فیصلہ تو یہ تھا کہ ایک ایسے دور میں کہ جب ہم ایک مشکل فکری اورعملی جنگ میں گھٹنوں تک پھنسے ہوئے ہیں کسی بھی حساس معاملے پر ایک لفظ بھی بول کے نہیں دینا۔ کہ ایک زندگی پڑی ہوئی ہے ابھی تو اپنے حصے کا انتشار پھیلانے کے لیے۔ پرکیا کِیا جائے کہ سوشل میڈیا پہ مسلسل آپ کا واسطہ ایسی مخلوق سے رہتا ہے جو کبھی بھی آپ کے مہذب اِرادوں کو عملی جامہ پہننے کا موقع میسر نہیں آنے دیتی۔ کان نمک میں نمک بنے بِنا چارہ ہی نہیں رہتا کوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاملہ ہر دو اطراف کے انتہا پسندوں کے ہاتھ چڑھا ہوا ہے ابھی تک۔ کوئی معتدل اور معقول بات نہ تو سننے کو ملی ہے اور نہ ہی کوئی کہنے کو تیار ہے شاید۔
ایک طرف تو وہ متشددین ہیں جنہوں نے بظاہر اپنے چہروں پہ لبرلزم اور سیکولرزم کے خوبصورت مکھوٹے تو چڑھا لیے ہیں مگر اپنے اندر کی شدت اور انتہا پسندی کو چھلکنے سے روکنے میں اکثر ناکام ہی رہتے ہیں۔ کچھ مخصوص وجوہات کی بنا پر اِن حضرات نے خود کو نہ صرف ایک نفرت بھرے خول میں بند کیا ہوا ہے بلکہ ہر ایشو اور ہر معاملے پر جلی کٹی سنانے اور اداروں کی طرف طنز اور تشنیع کے تیر چلانے کو ہی انھوں نے جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی سمجھ رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ خاص پیجز شاید اسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائے جا رہے ہیں کہ فکری انتشار کا شکار اس بےچاری قوم کو مزید کنفیوز اور تقسیم درتقسیم کیا جائے اور اس کھسکے ہوئے گروہ کی زمین پر کوئی جگہ پیدا ہو جائے جسے پائوں ٹکانے کے لیے اس دھرتی پر دو گز بھی میسر نہیں۔ کوئی بھی دن کوئی بھی موقع ہو یہ حضرات اپنی پٹاری سے نیا مال نکال لاتے ہیں، لوگوں کو کنفیوز کرتے ہیں اور پھر آگ لگا کر صرف تماشا دیکھتے ہیں۔
دوسری طرف کا حال کیا بیان کریں کہ یہ مسخروں کا ایسا گروہ ہے کہ انہیں دیکھ کر پہلے والے غنیمت لگتے ہیں۔ لال ٹوپی والے ایک صاحب اِس طرف کے خود ساختہ گُرو ہیں۔ روزگھٹیا اور سطحی پن کا نیا ریکارڈ قائم کرتے ہیں اوراگلے روز بفضلِ ربی خود ہی اسے توڑ کر اگلی منزلوں کو روانہ ہوتے ہیں۔ ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“ کا یہی مطلب سمجھ آیا ہے شاید انہیں، اور صدقِ دل سے اس پر عمل پیرا ہیں۔ خیر ہماری طرف سے جہنم میں جائیں مگر ان کے واہیات پنے کو دیکھ کر ہر خِردمند چاہتے ہوئے بھی کوئی ایسی بات کرنے سے گھبراتا ہے کہ جس سے اس پہ اِدھر سے تعلق کا ذرا سا بھی شبہ کیا جا سکے۔ خود اپنی بھی یہی حالت ہے۔
پہلے بھی عرض کیا تھا، مکرر کہے دیتے ہیں کہ ٹوئٹر اکائونٹ سے ایک بہت ہی لائوڈ شٹ اپ کال کی ضرورت ہے ان صاحب کو۔ گو کہ اِن حضرت نے باز پھر بھی نہیں آنا اس مسخرہ پن سے مگر اس کے بعد کم سے کم فائدہ یہ ہو گا کہ لوگ صرف اِن ہی پر ہنسا کریں گے، ادارے کی جان تو چھوٹے گی۔ ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ مسخریاں یہ کرتے ہیں اور لوگ ہنستے پنڈی کی طرف منہ کر کے ہیں۔ اس گروہ کی طرف سے دلیل سازی کی جو فیکٹریاں لگائی جاتی ہیں، ان کا مال ہمیشہ ہی انتہائی ناقص ہوتا ہے اور بس اپنی جگ ہنسائی کا سامان ہی کیے جاتے ہیں۔ موٹروے پر اوور اسپیڈنگ کو دشمن ملک کی طرف بڑھتے ٹینکوں سے جا ملانے والی پوسٹس کس قدر مضحکہ خیز ہیں، یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب آپ پڑھے لکھوں کو یہ سب فخریہ شیئر کرتے دیکھتے ہیں تو پڑھائی لکھائی سے ہی ایمان اٹھ جاتا ہے اور اپنی جہالت اللہ کی عظیم نعمت معلوم ہوتی ہے۔
اس معاملے میں جس اصل پہلو کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے اور بحثیت قوم جو ہمارے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے، وہ ہے قانون کی عملداری کا بہت کمزور تصور اور طاقتور اور کمزور کے لیے ہمارے الگ الگ معیارات۔ کسی ایک گروہ یا ادارے پر کیا موقوف، ہم تو من حیث المجموعی اس علتِ بد کا شکار ہیں۔ طرفہ لطیفہ یہ ہے کہ بہت سے یار لوگ اس نکتے کے بعد سیدھا حکمرانوں، سیاست دانوں، اشرافیہ اور اسٹیبلیشمنٹ پر چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
بھائی لوگو!
اصل حقیقت تو یہ ہے کہ بظاہر کمزور گنے جانے والے ہمارے طبقات میں سے اگر کسی کے دُور کے چاچو ماموں بھی پولیس مِیں انسپکٹر ہو جائیں تو شہر کی سڑکوں کو اپنے والد صاحب کی جاگیر سمجھنے لگتے ہیں ہم اور چالان کروانے کو اپنی توہین گردانتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اگر ہم خود تو اُس مربی کو فون لگانا اپنا پیدآئشی حق سمجھتے ہوں، اور مطالبہ ہمارا اُن کپتان صاحب سے انصاف کا ہو، کہ والد صاحب جن کے جرنیل بھی ہوں تو دِل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے، کیا یہ زیادتی نہیں ہے، تھوڑی سی، خود ہم سے اگر اپنا چھوٹا سا ااختیار ہضم نہیں ہو پاتا تو بڑے اختیار والوں سے ایسی توقع کیوں؟
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ادارے، یہ اسٹیبلشمنٹ، یہ اشرافیہ، یہ حکومت، یہ سیاستدان، سب ہم ہی تو ہیں، ہمارا ہی چہرہ ہے یہ، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ان کی من مانیوں پر کوئی قدغن ہو تو اپنی دسترس کے غلط مواقع سے دستبردار ہونے کا حوصلہ بھی پیدا کیجیے خود میں، وگرنہ جھیلتے رہنا پڑے گا یہ سب، کہ یہی اس دنیا کا قانون ہے۔ اپنے حصے کی ساری ناانصافیاں کر تے ہوئے دوسروں سے انصاف کی امید رکھنا عبث ہے۔
جو سمجھ پائیں تو آپ کا بھلا، اور نہ سمجھنے والوں کی تو موجیں لگی ہی ہوئی ہیں پہلے سے
تبصرہ لکھیے