ہوم << رسول اکرم ﷺ کا خط - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

رسول اکرم ﷺ کا خط - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

ٹوپ کاپی محل کے اندرونی میوزیم میں حضور اکرم ﷺ کی دیگر متبرکات کے ساتھ وہ خط بھی شوکیس میں رکھا ہے جو آپ ﷺ نے مصر کے حکمران کو لکھا تھا. چھ ہجری (۶۲۸ء)میں جب آپ ﷺ صلح حد بییہ سے واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے خسرو پرویز کسریٰ ایران ، نجاشی حاکم حبشہ ، ہرقل قیصر روم ، مقوقس شاہ مصر ، حاکم دمشق ابی شمعر غسانی ،حاکم یمامہ اور منذر بن ساوی حاکم بحرین کو خطوط لکھوائے تھے.

ان خطوط نے مسلمانوں کے جذبوں اور حوصلوں کو ایک بار پھر جوان کر دیااور تھوڑی سی مایوسی اور الم و غم کی وہ کفیت جو صلح حدبییہ کے موقع پر اور خاص طور حضرت ابو جندل کے واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں میں پھیلی تھی وہ یکسر دور ہوگئی. جب آپ ﷺ نے یہ خطوط لکھوانے کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ بادشاہ آپ کا خط صرف اسی صورت میں قبول کریں گے جب ان پر آپ ﷺ کی مہر لگی ہوگی اس مقصد کے لئے آپ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی تھی جس پر مہر نبی ثبت تھی - اس انگوٹھی پر محمد رسول اللّٰہ کے الفاظ درج تھے .

مہر بنواتے وقت آپ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا کہ آپ کا نام اللّہ سے پہلے آئے لہٰذا اس مہر کو اس طرح بنوایا یہ نقش تین سطروں میں درج تھے. اللّہ پہلی سطر میں ، دوسری سطر میں رسول اور محمد تیسری سطر میں لکھا تھا. صحیح بخاری کی روائیت (۵۸۶۶)کے مطابق یہ انگوٹھی حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ سے اریس کے کنوئیں میں گر گئی تھی اور تلاش کے باوجود نہ مل سکی جس پر آپ نے اس کی ہو بہو نقل تیار کروائی ۔ یہ انگوٹھی بھی استنبول کے ٹوپکاپی میوزیم میں موجود ہے.

ان میں سے صرف چار خطوط استبداد زمانہ سے محفوظ رہے اور آج بھی موجود ہیں - جن کی تاریخی حثیت ثابت ہے . ایک خط اردن کے دارلحکومت عمان کی شاہ حسین مسجد کے میوزیم میں ہے. جو آپ ﷺ نے ہرکولیس قیصر روم کو لکھا تھا اور حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی یہ خط لے کر قیصر روم کے دربار میں پہنچے تھے اور یہ واقعہ سیرت النبی کی ہر کتاب میں موجود ہے (مجھے اس خط کی زیارت کی سعادت بھی نصیب ہوئی ) . باقی تین خطوط استنبول کے ٹوپکاپی میوزیم میں ہیں. ان میں حاکم شام اور حاکم بحرین کو لکھے خطوط بھی توپ کاپی میوزیم محفوظ ہیں ۔ ایک اور خط جو آپ نے مسلیمہ کذاب کو لکھا تھا وہ بھی ان خطوط کے ساتھ رکھا ہے.

مقوقس کو لکھا خط میری نظروں کے سامنے شیشے کے ایک شوکیس میں سجا تھا. میں نے اس خط کے بارے میں کئی بار پڑھا تھا. متعدد بار اس کی شبہیہ کتابوں میں دیکھی تھی. آج جب آپ ﷺ کی لکھوائی تحریر میری نگاہوں کے سامنے تھی تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا، کہ آج مجھے اس خط کو دیکھنے کا شرف حاصل ہو رہا ہے جو کبھی آپ ﷺ کے دست مبارک سے گذرا تھا- میں اپنی قسمت پر نازاں تھا . مجھے تاریخ کے اوراق پر درج اس خط کے بارے میں لکھی وہ تفصیل یاد آرہی تھی جو آپ ﷺ نے مصر کے عیسائی مقوقس کو لکھا تھا. مصر کے حاکم کو مقوقس کہا جاتا تھا اور عرب مصر کو قبط کے نام سے پکارتے تھے - مقوقس مصر کا اصل نام جریج بن متی تھا.

میری چشم تصور کے سامنے وہ منظر آگیا- جب حضرت حاطب بن ابی بلتعہ حضور اکرم اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کا یہ خط لے کر مقوقس مصر کے دربار میں پہنچے تھے - مقوقس بڑے کرو فر کے ساتھ اپنا دربار سجائے بیٹھا تھا - حضرت حاطب رضی تعالیٰ عنہ اس کے دربار میں پیش ہوئے تو انہوں نے حضور اکرم اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کا خط اسے دینے کے بعد بڑی بے خوفی اور دلیری سے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ
" تمہاری اس زمین پر تم سے پہلے بھی ایک شخص گذرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا- اللّٰہ نے اسے آخر واولّ کے لئے عبرت بنا دیا - پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا اور پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا - لہذاٰ دوسرے سے عبرت پکڑو- کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں."

