(یہ مضمون میری آنے والی کتاب ،"اہل وفا کی بستی" میں شامل ہے جو فلسطین اور اسرائیل کا سفر نامہ ہے)
ہم حطین جانے کے لئے یروشلم سے باہر نکلے تو جبل زیتون کے پیچھے سے طلوع ہونے والا سورج کافی بلندی پر آچکا تھا۔ فضا میں تمازت خاصی بڑھ گئی تھی لیکن ناگوار محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔ شہر میں بڑی ہل چل تھی گو کہ یہودیوں کے سالانہ تہوار " روش ہشانہ" کی عام تعطیلات ختم ہو چکی تھیں لیکن سال نو کے بعد والے تہوارکی تقریبات کے لئے جاری تھا .اس تہوار کو عشرہ یامی تیوبہ" (10 دن کی توبہ) کہتے ہیں جس کا اختتام یوم کپور پر ہوتاہے ۔
ان دنوں میں یہودی روزے رکھتے ہیں ۔ آج ان کا آٹھ واں روزہ اور دو دن بعد یوم کپور تھا ۔ شہر کے داخلی راستوں پر بڑی بڑی بسوں کی آمدورفت جاری تھی جو ٹریفک میں تعطل کا باعث بن رہی تھیں ۔ اِن میں اُن یہودیوں کی تعداد غالب تھی جو غیر قانونی طور پر بسائی گئی نئی کالونیوں کے رہنے والے تھے ۔اور انہیں ہر سال سرکاری خرچے پر ایسے تہواروں کے لئے خاص طور پر یروشلم لایا جاتا ہے اس لئے وہ دور سے ہی پہچانے جاتے تھے یوں لگتا جیسے پینڈو پہلی بار شہر آیا ہو اورشہر کی چکا چوند سے اس کی آنکھیں چندیا گئی ہوں ۔
شہر بھر میں یہ اشکنازی یہودی ٹولیوں کی شکل میں ایسے بگل نما سینگ بجاتے پھرتے تھے جسے “شوفار Shofar” کہا جاتا ہے ۔ شوفار عام طور ہو گائے یا مینڈھے کے سینگ سے بنایا جاتا تھا ۔ شوفار کو یہودی مذہبی تقریبات، خاص طور پر روش ہشانہ (یہودی نیا سال)اور یوم کپور (کفارہ کا دن)پر بجایا جاتا ہے ۔ روش ہشانہ کے موقع پر شوفار بجانا اس لئے ضروری سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ توبہ اور نئے آغاز کی علامت ہے . جبکہ یوم کپور جو یہودیوں کا سب سے مقدس دن ہے اس پر شوفار (یوم استغفار) کی آواز سے عبادت کا اختتام ہوتا ہے ۔
اس کا استعمال تاریخی طور پر جنگوں میں اشارہ دینے یا اجتماعات کو بلانے کے لیے بھی ہوتا تھا۔ اور عام طور پر یہ کینسا سے باہر یہودیوں کی عبادت شروع کرنے سے پہلے بجایا جاتا ہے ۔ یہودی روایات کے مطابق، شوفار خدا کی طرف سے دی گئی ہدایت یا انتباه کی علامت ہے۔ اسے تورات میں بہت مقدس اہمیت حاصل ہے اور یہودی اس اس کو بجانا باعث ثواب سمجھتے ہیں ۔ شوفار کی آواز کو “اللہ کی پکار"سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کو توبہ اور عبادت کی طرف بلاتی ہے۔ یہودی عقیدے کے مطابق شوفار کی آواز قیامت کی یاد دہانی بھی ہے، جیسے اسلامی عقیدے میں اسرافیل علیہ السلام کا صور پھونکنا .
کچھ یہودی گروہوں کا خیال ہے کہ شوفار کی آواز مسیحا کے آنے کی علامت ہے ۔ اسلامی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ جب مسلمان مدینہ آئے تو بعض صحابہ نے نماز کے وقت بلانے کے لیے یہودیوں کے "قرن" (شوفار) جیسا طریقہ اپنانے کی تجویز دی، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا اور اذان کا نظام رائج ہوا ۔ عبرانی میں روش ہسانہ Rosh Hashanah کا مطلب ہے ،“ سال کا سر “ اور یہ یہودی کیلنڈر کے پہلے مہینے “تشری" (Tishrei) کی پہلی اور دوسری تاریخ کو منایا جاتا ہے ۔ اس طرح یہودی روحانی طریقے سے اپنے نئے سال کاآغاز کرتے ہیں جس میں توبہ، دعا، شوفار کی آواز اور میٹھے کھانوں کے ذریعے اللہ کی رحمت طلب کی جاتی ہے۔ یہ تہوار 10 دن تک جاری رہتا ہے، جو یوم کپور پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
یہودی روایات کے مطابق روش ہشانہ دنیا کی تخلیق کا دن ہے، اسے خاص طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن سمجھا جاتا ہے۔ اسے “ یوم الدین" (یومِ عدالت) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہودی عقیدے کے مطابق اس دن اللہ انسانوں کے اعمال کا حساب کرتے ہیں اور آنے والے سال کے لیے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ یہ “عشرہ یامی تیوبہ" (دس دنوں کی توبہ)کا آغاز ہے، جو یوم کپور (یوم الغفران)پر ختم ہوتا ہے۔ اس دن خاص تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 100 (یا کم از کم 30) مرتبہ شوفار بجایا جاتا ہے جو توبہ اور اللہ کی طرف رجوع کی علامت ہے۔ شوفار کی آواز کو “نیند سے بیداری"کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور خصوصی دعاؤں کااہتمام کیا جاتا ہے ۔
جس کے لئے “مخزور روش ہشانہ” نامی دعائیہ کتاب استعمال کی جاتی ہے۔ اور دریاؤں یا پانی کے کنارے گناہوں کو پانی میں پھینکنے کی علامتی رسم اداکی جاتی ہے جسے تاشلیخ" کہتے ہیں. دن کا آغاز شہد میں ڈوبی سیب کھا کر ہوتاہے اور میٹھے نئے سال کی دعا کی جاتی ہے. گاجر کا حلوہ، مچھلی کا سر اور انار جیسی چیزیں کھائی جاتی ہیں ۔ یہودی مذہب میں انار کے علامتی معنی ہیں ۔ مثلاً انار کے 613 بیج تورات کے 613 احکامات کی علامت ہیں ۔ لوگ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دیتے ہیں اور عید مبارک کی طرح کے تہینیتی کارڈ بھیجتے ہیں ۔ جس پر “لشانہ تواہ تیکا تیو" (آپ کا نام اچھے سال کے لیے لکھا جائے) درج ہوتا ہے ۔
