ہوم << "دار الندوہ"، قریش کی پارلیمان... فاروق الخطاب

"دار الندوہ"، قریش کی پارلیمان... فاروق الخطاب

آج سے 1500 سال پیچھے جائیں تو مکتہ المکرمہ میں قریش بستے تھے، قریش ایک بڑا اور جامع قبیلہ تھا جسکی آگے بہت سی شاخیں تھی، ہر شاخ کو ایک چھوٹے قبیلے کا درجہ حاصل تھا اور ہر شاخ نے اپنے اپنے چھوٹے قبیلے کا ایک سردار مکرر کر رکھا تھا جو انکے مسلے مسائل لے کر قریش کے بڑے سردار کے پاس لے کر جاتا تھا، قریش کی ایک مجلسِ شورہٰ ہوا کرتی تھی جس میں ہر قبیلے کا سردار بیٹھ کر اپنے قبیلے کی نمائیندگی کرتا تھا، اسی شورہٰ نے اپنا ایک امیر بھی مقرر کر رکھا تھا اور تمام معاملات کا انچارج ہوتا تھا، یہ شوری جہاں منعقد ہوا کرتی اس عمارت کو دارالندوہ کہا جاتا تھا
بعثت محمد رسول اللہ ﷺ کے وقت قریش کے سردار حضرت ابو طالب تھے اور قریش کی باقی شورہٰ میں امر ابن ھشام (ابوجہل)، عتبہ ابن ربیہہ، خطاب ابن نوفل، ولید ابن مغیرہ، آس ابن وائل، ابو سفیان سخر ابن حرب، متم ابن عدی، امیہ ابن خلف ودیگر ارکان شامل تھے جو قریش کے معاملات دیکھا کرتے تھے، یہ شورہٰ کا نظام بلکل آج ملک پاکستان میں نافذ جمہوریت جیسا ہی تھا، ہر علاقے کا ایم این ائے اور پھر ان ایم این ایز کا چنا ہوا وزیر اعظم (سردار قریش و مکہ)
جب نبی کریم ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو سردار مکہ یعنی حضرت ابو طالب چونکہ نبی کریم ﷺ کے سگے چچا تھے اور پالنے والے تھے اس لیئے وہ ایک حد تک نیوٹرل رہے بلکہ کھل کر نبی کریم ﷺ کی حفاظت کرتے رہے، قریش کے چند سرداران جب تک زندہ رہے حضور نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرتے رہے
نبوت ملنے کے کچھ ہی سال بعد مسلمانوں میں قریش کے کئی سردار شامل ہوگئے، جیسا کہ عبداللہ ابن ابی قحافہ المعروف ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہہ سردار بنی تیم، حضرت سعد ابن وقاص رضی اللہ عنہہ سردار بنی ظہرہ، حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہہ سردار بنو عدی
قریش کی شورہٰ میں کچھ ایسے ارکان بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام تو قبول نہیں کیا تھا لیکن نبی کریم ﷺ کی مخالفت اس لیئے نہیں کرتے تھے کہ قریش کا باہمی اتحاد خراب نا ہو، ایسے سرداروں میں آس ابن وائل، متم ابن عدی اور عتبہ ابن ربہیہ شامل تھے، ان میں سب سے زیادہ عتبہ ابن ربیہہ کی بات وزن والی تھی، جسکا کہنا تھا کہ قریش کو محمد ﷺ کو باقی عربوں پر چھوڑ دینا چاہیئے، اگر باقی عرب معاذ اللہ نبی کریم ﷺ کو رد کردیں تو قریش کا کام ہو جائے گا اور حالات جیسے ہیں ویسے ہی واپس لوٹ آئینگے، اور اگر قریش نبی کریم ﷺ کی بات کو تسلیم کر لیتے ہیں تو محمد ﷺ کی عزت قریش کی عزت اور محمد ﷺ کی کامیابی قریش کی کامیابی
لیکن شورہٰ میں شامل چند لوگ جیسے قبیلہ بنی مخدوم کا سردار امر ابن ھشام المعروف ابو جہل، بنو امیہ کا سردار ابوسفیان سخر ابن حرب، ولید ابن مغیرہ فرد بنی مخدوم، امیہ ابن خلف سردار بنی جمعہ وغیرہ ایسے لوگ تھے جو کھل کر مخالفت کرتے اور کسی بھی طرح نبی کریم ﷺ کا نعوذباللہ خاتمہ چاہتے تھے
اگر اوپر لیئے گئے انہی ناموں پر بات کی جائے تو قریش کی شورہٰ میں مسلمان ارکان ابوبکر، عمر، عثمان، حمزہ، سعد، مسلمانوں کے حمائتی ارکان یا انکے ساتھ جزوی طور پر اتحاد میں شامل ہو سکنے والے افراد حضرت ابوطالب ابن عبدالمطلب، آس ابن وائل، متم ابن عدی، عتبہ ابن ربہیہ وغیرہ تھے، مخالفین میں امر ابن ھشام، ابوسفیان، ولید، شامل تھے اس تعداد کے حساب سے مسلمان اور انکے حمائتیوں کی تعداد زیادہ تھی
اگر جمہوریت اسلام میں قابل قبول ایک عمل ہوتا تو اس وقت دارالارقم بنانے اور حبشہ و مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم آنے کی بجائے شورہٰ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر کہ جمہوری( اکثریت کی حمایت سے) طور پر اسلام نافذ کرنے کا حکم آتا
باقی آپ خود سمجھدار ہیں
تحریر فاروق الخطاب

Comments

Click here to post a comment