مقوقس نے جواب دیا کہ: " ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک ہمیں اس سے بہتر دین نہ مل جائے".
حضرت حاطب نے فرمایا:
" ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللّٰہ نے تمام ادیان سے بہتر بنایا ہے . دیکھو ! اس نبی نے جب لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو اس کے خلاف اہل قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے. یہود نے سب سے زیادہ دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے. میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ نے حضرت عیسیٰ کے لئے بشارت دی تھی - اسی طرح حضرت عیسیٰ نے حضرت محمد ﷺ کی بشارت دی ہے -اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہل تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو. جو نبی جس قوم کو پا جاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہو جاتی ہے اور اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پا لیا ہے - اور پھر ہم تمہیں دین مسیح سے روکتے نہیں ہیں،بلکہ ہم تو تمہیں اسی کا حکم دیتے ہیں."

مقوقس نے کہا :
" میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے - وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں اور نہ جھوٹے کاہن بلکہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں - میں ان کی دعوت پر مزید غور کروں گا - “

اس گفتگو کے بعد مقوقس نے آپ صلعم کا خط جو ہرن کی کھال پر لکھا گیاتھا کھول کر پڑھا - اسے پڑھنے کے بعد مقوقس نے بڑے احترام سے اس خط کو بوسہ دیا - اسے ہاتھی دانت کی بنی ایک ڈبیا میں رکھا اور اس پر مہر لگا کر اسے اپنی ایک لونڈی کے حوالے کر دیا کہ اسے خزانے میں رکھ دیا جائے. پھر عربی جاننے والے ایک کاتب کو بلا کر حضور اکرم اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کے نام خط لکھوایا جس کا متن کچھ اس طرح ہے-

" بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
محمد بن عبداللّہ کے نام !
مقوقس عظیم قبطہ کی جانب سے
آپ پر سلام ! امابعد
میں نے آپ ﷺ کا خط پڑھا- اور اس میں آپ ﷺ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا- مجھے معلوم ہے ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے میں سمجھتا تھا کہ وہ ملک شام میں نمودار ہوگا - میں نے آپ ﷺ کے قاصد کا اعزاز و اکرام کیا ہے . آپ ﷺ کی خدمت میں دو لونڈیاں بھیج رہا ہوں. جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے - اور کپڑے بھیج رہا ہوں. اور آپ ﷺ کی سواری کے لئے ایک خچر بھی ہدیہ رہا ہوں - اور آپ ﷺ پر سلام!"

رسول اکرم ﷺ کا وہ خط میرے سامنے تھا - میں شیشے کے شو کیس میں سجے اس خط کی عبارت پڑھنے کی کو شش کرنے لگا - خط قدیم عربی زبان میں تھا. جب کچھ پلے نہ پڑا تو میں نے اپنے پہلو میں کھڑے . حمزہ سے درخواست کی کہ وہ اس خط کا ترجمہ کرے. اسے بھی اس خط کو پڑھنے میں دقّت پیش آئی - بالآخر اس نے اٹک اٹک کر اسے پڑھنے کے بعد اس کا ترجمہ کرنا شروع کر دیا. رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم نے جو خط مقوقس مصر کو لکھا تھا. اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

" بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
اللّٰہ کے بندے اور اس کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے مقوقس عظیم قبط کی جانب !
اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے- امابعد - میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں - اسلام لاؤ - سلامت رہو گے - اور اسلام لاؤ اللّٰہ تمہیں دہرا اجر دے گا- لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پر اہل قبط کا بھی گناہ ہوگا. اے اہل قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو تمہارے اور ہمارے درمیان برابر ہے - کہ ہم اللّٰہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں - اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللّٰہ کے بجائے رب نہ بنائیں. پس اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں."

(اصل خط کی عبارت کا متن)
"بسم اللّہ الرحمن الرحيم
من محمد عبد اللّہ و رسوله إلى المقوقس عظيم القبط: سلام على من اتبع الهدى، وأما بعد فإني أدعوك بدعاوية الإسلام، أسلم تسلم يؤتك الله أجرك مرتين، فإن توليت فعليك إثم القبط و{‏يَآ أَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا إِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ‏"

مؤرخين نے لکھا ہے کہ مقوقس نے گو رسول اکرم ﷺ کے سفیر کی بہت آؤ بھگت کی ان سے بہت احترام سے پیش آیا - آپ کے خط کو بھی بہت عزت واحترام کے ساتھ پڑھا اور برتا- آپ ﷺ کی خدمت میں تحائف بھی ارسال کئے، لیکن اسلام نہ لایا. وہ دونوں لونڈیا ں حضرت ماریہ بنت شمعون رضی تعالیٰ عنہا اور سیرین بنت شمعون تھیں. جو دونوں بہنیں تھیں خچر کا نام دُلدُل تھا اور گدھے کا نام عفیر تھا ۔ جو حضرت امیر معاویہ کے دور تک زندہ رہا. ان تحائف کی مدینہ میں آمد اور اس خط کا متن الطبری نے اپنی کتاب الرسل والملوك Tārīkh al-Rusul wa al-Mulūk) میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اس کتاب کو تاریخ طبری بھی کہا جاتا ہے اور انگریزی میں اس کا ترجمہ History of the Prophets and Kings کے نام سے ہوا ہے ۔

حضرت ماریہ قبطی رضی تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں اور ان کے بطن سے آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جو بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے- اور سیرین کو آپ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی تعالیٰ عنہ کی ملکیت میں دے دیا-