کچھ مسلمان یکم محرم الحرام کو روش ہشانہ کی طرح اسلامی نئے سال کے آغاز کے طور پر مناتے ہیں لیکن یہودیوں کا نیا سال (روش ہشانہ) عموماً ستمبر یا اکتوبر میں آتا ہے۔ جبکہ یوم کپور کا موازنہ یومِ عاشوراء ( 10 محرم) سے کیا جا سکتا ہے
روش ہسانہ کے بعد یہودی دس دن تک روزے رکھتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں ان دس دنوں عشرہ یامی تیوبہ" (10 دن کی توبہ) کا اختتام یوم کپور پر ہوتاہے ۔ یوم کپورYom Kippur یہودی مذہب کا سب سے مقدس دن ہے، جسے “ یومِ کفارہ" یا “ یومِ مغفرت"بھی کہا جاتا ہے۔
عبرانی بائبل کی دوسری جلد “کتاب خروج Book of Exudes “ کے مطابق جب حضرت موسٰی کوہ طور سے واپس آئے تو انہوں نے یہودیوں کو گائے کے بچھڑے کی عبادت کرتے پایا جس پر وہ سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنے ساتھ لائی دس پتھر کی تختیاں (الواح موسیٰ Ten Commandments ) توڑ دیں۔ جب یہودیوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے گائے کو ذبح کر دیا تو حضرت موسٰی ایک بار پھر چالیس دن کے لئے کوہ طور پر تشریف لے گئے تاکہ اللہ تعالٰی سے اپنی قوم کے گناہوں کی معافی مانگ سکیں ۔ اللہ نے یہودیوں کو معاف کر دیا اور چالیس دن کے بعد وہ کوہ طور سے نئی دس تختیوں کے ساتھ واپس اترے تو اس دن نئے سال کا دسواں دن تھا ۔
یہودیوں نے شوفار بجا کر حضرت موسٰی کا استقبال کیا اور اس دن کو یوم کپور کے طور پر منایا ۔ اس وقت سے یہودی ہر سال یوم کپور مناتے ہیں۔ 6 اکتوبر 1973 ءکو مصر اور شام نے اسرائیل پر یوم کپور کے دن حملہ کیا جسے “جنگ کپور “ بھی کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ 7 اکتوبر 2023 ءکو یوم کپور کے ہی دن حماس نے اسرائیل پر راکٹ حملے کیے، جس نے تاریخی واقعات کی یاد تازہ کر دی ۔یوم کپور کو ذاتی اور قومی گناہوں کے کفارے کا موقع سمجھا جاتا ہے۔ یہودی اس دن کام کرنا گناہ سمجھتے ہیں سارا دن اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور آنے والے سال کے لیے نیک اعمال کا عہد کرتے ہیں.
یہودی عقیدے کے مطابق، اس دن اللہ ہر شخص کی تقدیر آنے والے سال کے لیے مہر کر دیتا ہے. کچھ اسی قسم کا عقیدہ مسلمانوں کا شب برات کے بارے میں ہے ۔ یوم کپور پر 25 گھنٹےکا سخت روزہ رکھا جاتا ہے، جس میں کھانا، پینا، غسل کرنا، جوتے پہننا اور ازدواجی تعلقات سے پرہیز کیا جاتا ہے ۔ یہودی کنیسہ (عبادت گاہ) میں طویل دعائیں پڑھتے ہیں، جن میں “کول نیدرے" نامی دعا خصوصی اہمیت رکھتی ہے. مردہ عزیزوں کے لیے “یزکُر" نامی دعا بھی کی جاتی ہے ۔ دن کے اختتام پر شوفار بجایا جاتا ہے، جو توبہ کی قبولیت کی علامت ہے ۔
شہر بھر میں جگہ جگہ فوج کی چوکیاں قائم تھیں جن پر کھڑے وردی پہنے سکول و کالج کے طلبہ کسی بھی آنے جانے والے کو روک لیتے اور اس کی شناخت پریڈ شروع کر دیتے تھے ۔ چونکہ اسرائیل میں اٹھارہ سال اور اس سے بڑی عمر کے مرد اور عورت کے لئے ملٹری ٹرینگ لازمی ہے اور ہر مرد کو بتیس ماہ اور عورتوں کو چوبیس کی لازمی فوجی ڈیوٹی اور چالیس سال تک ریزر ڈیوٹی بھی لازماً دینا ہوتی ہے ۔ اس لئے یر وشلم میں ہم نے یہ رواج عام دیکھا کہ جگہ جگہ قائم ان چوکیوں پر ہر جگہ سکول اور کالج کے طلبہ ہی مامور ہوتے تھے ہر چوکی پر ان نوجوان فوجیوں کی ایک ٹولی ہوتی جسے کسی بھی راہگیر کی پگڑی اچھالنے کا پورا اختیار حاصل ہوتا تھا -
عام طور اس ٹولی کا انچارج کوئی خرانٹ سی شکل کا سارجنٹ ہوتا تھا جو سڑک کے کنارے میز و کرسی سجائے اپنی ٹوپی وردی کے کندھے میں اٹکائے سگریٹ کے کش لینے میں مشغول ہوتا یا اخبار پڑھنے میں مصروف ۔ ہم نے اپنے یروشلم میں قیام کے ان دنوں میں یہودی نوجوانوں کی بے شمار ٹولیاں مسجد اقصٰی کے گردونواح میں پھرتی دیکھی تھیں۔ جو عبادت اور کفارے کے ان دنوں میں عبادت کی بجائے ہلڑ بازی میں مشغول رہتے اور جیسے ہی اذان کی آواز بلند ہوتی تو یہ باجماعت شوفار بجانا شروع کر دیتے تھے ۔ اور مسجد جانے والے نمازیوں پر پھبتیاں کستے ۔ اُن کی اِن حرکات پر چوکی پر تعینات نوجوان یا تو ان کا ساتھ دیتے یا بے حیائی سے قہقہے لگاتے رہتے ۔
ٹریفک کافی زیادہ تھی اس لئے شہر سے نکلنے میں خاصا وقت لگ گیا لیکن جیسے ہی ہم شہر سے باہر نکلے سڑک کے بائیں جانب ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک خوبصورت پرانی طرز کی گنبد کے بغیر مسجد نظر آئی ۔ جس کا ایک بڑا سا مینار تھا ۔ اس کے گرد ایک چھوٹی سی آبادی بھی تھی ۔
