ہوم << چھوڑ کر شہرِ ہوس عشق کے ویرانے میں (7) - ریحان خان

چھوڑ کر شہرِ ہوس عشق کے ویرانے میں (7) - ریحان خان

ریحان خان ا رات دو بجے اپنے روم کی گیلری میں کھڑا تھا. شب کے سکوت میں تاریخ کے مختلف گوشوں سے میرے ذہن میں ہلچل بپا تھی. دور افق پر پرانی دلّی کی روشنیاں بکھری ہوئی تھیں اور کہیں کہیں چند محرابوں کے سائے نظر آرہے تھے.
نگاہیں افق سے ہٹا کر نیچے کی جانب لائی جائیں تو وہاں گنجینہ معانی اسداللّہ خاں غالب خوابیدہ تھے. غالب کی شوخ طبیعت یاد آتی ہے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے.
download بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اُس کی تو خامُشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ ’یُوں‘
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ ’یُوں‘
اس سحر انگیز ماحول میں ہمایوں کے مقبرہ کی جانب سے آنے والی سبک گام فضائیں میرے دل کے نہاں خانوں پر ہولے ہولے دستک دے رہی تھی.
دلّی سات مرتبہ مکمل اجاڑ دی گئی یا جمہوری اصطلاح میں اسے پتّھر کے دور میں بھیج دیا گیا تھا. بعض اساتذہ کے نزدیک دنیا میں یروشلم کے بعد سب سے ذیادہ جنگیں دلّی کے لیے برپا ہوئی ہیں.
آخر وہ کون سا جذبہ تھا جو دور دارز سے لوگوں کو دلّی تک لے آتا تھا. ملک گیری کا لالچ یا مال و دولت کی ہوس، یا ان سب سے بالاتر جذبہ، جذبہ تجسّس. ان دیکھے نظاروں کی جاذبیت اور نامعلوم راہوں کی کشش، وہ جذبہ جو انسان کو چاند ستاروں کی جانب دیکھنے پر مجبور کردیتا ہے، لیکن اس جذبے کے زیرِاثر انسان کشت خوں نہیں کرسکتا، جبکہ دلّی کی تاریخ میں جابجا لہو کے رنگ بکھرے ہیں. وہ لہو جو سادہ سی داستانوں کو رنگین کرنے کے لیے بہایا گیا. مغلوں نے اپنی داستان کو رنگین بنانے کے لیے انسانی لہو کے بجائے سرخ پتھروں کا استعمال کیا اور لال قلعہ و جامع مسجد جیسی عمارتیں تعمیر کرکے دلّی کے رخسار پر غازہ کی سرخی بکھیر دی گئی. رنگ محلوں میں سرِ شام بزم رقص و سرور برپا کر کے ساغر و مینا کی کرامات بھی دکھائی گئیں. ایسی ہی کسی بزم سے اردو و فارسی زبان کو’’ہنوز دلّی دور است‘‘ جیسا لازوال مقولہ حاصل ہوا.
دلّی میں آخری شب تھی. ایک دوست میرے پاس گیلری میں آں کھڑا ہوا اور سگریٹ سلگاتے ہوئے کہنے لگا.
’’جی بی روڈ تو ہم گئے ہی نہیں.‘‘ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی.
’’یوں تو ہم شاہ ولی اللّہ محدّث دہلوی کے مزار پر بھی نہیں گئے، پھر؟؟ چلیں ایک دن اور دلّی میں قیام کرلیتے ہیں. تم جی بی روڈ چلے جانا، میں شاہ صاحب سے راز و نیاز کرلوں گا.‘‘ میں نے چڑانے والے انداز میں کہا.
’’بس بس اب تقوٰی کی الٹیاں نہ کرو، میں سونے جارہا ہوں. صبح ہم آگرہ کے لیے نکل رہے ہیں.‘‘ یہ کہہ کر دوست روم میں چلا گیا.
جی بی روڈ وہ علاقہ ہے جو دن میں بیواؤں کی طرح اداس رہتا ہے اور سرِ شام غسل کرکے سرخ قبا زیب تن کرتا ہے. اس قبا کی سرخی میں سفید پوش اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے ہیں اور منٹو کی روح چینخ رہی ہوتی ہے.
ہاں ذرا اور، ذرا اور، ذرا اور ابھی
الغرض خطہ زمین پر جی بی روڈ جیسے علاقے نہ ہوتے تو اردو ادب میں منٹو بھی نہ ہوتا. دنیا میں ضرور ہوتا مگر اس کے نظریات ادب کے بجائے جنسی کجروی کے زمرے میں شمار ہوتے. پھر وہی کجروی کسی بازارِ حسن کی تشکیل کا سبب بنتی اور منٹو کی جگہ کوئی اور ادب کی ’’خدمت‘‘ کرتا-
دلّی میں ہی کہیں’’مٹکے شاہ‘‘ کا مزار بھی ہے. اس کے تعلق سے میری معلومات صفر کے برابر تھیں لیکن دل میں وہاں جا کر مٹکنے کی تمنّا ضرور رکھتا تھا جو پوری نہ ہوسکی.
’’الوداع دہلی کہ اب بزم سے جاتا ہوں میں‘‘
اس خیال سے دل اداس ہوگیا. میں اتنی جلدی اسے الوداع نہیں کہنا چاہتا تھا لیکن بقول محسن
سفر جن کا مقدر ہو
انہیں روکا نہیں کرتے
دلّی جو کبھی سلطنتوں کی عظمت و شوکت کا نشان ہوا کرتی تھی، اب دہلی کہلاتی ہے. وقت کتنا ستم ظریف ہے کہ ناقدروں سے نام تک چھین لیتا ہے. کتنے ہی دیوانوں نے 1857ء سے اس چمن کے درختوں کو اپنے لہو سے سینچنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہے. تاریخ کسی قوم سے اسی طرح انتقام لیتی ہے کہ اسے عبرت نشان بنا دیتی ہے، اور بعد میں آنے والی نسلیں عبرت کے ان کھنڈرات میں اپنے اجداد کی عظمت رفتہ کی نشانیاں تلاش کرتی پھرتی ہیں.
’’اور میں اسی نسل کا نمائندہ ہوں.‘‘ دل میں ہوئے اس دھماکے سے سہم کر میں نے اپنے ہونٹ سختی بھینچ لیے.
دور کسی مسجد سے اذانِ فجر بلند ہوئی. تسلّی ہوئی کہ دلّی کی بادِ سحر میں گونجنے والی اذانیں ابھی خاموش نہیں ہوئی ہیں.
(جاری ہے)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی پانچویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment