ہوم << چلتے رہیے، ورنہ گولی مار دی جائے گی - محمد اشفاق

چلتے رہیے، ورنہ گولی مار دی جائے گی - محمد اشفاق

محمد اشفاق کوئٹہ کینٹ اپنی جائے پیدائش ہونے کے سبب اور بہت سے قریبی جاننے والوں کا تعلق فوج سے ہونے کی بنا پر بچپن ہی سے فوج کے ادارے سے ایک والہانہ سی انسیت تھی. ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ہمارا بچپن دورِ ضیاء میں گزرا، بہرحال فوج اور فوجی جوان بہت اچھے لگتے تھے. بچپن کی بہت سی خوشگوار یادوں کا تعلق فوج اور جی ایچ کیو سے ہے.
سی ایم ایچ پنڈی کی آفیسرز فیملی وارڈ کے سامنے جہاں آج جی ایچ کیو کا عقبی گیٹ ہے وہاں کبھی سی ایس ڈی ہوا کرتی تھی، اس کے دائیں جانب آرمی یونٹ کے جوانوں کی رہائش گاہیں، عقب میں فیملی کوارٹرز اور ان کے بیچوں بیچ سے راستہ جی ایچ کیو کو جایا کرتا تھا. ہمارا سکول لالکرتی میں تھا تو جب بھی جلدی چھٹی ہو، ہم بھاگم بھاگ جی ایچ کیو کے ساتھ واقع آرمی میوزیم پہنچ جایا کرتے تھے.
آرمی میوزیم کی بلندوبالا عمارت میں دیوار پہ آویزاں مختلف جنگوں کی تصاویر، خصوصا پاک بھارت جنگوں کی منظرکشی، دشمن کے ہتھیار، پاک فوج کے جوانوں کے زیراستعمال وردیاں اور دیگر اشیاء بہت زیادہ فیسینیٹ کرتی تھیں، نامعلوم کتنی مرتبہ یہ سب دیکھ کر بھی جی نہیں اکتاتا تھا، مگر ہمارے لیے سب سے بڑی اٹریکشن گیٹ کے ساتھ اندرونی جانب کھڑے ٹینک اور بکتربند گاڑیاں ہوا کرتی تھیں.
وہاں زمین میں پیوست بورڈ کے مطابق ٹینک پہ چڑھنا منع تھا مگر ہمارا آرمی میوزیم کا دورہ ٹینک پہ چڑھ کے نعرے لگائے بغیر ادھورا رہتا تھا اور مزے کی بات یہ کہ ہمیں کبھی روکا بھی نہیں گیا تھا. ٹینک پہ چڑھ کر ہم خود کو بہت قدآور محسوس کیا کرتے تھے کیونکہ سامنے جی ایچ کیو میں چیف آف آرمی سٹاف کا آفس ہماری نظروں کے بالکل سامنے ہوا کرتا تھا. آفس کے سامنے نصب قومی اور پاک آرمی کے پرچم، ڈیوٹی پہ کھڑے چاق و چوبند جوان, لان میں کام کرتے مالی، یہ سب دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا. کبھی ہم میوزیم سے نکل کر جی ایچ کیو کی دیوار سے لٹک جایا کرتے تھے جو ان دنوں محض اتنی ہی اونچی تھی جتنی عام گھروں کی بائونڈری وال ہوا کرتی ہے. دیوار پہ لٹک کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے میں ایک عجیب سا مزا تھا. اور شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ہمیں باہر سے گزرتے لوگ تو منع کرتے تھے کہ نیچے اترو، اندر سے کبھی ہمیں اتارنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوا کرتی تھی. آفیسرز ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا دیا کرتے تھے. جوان آفیسرز کو دیکھ کر دور سے ڈپٹتے تھے. ”اوئے بچو، بھاگو ادھر سے، نیچے اترو“ مگر ساتھ ہی آنکھ مار دیا کرتے تھے. مالیوں سے یونہی لٹکے لٹکے گپ شپ ہوا کرتی تھی. یہ سب یوں سمجھیے کہ ہماری سکول لائف کی روٹین کا ایک حصہ تھا، بہت خوبصورت، بہت خوشگوار حصہ.
جی ایچ کیو کے سامنے گھاس کے بڑے بڑے قطعے تھے جہاں شام کو قرب و جوار سے لوگ واک کرنے آیا کرتے تھے، آرمی ہاکی سٹیڈیم کی پشت پر یہ پورا علاقہ آرمی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے پاس تھا، آرمی کے ایتھلیٹ یہاں پریکٹس کیا کرتے تھے، عام لوگ گھاس پہ بیٹھ کر گپیں ہانکتے تھے، پرل کانٹیننٹل اور شالیمار میں مقیم غیرملکی یہاں اکثر آیا کرتے تھے اور آرمی کرکٹ گراؤنڈ جو پنڈی کرکٹ سٹیڈیم بننے سے قبل تک پنڈی کا آفیشل کرکٹ گراونڈ تھا، وہاں کھلاڑیوں کی نیٹ پریکٹس دیکھا کرتے تھے. مختلف سمتوں سے آٹھ دس راستے اس وقت جی ایچ کیو کو جاتے تھے مگر کسی پہ بھی کسی بھی شخص کو نہ تو روکا جاتا تھا نہ اس کی تلاشی لی جاتی تھی. جی ایچ کیو کے مرکزی گیٹ پہ دو فوجی جوان باہر تعینات ہوتے تھے، جو شام کو عموما بالکل فارغ ہوا کرتے تھے. کبھی آرمی چیف جی ایچ کیو میں موجود ہوں تو ایک اضافی ملٹری جیپ سے ان کی موجودگی کا پتہ چلتا تھا.
یہ تو جی ایچ کیو کا حال تھا، سی او ڈی، ٹینتھ کور ہیڈ کوارٹر، قاسم مارکیٹ، آرمی ایوی ایشن، راولپنڈی میں سویلین اور فوج ہر جگہ اس طرح مدغم تھے کہ ایک سے دوسرے کا فرق معلوم نہیں ہوتا تھا. جہاں اب سگنلز کالج ہے وہاں سگنلز یونٹ کے اندر ہم لوگ کرکٹ کھیلا کرتے تھے، گولڑہ موڑ والے ای ایم ای کالج کے آڈیٹوریم میں فلمیں لگا کرتی تھیں، جو ریاض کے ابو کو ملنے والے پاس کی بدولت ہم مفت میں دیکھا کرتے تھے. یہ تھا ہمارے بچپن کا پنڈی اور ہمارے بچپن کی آرمی.
جیسے جیسے عمر اور شعور میں اضافہ ہوا، فوج کی بہت سی غلطیوں کا بھی علم ہوا، جمہوریت کی بحالی کے بعد بہت سی ایسی باتیں علم میں آئیں جن پر ضیاء دور میں لب کشائی بھی جرم تھی، مگر یہ سب باتیں اس ادارے سے والہانہ محبت کو کم نہ کر پائیں. ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کی خواہش کے باوجود میں نے آرمی جوائن نہ کی، بچپن ہی سے جمہوریت پرست جو تھے.
کوئٹہ والی خالہ کے بیٹے آرمی میں کرنل تھے، ہمارے گھر ملنے آئے، میرا کالج کا دور تھا اور نواز شریف اور بی بی شہید میں شدید چپقلش کا زمانہ. کرنل صاحب نے طویل سیاسی تجزیے کا اختتام اس فقرے سے کیا. ”دے آل آر باسٹرڈز“ اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا ”اینڈ سو آر یو, سر“ پھر ہمارے تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے. ہم نے کالج سے نکل کر ادھر ادھر جھک مارنا شروع کی تو مشرف صاحب نازل ہو گئے.
غالبا 2002ء یا 2003ء کی بات ہے، شاہ جی کی سی این جی سٹیشن سے ڈیوٹی رات بارہ بجے ختم ہوتی تھی، ہم انہیں وہاں سے ساتھ لیا کرتے تھے اور رات کو ڈھائی تین تک آوارہ گردی. ایک رات شاہ جی کے دفتر کے سامنے سڑک پر گپیں لگا رہے تھے کہ ایک فوجی چیپ پاس آ کر رکی. ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے صوبیدار نے کڑک کر پوچھا، ”ادھر کیوں بیٹھے ہو تم لوگ؟“ اسلام نے اتنا ہی کڑک کر جواب دیا ”تمہیں کیا تکلیف ہے؟“ صوبیدار صاحب طیش میں آ گئے. انہوں نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹری کے نشے میں دو سنائیں تو جوابا انہیں دس سننا پڑیں، نشہ ہرن ہوگیا، اتنے میں شاہ جی آئے اور ہمیشہ کی طرح کامیاب مصالحت فرمائی, صوبیدار صاحب جاتے ہوئے کہنے لگے- ”آپ لوگ دیکھتے نہیں حالات کتنے خراب ہیں“ میں نے جھٹ جواب دیا ”تو حالات ہم نے نہیں، آپ لوگوں نے خراب کیے ہیں.“ صوبیدار صاحب سر جھٹک کر آگے بڑھ گئے.
افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد حالات تیزی سے بگڑنے لگے، مشرف کی اختیارکردہ پالیسیوں کے سبب فوج اور سویلینز پر حملوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اب تک رکنے میں نہیں آ رہا. راولپنڈی کینٹ جو ملک کا محفوظ ترین علاقہ تھا وہاں پے در پے ہونے والے خودکش حملوں اور بم دھماکوں نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا. شاید ہی کوئی ایسا کینٹ کا رہائشی ہو جس کا ایک نہ ایک جاننے والا بائیس نمبر، آر اے بازار، قاسم مارکیٹ اور جی ایچ کیو بم دھماکوں میں شہید یا زخمی نہ ہوا ہو. سویلینز تو روزانہ گھر والوں سے اور اللہ سے گناہوں کی معافی مانگ کر اللہ کے آسرے پر کام کرتے رہے اور کر رہے ہیں. فوجی اداروں کی پہلے دیواریں بلند ہوئیں، پھر گیٹ تبدیل ہوئے، پھر خاردار تاریں لگیں، پھر بیرئر لگے، پھر ریت اور سیمنٹ کے مورچے قائم ہوئے، سویلینز کا فوجی اداروں کے پاس پھٹکنا ممنوع قرار پایا تو فوجی آفیسرز کا سویلینز کے علاقوں میں باوردی جانا بھی منع ٹھہرا. مشرف پر پے در پے ہونے والے حملوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر ڈالی اور اب ہر سویلین مشکوک ٹھہرا. جی ایچ کیو کو جانے والے تمام راستے بند ہوگئے، ٹینتھ کور فوجی قلعے میں تبدیل ہو گئی، سی او ڈی، پانچ سو دو ورکشاپ، قاسم مارکیٹ، ریس کورس کا علاقہ، ای ایم ای کالج اور گولڑہ ڈپو کے پاس سے گزرنا بھی محال ہو گیا، آرمی ایوی ایشن میں چونکہ امریکی ہیلی کاپٹر اترتے تھے لہٰذا وہاں تو قرب و جوار کے محلوں میں بھی لوگوں کے گھروں کی چھتوں پر فوجی مورچے بن گئے. ریس کورس پارک میں یوم دفاع پر ہونے والی ہتھیاروں کی نمائش اور پریڈ ختم ہو گئی. آرمی چیف نے ایک راستے سے گزرنا ہوتا تو تین راستے بند کر دیے جاتے، خلقِ خدا سڑکوں پہ کھڑی رہتی کہ ان کی جان کے محافظوں کی اپنی جان اب خطرے میں تھی. بدقسمتی سے حکمران بھی فوج تھی تو ان سب اقدامات کا سبب بھی ان کی اپنی پالیسیاں تھیں.
یہ سب ہم دیکھتے رہے اور سہتے رہے. ایک روز ایوب پارک میں اب جس حصے پر آرمی ہیریٹج فاؤنڈیشن قابض ہے، گھوم رہا تھا، چند سکول کے بچے دیکھے جو اٹکھیلیاں کرتے ادھر آ نکلے تھے. ٹینک پر بچوں کی نگاہ پڑتی گئی تو ان میں سراسیمگی سی پھیل گئی. ”واپس چلو, یہ آرمی کا ایریا ہے“ یہ جملہ سن کر دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا. ”بیٹا ڈرو نہیں، یہ ہماری اپنی آرمی ہے، انڈیا کی نہیں“ یہ کہہ کر بچوں کو تو میں نے بہلا لیا مگر اپنا دل بری طرح بوجھل ہوگیا. پنڈی کی ایک نسل فوجی ٹینکوں پہ سواریاں کرتے پروان چڑھی تھی جبکہ دوسری نسل کے لیے یہ ٹینک خوف کی علامت تھے. آمریت کس طرح ایک پوری نسل کا مزاج بدل ڈالتی ہے.
کچھ عرصہ ہوا، شاید 2012 کی بات ہے، خوشگوار موسم دیکھ کر بائیک کو ایڑ لگائی، اڈیالہ روڈ سے جو راستہ ایوب پارک کے پاس پشاور روڈ پر جا نکلتا ہے وہاں سے گزر رہا تھا کہ ایک فوجی عمارت کی دیوار پہ لکھی ایک تحریر نے وہیں منجمد کر دیا.