“ڈاکٹر یہ مقام نبی سموئیل ہے “۔
ابو خالد نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کیا ۔
مقام نبی سموئیل کا نام سنکر میری دلچسپی بڑھ گئی ۔ میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔اور اس کی طرف دیکھنے لگا ۔ میں نےاس گاؤں کے متعلق تاریخ کے اوراق میں بہت کچھ پڑھ رکھا تھا ۔ خاص طور پر جب پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی فوج نے جنرل ایلن بی کی قیادت میں یروشلم کا محاصرہ کیا تو یروشلم پر قبضے کی اصل جنگ اس چوٹی پر لڑی گئی تھی ۔ جو ایک ہفتہ تک جاری رہی ۔ یہ تاریخ کی کتابوں میں جنگ نبی سموئیل Battle of Nabi Samuel کے نام سے مشہور ہے ۔ یہاں عثمانی فوج کا یلدرم ڈویژن اورجرمن دستوں کی مشترکہ فوج کی قیادت جرنیل فالکن ہان Falkenhayn کے ہاتھ میں تھی ۔
نومبر ۱۹۱۷ ء میں اس مقام پر ایک ہفتے کی گھمسان جنگ کے بعد عثمانی فوج کی شکست نے ہی یروشلم کی فتح کی راہ ہموار کی تھی ۔ اس جنگ کے دوران اتحادی فوج کی بمباری سے اس گاؤں اور حضرت سموئیل کے مقبرے کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ میں نے درخواستانہ انداز میں ابو خالد سے کہا کہ کیا ہم کچھ دیر کے لئے وہاں رک سکتے ہیں کیونکہ وہ مسجد سڑک سے ایک دو کلو میٹر دور ہی نظر آ رہی تھی ۔ لیکن اس نے جواب دیا کہ ابھی دو روز پہلے ہی یہاں یہودیوں نے ان فلسطینیوں پر گولی چلائی ہے جو نبی سموئیل کے مقبرے کے باہر احتجاج کر رہے تھے .
اس لئے میرا نہیں خیال کہ ہمیں وہاں تک جانے کی اجازت ملے گی ویسے بھی یہ مزار اور گاؤں زون سی (Zone C )میں شامل ہےاور اس پر یہودیوں کا مکمل قبضہ ہے ۔ میں نے پوچھا کہ
“یہ زون سی کیا ہے “ ۔ تو وہ کہنے لگا کہ
“۱۹۹۵ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کی سربراہی میں پی ایل او اور یہودی گورنمنٹ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جسے اوسلو ایکارڈ ۲ کہتے ہیں ۔اس معاہدے پر یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین Yitzhak Rabin کے دستخط ہیں اس معاہدے کی رو سے فلسطین کو تین زونز میں تقسیم کیا گیا تھا ۔
زون اے ( Zone A ) :
فلسطینی اتھارٹی کو مکمل انتظامی اور سیکیورٹی کنٹرول دیا گیا ہے ۔
زون بی (Zone B ) :
جس کے مطابق انتظامی کنٹرول تو فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہے لیکن سیکیورٹی کنٹرول مشترکہ طور پر اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کو حاصل ہے ۔
زون سی (Zone C ) :
مکمل کنٹرول اسرائیلی حکومت کے پاس ہے جس میں انتظامی اور سیکیورٹی کے دونوں معاملات شامل ہیں۔
لیکن یہ تقسیم فلسطینی خودمختاری کو محدود کرتی ہے اور ایک طرف تو اسرائیلی گورنمنٹ کو زون سی کی آڑ میں نئی آبادکاریوں کو کھلی چھٹی مل گئی ہے ۔ اور دوسری طرف انہوں نے زون اے اور زون بی کی بنیاد پر ویسٹ بینک اور غزہ کے گرد اونچی اونچی بلند وبالا فصیلیں کھڑی کر کے فلسطینی آبادی کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور اس طرح صرف ان کی اجتماعیت ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جیل کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں ۔ اور چونکہ یہ مزار اور گاؤں زون سی میں شامل ہیں ۔ اور یہاں چند روز پہلے ہنگامے بھی ہوئے ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم ایسے علاقوں سے دور رہیں ۔ “
ابھی اس کی بات جاری تھی کہ اچانک بلال پچھلی سیٹ سے بول پڑا
“ یہ اوسلواکارڈ کیا ہے ؟”
ابو خالد اس کی دخل اندازی پر پہلے تو کچھ گڑبڑایا لیکن پھر مسکرا کر اس نے بیک ویو مرر بلال پر مرکوز کرتے ہوئے جواب دیا کہ اوسلو اکارڈ کے دو حصے ہیں ۔ ۱۹۹۳ ء میں امریکہ اور ناروے کے وزیر اعظم اوڈوار نورڈلی کی خفیہ کوششوں کے نتیجے میں اوسلو اکارڈ ون عمل میں آیا . جو فلسطین میں دو ریاستی نظام ( Two States ) کے حل کی طرف پہلا عملی قدم تھا ۔ستمبر ۱۹۹۳ء کو واشنگٹن میں صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم اسحاق روبن نے اس معاہدے پر دستخط کئے ۔
چونکہ یہ معاہدہ اوسلو میں ہونے والی ناروے گورنمنٹ کی کو ششوں کا نتیجہ تھا اس لئے اسے اوسلو اکارڈ کہا جاتا ہے ۔ اوسلو اکارڈ ۲ اسی سلسلے کی دوسری کڑی تھی جس کے مطابق ۱۹۹۵ ء کو فلسطین کو تین زونز میں تقسیم کیا گیا ۔ اس معاہدے کی رو سے پہلی بار پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو مانا اور اسرائیل نے پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کیا ۔ اس معاہدے کے تحت غزہ اور مغربی کنارے West Bank کے جغرافئیے عمل میں آئے اور ان علاقوں پر فلسطینی خودمختار حکومت (پی ایل اے) قائم کرنے کا فیصلہ ہوا . جو آج تک قائم نہیں ہوسکی ۔ اسرائیل نے ان علاقوں سے فوجی انخلا کا وعدہ کیا.
