ہوم << حضرت عائشہؓ کا قائدانہ کردار - صائمہ اسما

حضرت عائشہؓ کا قائدانہ کردار - صائمہ اسما

قائد ہونے کے لیے کسی عہدے اور منصب کا حامل ہونا ضروری نہیں، بلکہ قائد دراصل وہ ہوتا ہے جو حالات کو دیکھ کر نہ صرف خود اپنی ذمہ داری کو پہچان لے، اسے ادا کرنے کی فکرکرے، بلکہ دوسروں کو بھی مہمیز دے کر متحرک کرنے والا ہو۔ ان معنوں میں ام المومنین حضرت عائشہؓ صدیقہ کی سیرت کے تمام پہلو ہی ان کے قائدانہ کردار کے گواہ ہیں۔امت کو تعلیم دینے میں بلاتردد ، پراعتماد ہو کردرست بات کہنا، غلط روایات کی تصحیح فرمانا خواہ وہ اکابر صحابہ کرامؓ کی طرف سے کیوں نہ ہوں، عمر میں تمام کبار صحابہؓ سے چھوٹی اور خاتون ہونے کے باوجود سب کی رہنمائی کرنا، صاف اور واضح تعلیمات پہنچانا، مردوں کی کثیر تعداد کا آپؓ کے پاس طلبِ علم کے لیے آنا، اصلاحِ امت کے لیے وعظ و نصیحت کا منصب سنبھالنا، یہ سب پہلو آپؓ کو بلاشبہ امت کی قائد کے رتبے پر سرفراز کرتے ہیں۔
روایات کا ایک بڑا ذخیرہ حضرت عائشہؓ کی معرفت ہم تک پہنچا۔ ان کی روایتوں کی یہ خصوصیت ہے کہ جن احکام و واقعات کو وہ نقل کرتی ہیں، وہ احکامات جن خاص مصلحتوں پر مبنی ہوتے ان کی بھی وہ تشریح فرماتی تھیں اور ان کا پہلا اصول یہ تھا کہ روایت کلامِ الٰہی کی مخالف نہ ہو۔ اس اصول کی بنا پر انہوں نے متعدد روایتوں کی صحت سے انکار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ کو جو فہم اور بصیرت عطا فرمائی تھی، اس دولت عظمیٰ سے انہوں نے امت کو بہت فائدہ پہنچایا۔ متعدد مسائل ایسے ہیں جن میں صحابہ کرامؓ نے اپنے اجتہاد یا کسی روایت کی بنا پر کوئی مسئلہ بیان کردیا اور حضرت عائشہؓ نے اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر اس کو رد کردیا اور آج تک ان مسائل میں حضرت عائشہؓ کا قول ہی مستند ہے۔
آپؓ کی امتیازی شان یہ ہے کہ آپؓ راویہِ حدیث تو تھیں، ساتھ ہی مفسرِ قرآن بھی تھیں اور منصبِ افتاء پر فائز بھی۔ آپ کی یہ حیثیت دو لحاظ سے اہم ہے۔ ایک تو اس سے اسلام میں خاتون عالمہ، مفتیہ و مفسرہ کی وہی Legitimacy ثابت ہوتی ہے جو کسی بھی مرد عالم، مفتی و مفسر کی ہو سکتی ہے، دوسرے خواتین کو رہنمائی دینے کے لیے بطور خاص ایک سہولت کار کے طور پر، کیونکہ عورتیں عورتوں کے معاملات نہ صرف اچھی طرح سمجھ سکتی ہیں بلکہ استفسار کرنے میں بھی رکاوٹ نہیں ہوتی اور تعلیم وتعلم کا معیار بڑھ جاتا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ خاتون مفسر قرآن کی اتنی مضبوط اور تابندہ روایت کی حامل امت میں اس روایت نے ایسا دم توڑا کہ صدیوں کے اس سفر میں شاید ہی کوئی مفسر اور مفتی خاتون نظر آتی ہے جس کے حلقہِ فیض میں وقت کے نامور علما زانوئے تلمذ تہہ کیے بیٹھے ہوں۔ امت کی عورتوں نے رضاکارانہ طور پر یہ کام امت کے مردوں کے سپرد کر دیا۔ یہ سہل انگاری تھی، یا وقت کے ساتھ دینی تعلیمات کے برخلاف مسلمان خاتون کے کردارکو گھٹا دینے اور محدود کردینے کا عمل، کہ دورِ نبوی کے یہ فعال اور جرات مند کردار، علم وحکمت سے دنیا کو منور کرنے والے کردار طبقہِ نسواں میں نشونما پانا بند ہو گئے۔آج جب ہم مغرب کے زیر اثر جدید’’ اسلامی فیمینزم‘‘ کے علمبرداروں کو قرآن کے نسوانی مطالعہ (Female reading of Qur'an) کا مطالبہ پیش کرتے ہوئے پاتے ہیں اور دینی طبقات کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کرنے کے لیے ایسی خواتین قرآن کی تفاسیر کرتی ہیں، فتوے دیتی ہیں جن کی نہ زندگی ان کے کام کے شایانِ شان ہوتی ہے اور نہ علمی مقام قابلِ اطمینان ہوتا ہے، اس وقت بے ساختہ یہ احساس ابھرتا ہے کہ ہم نے عائشہ صدیقہؓ جیسے کردار کیوں پیدا نہیں کیے، جو عورتوں کے مقام و مرتبہ کے لیے اتنی حساس تھیں کہ روایت میں ذرا سی بھول یا تفسیر میں کوئی ایسا زاویہ فوراً پکڑتی تھیں جو عورت کی حیثیت کو اللہ اور رسولؐ کی منشا کے خلاف کمزور کرتا ہو۔ جن کی اپنے دور کے حالات پر بھی پوری گرفت تھی، علوم و فنون پر بھی اور جو قرآن وحدیث کی گہرائیوں سے بھی آشنا تھیں۔ ہماری اسی کوتاہی نے ہمیں آج یہ دن دکھائے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل سیکولر تہذیب کے دکھائے ہوئے صنفی برابری کے سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہے کیونکہ اسلام انہیں عورت کے لیے لبرل نہیں، عورت کے مقام و مرتبہ کو چند فطری وظائف تک محدود کردینے والا لگتا ہے۔
واقعہِ افک اور آپؓ کی استقامت
واقعہ افک کا پیش آنا رسول اللہﷺ، آپ کے اہل بیت اور تمام مومنین کے لیے ایک سخت آزمائش کا وقت تھا۔ مگر سب سے زیادہ یہ مرحلہ عائشہؓ صدیقہ کے لیے کڑا اور زہرہ گداز تھا، کیونکہ آپؓ کی ذات اس واقعے کا مرکزی نکتہ تھی۔ آپ پر اپنی ذات کی بدنامی کا بار بھی تھا، اللہ کے نبیؐ کی حیثیت پر اس واقعے کے ممکنہ اثرات کا احساس بھی اور مومنین کے لیے کفار و منافقین کے طنزو استہزا کا ذمہ بھی۔گویا آپ بیٹھے بٹھائے اپنی تمام تر معصومیت اور بےخبری کے باوجود مجرم بنا دی گئی تھیں اور فتنہ اتنا شدید تھا کہ کوئی آپؓ کی بےگناہی پر صاد کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ عزیز ترین ماں باپ سر جھکائے خاموش تھے، اور سب سے بڑھ کر وہ محبوب ہستی جن کی محبت آپؓ کے لیے دنیا وآخرت کی سب سے قیمتی متاع تھی، جن کے دیے ہوئے مان نے آپؓ کو سر اٹھا کر جینے کا شعور بخشا تھا، جن کی تارِ نظر سے آپ کی رگِ حیات جڑی تھی، جن کے التفات سے آپؓ کی دھڑکنیں وابستہ تھیں، جن کے روئے مبارک کی زندگی بخش دید آپ کی حیات کا عنوان تھی، وہ ہستی بھی آپؓ کے بارے میں خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ رسول اللہ ﷺ منبر پر اپنی محبوب بیوی کی اچھی گواہی دیتے، مگر گھر میں غم سے نڈھال بیوی کے بستر کے پاس آ کر نہ بیٹھتے۔ یہ بےالتفاتی عائشہؓ کا سینہ کیسے کیسے نہ چھلنی کرتی ہوگی. اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے! انھیں زمانے بھر کے الزام اتنا دکھ نہ دیتے ہوں گے جتنا ان محبوب نگاہوں میں جھانکتی بےیقینی اور ان کا گریز تکلیف میں مبتلا کرتا ہوگا۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’مجھے برابر روتے ہوئے دو راتیں اور ایک دن گزرا، نہ میرے آنسو تھمے اور نہ مجھے نیند آئی، یہاں تک کہ مجھے یہ گمان گزرنے لگا کہ اتنا رونے سے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا‘‘۔ اسی حالت میں تھیں کہ بالآخر اللہ کے نبیؐ تشریف لائے، والدین پہلے ہی دلجوئی کے لیے ہمہ وقت پاس موجود تھے، وہیں بیٹھے آپﷺ پر نزولِ وحی ہوا اور اللہ نے نہ صرف حضرت عائشہؓ کی برات اپنی جناب سے نازل فرمائی، بلکہ گروہِ مومنین کے لیے تنبیہہ و انذار اور مجرموں کے لیے عذاب کی وعید بھی ساتھ بھیجی۔
وہ جو پاک دامن تھیں اور محبوب بھی، ان کا مان کیسا کیسا نہ ٹوٹا ہوگا! جبھی تو والدہ نے جب کہا، عائشہ اٹھ کر رسول اللہؐ کا شکریہ ادا کرو، تو کہنے لگیں، ’’خدا کی قسم! میں ان کا شکریہ کیوں ادا کروں، میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں۔‘‘ اور پھر ایک ماں، ایک رہنما کے رتبے کے شایانِ شان اصل بڑائی دکھاتی ہیں کہ حسانؓ بن ثابت سمیت دیگر لوگوں کو کھلے دل سے معاف فرما دیتی ہیں۔ بھانجے نے حسانؓ کو برا بھلا کہا تو منع کرتے ہوئے کہنے لگیں، ’’ وہ حضورؐ کی طرف سے (ہجو کے جواب میں اشعار سے) مدافعت کیا کرتے تھے‘‘ (بخاری)
جنگِ جمل
جنگِ جمل خلافتِ راشدہ کے زمانے کا ایک المناک باب ہے۔آ پؓ وہ ہستی تھیں جن کی بدولت ایک تہائی دین اس امت کو ملا تھا۔ آپؓ امت کی ماں بھی تھیں اور رہنما بھی۔ آپؓ رسولِ اکرم کی رفیقِ زندگی تھیں اور آپؓ کی تربیت کاشانہِ نبوی میں ہوئی تھی، جہاں سے انسانیت کو بلاتفریقِ جنس و مذہب اور رنگ و نسل، انسانی شرف اور برابری کی تعلیم عطا ہوئی تھی۔ جس در کے صدقے عورت کو زندہ درگور ہونے سے نجات ملی تھی اور اجر میں مردوں کے برابر ہونے کا اعتماد۔ یہی وجہ تھی کہ آپؓ کو اس لمحے اپنا خاتون ہونا مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں رہنمائی کرنے میں مانع نہ ہوا۔
اس دن کے بعد آنے والے کتنے ہی دن آپؓ کے لیے مسلسل جدوجہد اور کٹھن حالات سے عبارت تھے۔آ پؓ نے حضور کی زندگی میں کئی غزوات اور سفروں میں آپ کی ہمراہی کی تھی، مگر نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد سے آپؓ نے اب تک کی زندگی تعلیم و تعلم میں گزاری تھی۔ ازواجِ نبیﷺ کے لیے آیتِ حجاب اور و قرن فی بیوتکن کا حکم آجانے کے بعد سے آپؓ نے اپنے ’’پبلک رول‘‘ کو محدود کر دیا تھا اور اپنے حجرے میں پسِ پردہ مسلمانوں کو تعلیم دی تھی۔ مگر اس فتنے کے وقت میں آپؓ نے اپنی حیثیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے کردار میں فوری اور بنیادی تبدیلی کی۔ ہر لحظہ بدلتی، پیچیدہ، مبہم اور غیر یقینی صورتحال کو سہارنا ایک قائد کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ اسی طرح دینی معاملات میں بڑے مفاسد کو دور کرنے کی خاطر کم تر مفاسد کو گوارا کرنے کی روش حکمت و تدبر پر مبنی ہوتی ہے۔
