ہوم << ابراہم لنکن کا بیٹے کے استاد کے نام ایک خط - عمران قلندر

ابراہم لنکن کا بیٹے کے استاد کے نام ایک خط - عمران قلندر

عمران قلندر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن اعلی پائے کے مدبر اور سیاست دان تھے. تاریخ، سیاست اور بین الاقوامی معاملات سے لگاؤ رکھنے والا تقریباً ہر شخص ابراہم لنکن کی شخصیت کی وجہ سے ان کے بارے میں تھوڑا بہت ضرور جانتا ہے. انہوں نے سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کو لکھا تھا جہاں ان کا بیٹا زیرِ تعلیم تھا. خط کا مفہوم کچھ یوں ہے:
’’میں جانتا ہوں کہ سارے انسان منصف اور صادق نہیں ہوتے لیکن آپ اسے یہ تعلیم ضرور دیجیے کہ ہر برے شخص کے مقابلے میں ایک اچھا شخص اور ہر خودغرض سیاست دان کے مدمقابل ایک بےلوث رہنما ہوتا ہے. آپ اسے سکھائیے کہ جہاں دشمن ہو وہاں دوست بھی ہوتا ہے. مجھے علم ہے کہ ان سب میں وقت لگے گا لیکن جہاں تک ہوسکے اس کے ذہن میں یہ بات ضرور بٹھائیے کہ پسینہ بہا کر کمایا گیا ایک ڈالر ان پانچ ڈالروں سے بدرجہا بہتر ہے جو مفت میں حاصل کیے گئے ہوں. اسے اس بات کی تعلیم دیجیے کہ ناکامی اور شکست کو برداشت کر سکے، کامیابی اور جیت کی خوشی کو سمو سکے اور آپے سے باہر نہ ہو. بغض و عناد اور حسد کے دلدل سے آپ اسے باہر نکالیے اور خاموشی کے ساتھ مسکرانے کا ہنر اسے سکھائیے. کتابوں کی دنیا کے عجائبات کی سیر اسے ضرور کروائیے لیکن اسے وقت دیجیے کہ کہ آسمانوں پر پرندوں کی حسین و جمیل دنیا کے اسرار و رموز کے بارے میں بھی سوچ بچار کر سکے اور پھیلی ہوئی دھوپ میں شہد کی مکھیوں اور سرسبز پہاڑوں پر پھولوں کے حسین مناظر کے متعلق غور و فکر کر سکے.
اسے یہ سبق دیجیے کہ نقل کر کے پاس ہونے سے نقل نہ کر کے فیل ہونا زیادہ باعث فخر ہے، اسے پڑھائے کہ اپنے عقیدے پر سختی سے عمل پیرا رہے چاہے ساری دنیا اسے غلط کہے. اسے شریف کے ساتھ شریفانہ برتاؤ اور بدخو کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی تعلیم دیجیے. میرے بیٹے میں آپ اس بات کی صلاحیت پیدا کیجیے کہ ہجوم کے ڈھنڈورا پیٹنے کی پروا نہ کرے، بات سنے ہر شخص کی لیکن سنی ہوئی کو حقیقت اور سچائی کی کسوٹی پر پرکھے ضرور اور صرف سچائی اور راست بازی کو ہی اپنائے.
اگر ممکن ہو تو اسے سکھائیے کہ غم اور مصیبت میں کس طرح مسکرایا جاتا ہے، اسے بتائیے کہ آنسو بہانے میں کوئی عار نہیں. اسے خبطیوں اور بدبینوں کا مذاق اڑانا اور خوشامدی لوگوں سے خبردار رہنا سکھائیے. اگر ہوسکے تو اسے تعلیم دیجیے کہ اپنے دماغ کو سب سے اونچی بولی لگانے والے کے ہاتھ بیچ دے لیکن اپنے دل اور ضمیر کی ہرگز قیمت نہ لگائے. اسے سبق دیجیے کہ شور شرابہ کرنے اور چلانے والے ہجوم کی طرف سے اپنے کان بند رکھے اور اگر خود کو حق پر سمجھتا ہے تو اسے بہادری اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے. آپ اس کے ساتھ نرمی اور شفقت کا برتاؤ کریں لیکن اسے لاڈ پیار سے مت بگاڑیے کیونکہ آگ کی بھٹی سے نکل کر ہی سونا کندن بنتا ہے. اس میں بےصبری کا مظاہرہ کرنے کی جرات ہونی چاہیے مگر اسے بہادر بننے کے لیے صبر و استقامت کا دامن چھوڑنا نہیں چاہیے. اسے تعلیم دیجیے کہ ہمیشہ اپنے آپ پر مکمل اعتماد اور بھروسہ رکھے کیونکہ ایسا کرنے سے اسے انسانیت پر ہمیشہ اعتماد رہے گا. یہ ایک نہایت ہی عظیم کام ہے لیکن جہاں تک ممکن ہو کوشش کیجیے کہ یہ میرا چھوٹا سا پیارا بچہ ہے.‘‘
خط کے مندرجات پر غور کرنے اور ان کا موازنہ اپنے ہاں کے ہر شعبہ زندگی سے کرنے کے بعد سوچ کا فرق خود بخود واضح ہوجائے گا. اس کے بعد ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کرنا چاہیے، یہ فیصلہ ہر ایک فرد اور افراد پر چھوڑ دیتے ہیں .