پانچ سال کے اندر سرحدوں، مہاجرین کی واپسی، اور یروشلم کے مسئلے پر بات چیت کا فیصلہ ہوا تھا ۔ لیکن یہ وعدے بس کاغذوں کی حد تک ہی محدود رہے - یہودیوں نے اپنی روائتی مکاری کا ثبوت دیتے ہوئے ہماری خودمختاری اور طاقت کو اس معاہدے کی زنجیروں سے اس طرح جکڑ لیا کہ فلسطینیوں کی حالت پہلے سے بھی زیادہ قابل رحم ہو گئی ۔ اب وہ ان معاہدوں کی وجہ سے مکمل طور پر اسرائیلی حکومت کے رحم وکرم پر ہیں ۔ اور ساری دنیا بھی ان کے ساتھ ہے ۔
“ اوسلو اکارڈ کی وجہ سے ہی ۱۹۹۴ء میں یاسر عرفات اسحاق رابن اور اسرائیلی وزیر خارجہ شمون پیریز کو امن کا نوبل پرائز دیا گیا تھا. “
حمزہ نے لقمہ دیتے ہوئے کہا ۔ اور پھر اگلے ہی سانس میں اس نے ابو خالد کو مخاطب کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ
“ آپ کا یاسر عرفات کے بارے میں کیا خیال ہے “
حمزہ کاسوال سنکر ابو خالد کے چہرے پر گھٹا سی چھا گئی ۔اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں ۔ اسے جواب دینے میں مشکل پیش آئی ۔ لگتا تھاجیسے حمزہ نے اس کی کسی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہو۔ وہ کچھ توقف کے بعد بولا تو اس کی آواز رندھی ہوئی تھی صاف معلوم ہوتا تھا کہ یاسر عرفات سے اس کی وابستگی بڑی گہری ہے ۔ میں بھی فلسطین کے ان لاکھوں بچوں میں سے ایک تھا جو یاسر عرفات کی تصویر اپنے دل و دماغ میں بسائے جوان ہوتے ہیں ۔ یاسر عرفات ہمارے لئے ہمارے ماں باپ سے زیادہ محترم تھا ۔
ہمارا ایمان تھا کہ وہ ہمیں کبھی دھوکا نہیں دے گا اور نہ وہ کبھی یہودیوں کے دھوکے میں نہیں آئے گا لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا مضبوط طاقتور اور دانا یاسر عرفات اچانک ہار گیا اس نے جب اوسلو اکارڈ پر دستخط کئے تو ہمارے دل ٹوٹ گئے۔ مجھے کئی دن تک اپنے کانوں اور آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ وہ یاسر عرفات ہی تھا جو اوسلو اکارڈ پر دستخط کررہا تھا ۔ اور وہ لمحہ اور بھی دکھی کر دینے والا تھا جب لاکھوں فلسطینیوں کے خون کے عوض اس نے وہ دو ٹکے کا نوبل پرائز قبول کیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہودیوں کی مکاری اور منافقت کا کوئی توڑ نہیں ۔ اور پھر وقت آنے پر انہوں نے یاسر عرفات کو بھی اپنے رستے سے ہٹا دیا آج وہ سرعام اوسلو اکارڈ کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں اور اس کی آڑ میں دنیا کی بدترین انسانی حقوق کی پائمالی میں بھی ملوث ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ۔ “
اس کی بات ابھی مکمل ہوئی ہی تھی کہ حمزہ نے ایک سوال اور داغ دیا کہ
“رملہ یہاں سے کتنی دور ہے ہم یاسر عرفات کی قبر پر جانا چاہتے ہیں ۔” حمزہ کا سوال سنکر اس کے چہرے پر کشمکش کے آثار نمودار ہوگئے۔ لیکن پھر وہ کچھ توقف کے بعد قطعی انداز میں بولا ۔
یہاں سے زیادہ دور نہیں ۔ مشکل سے دس بارہ کلو میٹر دور ہوگا ۔ میں آپ کو لے جاؤں گا مگرخود اندر نہیں جاؤں گا ۔ میں رملہ کا رہنے والا ہوں لیکن مجھے اس کے مزار پر گئے بارہ سال سے اوپر ہو گئے ہیں ۔
مگر میرا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو وہاں ضرور جانا چاہیے بلکہ فلسطین میں آنے والے ہر سیاح کو یاسر عرفات کمپاؤنڈ کی سیر کرنی چائیے جہاں وہ دفن ہے ۔ فلسطینیوں کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اس میں یاسر عرفات کا نام ضرور آئے گا ۔ لیکن چونکہ رملہ حالیہ ہونے والے ہنگاموں کا مرکز تھا اس لئے اس وقت مکمل طور پر یہودی فوج کے گھیرے میں ہے۔ پچھلی رات میرے ایک عزیز کا بیٹا میری گلی میں ان کی گولیوں کا نشانہ بنا ہے ۔ لیکن میں پھر بھی پتہ کرتا ہوں کہ وہاں کیا صورت حال ہے ۔”اور پھر وہ اپنے عزیز واقارب اور ہم پیشہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو فون کرنے میں مشغول ہو گیا ۔اس گفتگو کے دوران مقام نبی سموئیل بہت پیچھے رہ گیا اور گاڑی آگے نکل آئی ۔
میں حسرت سے مڑ کر حضرت سمویل کی مسجد کو دیکھتا رہا جس کے مینار اب بھی پہاڑ کی چوٹی پر بلند ہوتے سورج کی روشنی میں جیسے جگمگا رہے تھے ۔ حضرت سموئیل کے مقبرے پر جانے اور فاتحہ پڑھنے کی خواہش دل میں ہی دبی رہ گئی ۔ مجھے قرآن کی سورہ البقرہ میں لکھا وہ واقعہ یاد آنے لگا جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت سموئیل ، طالوت ، جالوت حضرت داؤد اور عین جالوت پر ہونے والی جنگ کا قصہ بیان کیا ہے ۔ قرآن میں گو کہ حضرت سمویل کا نام درج نہیں ہے لیکن واقعہ انہی سے منسوب ہے یہ قصہ میری اس کتاب کے ایک باب “ غبار کارواں کی تلاش “ میں بڑی تفصیل سے درج ہے ۔