”رکیے نہیں، چلتے رہیے، ورنہ گولی مار دی جائے گی.“
کبھی کسی اور جملے نے اتنی توہین، بے بسی اور اشتعال کا احساس نہیں دیا جتنا اس وقت اس فقرے نے. یہ میرا اپنا شہر تھا، یہ میری اپنی سڑک تھی، یہ میری اپنی فوج کی عمارت تھی، اور مجھے ہدایت کی جا رہی تھی کہ چلتا بنوں ورنہ گولی مار دی جائے گی. بائیک روک کر میں اس تحریر کے سامنے کھڑا ہوگیا. اوپر مورچے پر تعینات جوان کو میں نے اشارہ کیا ”چلا گولی“. ایک بے جان، پھیکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی اور اس نے نظریں دوسری جانب پھیر لیں. کئی لمحے بعد میں بائیک پہ بیٹھا تو احساس ہوا کہ میں رو بھی رہا تھا. شاید یہ لکھتے ہوئے بھی میں رو رہا ہوں. ایک قوم اور اس کی فوج میں اتنے فاصلے پیدا ہوجانا بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے.
اگلے روز صبح جاگنگ کرنے نکلا، ان دنوں میرا معمول تھا صبح کی اذانوں سے بھی پہلے سڑکوں پہ نکل آیا کرتا تھا. جانے کیوں شدت سے جی چاہا، ایک بار پھر جی ایچ کیو کی جانب جایا جائے. منہ اندھیرے کبھی جاگ تو کبھی واک کرتا لالکرتی موڑ پہنچا، جہاں آج سی ایس ڈی کمپلیکس ہے، وہاں کبھی ہم فوجی کوارٹرز کے درمیان پکڑن پکڑائی کھیلا کرتے تھے. چرچ کے سامنے سے جی ایچ کیو کی جانب مڑا، بائیں ہاتھ پر آرمی پبلک لائبریری تھی، اسی کے ساتھ کبھی آرمی میوزیم ہوا کرتا تھا. سڑک پر کنکریٹ کے بلند و بالا بیرئرز ایستادہ تھے اور ان کے پیچھے فوجی جیپ میں ملٹری پولیس کے مستعد جوان. مجھے دیکھ کر ان میں ایک بے چینی کی لہر سی دوڑ گئی. شلوار قمیض اور جوگرز میں ملبوس، پسینے سے شرابور میں رات کے اس آخری یا صبح کے اس پہلے پہر یقینا بہت مشکوک لگا ہوں گا. مگر ان کا اللہ بھلا کرے، کسی نے مجھے نہیں روکا. ہانپتا ہوا، تیز تیز دھڑکتے دل کے ساتھ میں وہاں کھڑا کچھ دیر جی ایچ کیو کو دیکھتا رہا. جہاں کبھی آرمی میوزیم تھا اس دیوار کے پیچھے اقبال، خاور، شفیق اور شبیر مجھے سکول کی یونیفارم میں دوڑتے بھاگتے نعرے لگاتے دکھائی دیے. بے ساختہ دیوار کو چھو لیا اور واپس پلٹ آیا.
بحیثیت قوم اس سے پہلے اور اس کے بعد ہم بہت کچھ دیکھ اور بھگت چکے تھے، سلالہ چیک پوسٹ، ایبٹ آباد آپریشن، ڈرونز اور جواب میں اپنا مرا مرا سفارتی احتجاج. ہم یہ بھی دیکھ چکے کہ جب جب فوج اپنی طے شدہ ذمہ داریوں سے بڑھ کر مزید ذمہ داریاں اپنے کندھوں پہ اٹھاتی ہے، اس کا سب سے زیادہ نقصان خود فوج ہی کو ہوتا ہے. لگتا یہ ہے کہ ہماری موجودہ قیادت نے اس بات کا احساس کر لیا ہے. بہت کچھ درست ہوچکا بہت کچھ درست ہونا ابھی باقی ہے. یوم دفاع ابھی گزرا ہے اور ستمبر 65ء کے 17 دن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب ایک قوم اپنی فوج کے پیچھے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوتی ہے تو تین گنا زیادہ طاقتور دشمن کو بھی میدان جنگ سے نامراد لوٹنا پڑتا ہے اور جب فوج قوم کی حمایت کھو بیٹھتی ہے تو اس کی اپنی سرزمین اس کے لیے اجنبی ہوجایا کرتی ہے جیسا کہ مشرقی پاکستان میں ہوا.
یہ آہنی بنکرز، یہ فولادی بیرئرز، یہ ریت کی آڑ میں بنے مورچے اور ان کے اندر سے جھانکتی مشین گن کی نالی، آپ کو دہشتگردوں سے تو نہیں بچا پاتے، البتہ عوام اور آپ میں ایک غیرمرئی مگر آہنی پردہ ضرور تان دیتے ہیں. وعدہ کیجیے کہ آپ ہماری حفاظت کو بھی اتنی ترجیح دیں گے جتنی اپنی سلامتی کو دیتے ہیں، تو پوری قوم آپ کے پیچھے اسی طرح کھڑی ہو گی جیسے 1965ء میں کھڑی تھی. ورنہ یقین جانیے اب ملی نغمے اور آپ کی پریس ریلیزز زیادہ متاثر نہیں کرتیں.
