ہوم << سندھ میں کوٹہ سسٹم نرالا کیوں؟ فراز بیگ

سندھ میں کوٹہ سسٹم نرالا کیوں؟ فراز بیگ

کوٹہ سسٹم ختم کرو اور محصور پاکستانیوں کی واپسی، یہ وہ نعرے تھے جو پہلے پہل کراچی اور حیدرآباد کی دیواروں پر لکھے گئے۔ ایم کیو ایم نے ان جیسے نعروں کے ساتھ سیاست کا آغاز کیا تھا۔ آج پینتیس سال بعد بھی یہ مسائل اپنی جگہ موجود کیوں ہیں؟ یہ ایک الگ جواب کا محتاج ہے۔ فی الحال ہم کوٹہ سسٹم کی بات کرتے ہیں کہ یہ ہے کیا اور اس سے متعلق مسائل کیا ہوتے ہیں۔ اور اس سے بھی پہلے کہ ہم پاکستان کے کوٹہ سسٹم کی بات کریں، ذرا دیکھتے ہیں کہ باقی دنیا میں کیا اس کی کوئی مثال ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جب یورپ سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بڑھا تو امریکہ میں یہ قانون منظور کیا گیا کہ مہاجرین کی صرف ایک مخصوص تعداد کو ہی شہریت دی جائے گی۔ امریکہ جیسے ملک میں، جسے موجودہ شکل میں بسایا ہی مہاجرین نے تھا، ایسا قانون موجب حیرت ہے اور اس وقت بھی ہوا ہوگا لیکن یہ قانون نہ صرف منظور کیا گیا بلکہ کسی نہ کسی شکل میں ابھی تک موجود ہے۔
اسی طرح ہر ملک میں یونیورسٹیاں کھلاڑیوں، مقرروں اور دوسرے ایسے باصلاحیت لوگوں کے لیے ایک مخصوص کوٹہ رکھتی ہیں جو اگر میرٹ پر داخلہ لیں تو پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ سے ان کو داخلہ نہیں ملے گا۔ ادارے کو ان کی موجودگی سے دوسرے سماجی فوائد ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہماری اپنی اسمبلی میں بھی عورتوں اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ایک کوٹہ ہی تو ہے.
قیام پاکستان کے وقت بھی یہ بات محسوس کی گئی کہ کچھ علاقوں کے لوگ تعلیمی قابلیت اور ملازمتوں میں دوسروں سے پیچھے ہیں۔ ظاہر ہے پچھلے ڈھائی سو سال سے انگریز نے جو نظام ہندوستانی معاشرے کو تقسیم رکھنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ سمیٹنے کے لیے بنا رکھا تھا اس کے اثرات راتوں رات تو ختم نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لیے پاکستان میں کوٹہ سسٹم کی بنیاد رکھی گئی۔
یہاں تک تو بات صحیح ہے اور سمجھ میں بھی آتی ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی طبقہ کو محروم نہ رکھے۔ مگر پاکستان میں جس طرح کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا وہ اپنی بنیاد میں ایک خرابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ باقی جگہ کوٹہ سسٹم ایک استثنیٰ کی حیثیت رکھتا ہے اور میرٹ قانون، ہمارے ہاں میرٹ کو استثنیٰ کا درجہ حاصل ہے کیونکہ محض 7.5 فیصد نوکریاں پبلک سروس کمیشن میں میرٹ پر دی جاتی ہیں (شروع میں یہ بیس فیصد تھا، باقی سب کوٹے کی بھرتیاں ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک لڑکا جو سندھ سے تعلق رکھتا ہے بھلے وہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اگر کوٹہ ختم ہوگیا ہے تو اس کو نوکری نہیں مل سکتی۔ اور بلوچستان کا کوئی لڑکا بھلے اتنا قابل نہ ہو اس کے لیے نوکری موجود ہے۔
جس مسئلے کی طرف ایم کیو ایم بار بار اشارہ کرتی ہے، (مگر وفاقی و صوبائی حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود جس کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی!) وہ یہ ہے کہ سندھ کا کوٹہ سسٹم پورے ملک سے اور بھی نرالا ہے۔ پنجاب اپنے حجم اور جنوبی، وسطی اورشمالی کی واضح تقسیم کے باوجود پورے کا پورا ایک وحدت ہے مگر سندھ میں دیہی اور شہری کی ایک عجیب تقسیم کر دی گئی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب نئی کوٹہ اسکیم 1973ء میں سامنے آئی تو اس میں سندھ میں یہ شہری اور دیہی تقسیم بھی کر دی گئی اور آج تک موجود ہے۔ کے پی ٹی جیسا ادارہ جس کے نام میں 'کراچی' ہے وہاں پر بھرتیوں کے لیے بنیاد میرٹ کے جائے پیدائش ہے۔
پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کے قوانین حالات کو دیکھ کر بنائے جاتے ہیں اور حالات بدلنے پر ان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ کوٹہ سسٹم کے آغاز میں اس کے جو بھی مقاصد تھے وہ اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ اس کے باوجود ان لوگوں کی فلاح کے لیے کچھ نہیں کیا گیا جن کے لیے یہ بنایا گیا تھا۔ اس کی مثال اس سے دی جا سکتی ہے کہ 2013ء میں اس قانون میں مزید 20 سال کی توسیع کر دی گئی۔ ایم کیو ایم نے علامتی ہی سہی اس توسیع کی مخالفت کی۔ قائمہ کمیٹی کے باقی اراکین نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جس کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ اپنے مقاصد کو پورا کررہا ہے۔ یہ ایک غیر منطقی بات ہے کیونکہ اگر اس سے محروم طبقات کو پچھلے ستر سال میں کوئی فائدہ ہو رہا ہوتا تو اب اتنے عرصے بعد ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس قانون کی ضرورت نہ ہوتی۔ دوسرا مطلب اس رضامندی کا سیاسی ہو سکتا ہے کیونکہ کسی بھی ایسی برسوں سے چلی آرہی چیز کو چھیڑنے کا مطلب سیاسی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے یہاں مسائل پر آواز عموماً سیاسی فائدہ کے لیے اٹھائی جاتی ہے، ان کو حل کرانے کے لیے نہیں (حل کروا دیے تو سیاسی فائدہ ختم ہو سکتا ہے) اور کوٹہ سسٹم ان تمام مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر آواز ایم کیو ایم نے ہی سب سے زیادہ اٹھائی ہے مگر بار بار حکومتوں کا حصہ رہنے کے باوجود اس مسئلے کے حل میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ ان کو موقع نہیں دیا گیا اور نہ ان کے پاس اکثریت ہے۔ ان کے مخالف کہتے ہیں کہ اگر وہ ان مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہیں تو راستہ چھوڑ دیں تاکہ ممکن ہے کوئی اور یہ کام کر لے۔
ان سب سے قطع نظر، یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں اگر اس طرح بھرتیاں کرنی شروع کر دیں جس میں جائے پیدائش، اہلیت سے زیادہ اہم ہو تو ایسی کمپنی کا منافع بخش ہونا ایک نہایت ناممکن بات ہے۔ تو ہم ابھی تک ایک ایسے سسٹم کو کیوں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جس میں میرٹ کا گلا اس بے دردی سے گھونٹا جاتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس کو حل کروانے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ غالباً اس کو حل کرانا ہی نہیں چاہتے۔ اسی لیے پینتیس سال سے مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے اور نعرہ بھی۔

Comments

Click here to post a comment