حضرت سموئیل کو تینوں ابراہیمی مذاہب میں پیغمبر کا درجہ حاصل ہے ۔ وہ ۱۰۷۰ قبل مسیح میں اسی گاؤں میں پیدا ہوئے اور ۱۰۱۲ قبل مسیح میں فوت ہوئے ۔ ان کے والد کا نام القانہ اور والدہ کا نام حناح تھا ۔ القانہ کا تعلق حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے لاوی کی نسل سے تھا ۔ بائیبل میں اس گاؤں کا نام راما Ramah لکھا ہے ۔ انہیں راما سے تین کلومیٹر دور اس پہاڑی چوٹی پر دفن کیا گیا جسے بائیبل میں میزپا Mizpah کے نام سے پکارا گیا ہے۔ عبرانی زبان میں میزپا کا مطلب ہے اونچی جگہ یا واچ ٹاور اور چونکہ حضرت سموئیل کا قیام اس چوٹی پر تھا لہٰذا جب بھی یہودیوں پر کوئی مشکل وقت آتا وہ حضرت سموئیل سے ملنے کے لئے اس پہاڑی چوٹی پر اکٹھے ہو جاتے ۔
یہ چوٹی سطح سمندر سے تین ہزار فٹ اور اپنے اردگرد کے علاقے سے تقریباً چھ سو فٹ اونچی ہے ۔ اور بنیامین قبیلے کے علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے اسے میزپا بنجامن کہتے ہیں ۔ ۱۰۲۴قبل مسیح کو جنگ افیک Battle of Aphek میں فلسطیوں نے یہودیوں سے ان کا تابوت سکینہ چھین لیا اور اسے اپنے ساتھ اسدود Ashdod لے گئے ۔ تو سارے علاقے کے یہودی اس چوٹی پر اکٹھے ہوئے اور انہوں نے حضرت سموئیل سے درخواست کی کہ وہ خدا سے مدد مانگیں ۔ جس پر حضرت سموئیل نے انہیں تسلی دیتے ہوئے طالوت کا نام ان کی قیادت کے لئے تجویز کیا یہ واقعہ بڑی تفصیل سے قرآن کی سورہ البقرہ کی آیات 246 تا 251 میں درج ہے ۔
بعض تاریخ نگار ان کا تعلق حضرت یوسف کے چھوٹے بیٹے افراہیم کی نسل سے بیان کرتے ہیں کیونکہ راما گاؤں قبیلہ افراہیم کے علاقے میں واقع تھا ۔ لیکن اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ القانہ کا تعلق لاوی قبیلے سے ہی تھا لیکن وہ راما میں آکر آباد ہو گئے تھے ۔ جبکہ میزپا کی پہاڑی چوٹی قبیلہ بنیامین Benjaminکے علاقے میں واقع تھی جہاں وہ آجکل دفن ہیں ۔
یہودیوں کی مقدس کتاب عبرانی بائیبل کی ساتویں جلد “ کتاب قضاة Book of Judges “ کے مطابق حضرت موسیٰ کے انتقال کے بعد ١٤٠٦ ء میں یہودی حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں دریائے اردن پار کر کے سرزمین فلسطین میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے کنعان فتح کیا اور اسے یہودیوں کے بارہ قبیلوں میں بانٹ دیا ۔ اس کے دو سال بعد ۱۴۰۴ قبل مسیح میں ایک سو دس سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا ۔ کچھ یہودی روایات کے مطابق ان کی قبر ویسٹ بینک میں نابلس سے اٹھارہ کلو میٹر کفل حارس کے مقام پر ہے ان کے قریبی ساتھی کالب بن یوفنا بھی ان کے ساتھ دفن ہیں ۔ لیکن اکثر یہودی یہ مانتے ہیں کہ وہ طبریہ کے نزدیک صفد میں دفن ہیں جو یہودیوں کے چار مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے
جبکہ مسلم رویات کے مطابق “مقام نبی یوشع “ اردن میں السط شہر کے اندر ہے جہاں ایک بڑے کمپلیکس کے درمیان ان کا شاندار مقبرہ ہے ۔ استنبول میں آبنائے باسفورس کے مشرقی کنارے پر ایک سر سبز اونچی پہاڑی “ یوشع ہل” کی چوٹی پر ایک بہت خوبصورت باغ میں ایک شاندار مقبرہ بھی حضرت یوشع بن نون سے منسوب ہے اور اب وہ وہاں کب ، کیسے اور کیوں گئے ۔ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے ۔الحمدللہ مجھے ان سب مقامات پر جانے اور ان کے مزاروں پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔ حضرت یوشع کی وفات کے کچھ عرصے بعد یہودی ایک بار پھر بھٹک گئے اور بے راہ روی کا شکار ہو گئے ۔ حضرت یوشع بن نون کے بعد کا دور قاضیوں کا دور کہلاتا ہے
اس دوران قاضی ( کاہن ) یہودیوں کی راہنمائی کرتے رہے ۔ پھر حضرت سموئیل آئے اور انہوں نے طالوت کی مدد سے یہودیوں کو غلامی سے نجات دلائی اور یہودیوں کو حکمرانی نصیب ہوئی اور ان کے عروج کا دور شروع ہوا جسے سلاطین کا دور کہا جاتا ہے ۔کتاب قضاة اُن قاضیوں کے بارے میں ہے جو حضرت یشوع علیہ السلام کی موت کے بعد سے سلاطین کے دور کے شروع ہونے تک بنی اسرائیل کی قیادت کرتے رہے۔ یہ قاضی حکمران نہیں تھے بلکہ مذہبی راہنما ہوتے تھے جو یہودیوں کی سیاسی، عسکری، تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام شعبوں پر نظر رکھتے تھے اور ان کے اختلافات حل کرنے کے لئے شریعت موسوی کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔
اس کتاب کے مصنف کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو بہت سے قابل وثوق ذرائع اور مآخذ تک رسائی تھی جن کی مدد سے اُس نے یہ کتاب تحریر کی۔ کچھ علما نے اس کتاب کو سموئیل نبی کی تصنیف قرار دیا ہے۔بنی اسرائیل کے قاضیوں کی قیادت کا زمانہ۱۴۰۴ قبل مسیح حضرت یوشع کی وفات سے۱۱۰۵ قبل مسیح تک تقربیاً چار سو سال پر محیط ہے ۔ کتاب القضاة میں بارہ قاضیوں کے نام درج ہیں جبکہ قرآن میں بنی اسرائیل کے "بارہ نقیبوں" کا ذکر ہے (سورہ المائدة: ١٢) جنہیں بعض مفسرین قبیلوں کے سربراہ یا عہدے دار قرار دیتے ہیں۔
