ایک دور وہ تھا جب ہم دال کو غذائی اجناس میں کمتر ترین شے سمجھتے تھے کیوں کہ اس کی قیمتیں گائے، بکرے اور مرغی کے گوشت سے انتہائی کم ہوتی تھیں۔ جس روز ہمارے گھر میں دال پکتی تو ہم بھوک ہڑتال کردیتے تھے اور جب تک ہمارے سامنے کوئی دوسرا سالن نہیں لایا جاتا ہم کھانا نہیں کھاتے تھے۔
لیکن ہمیں سوشل میڈیا اور اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین کی وساطت سے دال کے طبی فوائدکا علم ہوا کہ اس میں ’’اے ‘‘سے لے کر’’ زیڈ‘‘ تک کے وہ تمام حیاتین موجود ہیں جو جسمانی صحت و تندرستی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ہم نے دال کا بائیکاٹ ختم کرکےاسے اپنے دسترخوان کا لازمی جزو قرار دے دیا۔ اب تو ہمیں دال اور گوشت میں ’’دال برابر‘‘ فرق نہیں لگتا کیوں ان دونوں اشیاء میں قیمتوں کی وہ تفریق باقی نہیں رہی جو گوشت کو اس کے مقابلے میں افضل ترین بناتی تھی۔
آج ہم گوشت کے مقابلے میں اس صحت بخش اور جسمانی نشو ونما کے لیے مفید خوراک کو ترجیح دیتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے گھر میں ارہر، چنا، ماش، مسور، مونگ سمیت ہر دال پکتی ہے لیکن جب ’’کھڑے مسور ‘‘کی دال ہمارے دسترخوان کی زینت بنتی ہے تو ہمارا پورا گھرانہ اس کے احترام میں کھڑا ہوجاتا ہے اور اسےکھڑے ہوکر کھاتا ہے۔
دال کا شمار قدیم پکوانوں میں ہوتا ہے اور سندھ کے ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ سے بھی مختلف اشیاء کے ساتھ برتنوں میں دال کے دانے بھی رکھے ہوئے ملے ہیں۔ برصغیر کے نوابین اور شاہان وقت دال سے تیار کئے ہوئے مختلف پکوانوں کو انتہائی ذوق و شوق سے تناول فرماتے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ نے 2016 میں ہر سال 10 فروری کو دال کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ برطانیہ کی آں جہانی، ملکہ وکٹوریہ کالی مسور کی دال سے شوق فرمایا کرتی تھیں اور انہیں کھڑے مسور کی دال کا سوپ بہت پسند تھا۔ اسی وجہ سے کالے مسور کی دال ’’ملکہ مسور‘‘کے نام سے بھی معروف ہے۔ ملکہ معظمہ کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زیادہ تر لوگ ملکہ مسور کی دال بھی کھڑے ہوکر کھاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا نام "کھڑے مسور" کی دال بھی پڑ گیا ۔
’’اب آپ اپنا قومی ترانہ سنئے، آپ پر لازم ہے کہ اس کےاحترام میں باادب کھڑے ہوجائیں‘‘، یہ وہ اعلان تھا جو 4 عشرے قبل تک ملک کے تمام سینما گھروں میں فلم شروع ہونے سے پہلے سائونڈ سسٹم اور سربراہان مملکت کے اپنی رعایا سے خطاب سے قبل ریڈیو اور ٹی وی پر نشر کیا جاتا تھا۔ اسے سننے کے بعد تمام فلم بین حضرات و خواتین، اپنی نشستوں سے اٹھ کر باادب کھڑے ہوجاتے تھے لیکن گھروں کا علم نہیں کہ وہاں صدر مملکت کی تقریر سے قبل قومی ترانے کا احترام واجب تھا یا نہیں؟
موبائل نیٹ اور کیبل نیٹ ورک کی سہولتوں کی وجہ سے اب ہر گھر، منی سینما گھر بن گیا ہے جہاں زیادہ تر انگریزی یا ہندی فلمیں دیکھی جاتی ہیں اس لئے اب ملک کے 98فی صد سینما گھر شاپنگ پلازہ میں تبدیل ہوگئے ہیں، اس لئے وہاں قومی ترانے کی بجائے انگریزی یا ہندی دھنیں بجتی ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا میں سے ریڈیو کو دیس نکالا دیا جاچکا ہے، جب کہ ملکی سربراہان حسب توفیق میک اپ کروا کر، اب مختلف حیلے بہانوں سے ہر وقت ٹی وی چینلز پر نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ تر چینلز کے اسٹوڈیوز میں قومی ترانے کی ریکارڈنگ موجود نہیں ہے اس لئے وہاں اس کے بغیر ہی سربراہان وقت کی تقریر چند رسمی کلمات سے شروع ہوکر دشنام طرازیوں پر ختم ہوتی ہے۔
