوں سے ڈر کے اپنے رب کی گرفت میں آنے سے بچنے کی تدبیر کے طور پر اپنی اولاد کو کی تھی، اسی وصیت کے بموجب جلا دیا گیا، اور پھر راکھ ہو کر ہوا میں اڑا اور دریا میں بہا دیا گیا. سنو! یہی شخص محض ایک جملے میں بخش دیا گیا. وقت ملاقات رب نے پوچھا، یہ سب ”جلاؤ گھیراؤ“ کیوں کیا؟ کہنے لگا مولا جی! اپنے کرتوتوں کے باعث آپ کی گرفت سے ڈرتا جو تھا، اس لیے جو اوٹ پٹانگ سوجھا سو کیا . اسی ایک بات پر مولا نے کہا بس اسےجنت بھیج دو. حساب کو اور بہت!
یاد آیا کہ ایک ایسی عورت بھی بخشی گئی کہ جیسی کسی بھی بدنام محلے کی کوئی بھی بدنام ترین حوا کی کوئی ایک بیٹی ہو سکتی ہے. وہ محض اس لیے تپشاں جہنم سے بچا لی گئی کہ کسی ایک تپتی جون کی دوپہر میں اس نے بس کسی ایک پلید کتے کو چند بوندیں پانی پلا دیا تھا.
ہاں سنیے تو! اس رب کے بارے میں، ایک دن مدینہ کے سلطان نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک شخص نے رب سے یوں ملاقات کی کہ پلے کچھ نہ تھا. بار بار مولا نے کہا، پیش کر غافل عمل اگر کوئی دفتر میں ہے. اس نے کہا کوئی نہیں. پھر جب مولا بہت پوچھ چکا تو جھجھکتے شرماتے اس نے کہا، ہاں اتنا سا البتہ ضرور ہے کہ مجھ تاجر کے کارندے اور ہرکارے جب کبھی وصولیوں کو جاتے تو میں کہتا کوئی مہلت مانگے تو اسے بےدریغ مہلت دے دینا اور جو کوئی تنگدست دیکھو تو بن سوچے فی الفور اسے معاف کر دینا. عمر بھر کی رپورٹ کی جگہ اتنی سی اس نے بات کی اور یہ بھی بخش دیا گیا.
سو اے لوگو! اے اس کی مخلوق ہوتے انسانو!
اپنے اس مہربان رب کو پہچانو!
سنو! تم بس اپنے سادہ سے گمان کو حسن گمان کرلو اور رب کے بارے اپنے الٹے سیدھے ظن کو حسن ظن بنا لو اور یہ بھی جان لو حسن الظن باللہ ہوالعبادہ، اس کے بارے حسن رکھنا بھی ایک عبادت ہے بلکہ کہیں زیادہ.
ہاں جہاں اتنا جانا، جاتے جاتے یہ بھی جان لو کہ اس نے اپنے بارے خود ہی ایک پتے کی اور بڑے راز کی بات بھی بتا رکھی ہے. اس کا کہنا ہے کہ [pullquote]انا عند ظن عبد بی ![/pullquote] میں اپنے بندے کے، میرے بارے میں روا رکھے گئے اس کے حسن ظن جتنا ہی مہربان ہو جاتا ہوں.
سو اے لوگو! اے انسانو!
بڑھا دو اپنے حسن ظن کو اور اسے کردو اسے پہلے سے اور زیادہ!

Comments

Click here to post a comment