کچھ مفسرین نے حضرت سموئیل کو بھی ان قاضیوں میں شامل کیا ہے لیکن اکثر انہیں حضرت یوشع بن نون کے بعد آنے والا یہودیوں کا نبی قرار دیا ہے جس نے سلاطین کے دور کی راہ ہموار کی ۔طبری نے بھی اپنی کتاب “ تاریخ الرسل والملوک“ میں بڑی تفصیل سے ان قاضیوں کے حالات قلم بند کئے ہیں ۔کتاب القضاة میں ایک خاتون قاضیہ کا ذکر بھی آیا ہے جس کا نام ذبورہ Deborah تھا ۔ اس نے کنعانیوں کے خلاف جنگ میں یہودیوں کی قیادت کی تھی ۔ ۱۱۲۵ قبل مسیح میں فلسطیوں نے یہودیوں کو غلام بنا لیا ۔ تو شمشون نے یہودیوں کی قیادت کی ۔
ان تمام قاضیوں میں شمشون کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے جس کی مافوق الفطرت شخصیت پر آج اسرائیل میں کارٹون فلمیں اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں ۔ سکول میں یہودی بچوں کو اس سے متعارف کروانے کے لئے خاص کوششیں کی جاتی ہیں ۔ اسے بنی اسرائیل کا ہرکولیس بھی کہا جاتا ہے ۔ کتاب قضاة کے آخری ابواب میں شمشون کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ وہ آخری قاضیوں میں سے ایک تھا اور اتنا طاقتور تھا کہ اپنے خالی دو ہاتھوں سے شیر کو جبڑوں سے پکڑ کر چیر دینے کی قدرت رکھتا تھا ۔ اللہ نے اس کی طاقت اس کے لمبے بالوں میں رکھی تھی اس نے فلسطیوں کو کئی بار شکست دی اور جب فسلطی اس کا توڑ ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے ایک فلسطی عورت دلیلہ کی ذمہ داری لگائی .
جس نے شمشون کو اپنے حسن کے جال میں پھانس لیا اور شمشون نے ایک دن دلیلہ کو اپنی طاقت کا راز بتا دیا جس پر دلیلہ نے ایک رات سوتے میں اس کے بال کاٹ دئیے اور فلسطیوں نے گرفتار کرنے کے بعد اس کی آنکھیں نکال کر اندھا کر دیا اور اسےداگون کے مندر میں قید کردیا ۔ داگون فلسطیوں کا سب سے بڑا خدا تھا ۔ قید کے دوران شمشون نے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی ۔ خدا نے اس کی طاقت اسے واپس کر دی اور شمشون نے اپنے ہاتھوں سے اس مندر کے ستون توڑ ڈالے اور وہ مندر تباہ کرنے کے بعد اس نے اپنا بھی خاتمہ کرلیا ۔ہالی وڈ نے اس کہانی پر ایک بڑی شاندار فلم “ شمشون اور دلیلہ “Samson and Delilah “ کے نام سے بنائی ہے ۔
شمشون یروشلم سے تئیس کلومیٹر دور مغرب کی جانب وادی الصرار میں زورا Zorah کے مقام پر دفن ہے جو اس کا آبائی شہر بھی تھا۔ شمشون کے بعد عیلی یہودیوں کا آخری قاضی بنا جس کے بعد حضرت سموئیل آئے ۔ حضرت سموئیل کو یہودی مذہب میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ انہوں نے یہودیوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے طالوت کو نامزد کیا جس نے یہودیوں کے بکھرے قبیلوں کو ایک ریاست اور ایک قبائیلی معاشرے کو ایک منظم اور ترقی یافتہ تہذیب میں بدل دیا اور یہودیوں کی پہلی سلطنت کی داغ بیل ڈالی ۔ اور پھر انہوں نے طالوت کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کی یہودیوں کے دوسرے بادشاہ کی حثیت سے تصدیق کی ۔ ان کی تاج پوشی کی اور ان کی تعلیم وتربیت میں سب سے اہم کردار ادا کیا ۔ اور یوں سلاطین کا سنہری دور شروع ہوا ۔
حضرت سموئیل سے ایک کتاب بھی منسوب کی جاتی ہے ۔ جس کا نام کتاب سموئیل ہے جو عبرانی بائبل (تنک) اور عہد نامہ قدیم کی ایک اہم کتاب ہے، جو بنی اسرائیل کے تاریخی اور مذہبی واقعات کو بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب دو حصوں “سموئیل اول “ اور “سموئیل دوم” پر مشتمل ہے، جو اصل میں ایک ہی کتاب تھی، بعد میں تقسیم کی گئی۔
یہ کتاب ۱۰۲۰ ق م سے ۹۳۰ ق م کے درمیانی دور کے واقعات کو بیان کرتی ہے، جب بنی اسرائیل میں قاضیوں کا دور ختم ہو رہا تھا اور بادشاہت کا آغاز ہوا ۔
سمموئیل اول میں بنی اسرائیل کے اُن تاریخی واقعات کا ذکر ہے جو قاضیوں کے دور کے خاتمہ سے لے کر طالوت بادشاہ کی وفات (۱۱۰۵ تا۱۰۱۰قبل مسیح) تک جاری رہتے ہیں۔ یہ واقعات عیلی کاہن، سموئیل نبی طالوت بادشاہ، داؤد بادشاہ اور یونتن سے متعلق ہیں۔ سموئیل اول میں ہی حضرت سموئیل کے حوالے سے وہ مشہور واقعہ درج ہے جب ان کی والدہ حناح اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان تھیں کیونکہ القانہ کی دوسری بیوی فنانح کے دو بیٹے تھے اور وہ ہر وقت حناح کو بانجھ ہونے کے طعنے دیا کرتی تھی ۔
ایک دن وہ بہت دکھی ہو کر شیلوہ Shiloh گئیں شیلوہ قدیم کنعان کا ایک شہر ہے جو آج کل ویسٹ بنک میں یروشلم سے اکتیس کلومیٹر شمال میں واقع ہے جہاں پہلے ہیکل کی تعمیر سے پہلے مشکان ( خیمہ ) میں یہودیوں کاتابوت سکینہ رکھا گیا تھا اور وہاں انہوں نے رو رو کر خدا سے دعا مانگی کہ اگر اللہ نے انہیں بیٹا دیا تو وہ اسے اللہ کی راہ میں وقف کر دیں گی ۔ عیلی Eli نے ان کی یہ آہ و بکا سنی تو اس نے پہلے تو یہ سمجھا کہ یہ عورت نشے میں ہے اور پھر غور کرنے پر اسے اس کی سچائی پر یقین آگیا اس نے حناح کو ایک نیک بچے کی بشارت دی ۔