ہم اپنا قومی ترانہ، یوم آزادی یا 23 مارچ کی تقریبات میں ہی سن پاتے ہیں۔ بچپن سے ہی حکم رانوں کی جانب سے یہ دعویٰ سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن پچپن سال کی عمر گزرنے کے بعد علم ہوا کہ ہماری بیشتر زرعی مصنوعات سے غیرملکی اقوام کی غذائی کفالت کی جاتی ہے۔ ہمیں اخبارات میں یہ پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں تمام خوردنی اشیاء جو اپنے ہی ملک سے اسمگل ہوکر بیرونی ممالک بھیجی جاتی ہیں وہ منافع خوروں، کک بیک و کمیشن مافیا کی کرم فرمائیوں کی وجہ سے غیرممالک سے دوبارہ مہنگے داموں اپنے ہی ملک میں درآمدکی جاتی ہیں۔
آج غربت کی شرح بڑھنے اور ہوش ربا مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص کا غریبی میں آٹا گیلا ہوگیا ہے اور جب ہم کسی پرچون فروش کی دکان پر خریداری کرنے جاتے ہیں تو’’ آٹے دال کا بھاؤ ‘‘ معلوم ہوجاتا ہے۔درآمدی اشیا ویسے ہی بہت مہنگی ہوتی ہیں لیکن مزید مہنگائی کرنے کے لئے ملک میں مصنوعی قلت بھی پیدا کردی جاتی ہے۔ دیگر غذائی اشیاء کی طرح آ ئندہ چند ہفتوں میں دال کا بھی مصنوعی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے،جس کی وجہ سے قحط الرجال کی طرح قحط الدال کا بھی خطرہ درپیش ہے۔ ہم اور ہمارے اہل خانہ تو پہلے ہی دال کا احترام کرتے ہیں، اس لئے جوتیوں میں دال بٹنے کی نوبت نہیں آتی ہے۔
یوں تو ہم انتہائی مہنگی ہونے کی وجہ سے تمام دالوں کو واجب الاحترام سمجھتے ہیں لیکن سیاہ رنگ کی کھڑے مسور کی دال یا ملکہ مسور کی دال کی تعظیم و تکریم ہم سمیت ہمارے تمام اہل خانہ فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا ازلی احساس کمتری بھی ہے۔ کیوں کہ ہمارے آباء و اجداد تقریبا ً ڈیڑھ سو سال تک انگریزوں کے باجگزار ملک میں پرورش پاتے رہے۔ صبح شام ان کے کانوں میں صرف’’ ملکہ برطانیہ کا نام بلند ہو‘‘ جیسے الفاظ اور ان کی طویل العمری کے لئے دعائیہ کلمات، ترانے کی صورت میں گونجتے رہتے تھے۔ اس لئے ہم بھی اپنے آباء و اجداد کے نقوش پا پر چلتے اور آزاد ملک میں رہتے ہوئے اب تک سلطنت برطانیہ کی ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکے۔
ہم ملکہ وکٹوریہ کے نام سے منسوب ،ملکہ مسور کی دال کا آج بھی اسی طرح احترام کرتے ہیں جس طرح تقسیم ہند سے قبل ہمارے دادا اور پر دادا ملکہ وکٹوریہ کے نام کا احترام کرتے تھے۔ چند سال قبل تک ہمیں شکی مزاج طبیعت کی وجہ سے ہر معاملے میں ’’دال میں کچھ کالا ‘‘ نظر آتا تھا، لیکن کھڑے مسور کی ساری دال ہی کالی ہوتی ہے، جسے کبھی چاول اور کبھی روٹی کے ساتھ ’’سپرد شکم‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر اب ہر مرد کی کمر دوہری ہوگئی ہے، اس لئے کچن کیبنٹ کے معاملات میں گھر کی بیگمات کے علاوہ کسی کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔
جس دن ہمارے گھر میں کھڑے مسور کی دال پکتی ہے اور دستر خوان پر سجائی جاتی ہے تو ہماری اہلیہ کی طرف سے اعلان نشر ہوتا ہے کہ ’’اب آپ کی خدمت میں ملکہ مسور عرف کھڑے مسور کی دال پیش کی جارہی ہے، آپ پر لازم ہے کہ اس کے احترام میں خاموش اور باادب کھڑے ہوکر نوش فرمائیں۔ بیگماتی اعلان سن کر ہم سمیت گھرکے سارے افراد دسترخوان سے دال اور روٹی کی پلیٹیں اٹھا کر خاموش اور باادب کھڑے ہوجاتے ہیں اور اسے انتہائی تعظیم و تکریم کے ساتھ نوش فرماتے ہیں۔
ایک دور وہ بھی تھا جب لوگ کسی کے بلند و بانگ دعووں کے جواب میں ’’ یہ منہ، مسور کی دال ‘‘والا محاورہ بطور بھپتی استعمال کرتے تھے، حالانکہ اس دور میں مسور کی دال چار آنے سیر یعنی روپے کی چار سیر ملتی تھی، لیکن اس مہنگائی کے دور میں جب کہ مسور سمیت ہر دال ڈھائی سو سے ساڑھے تین سو روپے کلو سے بھی زیادہ قیمت پر فروخت ہورہی ہے، آج ہم سمیت غریب اور متوسط طبقے کے افراد کا منہ، مسور سمیت کوئی بھی دال کھانے کے قابل نہیں رہا۔
ماضی میں دال کو انتہائی کم تر خوردنی شے سمجھا جاتا تھاجس سے صرف غریب و مفلوک الحال افراد ہی شکم سیری کی استطاعت رکھتے تھے۔ جب تک پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز نے انکوبیٹر سے پی آئی اے شیور تخلیق نہیں کرائی تھی اس لئے دیسی چکن ذوق و شوق سے کھائی جاتی تھی۔ غریب لوگ چکن قورمہ اور چکن پلاؤ کے مرغن سپنے اپنی آنکھوں میں سجائے سستی دالوں سے شکم سیری کرتے تھے۔ پی آئی اے شیور کی چکن متعارف ہونے کے بعد 70 اور 80 کی دہائی میں ملک میں ہزاروں پولٹری فارمز وجود میں آگئے جس کی وجہ سے دیسی چکن کی جگہ برائلر مرغی نے لے لی۔ لیکن اس کے باوجود دال کی قدرو قیمت اپنی جگہ برقرار رہی۔
اپنے گھر میں پکنے والا مرغ مرغ بریانی و مرغ قورمہ بعض امرا و رئوسا کو پسند نہیں آتا ہے، اس پر وہ یہ کہہ کر ہوٹل میں پکی دال کو ترجیح دیتے ہیں کہ ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ ۔ کچھ عرصے قبل تک برائلر مرغی، دال اور گوشت کے مقابلے میں سستی تھی اس لئے غرباء کی خوراک کا حصہ بھی بنی ہو ئی تھی لیکن اب اس کی قیمت بھی غریبوں کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ دوبارہ دال کی طرف رجوع کر رہے ہیں، کیونکہ اس کے نرخ ابھی بھی چکن اور گوشت کے مقابلے میں کم ہیں۔ ہم جب دال خریدنے کے لئے پرچون کی دکان پر جاتے ہیں تو دال خریدتے وقت صرف قیمت پر اعتراض کرنے کے جرم میں اس کی تند و ترش باتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں ۔
ہمیں باتیں سناتے وقت وہ دکان کے ساتھ بندھے بکرے کو بھی مغلظات بکتا جاتا ہے، جس پر ہمیں یوں لگتا ہے جیسے وہ بکرے اور ہم میں دال برابر فرق نہیں سمجھتا۔ ’’بال برابر‘‘ فرق جیسا قدیم محاورہ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے تھے اس لیے دال کی قیمتیں بڑے چھوٹے گوشت کی سطح پر دیکھتے ہوئے اب ہمیں گوشت اور دال میں ’’دال برابر ‘‘ فرق معلوم نہیں ہوتا، اس لیے ہمیں ’’دال برابر ‘‘ والا محاوہ تخلیق کرنا پڑا۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا غریب اور مفلوک الحال (متوسط طبقہ تو ہمارے ملک میں معدوم ہوچکا ہے)طبقے کو مشورہ ہے، اگر زندگی عزیز ہے تو صرف کھڑے مسور کی نہیں ہر دال کا احترام کریں۔
تبصرہ لکھیے