ہوم << ترقی کے مغالطے - ثاقب ملک

ترقی کے مغالطے - ثاقب ملک

ثاقب ہمارے ہاں چند رٹے رٹائے جملوں کو ترقی کی بنیاد سمجھ لیا گیا ہے. لوگ اپنے اپنے نظریات کی جگالی کرتے ہوئے ہر دوسرے جملے پر جب تک یہ مغالطے اگل نہ دیں انھیں سکون نہیں ملتا. مثلاً تاریخ کی درستگی اور ماضی کی غلطیوں کا اعتراف ہی ہماری ترقی اور مستقبل کی بہتری کے لیے لازم ہے. دوسری جانب اگر آپ تاریخ کو ہی دیکھیں تو کیا برطانیہ، فرانس، اسپین، پرتگال اور نیدر لینڈز نے کلونیل ازم کے دوران اپنی بربریت کا کبھی اعتراف کیا؟ کبھی اپنے غلام خطوں سے معافی مانگی؟ کیا کبھی امریکہ نے ریڈ انڈینز سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی؟ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا. درست یا غلط ترقی کی راہ میں یہ معافی تلافی اور تاریخ کی درستگی حائل نہیں ہے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ماضی سے نہ سیکھیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم ماضی کو ماتم کا ذریعہ نہ بنائیں. اسے مبالغہ آمیز بنا کر اپنے مفادات کو پورا نہ کریں.
دوسرا مغالطہ کہ آزادی رائے پر قدغن سے ترقی نہیں ہو سکتی اور معاشرے پروان نہیں چڑھ سکتے. اس پر تو سامنے کی مثالیں چین، سنگاپور، ملائشیا، روس، سعودی عرب وغیرہ کی ہیں. جہاں پر آزادی رائے پر کافی پابندیاں عائد ہیں لیکن اس سب کے باوجود یہ ملک ترقی یافتہ ہیں. چین اور روس سپر پاورز ہیں. دونوں ممالک میں فیس بک اور گوگل پر کئی پابندیاں ہیں. میڈیا پر پابندیاں اس کے علاوہ ہیں. یعنی صرف آزادی رائے ہی ترقی کی ضمانت نہیں ہے. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے ملک میں آزادی رائے پر پابندی لگا دیں. اس کا مطلب ہے کہ یہ اہم ترین چیز نہیں ہے.
ایک اور مغالطہ کہ ڈکٹیٹر شپ میں ملک ترقی نہیں کرتے صرف جمہوریت میں ہی ممالک ترقی کر سکتے ہیں. آپ مثالیں دیکھیں کیوبا کا معاشرہ امن و سکون اور سلامتی کی علامت ہے اور یہ ڈکٹیٹر فیڈل کاسترو کا کارنامہ ہے. فرانس میں جنرل ڈیگال، ملائشیا میں مہاتیر محمد، سنگاپور میں لی کو آن، سوویت یونین میں اسٹالن، سعودی عرب میں آل سعود، متحدہ عرب امارات میں شیخ خاندان، چین میں ایک پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ، لیبیا میں قذافی اور ترکی میں اتاترک یہ تمام جدید تاریخ کی مثالیں ہیں. ماضی بعید میں جائیں تو اس زمانے میں تو بادشاہوں کے ادوار میں ہی لازوال ترقی ہوئی. یعنی صرف جمہوریت ترقی اور امن کی ضمانت نہیں. افریقہ کے اکثر غریب ترین ممالک میں جمہوریت ہے. جنوبی ایشیاء میں جمہوریت ہے مگر جو حالات ہیں سب جانتے ہیں. جنوبی امریکہ کے کافی غریب ممالک میں جمہوریت رائج ہے مگر نتائج صفر ہیں. اس سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ جمہوریت چھوڑ کر فوراً کسی ڈکٹیٹر کو دعوت دے دیں.