عیلی اس وقت یہودیوں کا قاضی تھا ۔ جب بچہ پیدا ہوا تو عیلی نے اس کا نام سموئیل رکھا جس کا مطلب “ خدا کی طرف سے عطا” ہے اور جب سموئیل کا دودھ چھوٹ گیا تو وعدہ کے مطابق حناح ان کو عیلی کے پاس چھوڑ گئی جس نے اس بچے کی تعلیم و تربیت اپنے ذمہ لے لی اور اس کے مرنے کے بعد حضرت سموئیل نے اس کے جانشین کی حثیت سے قاضی کی ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ سموئیل اول میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ایک اہم موڑ کی نشان دہی کی گئی ہے۔ جب قاضیوں کی بجائے بنی اسرائیل پر بادشاہ حکومت کرنے لگے۔ طالوت نے فلسطیوں کو شکست دے کر حکومت کی زمام کار سنبھالی ۔ طالوت نے حضرت داؤد کی شادی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی میخال Michal سے کردی۔
جب طالوت حکمران کی حثیت سے اپنی مذہبی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو گیا تو اس کے اور حضرت داؤد کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ۔ حضرت سموئیل نے حضرت داؤد کاساتھ دیا ۔ طالوت نے حضرت داؤد کو قتل کرنے کا حکم دے دیا ۔ حضرت سموئیل نے اسے راہ راست پر لانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آیا اور بالآخر جنگ جبل جلبوع Battle of Mount Gilboa میں فلسطیوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنے تین بیٹوں کے قتل کے بعد اس نے خود کشی کر لی اور حضرت سموئیل نے بیت اللحم میں حضرت داؤد کا مسح کر کے ان کے بادشاہ بننے کی تصدیق کی ۔
اورحضرت داؤد یہودیوں کے دوسرے بادشاہ بن گئے ۔ اس کتاب کا خاتمہ طالوت کی عبرت آموز موت پر ہوتا ہے۔ جبکہ سموئیل دوئم کو حضرت داؤد علیہ السلام کی سوانح حیات کہنا زیادہ درست ہو گا کیونکہ اس میں حضرت داؤد کی تخت نشینی اور ان کے عہد سلطنت کے تمام اہم واقعات درج ہیں کہ کیسے انہوں نے پہلی بار یہودیوں کی دونوں ریاستوں کو اکٹھا کر کے عظیم الشان سلطنت یہودہ میں بدل دیا ۔ یروشلم پہلی بار فتح ہوا ۔ یروشلم اس وقت یبوسی (Jebusite) قوم کے زیرِ تسلط تھا، جو کنعانیوں کی ایک شاخ تھی۔ یہ شہر اپنی مضبوط فصیلوں کی وجہ سے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔
اسے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنایا۔ اس فتح کے بعد یہ بنی اسرائیل کے لیے مذہبی و سیاسی مرکز اور مقدس ترین شہر کی حیثیت اختیار کر گیا.اس کتاب میں حضرت داؤد کی خطاؤں کا بھی ذکر ہے ۔ اور اسی کتاب میں آپ کے اُس گناہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کا تعلق اوریاہ کی بیوی بت سبع سے ہے۔ ناتن نبی آپ کو آپ کے اس گناہ کی یاد دلاتے ہیں اور مجرم گردانتے ہیں۔ قرآن کریم میں ناتن نبی کی جگہ دو اشخاص جو اصل میں فرشتے تھے ان کا ذکر آیا ہے کہ وہ آپ کو گناہ یاد کراتے ہیں۔ آپ کو اس گناہ کی وجہ سے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ آپ کا بیٹا ابی سلوم آپ کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔
۹۸۴ قبل مسیح میں تخت پر قبضہ کر لیتا ہے اور انہیں سات سال تک منہامین میں جلاوطنی کی زندگی گزارنا پڑتی ہے لیکن آپ کے توبہ کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ آپ کو معاف کر دیتا ہے۔ اور پھر ۹۷۱ قبل مسیح میں وہ ابی سلوم کو شکست دے کر دوبارہ اپنا تخت وتاج حاصل کرتے ہیں ۔ حضرت داؤد نے ماؤنٹ ٹمپل پر جگہ خریدی اور تابوت سکینہ کو شیلوہ سے یروشلم میں لے کر آئے اور ماؤنٹ ٹمپل پر خیمہ مشکان نصب کر کے وہاں تابوت سکینہ کو عارضی طور پر رکھا اور پھر ہیکل اول بنانے کی شروعات کیں جو حضرت سلیمان کے دور میں مکمل ہوا ۔ تاکہ تابوت سکینہ کو مستقل طور پر وہاں منتقل کر دیا جائے ۔
خیمہ مشکان (خیمہ اجتماع) بنی اسرائیل کی روحانی اور اجتماعی زندگی کا مرکز تھا، جو اللہ کے ساتھ ان کے تعلق کی زندہ علامت تھا۔کیونکہ اس میں تابوت سکینہ کو رکھا جاتا تھا ۔ یہ سفری یا نقل پزیر خیمہ تھا جو بنی اسرائیل کے بیابان سینا میں بھٹکنے کے دوران میں عبادت اور قربانی وغیرہ کے سلسلے میں استعمال ہوتا تھا جب تک حضرت سلیمان نے یروشلم میں ہیکل تعمیر نہ کر لیا۔ یہ خیمہ انسان کے درمیان خدا کی رہائش کی علامت تھا۔ اسے خیمۂ اجتماع ، اللہ کا مسکن، خداوند کا گھر اور شہادت کا خیمہ اور خیمہ حضور بھی کہا جاتا تھا ۔ کتاب خروج کے مطابق اللہ نے حضرت موسیٰ کو مصر سے نکلنے کے بعد (خروج 25-27 ) میں مشکان کی تفصیلات مہیا کیں اور اس کی تعمیر کا حکم دیا۔
