غزہ کے مقامی صحافی محمد الطابان کا کہنا ہے کہ پیراشوٹ کے ذریعے گرائی جانے والی امداد کئی بار وہاں کے عوام کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ کبھی یہ سمندر میں جا گرتی ہے، کبھی ایسی جگہوں پر جہاں تک لوگوں کی رسائی ممکن نہیں ہوتی، اور بعض اوقات بھاری بھرکم پیراشوٹ سیدھا لوگوں پر آ گرتا ہے جس کے نتیجے میں زخمی اور جاں بحق ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے عوام کو محض دکھاوے کی نہیں بلکہ عملی اور محفوظ امداد کی ضرورت ہے، تاکہ بھوک اور علاج کی کمی کے مارے لوگ سکون کا سانس لے سکیں۔اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ فلسطین کے عوام اس وقت تاریخ کے بدترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا ناپید ہیں، ادویات دستیاب نہیں، اسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور بچے غذائی قلت کے سبب دم توڑ رہے ہیں۔ ایسے میں پیراشوٹ کے ذریعے امداد گرائے جانے کے مناظر دنیا بھر میں دکھائے جاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ امداد اکثر مقامی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق کئی بار ایسی اشیا گرائی جاتی ہیں جو فوری طور پر درکار نہیں ہوتیں یا ان کی تقسیم میں بدنظمی کے باعث مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ امداد کے پیکٹ زیادہ تر ساحلی یا کھلے علاقوں میں گرتے ہیں جہاں تک عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوڑ میں اکثر طاقت ور یا مسلح گروہ امداد پر قابض ہو جاتے ہیں جبکہ اصل ضرورت مند خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ غزہ جیسے خطے میں جہاں مسلسل بمباری اور محاصرے کی کیفیت ہے، وہاں کسی بھی امدادی سامان کو محفوظ طریقے سے عوام تک پہنچانا سب سے بڑا چیلنج ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پیراشوٹ امداد ایک وقتی ریلیف تو فراہم کر سکتی ہے، مگر یہ کسی طور پر مستقل حل نہیں۔
غذائی قلت، پینے کے پانی کی کمی اور ادویات کی نایابی جیسے سنگین مسائل کو حل کرنے کے لیے منظم اور براہِ راست امدادی راہیں کھولنا ناگزیر ہیں۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب تک زمینی راستے محفوظ نہیں بنائے جاتے، تب تک اصل متاثرین تک امداد کی منصفانہ ترسیل ممکن نہیں ہو پائے گی۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ میڈیا پر دکھائی جانے والی امدادی سرگرمیاں ایک حد تک مظلوم عوام کی تکالیف کو نمایاں کرتی ہیں، لیکن زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ غزہ کے عوام کو صرف ہمدردی یا وقتی ریلیف کی نہیں بلکہ پائیدار حکمت عملی اور حقیقی مدد کی ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پیراشوٹ کے ذریعے گرنے والی امداد کے مناظر اکثر سیاسی یا سفارتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ مقامی آبادی کی عملی ضرورتیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نوعیت کی امداد بعض اوقات عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کے دکھوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔ بھاری پیکج کسی مکان پر گر جائے تو مزید تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح جب لوگ ان پیکٹوں کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو ہجوم میں کچلے جانے کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس امداد کا مقصد دکھاوا ہے یا حقیقی ریلیف فراہم کرنا؟
ایسے حالات میں ناصحانہ پہلو یہ ہے کہ امدادی ادارے اور عالمی برادری وقتی اور نمائشی اقدامات کے بجائے عملی، مربوط اور محفوظ طریقے اپنائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امداد ان ہاتھوں تک پہنچے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ بہتر حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ زمینی راستوں سے قافلوں کی شکل میں امداد پہنچائی جائے یا کم از کم ایسے طریقے استعمال کیے جائیں جو مقامی حالات کے مطابق اور عوام کے لیے محفوظ ہوں۔یہ وقت سنجیدگی اور حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔ فلسطین کے عوام محض جذباتی نعروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے جینے کا حق حاصل کر سکتے ہیں۔
عالمی برادری اور مسلم امہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف دعووں یا نمائشی اقدامات تک محدود نہ رہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ امداد صحیح وقت پر صحیح لوگوں تک پہنچے۔ یہ اقدام نہ صرف ایک انسانی فریضہ ہے بلکہ انسانیت کے وجود کو باقی رکھنے کی بھی ضمانت ہے۔
تبصرہ لکھیے