پاکستان زندہ باد

Comments

Click here to post a comment

  • […] اگلے روز صبح جاگنگ کرنے نکلا، ان دنوں میرا معمول تھا صبح کی اذانوں سے بھی پہلے سڑکوں پہ نکل آیا کرتا تھا. جانے کیوں شدت سے جی چاہا، ایک بار پھر جی ایچ کیو کی جانب جایا جائے. منہ اندھیرے کبھی جاگ تو کبھی واک کرتا لالکرتی موڑ پہنچا، جہاں آج سی ایس ڈی کمپلیکس ہے، وہاں کبھی ہم فوجی کوارٹرز کے درمیان پکڑن پکڑائی کھیلا کرتے تھے. چرچ کے سامنے سے جی ایچ کیو کی جانب مڑا، بائیں ہاتھ پر آرمی پبلک لائبریری تھی، اسی کے ساتھ کبھی آرمی میوزیم ہوا کرتا تھا. سڑک پر کنکریٹ کے بلند و بالا بیرئرز ایستادہ تھے اور ان کے پیچھے فوجی جیپ میں ملٹری پولیس کے مستعد جوان. مجھے دیکھ کر ان میں ایک بے چینی کی لہر سی دوڑ گئی. شلوار قمیض اور جوگرز میں ملبوس، پسینے سے شرابور میں رات کے اس آخری یا صبح کے اس پہلے پہر یقینا بہت مشکوک لگا ہوں گا. مگر ان کا اللہ بھلا کرے، کسی نے مجھے نہیں روکا. ہانپتا ہوا، تیز تیز دھڑکتے دل کے ساتھ میں وہاں کھڑا کچھ دیر جی ایچ کیو کو دیکھتا رہا. جہاں کبھی آرمی میوزیم تھا اس دیوار کے پیچھے اقبال، خاور، شفیق اور شبیر مجھے سکول کی یونیفارم میں دوڑتے بھاگتے نعرے لگاتے دکھائی دیے. بے ساختہ دیوار کو چھو لیا اور واپس پلٹ آیا. بحیثیت قوم اس سے پہلے اور اس کے بعد ہم بہت کچھ دیکھ اور بھگت چکے تھے، سلالہ چیک پوسٹ، ایبٹ آباد آپریشن، ڈرونز اور جواب میں اپنا مرا مرا سفارتی احتجاج. ہم یہ بھی دیکھ چکے کہ جب جب فوج اپنی طے شدہ ذمہ داریوں سے بڑھ کر مزید ذمہ داریاں اپنے کندھوں پہ اٹھاتی ہے، اس کا سب سے زیادہ نقصان خود فوج ہی کو ہوتا ہے. لگتا یہ ہے کہ ہماری موجودہ قیادت نے اس بات کا احساس کر لیا ہے. بہت کچھ درست ہوچکا بہت کچھ درست ہونا ابھی باقی ہے. یوم دفاع ابھی گزرا ہے اور ستمبر 65ء کے 17 دن ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب ایک قوم اپنی فوج کے پیچھے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوتی ہے تو تین گنا زیادہ طاقتور دشمن کو بھی میدان جنگ سے نامراد لوٹنا پڑتا ہے اور جب فوج قوم کی حمایت کھو بیٹھتی ہے تو اس کی اپنی سرزمین اس کے لیے اجنبی ہوجایا کرتی ہے جیسا کہ مشرقی پاکستان میں ہوا. یہ آہنی بنکرز، یہ فولادی بیرئرز، یہ ریت کی آڑ میں بنے مورچے اور ان کے اندر سے جھانکتی مشین گن کی نالی، آپ کو دہشتگردوں سے تو نہیں بچا پاتے، البتہ عوام اور آپ میں ایک غیرمرئی مگر آہنی پردہ ضرور تان دیتے ہیں. وعدہ کیجیے کہ آپ ہماری حفاظت کو بھی اتنی ترجیح دیں گے جتنی اپنی سلامتی کو دیتے ہیں، تو پوری قوم آپ کے پیچھے اسی طرح کھڑی ہو گی جیسے 1965ء میں کھڑی تھی. ورنہ یقین جانیے اب ملی نغمے اور آپ کی پریس ریلیزز زیادہ متاثر نہیں کرتیں.پاکستان زندہ بادsource […]