چوتھا مغالطہ کہ تعلیم ہی ترقی کی ضامن ہے. سری لنکا، ماریشس، مالدیپ،انڈورا، لٹویا، بارباڈوس، کرغستان، یوکرائن اور بیلارس جیسے ممالک کی تقریباً سو فیصد شرح خواندگی ہے مگر یہ ترقی یافتہ ممالک نہیں ہیں. دوسری جانب دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شرح خواندگی سب سے کم ہے. افغانستان، ساؤتھ سوڈان، برکینا فاسو، برونڈی صومالیہ وغیرہ. یعنی تعلیم کی کمی بیشی ہی ترقی کی ضمانت نہیں ہے. اب کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمیں جاہل ہو جانا چاہیے بلکہ اس جانب اشارہ مقصود ہے کہ صرف یہی ترقی کا اہم ترین جزو نہیں ہے. صرف تعلیم نہیں کس قسم کی تعلیم ہے وہ زیادہ اہم ہے.
پانچواں مغالطہ کہ خلافت اور اتحاد ہمیں ترقی یافتہ بنا دے گا. پہلے تو یہ بات یاد رکھیں کہ تاریخ کے ابتدائی مسلم دور کو چھوڑ کر کبھی بھی تمام مسلمان ممالک اکٹھے نہیں رہے. ابھی آخر میں بھی مغل علیحدہ تھے. ترک عثمانی خلافت علیحدہ.. اس سے قبل بھی ہمیشہ دو یا تین مسلمانوں کی"خلافتیں" یا دراصل ملوکیتیں دنیا میں قائم رہی ہیں. دوسرا یہ کہ اسی دور میں تو مسلم امہ زوال کا شکار ہوئی. اٹھارویں انیسویں صدیوں میں ہم اس خلافت کے ساتھ ہی پوری دنیا سے ہر معاملے میں مار کھا رہے تھے. یعنی صرف خلافت یا اتحاد ہی ترقی کی گارنٹی نہیں ہے.
ایک اور مغالطہ کہ نصاب میں بچوں کو جھوٹ پڑھایا جاتا ہے اور انھیں شدت پسند بنایا جاتا ہے. سوال یہ ہے کہ یہی نصاب 1988ء سے پہلے بھی تھا پھر پاکستانی معاشرے میں اتنی شدت پسندی کیوں نہ تھی؟ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اپنے پرائمری نصاب میں صرف اپنی تاریخ صرف اپنے ہیروز کا ذکر کرتے ہیں.کیا امریکہ میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کے وطن نے ویت نام، اور کوریا میں کیا کارنامے انجام دیے؟ کیا آسٹریلیا میں بچوں کو اس براعظم کے ایب اوریجنز یعنی پرانی آبادی کے قتل عام کا بتایا جاتا ہے؟ ان کے معاشرے تو جاہل اور شدت پسند نہیں ہوئے. یعنی ہماری ناکامی صرف نصاب پر بھی نہیں تھوپی جا سکتی. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے نصاب میں جھوٹ پڑھائیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے نفرت پیدا کریں بلکہ کہنا صرف یہ ہے کہ ہماری شدت پسندی کی بنیادی وجہ نصاب نہیں ہے.
شاید کچھ مغالطے اور بھی ہوں مگر یہ اہم ترین مغالطے ہیں. تو پھر حل کیا ہے؟
ہمیں تاریخ کی درستگی کے چکر میں ہمیشہ ماضی میں نہیں رہنا ہے. ہمیں ماضی سے سیکھنا ہے اسے لپیٹ کر ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھنا. اسے ماتم کا ذریعہ نہیں بنانا. یہ پہلے مغالطے کا بہتر استعمال ہو سکتا ہے.
ہمیں آزادی رائے اور فتنہ و فساد پھیلانے میں فرق کرکے چلنا ہوگا. ہمیں ڈکٹیٹر شپ یا جمہوریت کا قیدی ہونے کے بجائے اچھے لیڈرز کی کسی بھی سیاسی سسٹم میں موجودگی پر اصرار کرنا ہوگا. ہمیں تعلیم میں صرف ڈگریاں نہیں شعور دینا ہوگا. ہمیں نصاب کو جدید اور مفید بنانا ہوگا کسی کی نقل نہیں کرنی ہوگی. ہمیں خلافت یا کسی سسٹم کو مقدس بنانے کے بجائے عوام کی رائے کو اور اللہ کے بنیادی اصولوں کو مقدس بنانا ہوگا.
ترقی، عروج وہ امانت ہے جو اہل اقوام کو ہی دی جاتی ہے. ان قوموں میں تین چیزیں لازمی مشترک ہوتی ہیں.
انصاف پسندی
امانت داری
عظیم نصب العین
سچائی کہتی ہے کہ ہم میں یہ تینوں چیزیں ناپید ہیں.

Comments

Click here to post a comment