مشاہدے میں آیا ہےکہ خوش الحان واعظین کی ایک ایسی جماعت وجود میں آ چکی ہے کہ جو نعت خواں حضرات کی طرح مسجد انتظامیہ سے ایڈوانس رقم طے کرتی ہے اور رقم کم ہونے کی صورت میں وقت دینے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ یہ واعظین رمضان کی ایک رات میں کئی کئی مساجد بھگتاتے ہیں۔ وعظ کے دوران بار بار گھڑی کو دیکھتے ہیں اور جیسے ہی گھنٹہ پورا ہوا تو وعظ ختم کیونکہ مسجد والوں نے واعظ صاحب کو صرف ایک گھنٹے کا کرایہ دیا تھا۔ مزید گھنٹوں کے لیے نئے معاہدے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ایسے واعظین عموماً مدرسے سے چوتھی یا پانچویں کلاس کے بھگوڑے ہوتے ہیں یا مدرسہ کی تاریخ میں ان کا علمی ریکارڈ کوئی قابل ذکر چیز نہیں ہوتا لیکن آواز میں ترنم یا اسٹائل ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ رٹے رٹائے قصے کہانیاں سناتے ہیں، ہیکیں لگاتے ہیں، لطائف اور چٹکلے چھوڑتے ہیں اور شعر و شاعری میں وقت پاس کرتے ہیں۔ اپنی چاپلوسی کو پسند کرتے ہیں اور دو چار طالب علم ان کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی جوتیاں سیدھا کرے تو عجیب خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وعظ کے لیے آتے اور جاتے وقت مسجد کے حجرہ میں ان کی خوب خاطر مدارت ہوتی ہے۔ بعض کا تو کھا کھا کر پیٹ اس قدر باہر آیا ہوتا ہے کہ کرتہ پھٹنے کو آئے۔
یہ واعظین رمضان کی طاق راتوں میں ٹائم پاس کرنے یا تفریح کا ایک بہترین ذریعہ بن چکے ہیں ۔ ان کے وعظ میں اصلاح اور تربیت نام کی چیز نہیں ہوتی۔ ان کا بیان کیا ہوتا ہے بس قصے کہانیوں، شعر و شاعری، ہیکوں، مخالف مکتبہ فکر پر پھبتیاں کسنے کا معجون مرکب ہوتا ہے۔
یہی حال رمضان المبارک میں قراء کا بھی بن چکا ہے۔ دو چار طالب علموں کے جلو میں تشریف لاتے ہیں۔ ان کی آدھی نماز سر پر رکھے سعودی رومال کو سنبھالنے میں ہی گزر جاتی ہے۔ بعضے تو خوب گلا پھاڑتے ہیں اور بعض بتکلف رونے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود بھی خوب خشوع وخضوع سے روتے ہیں اور لوگوں کو بھی رلانے میں پورا زور لگاتے ہیں۔ پورا سال خلوت میں جنہیں اپنے رب کے سامنے دو آنسو بہانے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی وہ رمضان کی طاق راتوں میں ہزاروں کےمجمعے کو رلاتے ہیں۔ تنہائی میں اگر رونے میں تکلف کرے تو ایسا تکلف جائز ہے لیکن مجمعے میں تکلف سے رو کر دکھلاوہ کرنا کون سی نیکی ہے؟
اور نعت خواں تو ان کےتو کیاکہنے! رمضان ہو یا غیر رمضان، ان کی حرکتیں برابر رہتی ہیں۔ کرائے کے اعتبار سے ان میں کئی درجے ہیں۔ نعت پڑھنے کے معقول معاوضہ کے علاوہ ایئر ٹکٹ، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور سامعین کی طرف سے پھینکی جانے والی ویلوں کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔ اور ان کی نعت کیا ہے؟ دو چیزوں کا مرکب ہے، اپنے عاشق رسول ہونے کے دعوے اور دوسرے مسلک کے گستاخ رسول ہونے کے الزامات کا مجموعہ ہے۔ نعت کو مسلکی عصبیت اور مذہبی منافرت بھڑکانے کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں اور نعت میں اللہ کے رسول کا ذکر کم ہی کرتے ہیں۔
نعت میں خوب راگ الاپتے ہیں اور گانوں کی دھن پر نعت کہتے ہیں۔بعض تو میوزک کا بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔ بعض سٹیج پر تشریف لانے سے قبل گلہ صاف کرنے کے لیے سگریٹ نوشی اور تمباکو پان کھانے کا بھی اہتمام فرماتے ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو خوب بیچ رہے ہیں اور آپ کا نام بیچ کر خوب دنیا بنا رہے ہیں۔ ساری رات نعت پڑھیں کریں گے اور صبح کی نماز قضا کر دیں گے اور اپنی نعت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر میں اتنا مبالغہ کریں گے کہ نعت کو شرک تک پہنچا دیں گے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا: ”میری تعریف میں ایسامبالغہ نہ کرنا جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی کی تعریف میں کیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کی بندہ ہوں اور مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔“
لیکن آپ کی اس ہدایت کو پس پشت ڈالتے ہوئے بعض شعراء نے آپ کی تعریف میں اتنا مبالغہ کیا ہے کہ جتنا عیسائیوں نے حضرت عیسی کی تعریف میں نہیں کیا۔ اُنہوں نے تو حضرت عیسی کو اللہ کا بیٹا قرار دیا تھا لیکن اِنہوں نے تو براہ راست ہی اللہ قرار دے دیا۔ اگر آپ کو نعت سننے کا شوق ہے تو اپنے گھر کے کسی بچے کو کوئی اچھی سی لکھی ہوئی نعت دیں اور اکیلے میں اس سے سن لیں۔ اس طرح نعت سننے سے آپ کی ذات سے جو تعلق پیدا ہو گا، وہ کرائے کے نعت خوانوں کے گلا پھاڑ کر چیخنے چلانے اور گانوں کے راگ اور سُر لگانے سے کبھی پیدا نہ ہو گا۔
ہمیں اپنی طاق راتوں کو طویل قیام، لمبے رکوع و سجود، ذکر و اذکار، تلاوت قرآن، ترجمہ و تفسیر قرآن کے مطالعہ، محاسبہ نفس اور کائنات میں غور و فکر کے ساتھ مزین کرنا چاہیے اور دین کے نام پر تماشہ کرنے والوں سے حتی الامکان دور رہنا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ ہماری اس تحریر کا مقصد طاق راتوں میں کسی وعظ و بیان، نعت ونظم یا قیام اللیل کی نفی نہیں ہے بلکہ انفرادی عبادت کی ترغیب وتشویق دلانا ہے اور اجتماعی عبادت کے حوالے سے جو کوتاہیاں پیدا ہو رہی ہیں ان کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”اس امت میں سے جس نے آخرت کا عمل دنیا کے لیے کیا تو اس کو آخرت میں کچھ حصہ نہ ملے گا۔“
تبصرہ لکھیے