ہوم << کالے پانی کی کالی موسیقی - محمد ابراہیم شہزاد

کالے پانی کی کالی موسیقی - محمد ابراہیم شہزاد

اگر آپ ترکھان سے ویلڈنگ کروائیں، پلمبر سے دروازے بنوائیں اور رنگ ساز کو الیکٹریشن کی ذمہ داریاں سونپ دیں تو سوچیں ان تمام کاموں کا کیا حشر ہوگا۔ ایسا ہی کچھ آج کل ماڈرن ازم کے نام پر روایتی میوزک کے ساتھ اتیا چار کیا جا رہا ہے. ہم مانتے ہیں کہ آج کی دنیا کارپوریٹ سیکٹر کے پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے جس کے نزدیک روایت، کلچر، ادب آداب سب بے معنی چیزیں ہیں، اہم ہے تو صرف اور صرف ان کی مصنوعات کی تشہیر اور صارف کو انہیں خریدنے پر مجبور کرنا، چاہے وہ اچھی ہیں یا بری، ضروری ہیں یا غیر ضروری۔ ایک زمانہ تھا جب مارکیٹنگ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کی ٹرم استعمال ہوتی تھی اور طلب کے مطابق رسد دی جاتی تھی لیکن اب یہ اصول بھی الٹ گیا، اب ملٹی نیشنل کا نیا اصول یہ ہے کہ جس جگہ ان کی پراڈکٹ استعمال نہیں ہوتی، وہاں کروڑوں روپے خرچ کر کے اس پراڈکٹ کی ضرورت پیدا کی جاتی ہے اور پھر سپلائی کی جاتی ہے، جیسے آج سے بیس سال پہلے تک نلکے کا پانی نہ کسی کا معدہ خراب کرتا تھا، نہ ہی آلودہ ہوتا تھا اور نہ ہی گیسٹرو اور اسہال جیسی بیماریوں کا سبب بنتا تھا لیکن آج ہم اپنے بچوں کے لیے منرل واٹر کے بغیر صحت مند زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
بات ہو رہی تھی موسیقی کی کہ کس طرح ایک سافٹ ڈرنک کی مشہوری کے لیے ہماری صدیوں پرانی نسل در نسل منتقل ہوتی فوک موسیقی کا حشر نشر کیا جا رہا ہے اور ری مکس کے نام پر اچھی خاصی ٹیون کو بگاڑ کر اس کے اصل موسیقار کی روح کو تسکین پہنچائی جا رہی ہے۔ کیا ماڈرن ازم کے لیے ضروری ہے کہ روایت کا گلا گھونٹ کر اس کی بگل سے جدید موسیقی برآمد کی جائے؟ کیا نئے ٹیلنٹ میں اتنی بھی تخلیقی صلاحیتیں نہیں پائی جاتیں کہ پرانے سدابہار میوزک کا ستیاناس کر نے کے بجائے کوئی نئی ماڈرن دھنیں تخلیق کر سکے۔ مذکورہ معروف ملٹی نیشنل کمپنی پچھلے نو سال سے اپنے ایک خود ساختہ میوزک سٹوڈیو کے تحت ہمارے سدا بہار کلاسیکل، نیم کلاسیکل اور لوک موسیقی کا قتل عام کر رہی ہے اور ہمارا میڈیا اس کے نتیجے میں ملنے والے بزنس کی چمک دمک سے اندھا ہو کر اس بھدی اور بےسری موسیقی کو نئی نسل کے رگ و پے میں سرایت کر رہا ہے۔
اس اسٹوڈیو کے سیزن نو میں تو حد ہی ہوگئی، اس بار اس کی ابتدا ہوئی ایک ملی نغمے سے جس میں ملک کے بڑے اور نامور گویوں کے ساتھ نوآموز اداکاروں اور ماڈلوں کو یا یوں کہیے کہ اپنے برانڈ ایمبسڈرز کو بھی زبردستی کا گلوکار بنا کرگدھے اور گھوڑے کو ایک برابر کھڑا کر دیا گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پیسے کی چکاچوند کے آگے اپنے برابر میں کھڑے گدھوں کے گانے پر پکے اور سریلے نسلی گھوڑوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا ورنہ یہ وہی خان صاحبان ہیں جن کے ہوتے ہوئے کسی محفل میں خواہ کتنا ہی سریلا گائیک ہو لیکن خاندانی نہ ہو، ان کی اجازت کے بغیر گا نہیں سکتا تھا اور خان صاحب کے نزدیک عطائی سے زیادہ لقب حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
پہلے سیزنز میں تو گانے کا جو بھی حشر کیا جاتا تھا لیکن اتنی رعایت ضرور دی جاتی تھی کہ اس کو گوایا کسی پروفیشنل گلوکار سے ہی جاتا تھا لیکن اب کی بار جتنے بھی ٹریک ریلیز کیے گئے، ان میں پروفیشنل اور ماسٹر گلوکار کو ثانوی حیثیت میں ساتھ رکھتے ہوئے اپنے گلیمرائزڈ برانڈ ایمبیسڈرز کو سجا سنوار کر بلکہ کچھ ٹریکس میں خاصا مضحکہ خیز بنا کر اسے صفِ اول کے گلوکار یا گلو کارہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ سیدھے سادھے روایتی فوک گلوکار وں کا رہن سہن اور طرز معاشرت ایسا نہیں ہوتا کہ آپ اپنی ہائی پروفائل پراڈکٹ میں انہیں فخریہ طور پر پیش کرسکیں لیکن ان کے ساتھ یہ زیادتی تو نہ کی جائے کہ ان کے لافانی فن کا کریڈٹ سرخی پاوڈر کی لیپا پوتی سے سجی ہوئی اور اعضا کی ٹوٹی پھوٹی شاعری کرتی ہوئی صرف ایک اداکارہ کے کھاتے میں ڈال دیا جائے جو پندرہ سو بلین ڈالر کی کاسمیٹکس انڈسٹری کی مہربانی سے خوش شکل تو ہو جاتی ہے لیکن خوش گلو ہرگز نہیں کیونکہ اچھی اور سریلی آواز صرف خدا کی دین ہے جو چاہے تو راجھستان کے صحرائوں میں صاف پانی کو ترستی ہوئی ایک سیدھی سادھی خاتو ن کو یہ تحفہ عنایت کر کے بلبل صحرا بنا دے یا چاہے تو ٹھنڈے ٹھار سٹوڈیوز میں کوکا کولا سے لطف اندوز ہونے والوں کی آواز کو بمشکل قابل سماعت بنانے کے لیے جدید ترین سازوں اور ٹیکنالوجی کا محتاج بنا دے۔

Comments

Click here to post a comment