ہوم << لبرلزم کیا ہے؟ ریاض علی خٹک

لبرلزم کیا ہے؟ ریاض علی خٹک

ریاض خٹک یہ سوال جتنا آسان ہے، اس کا جواب اتنا ہی مشکل کر دیا گیا ہے جیسے چار اندھے ہاتھی کو اپنے احساسات سے بیان کر رہے ہوں. کسی کے لیے یہ مینار ہے تو کوئی اسے دیوار باور کراتا ہے. لبرلزم کے ہاتھی پر بھی احساسات و خواہشات کی زبان عام ہے.
میرے لیے لبرلزم کی چنداں اہمیت نہ ہوگی، جب تک مجھے کوئی لبرل ہونے کا نہ کہے گا. لیکن جب لبرلزم کو آج کا مروج نظام باور کرایا جائے گا، یہ احساس دلایا جائےگا کہ لبرل ہی سکہ رائج الوقت ہے، یہی کامیابی کی کنجی ہے. تو میں دلیل کا طالب بنوں گا. یہ دلیل کسی کی ذاتی سوچ، پسند نہ پسند پر نہیں. حقائق پر مبنی ہو. حقائق تاریخ کے تواتر میں ملتے ہیں. میں اسلام کو چودہ سو سال قبل کے نزول پر قبول کرتا ہوں. آج اس کی تفسیر ممکن ہے. پر یہ تفسیر جہاں بھی اسلام کی روح سے متصادم ہوگی، میں اسے نزول کی کسوٹی پر پرکھوں گا.
لبرلزم کو آج بیان کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کی تفسیر کیا بیان کی جاتی ہے، اس کی کسوٹی کیا ہے؟ کیا یہ وہی ہے جو اس نظریہ کو بنانے والوں نے مقرر کی، یا میرے آج کے دوست اس میں سے کچھ لو کچھ چھوڑ دو کی خواہش پر جیسے پیش کرتے ہیں؟
لبرلزم لاطینی لفظ لیبر سے نکلا ہے جس کا مطلب آزاد خیالی ہے. یہ مکمل اہل مغرب کا فلسفہ ہے، جو وہاں سترھویں (17) صدی میں منظر عام پر آیا، اور اہل مغرب کے سیاسی پس منظر میں یہ ایک بہت پرکشش نعرہ تھا. میں جان لاک سے لے کر جان اسٹورٹ مل تک پھیلے لبرلزم کے دانشوروں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ یہ بے وجہ کی طوالت ہے. ہاں میں اس تاریخ سے یہ اخذ ضرور کرنا چاہوں گا کہ آج کے اس لبرلزم کے آنے کا پس منظر کیا تھا.
لبرلزم جس یورپ میں آیا کہ وہ متضاد کیفیات کا حامل ایک معاشرہ تھا، ایک طویل خانہ جنگیوں کا شکار، مذہب نے چرچ کی صورت بالادستی بنائی ہوئی تھی، حکومت کا ایک ستون بن چکا تھا، اور علم کے آگے دیوار بنا ہوا تھا، عام آدمی بادشاہت، جاگیردار، حکومتی اہلکاروں، چرچ کے نظام سب کی بیک وقت غلامی کر رہا تھا، اور مکتی صرف موت ہوتی تھی. دوسری طرف یہی یورپ سائنس میں ترقی کی راہ پر تھا، نئے علوم کے کھوج کا سفر بھی تھا اور اس کی جستجو کی خواہش بھی، اس پس منظر میں آزادی خیالی یا شخصی آزادی کا نعرہ وہاں بہت پرکشش تھا.
سپین کی تاریخ ہو کہ سلطنت برطانیہ کی فرانس کی ہو کہ سنٹرل یورپ کی، اس لبرلزم کو ان کے پس منظر میں دیکھیں تو سمجھ آتی ہے. پر اس لبرلزم نے انیسویں صدی کے اوائل تک لبرلزم سے سیکولرزم کا جو سفر کیا سوالات یہاں اٹھنے شروع ہوئے.
پہلا سوال جو بطور ایک مسلمان ہم سب سے اہم سمجھتے ہیں کہ آیا لبرلزم نے عام آدمی کو چرچ کے شکنجے سے آزاد کیا یا کہ مذہب کے شکنجے سے؟ ہزار سالہ یورپ کی تاریخ میں وہ چرچ اور فرد کی کشمکش تھی. لبرلزم نے عیسائی دنیا کو یہ سوچ باور کرائی کہ فرد مذہبی سوچ پر کامل آزاد ہے، جس طرح چاہے اس پر عمل کرے. لیکن درحقیقت لبرلزم مذہب مخالف ہے کیونکہ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے، کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا، مذہب ایک محصوص نظم و ضبط پر زندگی گزارنے کا نام ہے.
یہی وجہ ہے کہ آج کے یورپ میں اسلام انھی اپنی اقدار سے متصادم لگتا ہے. ایک حجاب برداشت نہیں ہوتا، ورنہ یہ فرد کی آزادی پر لیا جاسکتا ہے. ہم جنس پرستی سے لے کر نیچرلسٹ سوچ و اقدار جو مذہب محالف ہیں، ان کی آبیاری وہاں ممکن ہے. پر مذہب پر فرد اگر حجاب کرلے تو یہ لبرلزم میں قابل قبول نہیں.
اس سوچ پر اسلامی معاشرے کے مکمل نظام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ اپنی روح پر لبرلزم سے مکمل متصادم ہیں. تاریخ میں لبرلزم نظریہ سے زیادہ بطور ہتھیار استعمال ہوا، ابتدا میں برطانوی سرمایہ دار نے اسے برطانوی جاگیردار کے خلاف استعمال کیا، آگے جاکر فرانسیسی انقلاب میں، یورپ میں اور بھی بہت مثالیں ہیں. عثمانی خلافت کے خلاف اس کا استعمال تو قریب کی معلوم تاریخ ہے. اس کے علاوہ فاشزم و کمیونزم کے خلاف کامیاب استعمال ہوا.
تو ہم یہ کیوں نہ سمجھیں کہ آج یہ اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہورہا ہے؟ مجھے کیا اسلام کافی نہیں؟ مجھے کیا مسلمان ہونا کافی نہیں؟ جو میں مغرب سے لبرل و سیکولر کا خطاب لوں؟

Comments

Click here to post a comment