ہوم << جمہوریت، جمہور کی طاقت؟ رضوان اسد خان

جمہوریت، جمہور کی طاقت؟ رضوان اسد خان

رضوان اسد خان نوم چومسکی اپنی کتاب ”Who Rules The World“ میں لکھتے ہیں کہ جمہوریت کی علمبردار بڑی طاقتوں میں بھی عوام کا ملکی پالیسی پر اثر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے. امریکہ میں نامور محققین نے اس بات کے ٹھوس شواہد پیش کیے ہیں کہ ”معاشی اشرافیہ اور منظم گروپس جو مخصوص کاروباری مفادات کے حامل ہوتے ہیں، ان کا اثر حکومتی پالیسی سازی پر کافی گہرا ہے اور اپنی الگ انفرادی حیثیت میں ہے، جبکہ متوسط طبقے، عام آدمی اور عوامی مفاد کے نمائندہ گروپس کا اثر یا تو بالکل نہیں ہے اور یا پھر نہ ہونے کے برابر ہے.“ بنا بریں چند دیگر تحقیقات سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ کم آمدنی والے طبقے کو بڑے مؤثر طریقے سیاسی عمل سے (عملاً) باہر کر دیا جاتا ہے اور ان کے نمائندے ان کی آراء اور رجحانات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جبکہ معاشی طور پر مستحکم ایک چھوٹا سا طبقہ اس معاملے میں مکمل اجارہ داری کا حامل نظر آتا ہے. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو طویل مدتی تحقیق میں امیدواروں کی الیکشن کیمپین کی فنڈنگ ہی پالیسی سازی کے اہم ترین محرک کے طور پر سامنے آتی ہے.
اس میں ایک سبق تو جمہوریت کے متوالوں کے لیے ہے کہ جن قوموں کو ہم انسانی آزادی اور سماجی ترقی کی معراج پر سمجھتے ہوئے اندھا دھند ان کے نظام جمہوریت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، وہاں عام آدمی کا حکومت کے اصل معاملات اور پالیسی سازی میں کتنا حصہ ہے اسے دیکھ کر عبرت پکڑیں اور دیکھیں کہ اصل سٹیک ہولڈرز کیپٹل ازم کے پروردہ نظام جمہوریت میں بھی سرمایہ دار ہی ہیں اور انھی کی چلتی ہے. جبکہ عام آدمی کے لیے محض سبز باغ ہی ہیں.
اس ضمن میں ”اسلامی جمہوریت“ کے آکسی مورون (oxymoron: متضاد الفاظ پر مشتمل ترکیب) کے علمبرداروں کو تو دس گنا زیادہ عبرت پکڑنی چاہیے کہ نہ تو اس فضول جدوجہد سے حقیقی جمہوریت ہی ممکن ہے اور نہ ہی اسلام. جمہوریت کے معاملے میں اوپر پیش کی گئی گزارشات دیکھ لیں اور اسلام کے معاملے میں مصر، بنگلہ دیش اور ترکی (ابھی خطرہ مکمل طور پہ نہیں ٹلا) کا حال دیکھ لیں، بلکہ عینک کے شیشے صاف کر لیں تو اپنے وطن عزیز میں بھی کچھ کم مثالیں نہیں.
ایک بڑا ہی لطیف سبق یہاں ان جہادی تنظیموں کے لیے بھی ہے جو اس ڈاکٹرائن/”اجتہاد“ کی قائل ہیں جس کے مطابق مسلمان علاقوں پر حملہ آور اور مسلمانوں سے جنگ میں مصروف جمہوری کافر ملکوں کے عوام بھی متحارب قرار دیکر مباح الدم سمجھے جاتے ہیں؛ کیونکہ ان کے مطابق وہ ”ووٹ کی طاقت“ سے حکومتی پالیسی کے پشت پناہ اور اس پر اثر انداز ہونے والی مؤثر قوت سمجھے جاتے ہیں. تو بھائی صاحب دیکھ لیں کہ ان ”بےچاروں“ کا اپنے خبیث حکمرانوں کی پالیسیوں میں کتنا ہاتھ ہے. خدارا ان کی جان بخش دیں اور ان تحقیقات کی روشنی میں اپنے اجتہاد پر نظرثانی فرمائیں. ان کی طاقت کو دعوت و تبلیغ سے اپنے حق میں موڑیں نہ کہ ان پہ حملے کر کہ سچ مچ ان کی رائے عامہ کو ویسا ہی بنا دیں جیسا کہ آپ (غلط طور پر) سمجھتے ہیں.

Comments

Click here to post a comment