ہوم << بڑے میاں - اک یاد کی خوشبو ہے کہ جاتی نہیں دل سے - قدسیہ جبیں

بڑے میاں - اک یاد کی خوشبو ہے کہ جاتی نہیں دل سے - قدسیہ جبیں

ذہن کی دیوار پر سجا یہ سب سے پرانا فریم ہے جس پر وقت کے گرد و غبار نے جالے سے بن دیے ہیں.
یہ تصویرایک تین سے چار سالہ بچی کے ہاتھ سے بنی جس نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کے خط کھینچے اور اس میں رنگ بھرے. سو اول روز سے اناڑی ہاتھوں سے بنی اس ناقص سی تصویر کے سب رنگ گردش دوراں سے ماند پڑ چکے ہیں. نسل نو کے لیے شاید یہ کسی رومانوی کہانی کے ایک خیالی کردار سے بڑھ کر کچھ نہ ہو، جسے کوئی رک کر دیکھنا تک گوارا نہ کرے. فریم کے چوکھٹے میں بنے کردار کاچہرہ وقت کی دھول مٹی سے اٹ کر اپنے سب نقش کھو چکا ہے اور باقی جو بچا ہے بس اسی کا بیان مقصود ہے.
خدا جانے ٹیگور نے اپنے شاہکار ”کابلی والے“ کو کس کیفیت قلبی میں لکھا تھا اور تحریر کے دوران اس کے اندر کا بچہ کیسے زندہ ہو کر چلنے پھرنے لگا تھا مگر نوعمری میں اسے پڑھ کر ہم نے فوری رد عمل کے طور پر سوچا کہ دنیا کی سب منیوں (منی کی جمع) کے اردگرد ضرور کوئی بڑے میاں ہوتے ہیں اور یہ پہلا موقع تھا جب بڑے میاں کے غیاب کے بعد ہم نے پوری توجہ سے انہیں سوچا اور اپنے دل میں ان کے لیے بے پایاں محبت کا سمندر بہتا دیکھا.
ایک منے سے دیہات کے باہر کھیتوں کے بیچوں بیچ گزرتی تارکول کی کالی سڑک کے ایک طرف اپنے مختصر سے گھر کی کھڑکی میں لگی لوہے کی سلاخوں کو مضبوطی سے پکڑے باہر کی دنیا کا نظارہ ہمیں کھیل سے بھی زیادہ مرغوب تھا.گھر کےبالکل سامنے سیاہ سڑک کے اس پار سرخ شفاف اینٹوں کی ایک چوڑی پگڈنڈی شروع ہو جاتی جس کے گردا گرد جنگلی کیکر اور پاپولر کے چھوٹے بڑے درخت جھومتے رہتے اور وہ زلف یار کی طرح ہلکا سا خم لیے آگے کو بڑھ جاتی. سبز کائی جمے پانی کے جوہڑ، اس کے پہلو میں لیٹے کشادہ سبزہ زار جس پر چھوٹے بڑے لڑکے دن بھر گاہے بگاہے آکر کھیلتے، چہل قدمی کرتے یا ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے خوش گپیاں لگاتے، اس سے آگے چار دیواری سے بےنیاز چند کمروں اور برآمدے پر مشتمل سرکاری پرائمری سکول کی عمارت جس کا صحن جا بجا لگے سایہ دار درختوں سے بھرا ہوا تھا. ان سب آگے پیچھے ایک قطار میں لیٹے مقامات سے گزر کر یہ خوبصورت پگڈنڈی ان جگہوں کی پشت پر بنی ایک پرشکوہ پیلی عمارت کے سامنے یکدم رک جاتی. ملت ہائی سکول کی یہ عمارت ہماری قریب ترین واحد ہمسائی تھی جہاں دن کے علاوہ رات بھی کچھ باسی قیام کرتے. اور بڑے میاں کا قیام تو شاید مستقلا یہیں تھا. ہمارے لوح خیال پر ان کا جو نقش ابھرتا ہے وہ ایک ضعیف صورت بوڑھے کا ہے جن کا دبلا پتلا جسم گلابی بڑے بڑے پھولوں کی صدری پہنے ہوئے ہے اور جسے کمزوری اور ضعف نے بھی معاش کی فکر سے آزاد نہیں کیا.
جب ہم اپنی کھڑکی میں ٹنگے ملت سکول کی کھٹی کے درختوں میں گھری عمارت کو دیکھتے، پگڈنڈی پر نظر جمائے بڑے میاں کا انتظار کیا کرتے تھے اور وہ اپنے کمزور وجود کو لیے ہلکے قدم اٹھاتے لمحہ بہ لمحہ ہمارے قریب آتے جاتے تو خوشیاں ہمارے ارد گرد بھنگڑے ڈالتی رہتیں. ان کےجھریوں بھرے ہاتھ میں اکثر ایک بالٹی ہوتی، وہ پگڈنڈی کی نوک پر پہنچ کر شفقت لٹاتی آنکھوں سے ہمیں دیکھتے، پھر احتیاط سے سڑک پار کر کے کھڑکی کے باہر لگے نلکے کے دہانے کے نیچے اپنی بالٹی رکھتے. اور آہستہ آہستہ ہاتھ سے نلکے کی ہتھی اوپر نیچے کرتے اسے چلانے لگتے. یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے ہم سے کوئی لمبی چوڑی بات کبھی کی ہو البتہ کبھی وہ پوچھتے تھے ابا کدھر ہیں آپ کے؟ یا اگر ابا اردگرد ہوتے تو وہ ان سے بات کرتے اور اردگرد کی کچی زمین موتیوں اور پھولوں سے بھرتی جاتی جو ان کے منہ سے جھڑ جھڑ کر گرتے جاتے. ہمارا دل چاہتا وہ بولتے جائیں، کبھی خاموش نہ ہوں مگر وہ مختصر سی گفتگو کر کے بالٹی اٹھاتے. اپنا لٹکتی جلد والا ہاتھ بلند کر کے ہم تک اپنے خیرسگالی جذبات پہنچاتے اور سہج سہج چلتے پگڈنڈی کے فسوں میں گم ہو جاتے. دن میں کئی دفعہ بڑے میاں اس راستے پر آتے جاتے تھے، کبھی وہ سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے ہماری کھڑکی پار کر کے آگے بڑھ جاتے اور کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے پر بنی چند ایک دکانوں سے کچھ نہ کچھ خرید کر واپس آجاتے.
جیسے پانی بھرنا اور سودا لانا بڑے میاں کے معمولات تھے، اسی طرح ان کا ایک اور معمول ہماری ذات سے متعلق تھا جس طرح گزرتے سمے وہ ہمیں دیکھ کر پوری توجہ سے مسکراتے اور شفقت کے موتی لٹایا کرتے تھے، اسی طرح ان کی جیب میں ہمیشہ کوئی میٹھی گولی، مونگ پھلی اور ریوڑیوں کے چند دانے، یا کچھ رنگ برنگی ٹانگریاں ہمارے لیے موجود رہتیں جسے سودا خریدتے وقت وہ اپنی محدود تنخواہ میں سے ایک ایسی بچی کے لیے خریدتے تھے جو اپنی گھر کی کھڑکی کے ساتھ لگی اکثر و بیشتر ان کی راہ تکا کرتی تھی.
یو پی سے تعلق رکھنے والے ہمارے بڑے میاں اس ہائی سکول کے چوکیدار تھے. جب کچھ بڑے ہو کر یہ حقیقت معلوم ہوئی تو کتنی دیر تک بےیقینی کی کیفیت ہم پر طاری رہی. ہمارے بڑے میاں تو ایسا نستعلیق بولتے تھے کہ فصاحت گنگ ہو کر ان کا منہ دیکھے، ان کا صاف ستھرا لباس، ان کی شخصیت میں گندھا رکھ رکھائو، ان کی چال ڈھال، اور پھر ان کی شفقت اور محبت لنڈھاتا تبسم، وہ اس سارے ہجوم سے کس قدر مختلف تھے جو پڑھا لکھا کہلاتا ہے مگر ان کی شخصیت کا کوئی پہلو بھی متاثر نہیں کرتا.
بڑے میاں جن کا اصلی نام محفوظ خان تھا مگر وہ ہر چھوٹے بڑے، خاص و عام، بوڑھے جوان میں بڑے میاں کے نام سے پہچانے جاتے تھے. سنتے ہیں کہ وہ بےاولاد تھے اور ہجرت کے بعد قریبی قصبہ میں آبسے تھے. ہماری بستی میں جب چند اہل خیر نے مل کر یو پی ہی کے ایک صاحب کی قیادت میں اپنی مدد آپ کے تحت اس سکول کی بنیاد رکھی تو بڑے میاں یہاں ملازمت کرنے لگے. ابھی ہم سکول بھی داخل نہ ہوئے تھے تو بڑے میاں بیمار پڑ گئے اور سکول چھوڑ اپنے گھر منتقل ہوگئے .یہ بھی یاد نہیں کہ ان کی وفات کی خبر پر ہمارا رد عمل کیا تھا. بس وقت کی دھند بڑے میاں کی تصویر کو مدھم کرتی گئی. کبھی کبھار کسی مشابہت یا کسی بوڑھے کو یونہی بچوں کو اہمیت دیتے دیکھ کر ہمیں بڑے میاں ایک لحظہ کے لیے یاد آتے اور پھر ذہن سے محو ہو جاتے.
2006ء کے جولائی کی ایک ڈھلتی سہ پہر حب صحن حرم مسحور کن خوشبووں میں بسا سارے ماحول کو معطر کر رہا تھا، ہم مقام ابراہیم کے سامنے رکھے ٹھنڈے پانی کے کولروں کی قطار سے ذرا ہٹ کر غلاف کعبہ میں گندھی سنہری تاروں میں اپنی نگاہیں پھنسائے یوں ہی ذہن میں ان سارے افراد کی فہرست کو تازہ کرنے لگے جنہوں نے ہمیں حرم میں خاص اپنے لیے دعا کرنے کو کہا تھا. سیاہ ریشمی غلاف پر چہرے بنتے اور مٹتے رہے، پھر ذہن نے پلٹا کھایا اور زندگی کے مختلف موڑوں پر ملنے والے احباب کے چہروں کا ایک ہجوم سا سامنے آگیا، باب کعبہ سے لے کر حجر اسماعیل تک چہرے ہی چہرے ، نام ہی نام، ان میں وہ بھی تھے جن سے انسیت اور محبت کا تعلق استوار رہا، وہ بھی جن سے کبھی نہ مل سکے مگر ان کے لکھے لفظوں کو پڑھ کر دنیا دیکھنا سیکھا، وہ بھی جن کی بدولت رب کی محبت دل میں آ بسی، بھیگی آنکھوں اور ساکت لبوں سے نکلنے والی دعائیں جب ادھر ادھر بکھر رہی تھیں تو ہم نے دیکھا کہ بڑے بڑے پھولوں والی روئی سے بھری گلابی صدری سنہری تاروں کے جال سے نکلی اور سیاہ ریشم کی دیوار پر ایک لٹکی جلد والے نحیف ہاتھ میں پکڑی بالٹی کے ساتھ گڈ مڈ ہونے لگی.

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment