600x314

جبر کی زنجیروں سے صبر تک کا سفر – خدیجہ طیب

نبی ﷺ کا ایک فرمان کہ
“صبر تو وہی ہے جو پہلی چوٹ پر کیا جائے.”

کیا ہم واقعی ایسا کرتے ہیں؟
دراصل یہ پہلی چوٹ پر صبر ایک اعلیٰ روحانی تربیت کا مظہر ہے، کیونکہ انسان کا فطری ردعمل دکھ یا شکایت ہوتا ہے. لیکن جو شخص پہلی ہی تکلیف پر “انا للہ” یا “الحمدللہ” کہہ دیتا ہے. وہ ایسا اچانک نہیں کرتا بلکہ یہ صبر ایک طویل تربیت، شعوری ریاضت، اور اللہ سے گہری وابستگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسے ایک تربیت یافتہ فوجی یا ماہر سرجن غیر متوقع لمحے میں بھی درست ردعمل دیتا ہے، ویسے ہی ایسا صبر بھی ذہن و دل کی تربیت کے بغیر ممکن نہیں، اور یہی حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اصل صبر وہی ہے جو لاشعوری ردعمل بن جائے.

جبکہ ہمارے معاشرے میں “صبر” کا لفظ اکثر صرف عورتوں کے لیے مختص سمجھا جاتا ہے، ایک ایسا صبر جو اکثر جبر ہوتا ہے۔ جس میں نہ دل راضی ہوتا ہے، نہ روح خوش، اور نہ اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ صرف ایک مجبوری، ایک چپ، ایک ڈر، جو انسان کو توڑ دیتا ہے۔ مگر کیا واقعی یہی صبر ہے جس کا قرآن بار بار حکم دیتا ہے؟ کیا وہ صبر، جو انبیاء کا زیور تھا، اتنا کمزور، اتنا بےجان، اور اتنا مجبوری پر مبنی ہو سکتا ہے؟ یہ سوال ہی ہماری اصل جستجو ہے۔

جبر اور صبر — فرق کہاں ہے؟
جبر وہ ہے جو انسان کے اختیار کے خلاف ہو، چاہے وہ حالات کی شکل میں ہو یا رشتوں کی طرف سے مسلط رویوں میں۔ یہ جبر خاموشی کی صورت میں نفرت، منافقت اور بغاوت کو جنم دیتا ہے۔ زبان چپ رہتی ہے لیکن دل فریاد کرتا ہے۔ جبکہ صبر ایک شعوری انتخاب ہے — نفس کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کا عمل۔ صبر وہ کیفیت ہے جس میں انسان نہ صرف خود کو روکتا ہے بلکہ اپنے ردعمل، غصے، انتقام اور زبان کو بھی بندگی میں لے آتا ہے۔

“جبر اندھیرے میں دباؤ ہے، صبر روشنی میں ضبط”
قرآن میں بیشتر مقامات پر صبر کا ذکر آیا ہے، اور اکثر اس کے ساتھ اللہ کی قربت، کامیابی، اور جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ صبر کبھی پہلا قدم نہیں ہوتا۔ اکثر یہ دوسرا قدم ہوتا ہے جبر کے بعد کا۔ انسان سب کچھ سہہ چکا ہوتا ہے، لڑ چکا ہوتا ہے، اور آخرکار جھک کر کہتا ہے:
“یا رب! اب جو تو چاہے وہی بہتر ہے۔”
یہی لمحہ صبر کی ابتداء ہے۔ اور قرآن ہمیں دکھاتا ہے کہ تمام بڑے نفوس نے صبر تک پہنچنے کے لیے بہت کچھ سہنا، جھیلنا اور جھکنا سیکھا۔

حضرت یوسف علیہ السلام — تنہائی کا صبر
حضرت یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کی طرف سے حسد، کنویں میں تنہا چھوڑا جانا، غلام بنا کر بیچا جانا، جیل کی کال کوٹھری میں قید، اور بدنامی کا داغ سہنا پڑا۔ لیکن ایک بات وہ مسلسل کہتے ہیں:
“جو تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے، تو اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا” ﴿یوسف: 90﴾

یہ وہ صبر تھا جو معافی میں ڈھل گیا۔ کیا کوئی انسان اپنے بھائیوں کو کہہ سکتا ہے:
“آج تم پر کوئی ملامت نہیں”﴿یوسف: 92﴾
یہ صبر کا اعلیٰ ترین درجہ ہے جب انسان زخموں سے خوشبو پیدا کرے۔

حضرت ایوب علیہ السلام — درد کا صبر
حضرت ایوب علیہ السلام کا جسم بیماری سے گل چکا تھا۔ مال، اولاد، صحت سب کچھ چھن چکا تھا۔ لیکن ان کے الفاظ کیا تھے؟
“مجھے تکلیف پہنچی ہے، اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے”﴿الأنبیاء: 83﴾

یہ صبر شکوہ نہیں، دعا بن جاتا ہے۔ اور یہی وہ صبر ہے جس کے بعد اللہ نے کہا:
“ہم نے اسے صابر پایا، کیا ہی بہترین بندہ تھا، وہ بہت رجوع کرنے والا تھا”﴿ص: 44﴾

حضرت مریم علیہا السلام — تنہائی، الزام اور حوصلہ
حضرت مریم علیہا السلام، جو بنی اسرائیل کی سب سے پاکباز خاتون تھیں، اللہ کے حکم سے بغیر شوہر کے حاملہ ہوئیں، تو انہیں معاشرے کی نظر، بدنامی کا خوف، اور ماں کی حیثیت سے خوفناک مستقبل سہنا پڑا۔ ان کے لبوں سے نکلا:
“کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور بھولی بسری چیز بن گئی ہوتی”﴿مریم: 23﴾

لیکن اللہ نے انہیں نہ روکا، نہ فوراً تسلی دی — بلکہ کہا:
“اب کھاؤ، پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو”﴿مریم: 26﴾

یہی ہے اللہ کا انداز:
پہلے تنہائی، پھر خاموشی، اور پھر عزت کی بحالی۔ جو لوگ شعوری صبر کرتے ہیں، ان میں “Post-Traumatic Growth” دیکھی گئی ہے یعنی: “تکلیف کے بعد شخصیت کا بہتر ہو جانا”۔ انسان کی روح اور دماغ کا تعلق گہرا ہے۔ قرآن جب صبر کی بات کرتا ہے، تو یہ صرف ایک ایمانی مطالبہ نہیں بلکہ انسانی دماغ کی ساخت بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ سائنس کہتی ہے: جب ہم صبر کرتے ہیں، تو دماغ میں ایسے حصے متحرک ہوتے ہیں جو ہمیں برداشت، توازن اور معنویت عطا کرتے ہیں۔ جبکہ جبر کی حالت میں وہ حصے جاگتے ہیں جو خوف، غصہ، اور اندرونی بغاوت کو بڑھاتے ہیں۔

Anterior Cingulate Cortex وہ حصہ ہے جو احساس، برداشت، اور خود پر قابو پانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ صبر کی حالت میں یہی حصہ انسان کو نرمی، ضبط اور خاموش طاقت عطا کرتا ہے۔ Insular Cortex وہ حصہ ہے جو ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ دکھ بے معنی نہیں، اگر ہم اللہ پر راضی ہوں، تو یہ درد بھی ایک ربانی حکمت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یوں صبر صرف برداشت نہیں رہتا، بلکہ روحانی فہم میں بدل جاتا ہے۔ Default Mode Network (DMN) وہ نیٹ ورک ہے جو تنہائی، خاموشی، اور غور و فکر کے دوران سرگرم ہوتا ہے۔

اگر انسان اللہ سے جُڑا ہوا ہو، تو یہ نیٹ ورک نورانی تنہائی عطا کرتا ہے — جہاں دل اللہ کے قریب، اور دنیا سے بےنیاز ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر دل میں کڑواہٹ، جبر یا ندامت ہو، تو یہی نیٹ ورک انسان کو منفی سوچوں، خود ترسی اور ذہنی تھکن میں پھنسا دیتا ہے۔ Amygdala جبر کی کیفیت میں متحرک ہو جاتا ہے یہ وہ حصہ ہے جو خوف، غصہ، دباؤ اور بغاوت کو بھڑکاتا ہے۔ اسی لیے جبر کا نتیجہ اکثر نفرت، منافقت، یا جذباتی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں نکلتا ہے۔

صبر اور جبر — دماغ، دل اور روح کا فرق
تو فرق صرف ردِعمل میں نہیں، بلکہ دماغی کیفیات میں ہے۔ صبر دماغ کو توازن، دل کو سکون، اور روح کو اللہ سے جوڑتا ہے۔ جبر دماغی انتشار، اندرونی شور، اور فاصلے کو جنم دیتا ہے۔ اور قرآن کہتا ہے:
“اور وہ جو صبر کرتے ہیں صرف اپنے رب کی رضا کے لیے… ان کے لیے ہے بہترین انجام” الرعد: 22–24

وہ افراد جو صرف جبر سہتے ہیں اور “toxic positivity” میں لپٹے رہتے ہیں — یعنی ہر درد کو جھٹلا کر مسکرا دیتے ہیں وہ اندر سے burn out کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا: “صبر وہی معتبر ہے جس کے بعد تمہاری شخصیت میں وسعت، گہرائی اور اللہ سے قرب پیدا ہو”. قرآن مجید میں صبر کو صرف برداشت نہیں بلکہ ایمانی استقامت، اللہ پر اعتماد، اور روحانی بلند روی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ صبر کرنے والوں کے لیے اللہ کی معیت، بے حساب اجر، اور آخرت کی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔
“یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے” (البقرہ 153)

“صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا” (الزمر 10)
صبر… یہ محض کسی تکلیف کو سہہ لینے کا نام نہیں۔ یہ تربیت کا ایک سفر ہے جبر سے صبر تک کا،یہ وہ سفر ہے جہاں انسان صرف حالات سے نہیں، اپنے نفس، اپنی خواہش، اپنی انا، اور اپنی زبان سے بھی لڑتا ہے۔ یہ سفر تنہائی سے گزرتا ہے، خاموشی سے بات کرتا ہے، اور دل کے سب زخموں کو اللہ کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس سفر میں بعض اوقات دل کو خاموشی کا زہر پینا پڑتا ہے، کبھی آنکھوں کو بینا ہوتے ہوئے اندھیروں سے گزرنا پڑتا ہے، اور کبھی انگریزی کے “suffer” کا ذائقہ بھی چکھنا پڑتا ہے صرف اللہ کی رضا کے لیے، صرف اس کے قرب کی تلاش میں۔

لیکن جو اس سفر سے گزر جاتا ہے وہ جبر کی زنجیروں سے آزاد ہو کر اللہ کی محبت کا وارث بن جاتا ہے۔ کیونکہ:
❝صبر صرف ایک کیفیت نہیں،بلکہ بندگی کا مقام ہےاور صبر کرنے والے، اللہ کے محبوب بن جاتے ہیں❞.
جی ہاں، قرآن مجید میں اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں سے اپنی محبت کا ذکر فرمایا ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 146 میں اللہ تعالی فرماتا ہے: “اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے”۔

آخر میں ایک دعا:”اے اللہ! ہمیں صبر کرنے والوں میں شامل فرما، اور صبر کو ہماری شخصیت کی زینت بنا دے۔ آمین”