اس کی تعمیر میں سونے، چاندی، پیتل، قیمتی لکڑی (جیسے کیکر)، اور نیلے ارغوانی، اور سرخ رنگ کے کپڑے استعمال ہوئے تھے . مشکان اللہ اور بنی اسرائیل کے درمیان عہد کی نشانی تھا۔ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مواد (سونے، چاندی، پیتل) اور رنگوں کی گہری روحانی تعبیرات ہیں . سرخ رنگ خونِ قربانی اور نیلا رنگ آسمانی پاکیزگی کی علامت تھا ۔ یہودی روایات کے مطابق یہ باغِ عدن کی بحالی کی علامت بھی تھا . مشکان دو حصوں پر مشتمل تھا: “پاک مقام “جہاں منورہ (چراغ دان)، میزِ حضور (روٹی کی میز)، اور قربان گاہ تھی۔ اور” پاک ترین مقام Holli of the Holiest “ جس میں تابوتِ سکینہ رکھا جاتا تھا۔
دونوں حصوں کو ایک موٹے پردے (پروخت ) سے الگ کیا گیا تھا، جس پر فرشتوں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ صرف سردار کاہن یومِ کفارہ کے دن ہی پاک ترین مقام میں داخل ہو سکتا تھا . ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں بھی یہی تقسیم مدنظر رکھی گئی تھی ۔ بنی اسرائیل نے 40 سال تک بیابان وصحرا کے سفر میں مشکان کو اپنے ساتھ رکھا۔ کنعان آنے کے بعد اسے شیلوہ میں قائم کیاگیا اور جب تک ہیکلِ سلیمانی تعمیر نہیں ہوا یہ عارضی مرکزِ عبادت رہا . ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے بعد مشکان کی جگہ مستقل عبادت گاہ نے لے لی . حضرت سموئیل کے مزار پر لکھی تحریر کے مطابق ان کا مزار صدیوں سے مرجع خلائق ہے اور یہ مقام دیر سموئیل کہلاتا تھا۔
جیروم Jerome Of Stridon نے پہلی مرتبہ ۳۹۸ء کو اس مقام کی سیر کی اور اپنی لکھی بائیبل میں اس کا ذکر کیا۔ جیروم سٹرائڈن موجودہ البانیہ کا رہنے والا ایک عیسائی پادری تھا جس کا انتقال ۴۲۰ء کو ہوا اور وہ بیت اللحم میں دفن ہے۔مقام نبی سموئیل کا ذکر المقدسی (دسویں صدی عیسوی ) اورناصر جعفر ( گیارہویں صدی عیسوی )نے بھی اپنی کتابوں میں کیا ہے ۔ بنیامین تطیلی Benjamin of Tudela نے ۱۱۷۰ء میں اس علاقے کی سیر کی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت سموئیل کے مقبرے کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے ۔ بنیامین ایک ہسپانوی یہودی تھا اور اس کا سفر نامہ ایک مستند تاریخی دستاویز کی حثیت رکھتا ہے ۔
ریمون آگیلی Raymond of Aguilers نے اپنی کتاب Chronicle of First Crusades میں لکھا ہے کہ سات جون ۱۱۹۹ء کی صبح جب صلیبی لشکر گڈفری دو بیون Godfrey Of Bouillonکی قیادت میں مقام نبی سموئیل کی چوٹی پر پہنچا تو انہوں نے طلوع ہوتے سورج کی روشنی میں پہلی بار یروشلم کو دیکھا اور سب بے اختیار روتے ہوئے سجدے میں گر گئے ۔ گؤڈفری نے اس چوٹی کو اMont de joie کا نام دیا جس کا مطلب ہے خوشی کی پہاڑی ، بارہویں صدی عیسوی میں صلیبیوں نے اس پہاڑی پر ایک قلعہ تعمیر کیا ۔ جس کے ساتھ ایک چرچ بھی تھا ۔ آج کل مقام نبی سموئیل کی چوٹی پر نظر آنے والی شاندار مسجد مملوک دور حکومت میں سلطان بیبرس نے صلیبیوں کے تعمیر کردہ قلعے کے کھنڈرات پر تعمیر کروائی تھی جس کے تہہ خانے میں مزار واقع ہے۔
۱۹٦٧ء تک یہ اردن کے زیر نگرانی تھی لیکن جنگ میں فتح کے بعد یہودیوں نے اس علاقہ پر قبضہ کرلیا اور مسجد کے ساتھ ایک کنیسا بھی تعمیر کیا جس سے ایک رستہ تہہ خانے میں موجود حضرت سموئیل کے مقبرے کو جاتا ہے ۔ یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے حضرت سموئیل کا مزار آج بھی یکساں طور پر مقدس اور مقبول ہے ۔ تینوں مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے انداز میں مختلف تاریخوں میں حضرت سموئیل کا دن مناتے ہیں ۔ ان دنوں میں اس پہاڑی چوٹی پر میلہ لگتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ ان کے مزار پر عقیدت کے پھول چڑھانے آتے ہیں مگر ہم اس لحاظ سے بدقسمت ٹھہرے کہ ان کے مزار کے اتنے نزدیک پہنچ کر بھی ان کےحضور حاضری نہ دے سکے جس کا قلق شائید عمر بھر رہے ۔
لیکن رستے بھر میں یہی سوچتا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہودیوں کے بارے میں بالکل صحیح فرمایا ہے کہ جب بھی ان پر اچھا وقت آتا ہے یہ اپنی اصلیت بھول جاتے ہیں ۔ اور گمراہی کا رستہ اختیار کرلیتے ہیں ۔ آج یہودی ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد اپنا وہ برا وقت بھول گئے ہیں جو حضرت سموئیل کے دور میں فلسطی قوم نے ان سے روا رکھا تھا اور انہوں نے اوسلو اکارڈ کی آڑ میں فلسطین کے اصل باشندوں کو تقسیم کر کے اونچی اونچی فیصلوں کے پیچھے غلام بنا کر رکھاہے اور ان سے وہی سلوک کر رہے ہیں جو فلسطی آج سے تین ہزار سال پہلے ان سے کرتے تھے ۔
میں جانتا تھا کہ ایسا کبھی ہو گا نہیں لیکن پھر بھی جانے کیوں ایک موہوم سا خیال دل و دماغ کی تاروں کو چھیڑتا رہا کہ شائید اس سال یہودی آنے والے یوم کپور پر اپنے گناہوں سے معافی مانگتے وقت فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے اپنے ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک پر بھی نظر ثانی کر سکیں ۔
تبصرہ لکھیے