ان کے اس کردار کو ان کے ایک خاتون ہونے کے تناظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ امت کے لیے عقیدت و محبت کا مرکز تھیں، پردے کی آڑ سے مخاطب ہوتی تھیں، ایک معلمہ اور روحانی استاد کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ایسے میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر لے جانے کا نہ صرف فیصلہ کرنا بلکہ اس لشکر کی قیادت کرنا ان کا ایک بےحد غیرمعمولی فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ کرنا انؓ کے لیے کوئی خوشگوار عمل نہ تھا، بلکہ اس دن کو یوم النحیب یعنی آنسوؤں کا دن کہا جاتا ہے۔ مگر انہوں نے اس وقت دین کی حفاظت کے لیے جس اقدام کو ضروری سمجھا اس کی ادائیگی کے لیے اپنی شخصیت کے تمام تر اکرام اور صنفِ نازک ہونے کی معذرت خواہی کو ایک طرف رکھ دیا اور فرض کی ادائیگی کے لیے میدانِ عمل میں آنے کا فیصلہ کر لیا، اور یہ فیصلہ انہوں نے اس وقت کیا جب کہ اکابر صحابہ کرامؓ موجود تھے، خود حضرات طلحہؓ اور زبیرؓ پیش پیش تھے۔
اس جنگ میں جہاں مفسد عناصر نے مسلمانوں کو لڑوایا، وہاں سچے مئومنین کا طرزِ عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے کہ اگر باہم نزاع ہو بھی تو اس کا مقصد ایک دوسرے کی بربادی اور مادی قوت کا حصول نہ تھا بلکہ اصلاحِ احوال پیشِ نظر تھی اور اسلامی معاشرت کو فساد اور بےانصافی سے محفوظ رکھنے کی فکر تھی۔ ایک دوسرے کی فضیلت کا اقرار اور اکرام تھا، قتال سے حد درجہ گریز تھا اور ہر حالت میں صلح کی طرف پیش قدمی تھی۔ جنگ کے بعد حضرت علیؓ ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے، دونوں نے ایک دوسرے کے لیے مغفرت کی دعا کی، دونوں نے اس واقعے پر دکھ کا اظہار کیا۔ مدینہ کے لیے آپ رضی اللہ عنہا کو رخصت کرتے ہوئے ان دونوں ہستیوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کے لیے اپنے دل صاف کیے اور اختلاف پر پشیمانی کا اظہار کیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بےحد جانی نقصان اٹھانا پڑا اور ان کی جمعیت منتشر ہوئی۔ حضرت عائشہؓ افسوس کے مارے روتی تھیں تو ان کے دوپٹے کا دامن بھیگ جاتا تھا۔
جی ہاں! تاریخ اسلام ایسی عظیم خواتین سے عبارت ہے! یہ نمونے کے وہ کردار تھے جو چشم فلک نے دوبارہ نہ دیکھے، مگر ان کی تابندہ سیرت رہتی دنیا تک بنی نوعِ انسان اور خاص کر عالم نسواں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ آج بگاڑ کے اس دور میں ہمیں ان کرداروں کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنانے کی ضرورت ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں میں سچی سرفرازی کی ضمانت ہیں۔
استفادہ:
1۔ سیرت محسنہ امت حضرت عائشہؓ صدیقہ مصنف ابن عبدالشکور
2۔خلافت و ملوکیت از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی

Comments

Click here to post a comment