ہوم << سیکولر ’’سیانے‘‘ اب شرعی امورکا بھی فیصلہ کریں گے-انصار عباسی

سیکولر ’’سیانے‘‘ اب شرعی امورکا بھی فیصلہ کریں گے-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
رویت ہلال ایک شرعی اور فقہی مسئلہ ہے لیکن اس کو بھی میڈیامیں بیٹھے ہمارے کچھ ’’سیانوں‘‘ نے تماشا بنا دیا۔ فرماتے ہیں زمانہ بدل گیا، سائنس ترقی کر گئی، اب تو سب معلوم ہو جاتا ہے کہ چاند کب پیدا ہوا یا کب پیدا ہو گالہذا رمضان و ذی الحج کے موقع پر چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ نہ کوئی حوالہ دیا کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے، شریعت کا کیا حکم ہے، نہ کھوج لگانے کی کوشش کی کہ رویت ہلال کے مسئلہ پر کیوںمختلف مکاتب فکر میں اتفاق ہے، نہ تکلیف محسوس کی کہ یہی پتا لگا لیا جائے کہ چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً ہر مسلمان ملک رویت ہلال کے ذریعے ہی کیوں اسلامی مہینوں کا تعین کرتا ہے۔
میڈیا نے رویت ہلال کمیٹی کے محترم سربراہ اور پاکستان کے صف اول کے عالم دین مفتی منیب الرحمن کا مذاق بھی اڑایا۔ کچھ ’’سیانوں‘‘ نے تو رویت ہلال کے مسئلہ کو اپنے طنز کا نشانہ بھی بنایا۔ اور پھر توقع کے مطابق مطالبات بھی سامنے آنے لگے کہ رویت ہلال کمیٹی کو ہی ختم کر دیا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کو بھی قائم رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ابھی ہمارے سیکولر’’سیانوں‘‘ کے مشورہ ختم نہ ہوئے تھے تو ایک ’’اسلامی اسکالر‘‘ کو کہا گیا کہ وہ اس مسئلہ پر اپنی رائے پیش کریں۔ ’’اسلامی اسکالر‘‘ صاحب نے جو ’’سیانوں‘‘ نے پہلے کہا اُس پر مہر لگا دی۔ اُن کی منطق یہ تھی کہ دوسرے سب (یعنی علماء کرام) رویت ہلال کے متعلق ایک حدیث مبارکہ کو ٹھیک سمجھ نہیں پائے ۔ ہاں البتہ وہ خود سب ٹھیک سمجھ گئے۔
ان ’’اسلامی اسکالر‘‘ صاحب سے پوچھا تو یہ جانا چاہیے تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اُن کی بات تمام مکاتب فکر اور علماء کرام سے مختلف ہے اور سیکولر ایجنڈے پر پوری اترتی ہے لیکن یہ سوال نہ کیا گیا۔ انصاف تو یہ تھا کہ پاکستان کے علماء کرام میں سے کچھ بڑے ناموں کو موقع دیا جاتا تاکہ وہ اس مسئلہ پر شرعی پوزیشن پیش کرتے تا کہ عوام کو مسئلہ کی اصل حقیقت کا علم ہوتالیکن شاید کوشش ہی یہ تھی کہ سننے والوں کو گمراہ کیا جائے۔ اس مسئلہ پر بولنے کے لیے وقت جن ’’اسلامی اسکالر‘‘ کو دیا گیا وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلہ کے خلاف ہیںاور Blasphemy Law کے متعلق بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ یہ ’’ اسلامی اسکالر‘‘ صاحب ویسے تو پارلیمنٹ کو مکمل اختیار دینے کے قائل ہیں کہ جو مرضی آئے قانون بنائیں لیکن اس بات پر سخت معترض ہیں کہ پاکستان کے آئین میں قرارداد مقاصد کو کیوں شامل کیا گیا۔ قارئین کرام کی یاد دہانی کے لیے ہمارے آئین میں درج قرارداد مقاصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کو قرآن و سنت کے مطابق چلانے کا وعدہ کرتا ہے۔
رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے کا مسئلہ خالصتاً شرعی ہے لیکن اس پر تبصرہ اور فیصلہ صادر کرنے کے لیے میڈیا میں ایسے افراد کو بلایا جاتا ہے جو پاکستان کو ایک لبرل اور سیکولر اسٹیٹ بنانے کے لیے بارہا اپنی آواز بلند کر چکے ہیں۔ اسلامی مسائل اُن کے سامنے رکھے جا رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ قرارداد مقاصد کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان میں موجود دوسری اور کئی اسلامی شقوں کو نکال دیا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نظریہ پاکستان کو نہیں مانتے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے خلاف ہیں۔ ایسے ’’سیانوں‘‘ اور من پسند ’’اسکالروں‘‘ کو بٹھا کر اسلامی اور شرعی معاملات میں فتوے سازی کرانا انتہائی نامناسب اقدام ہے۔ ویسے تو ہر معاملہ میں مختلف رائے کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے اور اسے صحافتی اصول مانا جاتا ہے۔
لیکن اسلامی اور شرعی معاملات میں بولنے اور رائے دینے کے لیے علم ، فہم اور قابلیت رکھنے والے قابل احترام علماء حضرات کی رائے پیش نہ کرنا کیسی صحافت ہے اور کیسے صحافتی اصول ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے طبی معاملات میں ڈاکٹرز کے سوا باقی سب کی رائے پیش کی جائے۔ اسی طرح معاملہ اگر دفاع اور سیکورٹی کا ہو تو دفاعی تجزیہ نگاروں، فوج، پولیس اور ایجنسیوں کے پروفیشنلز کی بجائے رائے دینے کے لیے کسی تاجر کو بلا کر دفاعی اور سیکورٹی معاملات کے متعلق حکمت عملی کے بارے میں رائے لی جائے۔دکھ اس بات کا ہے کہ کسی ایسے عمل کو جو دین سے جُڑا ہو اس کو طنز کا نشانہ بنایا جائے۔ بھئی بہت زیادہ مسئلہ ہے تو اچھے انداز میں اپنی رائے دے دو اور پھر دوسروں کی بات بھی سن لو۔ اسلام دین کے ساتھ یا دینی احکام کے ساتھ طنز اور مذاق سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ ہمیں ایسی مجالس میں بیٹھنے سے بھی روکتا ہے جہاں دین کے احکامات کا انکار یا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ ہمیں تو دوسروں کے دین یا اُن کی مقدس شخصیات کو بھی بُرا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ محترم مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ آج کے میڈیا کے ہاتھوں اسلام اور پاکستان دونوں مظلوم بن چکے ہیں۔ میں مفتی صاحب سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